کسی گھر میں برکت ڈالنے والے اسباب میں سے ایک اہم سبب گھر والوں کا آپس میں پاکیزہ گفتگو، مثبت الفاظ کا تبادلہ نیز اخلاقی اور نفسیاتی تعاون کرنا ہے...
*2: شفقت اور آسانی:*
شفقت اور نرمی کسی بھی چیز کو خوبصورت بنا دیتی ہے....
پس معاملات میں نرمی برتنا برکت، اطمینان و سکون کو دعوت دیتا ہے، نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ سب سے پہلے اپنی ذات ان چیزوں سے بہرہ ور ہوتی ہے...
*3 :خواتین کیساتھ نرمی سے پیش آنا:*
گھر کی خواتین کے ساتھ نرمی سے پیش آنا بھی رزق، برکت اور زندگی میں نیکی کے کاموں کی توفیق ملنے والے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے...
اسلئے کہ عورت ہی ہر گھر کے نظام کو چلانے کا ایک بنیادی ستون ہے جس پر اس گھر کا نظام کھڑا ہے۔لہذا اس کے ساتھ نرم رویہ اور اس کےجذبات کی رعایت رکھنا سعادت اور جملہ خیریں حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں...
*4: باہمی احترام*
گھر والوں کا ایک دوسرے سے احترام سے پیش آنا گھر کی فضا کو خوش گوار بناتا ہے جبکہ گالم گلوچ اور برے الفاظ باہمی الفت و محبت کو تہہ تیغ کردیتے ہیں...
*5: اللہ کا ذکر:*
اللہ کا ذکر اور نماز گھر کو اور گھر میں رہنے والوں کو با برکت بنا دینے والی چیزیں ہیں...
*6 : شرکت اورمیل جول:*
گھر والوں کی کسی بھی کام میں باہمی شرکت جیسے"اکٹھے کھانا" تقریبات ،گھریلو نظام کی مسلسل بہتری والے امور میں حصہ لینا بھی خیر و برکت سمیٹنے کا باعث ہے۔مقولہ مشہور ہے کہ" جس گھر کے افراد ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے ہوں وہ ہمیشہ جڑے رہتے ہیں...
*7: حمد و شکر:*
اپنی زبان کو اللہ کی حمد و ثناء اور شکر کا عادی بنانا کہ اس کی نعمتیں بے حساب ہیں...
*8: تلاوتِ قرآن کریم:*
روزانہ کے حساب سے گھروں میں قرآن کریم کی تلاوت کا معمول بناناچاہئے...
*9: کثرتِ استغفار:*
استغفار کی کثرت اور اس پر دوام نیز صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے اجتناب بھی رزق میں برکت کا باعث بنتا ہے.
*10: والدین کی فرمانبرداری وصلہ رحمی:*
یہ دو ایسی صفات ہیں کہ جس شخص میں پائی جائیں اس سے اللہ جل شانہ راضی ہوتے ہیں
(ان شاءالله)...
*11: حلال رزق کاحصول*
اورحرام سے مکمل اجتناب کرنا : اس لیے کہ برکت حلال اور پاکیزہ مال میں چھپی ہوئی ہے...!
اللہ كريم ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔آمین
موٹی موٹی کتابیں چند گھنٹوں میں پڑھنے کا آسان طریقہ
موٹی موٹی کتابیں چند گھنٹوں میں کیسے پڑھیں؟
** کم از کم صفحات کی تعداد طے کرلیں، مثال کے طور پر میں روز کے 100 صفحات پڑھوں گا۔ اب چاہے کچھ ہوجائے، آپ نے اپنا ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔ ایک مسلمان اب اگر مہینے کے 3 ہزار صفحات بھی نہ پڑھے تو کتنے شرم کی بات ہے۔**
پڑھیں کیسے؟
یہ ایک سوال ہے جو گزشتہ کئی مہینوں سے دوست احباب اور سوشل میڈیا پر فالو کرنے والے کثرت سے پوچھ رہے ہیں۔ اب میں خود کوئی پڑھنے پڑھانے والا بندہ تو ہوں نہیں، یہی وجہ ہے کہ جواب دینے سے ہمیشہ معذرت برتی، مگر اب جب کہ اِصرار در اِصرار بڑھتا ہی جارہا ہے تو سوچا صرف اتنا لکھ دوں کہ میں کیسے پڑھتا ہوں۔ صحیح یا غلط کا فیصلہ قارئین اور اہل علم کریں گے۔
پڑھیں کیسے؟ سے پہلے بھی کئی سوال ہیں جو پوچھنے چاہئیں۔ مثلاً، پڑھیں کیوں؟ پڑھیں کیا؟پڑھیں کب؟ وغیرہ وغیرہ اور پڑھیں کیسے کے بعد پوچھنا چاہیئے کہ پڑھنے کے کیا نقصانات ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
ایک دنیا ہے جو خوش و خرم، موج مستی میں زندگی گزار رہی ہے، دن بھر دوستوں سے واٹس اپ اور فیس بک پر بات اور رات بھر ٹی وی اور نائٹ پیکجز۔ ایسے میں آخر کون اتنا وقت ”برباد“ کرے کہ بیٹھ کر کتابیں پڑھے؟ پڑھنے کے کچھ فوائد جو میری سمجھ میں آتے ہیں وہ یہ ہیں۔
بندے کو اپنے جہل کا پتہ لگتا ہے کہ اُسے کتنا نہیں معلوم۔
پڑھنے سے کسی فیلڈ کا اور دنیا کا ایکسپوژر ملتا ہے کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور میں کہاں کھڑا ہوں۔
پڑھنے سے بنیاد ملتی ہے جس پر کھڑا ہوکر کوئی کام کرسکے۔
پڑھنے سے دماغی و تخلیقی صلاحیتیں جلا پاتی ہیں۔
پڑھنے سے ہمت و حوصلہ ملتا ہے کہ اگر دنیا یہ سب کچھ کرسکتی ہے تو میں بھی کرسکتا ہوں۔
پڑھنے سے تقابلی موازنہ کا موقع ملتا ہے کہ مختلف سوچ و عقائد رکھنے والے حضرات کسی مضمون کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ اختلافِ رائے کو پڑھنے سے ذہن میں وسعت آتی ہے اور برداشت بڑھتی ہے۔
پڑھنے سے وقت فالتو کاموں میں ضائع نہیں ہوتا۔ وہ تمام وقت جو ٹی وی ڈراموں، سوشل میڈیا اور دوستوں کی نظر ہوجاتا ہے اب پڑھنے میں لگ رہا ہے۔
پڑھنے سے چیزوں کی حقیقت کھلتی ہے اور آدمی اچھے بُرے میں تمیز کرسکتا ہے۔
پڑھنے سے ادبی و جمالیاتی ذوق بنتا ہے جو آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ آپ غالب اور رکشہ والے شعر میں تفریق کرسکیں۔
پڑھنے سے جستجو بڑھتی ہے، طلب و پیاس بڑھتی ہے اور آدمی اصل بات کی کھوج میں لگا رہتا رہے۔
اور پڑھنے سے بندے اور رب کے درمیان تعلق مضبوط ہوجاتا ہے کہ جس نے اپنی کتاب کا آغاز ہی اِقراء سے کیا ہے۔
اگر آپ پڑھنے سے شغف نہیں رکھتے تو شروع شروع میں عادت بنانے کے لئے کچھ بھی پڑھیں، بس پڑھیں۔ آن لائن بلاگز، فیس بک اور اخبارات اس پڑھائی میں شمار نہیں ہوتے نہ ہی آپ کے SMS میسجز۔ ابن صفی کو پڑھیں، اثر نعمانی کو پڑھیں، ممتاز مفتی، بانو قدسیہ، قدرت اللہ شہاب، شوکت تھانوی، اشفاق احمد، عصمت چغتائی، وحیدہ نسیم، قرۃ العین حیدر، اجمل نیازی، طارق بلوچ صحرائی، سعادت حسن منٹو، ڈاکٹر امجد ثاقب، مستنصر حسین تارڑ یا انتظار حسین، نیا یا پرانا جو مصنف اچھا لگے، اسے پڑھ ڈالیں، شروع سے آخر تک، دینی ذوق ہو تو مولانا منظور نعمانی اور سید سلیمان ندویؒ کے کیا کہنے۔ آسان سہل زبان میں مشکل سے مشکل بات کہہ جاتے ہیں۔ شاعری کا شوق ہو تو پروین شاکر اور ناصر کاظمی سے شروع کریں، یاس یگانہ اور چراغ حسن حسرت پر سانس بھریں اور حافظ و رومی سے ہوتے ہوئے غالب اور علامہ اقبال پر ختم ہوجائیں۔
کسی مخصوص شعبے میں پڑھانا چاہیں تو اس فیلڈ میں کام کرنے والے سے پوچھیں کہ فیلڈ کے استاد کون ہیں، پھر استادوں سے پوچھیں کہ فیلڈ کے کرتا دھرتا کون ہیں۔ (ان کی تعداد ہمیشہ انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے) یا پھر کچھ کتابیں اُٹھالیں، بہت جلد احساس ہوجائے گا کہ سب لوگ معدودے چند اشخاص کا ہی ذکر کرتے ہیں، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے فیلڈ کی بنیاد رکھی بس انہی سے شروع کردیں۔ مثلاً جینٹکس الگورتھم کا ذکر جان ہالینڈ کے بغیر ممکن نہیں، جینٹکس انجینئرنگ میں مارون منسکی سرِ فہرست، فزکس کا تذکرہ آئن اسٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ کے بغیر ادھورا، ریاضی میں سینکڑوں نام، آپ پال آرڈش اور رامان نجوا سے شروع کردیں، ایلن ٹیورنگ، جان وان نیومین کمپیوٹر سائنس کے روح رواں تو ایڈورڈ ولسن (Edword Wilson) چیونٹیوں پر اتھارٹی۔
