Showing posts with label ایک عظیم ہستی کا واقعہ. Show all posts
Showing posts with label ایک عظیم ہستی کا واقعہ. Show all posts

حضور ضیاءالامت کون ہیں

 حضور ضیاءالامت رحمتہ اللہ علیہ کون ہیں اور کیسے بنے







#حضرت_ضیا_الامت_علیہ_الرحمہ_کون.......؟

1). جو پیرسیال لجپال کے روضہ کا بلندوبالامینار ہےانہیں حضور ضیاءالامت رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں.

2). جو شاہِ وقت کے نزدیک سونے کےساتھ تولنے کے قابل شخصیت ہے.انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.

3). جن کے موقف کو جنیوا میں قادیانیت کے مقابلے میں قادیانیوں کے خلاف پورے عالمِ کفر نے سراہا تھا.انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.

4). جن کی تفسیر #ضیاءالقرآن مقبولِ عرب وعجم ہے.اس شخصیت کوحضورضیاءالامت کہتے ہیں.

5). جن کی تحریر کردہ سیرۃ النبی پر کتاب سیرت




 #ضیاءالنبی چار دانگِ عالم میں پڑھی جاتی ہے.اس ہستی کو حضورضیاءالامت کہتے ہیں.

6). جن کی تحریر کردہ #سنتِ_خیرالانام منکرین سنت کی ہدایت کے لیئے قندیلِ راہبری ہے.انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.

7). جن کی طرف سے جاری کردہ جریدہ #ضیاء_حرم گھرگھر میں حرم پاک کی ضیائیں بکھیرتا ہے انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.

8). جن کے عدالتی فیصلوں کے جلوے عدالتوں کی زینت ہیں.وہ حضور ضیاءالامت ہیں.

9). ادارہ #ضیاءالقرآن پبلی کیشنز جنکی کاوشوں کا

Huzoor zia ul ummat Pir Muhammad Karam shah 


 نور زمانے میں برسا رہا ہے انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.

10). جنکی اولاد کے لنگرِفیض سے اک زمانہ مالامال ہورہا ہے.اور جنکے طلبہ و متوسلین سات براعظموں میں نورِدین وقرآں بانٹ رہے ہیں انہیں دنیا #حضورضیاءالامت_قبلہ، #پیر_محمد_کرم_شاہ_الازہری(رحمۃ اللہ علیہ) کے نام سے جانتی ہے.

پیر کرم شاہ الازہری ایک عظیم ہستی۔ مزید پڑھنے کے لئے کلک کریں

          🤲خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت🤲


از قلم علامہ محمد اکرم طاہر

فاضل دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف 




پیر محمد کرم شاہ الازہری ایک عظیم شخصیت

پیر محمد کرم شاہ


 




‎حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ اور  ایک عالم ربانی ہمارے استاذ گرامی قبلہ رضوی صاحب علیہ الرحمۃ 

‎محمد رمضان سیالوی 

‎خطیب جامع مسجد دربار حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ لاہور

‎فاضل جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور

فاضل جامعہ نعیمیہ 

فاضل جامعہ ابو النور دمشق شام 

‎برادر عزیز محمد طاہر عزیز باروی(ناروے) نے آج ایک بہت دلکش تحریر بعنوان’’دین وملت کی ضیاء۔۔۔ پیرمحمد کرم شاہ ‘‘لکھی ،خاص کر رضویت پر اور باہم جوڑنے پر جو ان کے نکات تھے،میں سمجھتا ہوں حسب موقع انہی چیزوں کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کو جوڑنے والوں میں شامل کریں ۔خیر وہ تحریر پڑھی تو مجھے بھی استاذ گرامی اور حضرت ضیاء الامت (علیھما الرحمہ ) سے متعلق ایک بہت اہم بات یاد آئی۔ یہ اہم اور تاریخی بات محفوظ ہوجائے اسی چیز کے پیش نظر اسے لکھ کے آپ کے پیش خدمت کر دی۔

( واضح ہو کہ بے حد مصروفیات کے باوجود میں جن چند حضرات کی تحریرات پورے انہماک سے پڑھتا ہوں ان میں فاضل عزیز حضرت علامہ مفتی محمد طاہر عزیز باروی بھی ہیں ، زاد اللہ شرفہ )

‎  اس تاریخی  بات  کو تحریر کرنے سے قبل میں یہ عرض کر تا چلوں کہ جامعہ نظامیہ میرا مادر علمی اور  دارالعلوم محمد یہ غوثیہ  بھیرہ شریف میرے اہل خانہ کے دیگر افراد یعنی میرے بہن بھائیوں کا مادر علمی ہےعزیزم مولانا نصیر احمد ضیاء سیالوی صاحب اور  میری خواہر عزیزہ  بھیرہ شریف سے باقاعدہ فاضل ہیں ،اسی لیے مذکورہ ہر دو جامعات کے ساتھ اور ان بانیان ادارہ کے ساتھ ہمارا قلبی اور روحانی تعلق ہے،ازیں سبب جانبین کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔الحمد للہ ایک دوسرے کے معاملے میں باہم شیر و شکر 



