آخر کار عثمان نے کارائیل کا بدلہ لے لیا
پلاٹ خریدو، مہنگا کر کے بیچو۔ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری، نہ محنت نہ ٹینشن۔ منافع چوکھا لال۔
اس مائنڈ سیٹ نے پاکستانی قوم کے اندر سے تعمیری سوچ کا جنازہ نکال دیا۔ یہ قوم سرمائے کے لالچ میں تعمیری، تحقیقی تخلیقی سوچ سے دور ہو گئی۔ اگر لوگ پلاٹ خریدنے بیچنے کی بجائے کوئی فیکٹری لگانے کا سوچتے، کوئی چھوٹے گھریلو صنعتی یونٹ لگاتے، آٹو انڈسٹری کے چھوٹے سپئیر پارٹ کا یونٹ لگا لیتے، کمپیوٹر موبائل اسمبلنگ یونٹ لگانے کا سوچتے، تو آج ہم ہر چیز بیرون ملک سے نہ منگوا رہے ہوتے۔
دس لاکھ میں ایک پلاٹ خریدا جا سکتا ہے، اور دس لاکھ میں ہی ایک سیمنٹ بلاک بنانے کی فیکٹری لگ سکتی ہے۔ پلاٹ سال بعد بیس لاکھ دے گا، تو ایک دفعہ ہی دے گا، بلاک فیکٹری سے سینکڑوں جاب پیدا ہونگی۔ اور معاشرے کا فائدہ بھی ہو گا۔ ہو سکتا ہے، آپ بیس لاکھ ڈیلی کی کمائی تک پہنچ جائیں۔
دس لاکھ سے آپ ایک سولر فلو مل لگا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ آپ بیسیوں مصالے پیسنے والی اور آئل نکالنے والی چھوٹی مشینیں لگا سکتے ہیں۔ اس سے جاب بھی پیدا ہونگی۔ اور بزنس ہمیشہ بڑھتا ہی رہتا ہے۔
زیادہ سرمایہ ہے، تو زیادہ پلاٹ خرید کر رکھنے کی بجائے، آپ گاڑیوں کے سپیئر پارٹس بنانے کی فیکٹریاں لگائیں۔ اس سے ملک میں روزگار اور ملازمتیں پیدا ہونگی۔ تحقیقی دماغ اور لیبارٹریز بنتی جائیں گی۔ ائیر کنڈیشنڈ کے سپیئر پارٹس بنانے کی فیکٹری لگائیں۔ یہ سب باہر سے منگوانے پڑتے ہیں۔
اخر کار عثمان نے کارائیل کا بدلہ لے لیا
اگر ملک کو پاؤں پہ کھڑا کرنا ہے، تو رئیل اسٹیٹ کے بزنس پہ پابندی لگائی جانی بہت ضروری ہے۔ صرف ایک بندہ اپنے ایک گھر کے لیے پلاٹ خرید سکے، اور بیچنے پہ پابندی ہونی چاہیے۔ یہ کیا تُک ہے۔ کہ سارا ملک رئیل اسٹیٹ کے پیچھے لگا دیا ہے۔ ملک میں
آخر کار عثمان نے کارائیل کا بدلہ لے لیا
انڈسٹری گروتھ ہی روک دی ہے۔