آپ خود سوچیں کہ کسی شخص نے اپنی زندگی کے 50 ،40 سال ایک ہی مضمون کو دے دیئے پھر کوئی کتاب لکھی جو آپ کو 1000، 500 روپے میں دستیاب ہے بلکہ انٹرنیٹ سے مفت PDF بھی شاید مل جائے۔ اب آپ اسے چھوڑ کر فیس بک پر دوستوں سے بحث و مباحثہ میں الجھے ہوئے ہیں یہ کہاں کی شرافت ہے؟ نوبل پرائز پانے والوں کو پڑھیں، کیسا لگے گا آپ کو اگر کوئی شخص بڑا صوفی ہونے کا دعویٰ کرے اور اس نے شاہ ولی اللہ ؒ، حضرت مجدد الف ثانی ؒ اور ابن عربی ؒ کا نام تک نہ سُنا ہو۔
یہی حال ہم لوگوں کا ہے جس شخص نے زندگی میں گاڑی نہیں چلائی وہ بھی جہاز کے حادثے پر گز بھر کا آرٹیکل لکھ دیتا ہے اور جس کو یہ تک نہیں پتہ کہ گلی کے نکڑ پر پنواڑی کون ہے وہ بھی ٹاک شوز میں آ کر یہ ثابت کرتا ہے کہ نیا چیف آف آرمی اسٹاف کون ہوگا۔ پڑھائی سے دوری فراست سے محروم کر دیتی ہے۔ آدمی کے تصورات تک یتیم ہوجاتے ہیں اور عقائد بھیک میں ملنے لگتے ہیں۔
ہمت کیجئے، فیلڈ کا انتخاب کیجئے اور دے دیں زندگی کے 30، 20 سال پڑھنے کو، دنیا دوڑتی، لوٹتی، رینگتی آپ کے قدموں میں خود بخود آجائے گی۔
پڑھیں کب؟
ہر وقت پڑھیں، ایک عام آدمی زندگی میں اوسطاً 7 سال انتظار میں گزارتا ہے۔ بس اسٹاپ پر انتظار، ٹرین و جہاز میں بیٹھے منزل پر پہنچنے کا انتظار، اسپتال میں ڈاکٹر کے آنے کا انتظار، اسکول کے باہر بچوں کی چھٹی کا انتظار، اب اگر آپ کے ہاتھ میں ہر وقت کوئی کتاب ہو تو ایک عام آدمی کے مقابلے میں آپ کی زندگی میں 7 سال کی پڑھائی اضافی ہوگی۔ آپ چاہیں تو پڑھائی کے لئے کوئی وقت مقرر کرلیں مثلاً رات 7 بجے سے 9 بجے تک، سونے سے پہلے یا صبح 6 سے 8، آفس جانے سے پہلے یا عصر تک مغرب، اب اس پر جمے رہیں۔
پڑھیں کس سے؟
کتابوں سے، آن لائن کورسز سے، پڑھانے والے اب کم کم ہی بچے ہیں ٹیچرز کو مال غنیمت سمجھیں، کچھ پڑھا دیا تو ٹھیک ورنہ اُمید نہ رکھیں۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہر اس شخص کو جسے پڑھنا چاہیئے وہ پڑھا رہا ہے جس نے زندگی میں ایک لائن کا کوڈ نہیں لکھا وہ 110 بچوں کی کلاس میں دو سال سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ پڑھاتا ہے پھر بچے روتے ہیں کہ جاب نہیں ملتی۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ”پڑھنا“ آپ کی ذمہ داری ہے، جیسے کہ صحت، آپ اپنے آپ کو کھلاتے ہیں، سلاتے ہیں، سردی گرمی کا خیال رکھتے ہیں بالکل اسی طرح پڑھنا بھی آپ کی ذاتی ذمہ داری و فرائض میں شامل ہے، ماں باپ، استاد اور لوگوں پر الزام دھرنا چھوڑ دیں۔
پڑھیں کیسے؟
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف پڑھیں کیسے؟ اس کا جواب سب سے زیادہ آسان ہے۔ ذہن اور روز مرہ روٹین کو جتنا سادہ اور خرافات سے پاک کرسکتے ہیں وہ کرلیں۔ ہماری زندگی عموماً ریشم کے لچھے کی طرح گنجلک ہوتی ہے اور کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔ میں نے بچپن میں اپنے ایک استاد مولانا عبدالرحمن صاحب سے پوچھا کہ میں چاہتا ہوں کہ میری یادداشت تیز ہوجائے تو کیا کروں؟ انہوں نے جواب دیا کہ آنکھوں کی حفاظت کرو۔ میں بڑا حیران ہوا کہ آنکھوں کی حفاظت کا یادداشت سے کیا تعلق؟ میں تو سمجھ رہا تھا کہ وہ کوئی دماغی ورزش یا بادام کھانے کا کہیں گے۔ وہ کہنے لگے کہ علم کی آنرشپ اللہ سائیں کے پاس ہے، جب چاہے، جسے چاہے، جتنا چاہے دے دے مگر وہ گندی پلیٹ میں کھانا نہیں ڈالتا۔
اگر آپ پڑھنے بیٹھیں ہیں اور دماغ میں موسیقی کی دھنیں اور فلموں کے ڈانس جاری ہیں تو نہ پڑھا جائے گا اور غلطی سے کچھ پڑھ بھی لیا تو سمجھ کچھ نہیں آئے گا یا یاد نہیں رہے گا۔ لفظ مل جائیں گے، علم اُٹھ جائے گا۔ یہ کتابیں بہت با حیا ہوتی ہیں۔ بدنظروں سے اپنا آپ چھپا لیتی ہیں۔ آپ مندرجہ ذیل امور پر توجہ دیں تو امید ہے انشاء اللہ پڑھائی آسان ہوجائے گی۔
پڑھنے کا وقت متعین کرلیں خواہ 15 منٹ ہی کیوں نہ ہوں۔ اب دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے مگر سب کو پتہ ہو کہ یہ آپ کا پڑھنے کا وقت ہے۔ جس میں یا تو آپ کتاب پڑھیں گے یا جنازہ اور کچھ نہیں۔ ایک مرتبہ وقت پر قابو ہوجائے تو ہلکے ہلکے دورانیہ بڑھاتے چلے جائیں۔
پڑھنے کے وقت کچھ اور نہ کریں، ماحول کو سازگار بنائیں۔ اگر پڑھتے وقت ہر 30 سیکنڈ میں آپ کو موبائل چیک کرنا ہے، فیس بک پر کچھ لکھنا ہے، واٹس اپ چیک کرنا ہے، فون سننا ہے، ٹی وی کا چینل بدلنا ہے، دروازہ کھولنا ہے، دودھ گرم کرنا ہے، کھانا بنانا ہے، تو ہوگئی پڑھائی، وقفہ پڑھائی (Reading Break) کے دوران کچھ بھی نہ کریں صرف پڑھیں۔ کوشش کرکے کوئی ایسا کمرہ، کونا کھدرا تلاش کریں جہاں آپ پر کسی کی نظر نہ پڑسکے۔ میں اپنے بچپن میں مچان پر جاکر چھپ جاتا تھا۔ موبائل دراز میں لاک کردیں، ٹی وی بند کردیں اور دنیا و مافیہا سے بے نیاز، صرف پڑھتے رہیں۔ میں تو ہر کتاب شروع کرتے وقت اللہ سے دعا مانگتا ہوں کہ اے اللہ، عزرائیلؑ کو نہ بھیج دینا، کتاب ادھوری رہی تو چین سے مر بھی نہیں سکوں گا سارا مزہ کرکرا ہوجائے گا، کتاب پوری کروا دے پھر آتا ہوں۔
کم از کم صفحات کی تعداد طے کرلیں، مثال کے طور پر میں روز کے 100 صفحات پڑھوں گا۔ اب چاہے بارش آئے یا طوفان، دھرنا ہو یا بقرعید آپ نے اپنا ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔ ایک مسلمان اب اگر مہینے کے 3 ہزار صفحات بھی نہ پڑھے تو کتنے شرم کی بات ہے۔ جب 100 پر پکے ہوجائیں تو صفحات بڑھاتے چلے جائیں۔ مصروف شخص آرام سے 4 سے 6 سو صفحات تو دن کے پڑھ ہی سکتا ہے، 4 گھنٹے ہی تو لگتے ہیں 20 گھنٹے تو پھر بھی بچے روز کے۔
مختلف کتابیں ایک ساتھ شروع کریں۔ آدمی کا اپنا مزاج اور طبیعت ہوتی ہے۔ طبیعت صرف اچھا لگا یا بُرا لگا بتاتی ہے، دلیل نہیں دیتی۔ مثال کے طور پر اگر آپ نے 100 صفحات پڑھنے تھے، کمپیوٹر سائنس کے اور آپ 10 پڑھ کر اُکتا گئے تو کوئی بات نہیں 40 شاعری کے پڑھ لیں، 20 اسلام کے، 30 تاریخ کے، ہوگئے پورے 100۔ بس جو نمبر آپ نے مقرر کیا ہے اس سے پیچھے نہیں ہٹنا۔
وقفہ لیں