حضرت عثمانِ غنی کا قبولِ اسلام

ہی پایا۔ 

‎خیر آمدم برسرمطلب ،

‎علامہ رضوی صاحب نوراللہ مرقدہ کے پاس 1996 میں  صرف کلاس میں پڑھتے تھے اس سال استاذ گرامی نے حج کی سعادت حاصل کی،اس وقت حاجی کیمپ بادشاہی مسجد لاہور میں ہوا کر تاتھا ، ہماری کلاس نے بہت پرتپاک اور بہت شاندار طریقے سے حاجی کیمپ تک رخصت کیا۔ اتفاق یہ کہ جس سال استاذ گرامی حج پر گئے اسی سال دس ذی الحج کو حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ کا وصال ہوا۔ 

‎میں اس وقت آبائی گھر (کھیوڑہ) میں تھا،  چھوٹے بھائی اور بہن کے مادر علمی کی وجہ سے اور حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ کے ساتھ وابستہ قلبی تعلق کی بنا پر یہ خبر کسی آسمانی بجلی سے کم نہ تھی اسی لیے بعد فجر ہی جنازہ میں شرکت کی سعادت پانے نکل پڑے اور یوں عید کی نماز بھی ادا نہ کر پائے ۔اس دن ہمارے علاقے میں شدید بارش تھی ،موسم بھی خراب تھا لیکن ہم روانہ ہوگئے اس وقت موٹر وے کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا موٹر وے کے غیر معروف سٹاپ سے کچی سڑک سے ہم نے بھیرہ شریف کا سفر ہلکی بوندا باندی اور کیچڑ میں پیدل طے کیا اور نماز جنازہ میں حاضری کی سعادت حاصل  کرنے میں کامیاب ہوئے ، بالکل درست لکھا برادر عزیز  جناب طاہر عزیز زیدشرفہ نے میں نے خود استاذ گرامی مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی، اور شرف ملت علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادی  نوراللہ مرقدھما کو وہاں دیکھا اور دست بوسی کی سعادت حاصل کی۔

‎جب استاذ گرامی علیہ الرحمۃ حج سے واپس تشریف لائے تو حسب سابق شاندار استقبال ہوا وہ کلاس میں تشریف فرما ہوئے تو ان کا رعب دبدبہ کلاس تو کجا پورے جامعہ پر ایسا تھا کہ چڑیا پر نہ مارتی۔ مگر اس دن حج سے واپسی کا دن تھا اور طبیعت پر جمال غالب تھا انہوں نے کلاس سے بات کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ 

‎’’حضرت پیر کرم شاہ علیہ الرحمہ کے  وصال کی خبر مجھے دسویں ذی الحجہ کی رات  کو ہی مل گئی تھی مگر میرےدل میں کوئی ایسی خلش موجود تھی جس کے سبب میں نے اس خبر کو قطعا در خور اعتنا نہ جانا بلکہ اس عظیم شخصیت کے وصال کی خبر کی کوئی پروا نہ کی ، فاتحہ نہ ایصال ثواب ، نہ کوئی دعا لیکن رات کو جب میں سویا تو مجھے حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ کی زیارت ہوئی پیر صاحب اس انداز میں میرے سامنے آئے کہ اپنی قمیص کے بازو کے کف  لپیٹے ہوئے تھے اور جلال میں بھی نظر آئے اور  اپنے ہاتھوں کو کھول کر فرمانے لگے مولانا!! میں نے بڑے اخلاص کے ساتھ حضور کے دین کی خدمت کی ہے۔ 

‎ہماری پوری کلاس اس بات کی گواہ ہے استاذ گرامی علیہ الرحمۃ نے بہت واضح انداز میں فرمایا کہ  اس خواب کے بعد آنکھ کھلی تو تہجد کاوقت تھا میں سیدھا حرم مکہ میں گیا  اور باباجی یعنی حضور ضیاء الامت کے نام پر طواف کیا ان کو ایصال ثواب کیا اور اس کے بعد پورا ایک عمرہ ان کے نام پر کیا۔ ‘‘

‎اللہ کریم ہمیں اپنے ان مشترکہ اثاثوں کی قدر اور ان اکابرین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

‎جہاں قدرت کسی سے پھیر لیتی ہے نظر اپنی 

‎وہیں انسان کی بے مائیگی معلوم ہوتی ہے

محمد رمضان سیالوی 

تاریخ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسط نمبر 2

تاریخ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسط نمبر 2

 *🌹خلیفہ اول🌹*
  *حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ*  
🎀 *پوسٹ نمبر 2* 🎀



 *♦️ہجرت حبشہ کا قصد اور واپسی♦️* 


 *🌟ابتداء ً مشرکین قریش نے مسلمانوں کی قلیل جماعت کو چنداں اہمیت نہ دی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ* روز بروز ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور اسلام کا حلقہ اثر وسیع ہوتا جاتا ہے تو نہایت سختی سے انہوں نے اس تحریک کا سدباب کرنا چاہا ایذا اور تکلیف رسانی کی تمام ممکن صورتیں عمل میں لانے لگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے جانثاروں کو ان مصائب میں مبتلا پایا ستم زدوں کو حبش کی طرف ہجرت کی اجازت دی اور بہت سے لوگ حبش کی طرف روانہ ہوگئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی باوجود وجاہت ذاتی اور اعزاز خاندانی کے اس داروگیر سے محفوظ نہ تھے 