کہتے ہیں آدمی کے فوکس کا دورانیہ 45 منٹ ہے تو آپ 45 منٹ یا گھنٹے بعد آنکھ بند کرکے 10 منٹ کا وقفہ لے لیں۔ اس وقفے میں دماغ ساری معلومات کو بھی کھنگال لے گا۔ مسلسل پڑھائی کے بعد سونا ایک اچھا آزمودہ طریقہ کار ہے، پڑھائی کو یاد رکھنے کا اور اگر بھول بھی جائیں تو فکر نہ کریں زندگی میں جب بھی ان معلومات کی ضرورت محسوس ہوگی یہ خودبخود لاشعور سے نکل کر آپ کے سامنے آجائے گی اور کم از کم آپ کی قوتِ فیصلہ تو بہتر ہو ہی جائے گی۔
نوٹس لیں
خلاصہ کیجئے اور ضروری اور اہم جملوں کو انڈر لائن کیجئے، جو کتاب پڑھیں اس کے باب کے آخر میں یا کتاب کے آخر میں عام فہم جملوں میں اس کا خلاصہ لکھ دیں، سمجھیں کہ آپ نے یہ کتاب کسی ایسے شخص کو سمجھانی ہے جسے پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔ اب اگر آپ کتاب کو اس طرح مختصر الفاظ میں بیان کرسکیں تو بے فکر ہوجائیے۔ آپ نے کتاب کو سمجھ لیا ہے اور اگر نہ کرسکیں تو پھر سے پڑھیں یہ صلاحیت دھیرے دھیرے نکھر جائے گی۔
ترجیح بنائیں
فرض کرلیں کہ پڑھنا زندگی کا سب سے اہم کام ہے۔ بس یہی کرنا ہے، بیچ میں وقفہ لے لیں، جاب کا، فیملی کا، نماز کا، کھانے پینے کا، سونے کا، مگر اصل کام پڑھنا ہے، ہر بریک میں خیال پڑھنے کا ہونا چاہیئے اس سے کام آسان ہوجاتا ہے۔
تیز رفتاری سے مقابلہ کریں
جب آپ ایک ہی مضمون کی بہت سی کتابیں پڑھیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ مختلف لوگوں نے بار بار ایک ہی نظریے کو مختلف انداز میں پیش کیا ہے اور دو چار ہی عام فہم مثالیں ہیں جو ہر کوئی دیتا ہے جیسے ہی آپ کو دیکھی ہوئی جانی پہچانی تصویر، گراف یا ایکویشن نظر آئے آپ صفحہ پلٹ دیں (اگر آپ کو معلوم ہو کہ یہ کیا ہے)۔ یہ صلاحیت زیادہ پڑھنے سے خودبخود پیدا ہوجاتی ہے۔ کبھی آپ حفظ سورتوں کے پڑھنے کی رفتار کا باقی سورتوں کے پڑھنے کی رفتار سے موازنہ کریں آپ کو یہ بات سمجھ آجائے گی۔ ایک جیسی مثالیں بھی حفظ کی طرح ازبر ہوجاتی ہیں۔
آئی فون اور اینڈرائڈ میں درجنوں ایسی ایپلی کیشنز ہیں جو آپ کو اسپیڈ ریڈنگ سکھاتی ہیں۔ ایک اوسط آدمی کی پڑھنے کی رفتار 120 الفاظ فی منٹ ہوتی ہے۔ آپ ذرا سی پریکٹس سے اسے 400 الفاظ فی منٹ تک پہنچاسکتے ہیں اور مادری زبان میں تو یہ اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایک صفحے پر کم و بیش 250 سے 300 الفاظ ہوتے ہیں۔ ایک نان فکشن کتاب 50 سے 75 ہزار الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے۔ کوئی 200 سے 250 صفحات۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ صرف 400 الفاظ فی منٹ کے حساب سے ایک اوسط کتاب 2 گھنٹوں میں ختم کرسکتے ہیں۔
اگر آپ روزانہ 6 گھنٹے بھی صرف پڑھ لیں تو باآسانی 3 کتابیں ختم ہوسکتی ہیں۔ یعنی سال بھر میں ایک ہزار کتابیں پڑھنا تو بچوں کا کھیل ہے۔ میں نے ذرا سی کوشش کرکے 850 الفاظ فی منٹ تک کی رفتار بنالی ہے۔ آپ محنت کریں اور بہت آگے نکل جائیں۔ اسپیڈ ریڈنگ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کم وقت میں دوسروں سے بہت زیادہ پڑھ لیتے ہیں اور پھر بھی وقت بچتا ہے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جب تک آپ کو پتہ لگتا ہے کہ کتاب کافی بورنگ ہے، کتاب ختم ہوچکی ہوتی ہے۔
مزید تفصیلات اور مشق کیلئے آپ ایبی مارکس اور پام ملن کی اسپیڈ ریڈنگ پر کتاب دیکھ لیں یا اسپیڈ ریڈنگ ورک بک پر کام شروع کردیں یا سب سے بہتر رچرڈ سوٹز کی ’اسپیڈ ریڈنگ احمقوں کیلئے‘ پڑھ ڈالیں۔ یہ ساری کتابیں انٹرنیٹ سے مفت دستیاب ہیں۔
پہلا اور آخری باب
کوشش کریں کہ کتاب کا (Preface Introduction) یا تعارف اور اختتام Conclusion پہلے پڑھ لیں۔ ایسا کرنے سے آپ کا ذہن مصنف کی تخیلاتی حدود کا ناپ لے لے گا اور پھر بیچ کے ابواب سمجھنا آسان ہوجائیں گے کہ آپ کو پتہ ہوگا کہ مصنف کدھر جارہا ہے۔ ہاں، فکشن میں یہ حرکت نہ کریں ورنہ ساری کتاب کا مزہ خراب ہوجائے گا۔
مصنف کو پڑھیں
تحریر سے پہلے اگر آپ کچھ دیر کو مصنف کو پڑھ لیں تو تحریر سمجھنا آسان ہوجاتی ہے۔ کہاں پلا بڑھا، کہاں سے تعلیم حاصل کی، کہاں کام کررہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح مصنف کے اچھے یا بُرے تعصب کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے اور معاصرین کا بھی۔
پڑھنے کے نقصانات
جی ہاں پڑھنے کے ڈھیروں نقصانات بھی ہیں۔ پہلا تو یہ کہ آدمی کو چپ لگ جاتی ہے، بات کرے تو کس سے کرے؟ بولے تو کس سے بولے؟ کووّں کی کائیں کائیں میں کوئل کی کُوک کون سنے گا؟ آدمی کو چاہیئے کہ کوئی پرندہ یا بلی پال لے تاکہ کم از کم تنہائی کا ڈپریشن تو نہ ہو۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ دوست کم ہونا شروع ہوجائیں گے کہ کسی کو آپ کی باتوں سے اتفاق ہی نہیں ہوگا اور اختلاف کی دلیل لانا تو انہوں نے سیکھا ہی نہیں۔ آپ کتابوں کو ہی دوست بنالیں۔ تیسرا نقصان یہ کہ لوگ آپ پر طعنے کسیں گے۔ بہتان باندھیں گے، آپ کے مسلک اور فرقے اس رفتار سے بدلیں گے جیسے کپڑے بدل رہے ہوں۔ فکر نہ کریں یہ علم کی زکوٰۃ ہے۔ نکلتی رہنی چاہیئے۔
پھر سب سے بڑا نقصان یہ کہ آپ جاہل رہ جائیں گے، پتہ چلے گا کہ کیا کیا نہیں معلوم۔ آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے، وقت ملا تو ضرور کچھ تفصیل سے لکھوں گا۔ واصف علی واصف کے شعر پر ختم کرتے ہیں۔
*لکھنے والوں کے لیے۔۔۔۔۔۔۔چند اہم اور قابلِ توجہ گذارشات*
ہر موضوع پرطبع آزمائی ضروری ہے نہ ہر ایک کی نگارشات پر اپنی رائے دینا ضروری ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ آپ کی دلچسپی کا موضوع کیا ہے؟
ہمیشہ اسی موضوع کا انتخاب کرنا چاہیے جس پر آپ کا مطالعہ ہو، جس پر مواد آسانی سے دستیاب ہو سکے یا کم ازکم جس پر تلاش کر نے سے مواد مل سکے۔
جس موضوع میں آپ کی دلچسپی ہی نہیں، جس پر آپ کا مطالعہ ہی نہیں جس کے متعلق آپ آگاہ ہی نہیں اس پر خوامخواہ طبع آزمائی کرنے کی ضرورت نہیں اور اگر ایسا ناگزیر ہو تو پہلے اس پر مطالعہ کرنا چاہیے
اس کے متعلق معلومات حاصل کرنی چاہئیں اس کے پس منظر سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے اور مواد کی دستیابی کے بعد پھر اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا جائے۔
موضوع کے انتخاب میں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ وہ چیز بیان کی جائے جس کی لوگوں کو ضرورت ہے، اس کے متعلق انہیں رہنمائی درکا ہے اور اس پر بہت کم مواد موجود ہے۔
اور اگر اس پر پہلے سے کچھ لکھا گیا ہے وہ ناکافی ہے یا درست نہیں ہے تو اس کے متعلق خلوصِ نیت کے ساتھ قارئین کو آگاہ کر دیا جائے لیکن اندازِ بیان شستہ اورمہذبانہ ہونا چاہیے۔
مخالف رائے کی خوب تردید کریں، اپنے موقف کی بھرپور وضاحت کریں، اسے ثابت کرنے کے لیے دلائل کے انبار لگا دیں لیکن یہ سب کچھ موضوعاتی (موضوع کے مطابق)ہونا چاہیے نہ کہ ذاتی اور جذباتی۔
ایسا انداز ہر گزنہ اپنایا جائے جس میں مخالف کی تردید کی بجائے تحقیر ہو اور اصلاح کی بجائے نفرت کا جذبہ نظر آ رہا ہو۔ ایسا لکھیے کہ اگر آپ کا مخالف بھی آپ کی تحریر کو پڑھے تو اسے کہیں لفظوں میں کاٹ اور لہجے میں درشتی محسوس نہ ہو بلکہ آپ کے لفظ لفط سے جذبہِ اخلاص و اصلاح کی مہک آتی ہو۔
تردید کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مخالف کی بات کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ اس نے کہا کیا ہے اور کہاں اس نے غلطی کی ہے؟
ایسا نہ ہو کہ آپ اس بات کا رد کرتے چلے جائیں جو مخالف کا خیال ہی نہیں اور اس کے جملوں اور بیان سے وہ مطلب نکلتا ہی نہ ہو جس کا آپ رد کرتے چلے جا رہے ہیں۔ گویا یوں نہیں ہونا چاہیے:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے
مخالف کی کمزورترین بات پر گرفت کی جائے۔ جہاں کہیں تاویل یا وضاحت کی گنجائش ہو اس کو بیان کر دیا جائے کہ اگر اس سے یہ مراد ہے تو پھر اس کا یہ حکم ہے۔ اگر تاویل کمزور ہو تو اس کو بھی بیان کر دیا جائے۔
مخالف کی دلیل کا رد بھی بڑے سلیقے سے کیا جائے۔ مثلا: فلاں صاحب نے جو لکھا ہے مجھ سا طالب بہر حال اس کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
مدِ مقابل کوئی بھی ہو، اس کے نظریات کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں، اس کی باتیں کتنی ہی گمراہ کن کیوں نہ ہوں، اس کا لہجہ کتنا ہی بے باکانہ کیوں نہ ہو، اس کے دلائل بے ربط اور کمزورہی کیوں نہ ہوں
اسکا اندازِ بیان و تحریر بغض و عناد اور نفرت پر ہی مبنی کیوں نہ ہو اس کی علمی حالت قابلِ رحم ہی کیوں نہ ہو کبھی بھی اس کے لیے غیر اخلاقی اور غیر مہذب الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیں۔
اسے جاہل، فاسق، گمراہ، بدعتی، گستاخ، بد بخت، خبیث وغیر ہ کے الفاظ سے قطعا یاد نہیں کر نا چاہیے بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس کا نام لیے بغیر کوئی مناسب سا لفظ استعمال کیا جائے
مثلا ایک مشہور خطیب، سوشل میڈیا سے شہرت پانے والے ایک مصلح، ایک مبلغ نے یو ں کہا ہے یا ہمارے بعض دوست، کچھ کرم فرما، ہمارے کچھ مہربان یوں کہتے ہیں۔
چونکہ آپ حق کے داعی ہیں، آپ نے حق کی طرف دعوت دینی ہے آپ مبلغ ہیں آپ نے درست بات کا ابلاغ کرنا ہے، آپ مصلح ہیں آپ نے غلط بات کی اصلاح کرنی ہے اس لیے آپ کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے۔
آپ کو ہر حال میں نرمی اور شفقت کا مظاہر ہ کرنا ہے۔ تلخی، سختی، دشنام طرازی، بد اخلاقی اور بد تمیزی کو خندہ پیشانی سے بر داشت کرنا ہے
سخت اور تلخ الفاظ استعمال کرنے والے، اور بد تہذیبی و بد اخلاقی کا مظاہرہ کرنے والے کا جواب دیتے ہوئے کبھی اس کی سطح پر نہیں آنا نہیں چاہئیے بلکہ ہمیشہ یہی پیشِ نظر رہنا چاہیے:
جذبات کا طوفان تو اٹھتا ہے کئی بار
الفاظ مگر رہتے ہیں ہر بار مناسب
آپ کا کام فقط پیغام پہنچانا ہے کسی بھی صورت میں اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے او ر الفاظ کا استعمال ہمیشہ مناسب رہنا چاہیے۔
آپ نے کوئی تحریر لکھی کوئی پیغام دیا وہ لوگوں تک پہنچ گیا۔ اگر کوئی اس پر اعتراض کرے، بے جا سوال اٹھائے تو اس کی بات کی طرف قطعا توجہ نہ کریں اس کا جواب نہ دیں -
اگر جواب دیں گے تو لوگوں کی توجہ آپ کے بنیادی پیغام سے ہٹ جائے گی۔اگر بہت زیادہ ناگزیر ہو تو ایک مرتبہ بڑی نرمی اور اختصار کے ساتھ وضاحت کر دی جائے لیکن بحث کو طول نہ دیا جائے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ آپ اپنے تمام تر اخلاص، علم، مطالعہ اور تحریر و بیان کی صلاحیتوں کے باوجود ایک رائے ہی دے سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کی ہر بات سے دوسرے اتفاق ہی کریں-
اس لیے مخالف رائے سے پریشان نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی بغیر سوچے سمجھے اس کی تردیدشروع کردینی چاہیے بلکہ اس پر خلوصِ دل سے غور کرنا چاہیے اور اگر مناسب معلوم ہو تو اپنی رائے بھی بدلی جا سکتی ہے۔
لکھتے ہوئے تما م تر توجہ اپنے پیغام کے موثر ابلاغ کی طرف ہونی چاہیے۔ تحریر کو ادبی چاشنی دینے کے خیال میں ثقیل الفاظ کے استعمال اور غیر مانوس تراکیب کی ایجاد سے تحریر بے مزہ ہو جاتی ہے۔
اور تکلف کی وجہ سے وہ تحریر سماعتوں پر گراں گذرتی ہے۔ ذہن میں اترنے والے خیالات کا ہاتھ میں چلنے والے قلم کے ساتھ براہِ راست تعلق ہوتا ہے۔ کبھی بھی اس روانی میں مخل نہیں ہوناچاہیے۔
ان الفاظ کو روانی کے ساتھ لکھتے جائیں تاکہ خیالات ترتیب پاتے رہیں۔ تحریرمکمل کرنے کے بعد اسے بغور پڑھ لیں اور جہاں مناسب سمجھیں تھوڑی بہت تبدیلی کر لیں۔
تمہید کو زیادہ طول نہ دیجیے۔ بلکہ اسے مختصر رکھیے اورفورا اپنے مقصد پر آئیں اوراختتام تک موضوع کو نبھائیں۔ آپ کے عنوان اور تحریر کے مواد میں زبردست ربط ہونا چاہیے
ایسا نہ ہو کہ قارئین پوری تحریر میں یہی تلاش کرتے رہیں کہ جو عنوان آپ نے باندھا ہے اس کے متعلق کہاں لکھا ہے؟ بقول شاعر:
اگرچہ وہ سبھی کچھ رہ گیا ہے
مگر جو دل میں تھا وہ رہ گیا ہے
لکھنے کا اولین مقصد حق بات کا ابلاغ ہے جس کے لیے اخلاص اور حصولِ رضائے خداوندی کا جذبہ نہایت ضروری ہے۔ اس لیے اس بات سے قطعا پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کی تحریر پر لوگوں نے مثبت جواب دیا ہے یا نہیں دیا؟ پسندیدگی کا اظہار کیا ہے یانہیں کیا؟
یہ جو کچھ لکھا گیا وہ محض چند آرا ہیں یہ موضوع انہی آرا میں منحصر نہیں ہے۔ بلکہ اہلِ علم و دانش حضرات اس پر مزید رہنمائی فرما سکتے ہیں۔
*السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*ڈئیر سٹوڈینٹس ہمارا تھری ڈی گرافکس کورس پرسوں سے شروع ہو رہا ہے*
*12 دن کا کورس ہے ود آؤٹ سرٹیفکیٹ 350 اور ود سرٹیفکیٹ 550 فیس ہے*
*اگر آپ کا ارادہ ہے تو آج اپنی ایڈمیشن کنفرم کروالیں جزاک اللہ خیرا کثیرا*
" دروازہ " اگر بڑا ہے ۔۔۔۔۔۔۔تو بڑی کیوں نہیں ہے ۔۔۔؟
یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تو لڑکا ہوں پھر میں ایسا کیوں لکھتا ہوں
" یہ میری کتاب ہے " ۔۔۔؟ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
خیر۔۔۔۔
اس بابت بے شمار کاوشیں نظر سے گزریں۔۔ ۔۔۔
زیادہ تر قواعد قیاسی پر مشتمل ہیں۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان دانی کے اعتبار سے سب قاعدے درست ہیں لیکن پیچیدہ بہت ہیں۔۔۔!! ٠٠٠٠٠٠ ٠٠٠٠پھر بھی ان کی مطالعہ اور یا د کرنا بے حد ضروری ہے ۔۔۔
****************
چلو ۔۔۔۔۔۔۔
************ آ ج میں غیر حقیقی یا بے جان اسماء کی تذکیر و تانیث سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔۔۔
اس پوسٹ کے مطالعہ کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ اس قابل ہوجائیں گے کہ یہ جان سکیں کہ فلاں لفظ یعنی اسم مذکر ہے یا مونث۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس سے جملے کے اعتبار سے آپ کے بے شمار اشکالات و مبہمات ختم ہو جائیں گے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رہے کہ بعض الفاظ قواعد سے مستثنٰی ہوتےہیں اس وجہ سے کہ ان کی سمع ابتدا ہی سے بطور مونث یا مذکر ہوتی چلی آ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب بورڈ نے میٹرک کے فیل طلباء وطالبات کے لیے نئی ہدایات جاری کر
پنجاب بورڈز نے اپنی پالیسی میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔براہ کرم نوٹ فرما لیں۔
1.پہلے میٹرک کے امتحان میں تین مضامین میں فیل کو مکمل فیل تصور کیا جاتا تھا۔اور طالب علم کو نہم اور دہم دونوں کے سارے پرچے واپس دینا پڑتے تھے۔جبکہ اس بار وہ جتنے بھی مضامین میں فیل ہے وہ ان کا سپلی میں پیپر دے سکتا ہے۔
2.سپلی کا داخلہ بھیجنے کی آخری تاریخ 12 ستمبر 2022 ہے۔جو لوگ داخلہ بھیجنا چاہتے ہیں وہ آن لائن بورڈ کی ویب سائٹ سے داخلہ بھیجیں اور فارمز کا پرنٹ لے کے،حبیب بنک کی کسی بھی شاخ میں فیس جمع کرائیں۔ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر سے تصدیق کرا کے فارم بورڈ کے پتے پر بھیج دیں۔(پتہ فارم پر درج ہو گا)
3.سپلی کے ایگزامز میں فیل ہونے والے طلبا 2023 سالانہ اور پھر 2023 کے سپلی میں دوبارہ اپنے فیل شدہ پیپر کلئیر کر سکتے ہیں۔البتہ ان تین چانسز میں وہ پیپر کلئیر نہیں کر پاتے تو انہیں نہم دہم کے سارے پرچے واپس دینا ہوں گے۔
4.. سپلی کے امتحانات کو اب second annual exams کا نام دیا گیا ہے۔اب ان میں فریش طلبا یعنی جنہوں نے کبھی نہم دہم کے پیپر نہیں دئیے وہ بھی پیپر دے سکتے ہیں۔
5.سپلی کے پیپرز کا آغاز 6 اکتوبر 2022 سے ہو رہا ہے۔تو جو لوگ داخلہ بھیجنا چاہتے ہیں،بھیج دیں اور ایک ماہ میں اپنی تیاری مکمل کر لیں۔اگر آپ پیپر پیٹرن کو مد نظر رکھ کے تیاری کریں تو ایک ماہ میں باآسانی تیاری کی جا سکتی ہے۔
اب آپ کھینگے کہ وہ سردار بنا ہے تو گندوز بلکل روایات کے مطابق سردار بنا ہے سرداروں نے اسے منتخب کیا تھا
اب آپ کھینگے کہ انہوں نے چڑیلوں کو قبیلہ بدر کیا تو بلکل ٹھیک کیا کیوں کہ گندوز ایک سردار تھا اور سردار کی اطاعت واجب ہوتی ہے اب جب وہ عورتیں باغی بن گئی تو وہ سزا کی مستحق تھی
اب آپ کھینگے ایک ماں کو اسکے بچے سے جدا کیا تو یہ بھی ٹھیک کیا تھا اسی کی حفاظت کیلئے کیا تھا اگر چہ وہ ایک ماں کیلئے مشکل لمحہ تھا
اب آپ کھینگے کہ وہ عالم شاہ کے کھنے پر سردار بنا تھا تو پھلی بات یہ کہ گندوز کیلئے عالم شاہ کی بات کی کوئی اھمیت نھیں تھی بس وہ تو قبیلے کو بغیر سردار کے چھوڑنا نہیں چاہتے تھے دوسری بات یہ کہ اگر عالم شاہ کی بات کو اھمیت دی بھی تو ٹھیک کیا کیوں کہ وہ قبیلہ اور عثمان کی حفاظت کیلئے سردار بنا تھا اسکی نیت بلکل ٹھیک تھی وہ دندار کیطرح نھیں تھا جو موقع ملتے ہی عثمان کا گردان کاٹتے گندوز بے کو موقع بھی ملا تھا اگر نیت خراب ہوتی تو عثمان کا سر جسم سے جدا ہوتا اور آج دنیا سلطنت عثمانیہ نھیں بلکہ سلطنت گندوزیہ کی گیت گاتی (مجاق😄)
اب آپ کھینگے کہ وہ گیھاتو کو فوج دینے والا تھا تو دراصل وہ فوج نھیں دیتا تھا وہ کوئی نا کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کرتا تھا اللہ نے وہ عثمان کے ذریعے نکال دیا
گندوز بے کے بارے میں دلچسپ تبصرہ
گندوز ایک اعلی سردار تھا جو اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر قبیلے کی حفاظت کرتا تھا پھر بھی عثمان اسکو سزا دینا چاھتا تھا تو ٹھیک کیا کیوں کہ عثمان ایک سردار ہے سزا صرف اسلئے کہ وہ غفلت میں عالم شاہ کیساتھ کھڑا تھا
تو عثمان نے کیا کیا کہ گندوز کو اپنی بیویوں سے معافی مانگنے پر مجبور کیا جو عرفا اور رواج بھت برا لگتا ہے
আজকে একজন অজব সম্বোধন করতে রাজি হয়েছিল, ঘোড়ার রাকাবে পাও ফান্সে হোয়ে এক শেয়ারের মত মনে করছিলেন, کی گونج دار آواز 25(بعض مورخین کے مطابق 15ہزار) ہزار کہ لشکر کہ ہر۔
hamari শত্রুর সংখ্যা কিন্তু আমি তো আল্লাহর উপর এ সময় ঝপ্পনা চাহতা হও
جب مسلمان نماز جمعہ کے জন্য উত্তর হাوں এবং فتح کے জন্য প্রার্থনা কর! جو আমার পিছনে آنا চাহতা আছে তার জন্য লেপে, আর যা চাহতা আছে তার উপর কোন উত্তর নেই! আজ না کوئی সুলতান আছে এবং না কোন فوج, میں بھی تمھاری طرح کا ایک ঘাঁটি আমার সাথে দেবে তার জন্য একটি আবদি জীবন আছে এবং যা আসবে না তার জন্য সোহে ذلت و رسوائی کے কিছু নেই।
یہ بات نہیں تھی کہ ایک روح تھی جو کہ سپاہیوں میں بدن میں سرایت کرگئی، آذربائیجان سے روانہ ہوتے وقت ہی ছিল যে سلطان اپنی وصیت کرچکا کہ আল্লাহ میں جارھا ھوں اگر شہدا ہو تو میرا بیٹا ملک شاہ میرا وارث ہوگا۔ । انہیں یہ تھا کہ بازنطینی قیصر روم رومانس چہارم کی معاہدے کی بھی خلاف کی وجہ سے سلطان الپ ارسلان کو اتنا وقت نہیں ملا যে فوجیں تیارতা, তার জন্য চার ہزار فوجیوں کے সাথেই দুই লাখ بازنطینوں যে لشکر کا مقابلہ করে। চালানো হয়েছে! نظام الملک نے بارہ ھزار گھڑ سواروں کا لشکر کے پیچھے سے روانہ کیا تھا যে ملازکرد যে মাঠে তাদের থেকে ملا!
বাংলা ভাষায় আল্প আরসালানের ভূমিকা
ان থেকে একجان ہوکر বলেছেন, "سلطان আমরা আপনার সাথে যে চাঁই কেজি নিয়ে চাহিরে হুকুম দিযে ও আমাদেরকে আল্লাহ পিঠ বাংলায় থেকে না پائیں"
اس وقت کی مسلم دنیا বলে যে, سب سے نڈر سپہ سالار الپ ارسلان نے تیر و کمان وجود سے الگ الگ, تلوار اور نیزہ নিজ হাতে বানান এবং میدان جنگ کی طرف سے روانہ ہو گیا, اس سلطان جنگ کو تیار না ہوا کی কারণে ٹلنا چاھتا تھا،مگر رومانوس دو لاکھ کا لشکر جرار لے کر مسلم سرزمینوں پر بولا تھا،سلطانؒ رومانوس کے پاس বার্তা পাঠাও ছিল جسم তাকে صلح کے চুক্তি پر جمے رہنے کے تلقین کی ছিল এবং اسے مال و اسباب دینے کا وعدہও ছিল! কিন্তু متکبر قیصر روم رومانس چارম উত্তর দিয়েছিলেন যে চুক্তিটি এখন সুলতানের দারلحکومت میںই হোগা!!
مسلمان نماز جمعہ کی سلطان ترکی سے فارغ ہوئے ،آج کا خطبہ کا বক্তৃতা ছিল এবং بعد از نماز جمعہ کی سرسبرشاداب جھیل وان যে উত্তরে واقع ملاکرز ক্ষেত্র میں ইসলামিক لشکر থেকে ٹکرا গেছে ! مسلم سرزمینوں پر اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ میں سلطان ہوئے لاتعداد الپ ارسلان کی فتح کی دعا کر رہے تھے !!
سلطان کی بجلی سے مہمیز شدہ سپاہی کی طرح لپکے اور کی طرح سیزر کہ لشکر بے کراں میں گھستے گئے! یہ صف بندی و حکمت عملی کا কোনো কারণ ছিল না যে, তার সংখ্যা زیادہ ছিল না যে, এই প্রশ্নটি জন্মায় না, گھوڑوں کی سموں سے اٹھانے والی گرد کی ایک دبیز تہ مسلم لشکر کو نظروں سے اوجھل ضرورت، تلواروں کی جھنکار لشکروں کہ نعروں نے جھیل وان پر آپ )) اچھے) اچھے)ےےےےےےے ہیں ہیں) وان ) ! ঘাঁটাঘাঁটি করলেই যে منظر বুদ্ধির ধারনা ছিল, তাকে আমি লশক ইসলামের عسیائی لشکر جرار میں ہمیشہ বলে যে, غرق ہوجانا!!
বাংলা ভাষায় আল্প আরসালানের ভূমিকা
لیکن جب گرد تھمی تو جنوں نے ایک عجب منظر دیکھا رومی لشکر اس دریا کی مانند کو عصائے موسیٰ کی ایک ہی ضرب کے درمیان میں پھاڑ دیا اور اس کی دونوں اطراف میں رومانوس کہ لشکریوں کی لاتعداد لاشیں بکھری پڑی پوری !!
রোমান্সকে এক غلام বলে ফেলেছে, সুলতান যে সামনে এসেছেন, সুলতান জিজ্ঞেস করলেন যে, যদি এ অবস্থায় থাকে তবে তুমি আমার সাথে আচরণ কর! قیصر روم رومانس چہارم এর উত্তরে বলেছে کہ تمھیں قتل کر دیتے ہیں، اولعزم سلطان انسا اور বলেছেন کہ میں تم سے اس سے بھی برا سلوک کروں گا
قیصر رومانوس چہارم کی ادائیگی তার পর তার দেশকে যেখানে ذلت آمیز شکست হয়েছে তার কারণে এই اہل দেশটি তার দর্শকদের মধ্যে শ্লেষ্মা ফাসির দেওয়া হয়েছে যার কারণে তার কিছু দামের পরেই মারা গেল!!
سلطان الپ ارسلانؒ আজকের দিনে 1029ء میں জন্মগ্রহণ করেছেন
روزگار اکسوئے کا کہنا تھا کہ براک ایک نظم و ضبط اور قابل احترام شریک ستارہ ہے۔
میں اس سے پہلے بھی ان کے ساتھ کام کر چکا ہوں، اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ میں اس موضوع سے بخوبی واقف ہوں۔ یہ مجھے اب بھی حیران کرتا ہے کہ وہ اتنا نظم و ضبط رکھتا ہے، ہفتے میں 6 دن کسی اور سے زیادہ کام کرتا ہے اور اتنا تیار رہتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ کتنا ہی تھکا ہوا ہے، یہ تمام کھلاڑیوں کو انتہائی درست کھیل دیتا ہے۔
جو لوگ سیٹ آداب جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ کتنا قیمتی ہے۔
وہ سیٹ پر موجود ملازمین کا بھی بہت احترام کرتا ہے، خاص طور پر ایسے رویوں سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے جس سے وہ ناراض ہوں۔
یقین کیجیے میں نے ایسے اہم کرداروں کے ساتھ بھی کام کیا ہے جن کی انا پر پردہ پڑا ہوا ہے اور جو اپنے ہوش و حواس کھو دینے تک پہنچ چکے ہیں اور میری نظر میں براک (عثمان) ایک ایسا شخص ہے جس نے اپنے دوستانہ انداز سے سب کی محبت جیت لی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ براک کااصلہ زندگی میں کردار بہت ہی پیارا ہے براک کی اس بات نے ہی دل جیت لیا تھا کہ جب اس نے ایک ایڈ میں کام کرنے سے انکار کردیا اور بولا کہ لوگ مجھے سلطنت عثمانیہ کے بانی کے نام اور کردار سے پہچانتے ہیں میں ایسا کوئی کام نہیں کرسکتا جس سے ان کی دل آزاری ہو ❤
keyword kya hai | کی ورڈ کیا ہے keyword meaning in urdu
السلام علیکم
آج ہم بات کریں گے کہ keyword kya hai کی ورڈ کیا ہے اور ایس ای او seo میں اس کی اہمیت کتنی ہے یہ جاننا ہر ایک نئے بلاگرز اور یو ٹیوبرز کے لئے بہت ہی ضروری ہے.
Keyword Kya Hai. keyword in urdu
اور اگر آپ بلاگنگ کرتے ہو تو بلاگ کی ٹریفک بڑھانے میں اور بلاگ پوسٹ کو سرچ انجن پر رینک کرنے میں سب سے زیادہ مدد فراہم کرتی ہے کی ورڈ keyword. ک
اس لئے، keyword کیا ہوتا ہے یہ اچھی طرح سمجھنا ہر بلاگر اور یو ٹیوبر کے لئے ضروری ہے. جس سے آپ کی بلاگ اور ویب سائٹ کی آرٹیکل کی ایس ای او اچھی ہوگی اور آپ کو ہائی رینکنگ ملے گی
Keyword Kya Hai. keyword in urdu
پہچان یا وضاحت دینے کے لئے ٹائٹل پر استعمال کیا جاتا ہے جیسے آپ نے گوگل پر سرچ کیا 'ایس ای او کیا ہے seo kya hai'
تو اب آپ کو گوگل پر پر بہت سے سوالات میں نتائج ملیں گے ان سب ہی کو آپ کی ورڈز keywords کہہ سکتے ہیں.
آسان لفظوں میں، آپ گوگل پر کچھ بھی سرچ کرنے کے لئے سرچ انجن پر جن الفاظ کو استعمال کرتے ہے انہیں آپ کی ورڈز keywords کہہ سکتے ہے.
مثال کے طور پر، آپ ایک پوسٹ آرٹیکل لکھنے جا رہے ہے کی ورڈ Keyword کے بارے میں تو اب آپ کو ایک سے پہلے اس کا ایک مین کی ورڈ Keyword کو منتخب کرنا ہوگا. جس کو ہم فوکس کی ورڈ focus keyword بھی کہتے ہیں.
اور اس کا مین کی ورڈ ہوسکتا ہے، کی ورڈ Keyword کیا ہے، کی ورڈ keyword ریسرچ کیسے کریں، کی ورڈ keyword کی پوری معلومات, وغیرہ آپ کسی بھی جملے کو اپنا ٹارگٹ کی ورڈ Keyword بنا سکتے ہیں.
لیکن کونسے کی ورڈ keyword آپ کے لئے زیادہ منافع بخش ہوگا یہ چیک کرنے کے لئے آپ کو کی ورڈ keyword ریسرچ کرنا ہوگا. اور اس کی ورڈ کو بلاگ
آرٹیکل پر درست طریقے سے ایڈ کرنا ہوگا.
What is the seo in keywords
What is the significance of
Many people are confused about the meaning of SEO. But it is not and the keyword is a part of seo. As you may know there are two types of SEO. Keywords play a huge role in on-page SEO seo.
You have to use keywords properly to do on-page SEO properly on blog or website post.
Suppose you are writing a post "what is keyword in urdu" then now you will definitely want your post to come to the top on search engine results page.
But this is possible only when you include keywords in your blog post well and the keywords we target to rank are also called targeted keywords or Focus Keywords.
Google and the rest of the search engines rank your post by checking the words of bots so keywords are the most important in on page SEO SEO.
How many types of keywords are there?
Log tail SEO
یا اس سے زیادہ لفظوں کے جملے کو لانگ tail کی ورڈ keyword کہتے ہے. جیسے، what is keyword in urdu, آن لائن پیسے کمانے کا طریقہ، keyword meaning in urdu, ایسے کی ورڈ لانگ ٹائل میں آتے ہیں،
ایل ایس آئی کی ورڈز کیا ہے lsi keywords kiya hai
ایل ایس آئی کا مطلب ہے Latent Sementic Indexing. یہ ایک ٹیکنالوجی ہے جس سے گوگل ویب پیجز کو انڈیکس کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے. اس سے پوسٹ کی کی ورڈ اور کنٹینٹ کی رشتہ پتہ چلتا ہیں.
جیسے مان لو آپ کی پوسٹ کا نام ہے، SEO me keywords Kitni important تو اب ایل ایس آئی اس کے ساتھ ملتے جلتے الفاظ کو سرچ کرتا ہے جیسے ایس ای او seo کیا ہے، کی ورڈز کیا ہوتی ہے، وغیرہ
جب سرچ انجن bots آپ کی کنٹینٹ مطلب مواد کو کرال کرتے ہے تو جتنے بھی عام الفاظ ہے انہیں کی ورڈ کے جیسے شناخت کرتا ہے اور کی ورڈ پڑھنے کے لئے بھی ایل ایس آئی کام کرتا ہیں.
کی ورڈ ریسرچ کیا ہے keyword research kya hai
کی ورڈ ریسرچ کا مطلب ہے اپنے بلاگ یا ویب سائٹ کے آرٹیکل کے لئے کسی ایک بہترین کی ورڈ کو سرچ کرنا. جیسے فرض کریں آپ ایک آرٹیکل لکھ رہے ہو بلاگ بنانے کے بارے میں تو اس میں آپ کی کی ورڈز ہوگی. بلاگ کیسے بنائے، بلاگ بنانے کا طریقہ، فری بلاگ کیسے بنائے، وغیرہ.
اب ان تین کی ورڈز keywords میں آپ اپنی پوسٹ پر کونسا استعمال رکھیں گے. یہی فیصلہ کرنے کے لئے آپ کو کی ورڈ ریسرچ کرنا پڑے گا.
کی ورڈ keyword ریسرچ کرنا بہت ہی آسان ہے بس اس کے لئے آپ کو کی ورڈ سے متعلق کچھ باتیں پتہ ہونا چاہئے. جس سے آپ آسانی سے اپنے لئے بہترین اور ہائی کی ورڈ سیلیکٹ کرسکتے.
عبد اللہ غازی کوسے میہال کا نام کیوں ملا ۔۔۔۔۔۔سلطنت عثمانیہ کے لیے جاسوسی نظام کیسے تشکیل دیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام قبول کرنے کی کیا وجہ بنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عثمان غازی نے قید کرنے کے باوجود انہیں آزاد کیوں کر دیا۔۔۔۔۔۔اور نیکولا نے عثمان کے خلاف جو جال بچھایا تھا اس کی خبر کوسے میہال نے عثمان کو غازی کو کیوں فراہم کی۔
ان تمام سوالات کے مختصر جواب جاننے کے لیے ویوڈیو پر کلک کریں۔
پانی وہیں سے پیو جہاں سے گھوڑا پیتا ہے کیونکہ نسلی گھوڑا ناپاک پانی کو منہ نہیں لگاتا۔ سکون سے سونا ہو تو چارپائی وہیں بچھاؤجہاں بلی سوتی ہے ،کیونکہ بلی ہمیشہ پر سکون جگہ کا ہی انتخاب کرتی ہے ۔ پھل وہ کھاؤ جسے کیڑا کھائے بغیر چھو کر گزرا ہو ۔ کیونکہ کیڑا صرف پکے پھل کو ہی تلاش کرتا ہے۔
گورنمنٹ پرائمری اسکول میں آج اُردو کا پرچہ تھا ۔ اسکی ڈیوٹی پانچویں جماعت کےطلبہ پر تھی ۔
خلاف معمول آج کے پیپر میں ایک بچہ کم تھا ۔ دیوار کے ساتھ جُڑی پہلی قطار کی پہلی کُرسی خالی پڑی تھی ۔ یہ اویس کی کُرسی تھی ۔
آج اویس غیر حاضر نہیں تھا بلکہ اُس نے چُھٹی لے لی تھی ۔ اسکول سے نہیں !! دُنیا سے !! دائمی چُھٹی !!
وہ ایک دِن پہلے ہی اپنی گلی میں کھیلتے ہوئے گٹر کے کُھلے دھانے میں گِر کر مر چکا تھا ۔ بدقسمت تھا ورنہ اُس کی کمیونٹی کے بچوں میں بڑے ہو کر مخالف سیاسی پارٹی کے ہاتھوں شہید ہونے کی روایت تھی۔
بچے پُورے انہماک سے پیپر حل کرنے میں مصروف تھے ۔ پیپر کا دورانیہ ایک گھنٹہ تھا اور اب آخری دس منٹ چل رہے تھے ۔
ٹہلتے ہوئے اس نے بچوں کے جوابات کا جائزہ لینا شروع کیا ۔ تقریباً سبھی بچے آخری سوال کو نمٹا رہے تھے ۔
سوال تھا !! آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے ؟؟
پانچویں جماعت کے بچوں سے اسے کسی تخلیقی مضمون کی تو قطعاً کوئی اُمید نہیں تھی لیکن وقت گزاری کو اس نے اُن کے جوابی پرچوں میں جھانکنا
شروع کر دیا ۔
تیسری قطار کی چاروں کرسیوں پر ڈاکٹر صاحبان براجمان تھے۔ پھر ایک پائلٹ اور یوں یہ سلسلہ پہلی قطار کے وسط تک ڈاکٹر ، پائلٹ اور انجنئیر کے درمیان ہی گھومتا رہا !!
پہلی قطار کی پہلی خالی کرسی کے پیچھے اویس کا دوست عبداللہ بیٹھا تھا !
عبداللہ اور اویس کلاس کے دوران بھی اکھٹے ہی بیٹھتے تھے ۔ عبداللہ کے جوابی پرچے پر جواب دیکھتے ہی ایسا لگا جیسے چھت سے لٹکتی سیمنٹ کی کھپریلیں یک دم چمکادڑ بن کے سر کے اوپر سے میزائلوں کی صورت گزرنے لگی ہوں ۔
عبداللہ کا پرچہ کُرسی کے دستے پر پڑا تھا اور اُس کی سُوجھی ہوئی آنکھیں اُس کی گود میں جمی ہوئی تھیں ۔
عبداللہ کا جواب بھی مختصر سا ہی تھا !!
"" بڑا ہونا بہت مُشکل ہے !! لیکن اگر ہو گیا تو کاریگر بنوں گا !! گٹر کے ڈھکن بنانے والا کاریگر !! بہت سارے ڈھکن بناؤں گا !! بہت سارے ۔۔۔۔۔۔۔
اولمپک افتتاحی تقریب میں برطانوی پرچم اٹھانے والے پہلے مسلمان ہونے کے اعلان کے بعد سونے کا تمغہ جیتنے والی راور محمد سبہی جمعہ کو تاریخ رقم کر دے گی۔ اس کے ساتھ ایک اور سونے کا تمغہ جیتنے والا ، ملاح ہننا ملز ، صاف سمندروں کے لئے مہم چلانے والا اور کھیل میں واحد استعمال والے پلاسٹک کے خاتمے کے لئے ایک مہمند شامل ہوگا۔
گذشتہ سال آئی او سی کے اعلان کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دو حریف پرچم لے کر جا سکیں گے جب ہر قومی اولمپک کمیٹی ایک خاتون اور ایک مرد ایتھلیٹ کو پرچم بردار نامزد کرے گی۔
کیلی ہوڈکنسن: ‘کیا تمغہ جیتنا میرے لئے مضحکہ خیز ہے؟ مجھے ایسا نہیں لگتا۔
مزید پڑھ
ایس بی آئی اور ملز ٹیم جی بی کے سب سے زیادہ مشہور ایتھلیٹوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں جن میں اینڈی مرے ، صفر سر میتھیو پنسنٹ اور سر اسٹیو ریڈ گراو ، اور انیتا لونسبرو بھی شامل ہیں ، جو 1964 میں ٹوکیو میں ٹیم جی بی کے لئے جھنڈا اٹھانے والی تھیں۔
سبیہی ، جنہیں کنگسٹن میں اپنے سرکاری اسکول سے ایک ایسے پروگرام کے ذریعے نکالا گیا تھا جس نے روئنگ کے روایتی پبلک اسکول کی گرفتاری والے علاقوں سے باہر کے اسکولوں کو نشانہ بنایا تھا ، نے منتخب ہونے پر اپنے فخر کی بات کی تھی۔
انہوں نے کہا ، "یہ ایک اعزاز کی بات ہے۔" انہوں نے کہا کہ اولمپک تحریک میں یہ ایک اہم لمحہ ہے۔ لوگ ان تصاویر کو یاد کرتے ہیں۔ مجھے یقینی طور پر ریو سے تعلق رکھنے والی اینڈی کی تصاویر یاد ہیں اور اس سے پہلے کہ میں ایک طاقتور تھا مجھے سر میٹ اور سر اسٹیو دیکھنا یاد ہے ، لہذا یہ ایسی بات ہے جس پر مجھے ناقابل یقین حد تک فخر ہے۔
"یہ واقعی ایک افتتاحی تقریب میں جا رہا ایک حقیقت پسندی کا تجربہ بننے والا ہے لیکن اس سال ریسنگ شیڈول کے ساتھ یہ دراصل قابل انتظام ہے یہاں تک کہ اگر میں پرچم بردار نہ تھا۔ یہ واقعی خاص ہوگا اور میری اولمپک پہیلی کو مکمل کرے گا۔
اولمپک اور پیرا اولمپک کھیلوں کے بارے میں تمام خبروں ، آراء اور پیش نظاروں کے ساتھ ہماری ٹوکیو 2020 بریفنگ کے لئے سائن اپ کریں۔
مردوں کے چاروں میں ریو اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتنے والے سبیہی نے مزید کہا: "میں نے تمغہ جیت لیا ہے ، اختتامی تقریب میں گیا تھا لیکن اب اصل میں کسی افتتاحی تقریب میں شامل ہونا ہے اور ساتھ میں ٹیم کا سربراہ بننا ہے۔ حنا زندگی بھر کی یادداشت رہے گی جسے میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ "
ملز ، جو ٹوکیو میں ایلید میکنٹیئر کے ساتھ اپنی خواتین کے 470 ٹائٹل کا دفاع کریں گی ، نے کہا کہ ان کا انتخاب ان کے کیریئر کا سب سے بڑا لمحہ تھا۔ "اولمپک کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں ٹیم جی بی کے لئے جھنڈا لے جانے کے لئے کہا جائے تو یہ کوئی جملہ نہیں ہے جو میں نے سوچا تھا کہ میں کہوں گا۔ جب مجھے بتایا گیا کہ یہ مکمل طور پر مغلوب تھا اور جب مجھے اس کے بارے میں سوچنے کا ایک لمحہ ملا تو میں بہت جذباتی ہو گیا۔
"یہ میرے کیریئر کا سب سے بڑا اعزاز ہے اور مجھے امید ہے کہ پہلے سے کہیں زیادہ یہ کھیل ہمارے ملک کو ترقی دے سکے اور قوم کو متاثر کرنے کے لئے کھیل کے کچھ ناقابل یقین لمحات مہیا کرسکے۔"
2019 میں ملز نے بگ پلاسٹک عہد کا آغاز کیا ، جس کا مقصد کھیل سے واحد استعمال کے پلاسٹک کو ختم کرنا ہے ، جبکہ پچھلے سال ان کا انتخاب یورپی موسمیاتی معاہدہ کی سفیر منتخب کیا گیا تھا۔
اس وقت اس نے کہا ، "ہر ایک ساحل سمندر ، مرینا اور بندرگاہ جس میں میں نے سفر کیا ہے ، پلاسٹک سے بھرا ہوا ہے۔" "اس نے پائیداری کی دنیا میں میرے لئے گیٹ وے کھول دیا ہے۔ میں بیداری پیدا کرنے ، طرز عمل کو تبدیل کرنے اور ماحولیاتی مسائل پر دوسروں کو متاثر کرنے کے لئے اپنے کھیلوں کا پس منظر ، نیٹ ورکس اور پروفائل استعمال کرنا چاہتا ہوں۔
اس مضمون میں 22 جولائی 2021 کو ترمیم کی تاکہ محمد صبیحی کے ایک ل
پرتگالی کے ایک سابق وزیر نے اتوار کے روز کہا کہ دین اسلام یورپی تاریخ اور ثقافت کا حصہ ہے ، اور باہر سے کچھ نہیں۔
"یورپ کی شاندار تاریخ ... مجھے امید ہے کہ اس کو سمجھا جاسکتا ہے ، اور یہ کہ ہم نہ صرف اسلام کے ساتھ اچھے تعلقات کی طرف گامزن ہوسکتے ہیں ، بلکہ حقیقت میں یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ یورپی تاریخ اور ثقافت کا حصہ ہے ... بلقان میں ، اسپین اور دوسرے حصے ، اور اب بڑی آبادی والے بہت سے یورپی شہروں میں ، "برونو ماکاس ، جنہوں نے سن 2013 اور 2015 کے درمیان پرتگالی حکومت میں یوروپ کے وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ، اناطولہ ایجنسی (اے اے) کو انٹالیا ڈپلومیسی فورم کے موقع پر بتایا۔
"لہذا یہ کوئی غیر ملکی مذہب نہیں ہے ، یہ خود ہمارا ایک حصہ ہے ، اور یورپ میں کچھ تنوع ، متحرک ہونے کی بحالی میں مدد کرسکتا ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔
یورپ کا سب سے تیزی سے ترقی پذیر مذہب سمجھے جانے والے اسلام کی آٹھویں صدی سے براعظم پر موجود ہے۔ مسلمانوں نے اسپین میں ایک مشہور تہذیب قائم کی ، اور بعد میں یہ جنوب مشرقی یوروپ کی طرف پھیل گئی۔
بہت سارے خطوں میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ، ملک بدریاں اور مسلمانوں کی زبردستی مذہبی تبدیلی دیکھی گئی لیکن ان کی تہذیب و ثقافت کے عناصر جیسے فن تعمیر ، کھانا ، موسیقی اور زبان اب بھی باقی ہیں۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے اسلام کے بارے میں متنازعہ تبصرے کے بارے میں پوچھے جانے پر ، اس وقت فلنٹ گلوبل کے ایک سینئر مشیر ، مکیس نے کہا ، "یہ سیاستدانوں پر منحصر نہیں ہے کہ مذاہب کا بحران ہے یا نہیں ، یہ ہر ایک کی قسمت کا ہے۔ مذہب."
پچھلے سال ، میکرون نے فرانسیسی مسلمانوں پر "علیحدگی پسندی" کا الزام عائد کیا اور اسلام کو ایک "بحران کا مذہب" قرار دیا۔ انہوں نے حضرت محمد of کے گستاخانہ اور وسیع پیمانے پر جارحانہ کارٹونوں کا بھی دفاع کیا۔
یورپ میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے بارے میں ، مکیس نے کہا ، "ہاں ، یہ ایک بہت بڑی پریشانی ہے" ، اور "بہت ہی متعلق" ہے کیونکہ یہ صرف فرانس تک ہی محدود نہیں ہے ، اور اس نے آسٹریا جیسے ممالک میں نسل پرستی اور اقلیتوں کے خلاف نفرت کی طرف اشارہ کیا۔
انہوں نے کہا ، "آسٹریا میں سیاسی اسلام کے خلاف قانون رکھنے کا خیال آیا اور کسی کو بخوبی معلوم نہیں کہ سیاسی اسلام کا عملی طور پر کیا مطلب ہے۔" انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ، "مجھے پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ صرف الگ تھلگ واقعات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بعض اوقات یہ خود سیاستدانوں کی طرف سے بھی آتی ہے۔"
ٹرانسلاٹینٹک تعلقات
جیسا کہ ریاستہائے متحدہ کے صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں یورپ کا دورہ کیا ، مکاس نے کہا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کی نسبت اب امریکی یورپی یونین کے تعلقات "بہت بہتر" ہیں۔
انہوں نے کہا ، "یہ تعجب کی بات نہیں ہے ،" انہوں نے مزید کہا کہ انھیں "ایک دوسرے کی بہت اچھی تفہیم ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ جارج بش سینئر کے بعد ، بائیڈن بھی ایسا ہی لگتا ہے جو "جو یورپ اور یورپی یونین کی زیادہ قدر کرتا ہے۔"
مکاؤس کے مطابق ، براک اوباما سمیت سابق امریکی صدور کو ، "یورپ کے بارے میں شکوک و شبہات تھے۔"
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ، "ایسے معاملات ہیں جن سے نمٹنا مشکل ہے ، لیکن موڈ یہ ہے کہ‘ ہمارے ساتھ نمٹنے کے لئے مشکل مسئلے ہیں لیکن ہمارے پاس اچھی روح ہے ’، انہوں نے وضاحت کی۔
لیکن ، انہوں نے استدلال کیا ، یورپ مزید "صلاحیتوں کو فروغ دینے میں خودمختار" بننا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حل کرنے کے لئے تجارت اور ٹکنالوجی کے مسائل موجود ہیں۔ چین سے قدرے مختلف نقطہ نظر ہیں۔ لہذا ، یقینا issues سیاسی مسائل موجود ہیں ، لیکن اس کی روح بہت اچھی ہے۔
ترکی-امریکہ تعلقات
ترکی کے مستقبل کے بارے میں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور بائیڈن کے درمیان 14 جون کو برسلز میں منعقدہ نیٹو کے سربراہی اجلاس میں ذاتی ملاقات کے بعد تعلقات ، مکاس نے کہا کہ "یہ توقع سے بہتر ہے۔"
"مجھے لگتا ہے کہ پہلی نشانی افغانستان کا امن عمل تھا اور ترکی اس میں کس طرح شامل تھا ... امریکی اس بات سے بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔ اب ، یہ ملاقات بھی اچھی رہی۔
"شاید ، بائیڈن سمجھ گئے ہیں کہ ترکی اہم ہے۔ امریکہ چین اور روس دونوں کے ساتھ گہری کشمکش میں ہے ، اور ترکی کا آپ کے ساتھ ہونا ضروری ہے ، یا کم از کم مجھے لگتا ہے کہ واشنگٹن میں یہ خیال موجود ہے کہ امریکہ ترکی کو روس اور چین کے قریب نہیں دھکیلنا چاہئے۔
انٹلیا ڈپلومیسی فورم ، سیاسی رہنماؤں ، سفارتکاروں ، رائے سازوں اور ماہرین تعلیم کے ایک اجتماع کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے ، انہوں نے کہا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ سے لے کر مشرق وسطی اور وسطی ایشیاء تک کے فورم کی "جغرافیائی توسیع" نے انہیں متاثر کیا۔
انہوں نے کہا ، "ترکی اب پوری دنیا کے لئے بہت کھلا ہے ، اور نہ صرف یورپ کے لئے ، بلکہ یہ ایک نیا ترکی کی علامت ہے۔"
The resolution was moved by Abul Kashem Fazlul Huq (Abul Kashem Fozlul Hôk) (26 October 1873 – 27 April 1962), often called Sher-e-BangaL, passed on 24 March and had its signatures from the Founding Fathers of Pakistan. It reads as:[10]
[Quoting Resolution:] No constitutional plan would be workable or acceptable to the Muslims unless geographical contiguous units are demarcated into regions which should be so constituted with such territorial readjustments as may be necessary. That the areas in which the Muslims are numerically in majority as in the North-Western and Eastern zones of India should be grouped to constitute independent states in which the constituent units shall be autonomous and sovereign.
The British plan to partition Indian subcontinent into two dominion- India and Pakistan was announced on 3 June 1947. In the event Pakistan was created on 14 August 1947 and Indian independence came a day later. Pakistan was immediately identified as migrant state born amid bloodshed. Muhammad Ali Jinnah the founder of Pakistan became first Governor General of Pakistan and Mr. Liaqat Ali Khan, The first Prime Minister of Pakistan. The Indian Act of 1935 provided the legal framework for Pakistan until 1956, when the state passed its own constitution.[11] While Pakistan's Independence Day celebrates its freedom from British Rule, the Republic Day celebrates of coming into force of its constitution.