 *🌟چنانچہ جب حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبداللہ ان کی تبلیغ سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو* حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے چچا نوفل بن خویلد نے ان دونوں کو ایک ساتھ باندھ کر مارا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خاندان نے کچھ حمایت نہ کی ان اذیتوں سے مجبور ہو کر آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی اور رخت سفر باندھ کر عازم حبش ہوئے جب آپ مقام برک الغما میں پہنچے تو ابن الدغنہ رئیس قارہ سے ملاقات ہوئی اس نے پوچھا ابوبکر کہاں کا قصد ہے؟ آپ نے فرمایا قوم نے مجھے جلا وطن کردیا ہے


 *🌟اب ارادہ ہے کہ کسی اور ملک کو چلا جاؤں اور آزادی سے خدا کی عبادت کروں* ابن الدغنہ نے کہا کہ تم سا آدمی جلا وطن نہیں کیا جا سکتا تم مفلس و بے نوا کی دستگیری کرتے ہو قرابت داروں کا خیال رکھتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو، مصیبت زدوں کی اعانت کرتے ہو میرے ساتھ واپس چلو اور اپنے وطن ہی میں اپنے خدا کی عبادت کرو چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ ابن الدغنہ کے ساتھ پھر مکہ واپس آئے ابن الدغنہ نے قریش میں پھر کر اعلان کر دیا کہ آج سے ابوبکر رضی اللہ عنہ میری امان میں ہیں ایسے شخص کو جلاوطن نہ کرنا چاہئیے جو محتاجوں کی خبرگیری کرتا ہے قرابت داروں کا خیال رکھتا ہے مہمان نوازی کرتا ہے اور مصائب میں لوگوں کے کام آتا ہے 

تاریخ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسط نمبر 2

 *🌟قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو تسلیم کیا لیکن فرمائش کی کہ* ابوبکر ؓ کو سمجھا دو کہ وہ جب اور جس طرح جی چاہے اپنے گھر میں نمازیں پڑھے اور قرآن کی تلاوت کریں لیکن گھر سے باہر نمازیں پڑھنے کی ان کو اجازت نہیں مگر جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق نے عبادات الٰہی کے لیے اپنے صحن خانہ میں ایک مسجد بنالی تھی کفار کو اس پر بھی اعتراض ہوا انہوں نے ابن الدغنہ کو خبر دی کہ ہم تمہاری ذمہ داری پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے مکان میں چھپ کر اپنے مذہبی فرائض ادا کریں لیکن اب وہ صحن خانہ میں مسجد بنا کر اعلان کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اس سے ہم کو خوف ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے متاثر ہو کر اپنے آبائی مذہب سے بد عقیدہ نہ ہو جائیں اس لیے تم انہیں مطلع کردو کہ اس سے باز آجائیں ورنہ تم کو ذمہ داری سے بری سمجھیں


 *🌟ابن الدغنہ نے ابوبکر صدیق ؓ سے جا کر کہا : تم جانتے ہو کہ میں نے کس شرط پر تمہاری حفاظت کا ذمہ لیا ہے ،اس لیے یا تو تم* اس پر قائم رہو یا مجھے ذمہ داری سے بری سمجھو ،میں نہیں چاہتا کہ عرب میں مشہور ہو کہ میں نے کسی کے ساتھ بد عہدی کی ،لیکن حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے نہایت استغنا کے ساتھ جواب دیا کہ مجھے تمھاری پناہ کی حاجت نہیں میرے لیے خدا اور اس کے رسول کی پناہ کافی ہے 


 *🌹تمت بالخیر بحمدہ تعالیٰ🌹* 


 *اسباق کا سلسلہ جاری ہے۔۔۔۔۔*

❤️💚❤️💚💚❤️💚❤️💚❤️💚

تاریخ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسط نمبر 1

 

*🌹خلیفہ اول🌹*
  *حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ*  


🎀 *پوسٹ نمبر 1* 🎀

              

 *♦️نام و نسب خاندان♦️* 

 

 *🌟عبداللّٰہ نام ، ابو بکر کنیت ، صدیق اور عتیق لقب ،والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ،والدہ کا نام* سلمیٰ اور ام الخیر کنیت 


 *🥀والد کی طرف سے پورا سلسلہ نسب یہ ہے :*


 عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی التمیمی 


“ *🥀اور والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے* 


ام الخیر بنت سخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ اس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب چھٹی پشت میں مرہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے


 *♦️حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد♦️* 


 *🌟ابو قحافہ عثمان بن مرہ شرفائے مکہ میں سے تھے اور نہایت معمر تھے ابتداءً جیسا کہ* بوڑھوں کا قاعدہ ہے وہ اسلام کی تحریک کو بازیچہ اطفال سمجھتے تھے 


🍁 *چنانچہ حضرت عبداللہ کا بیان ہے کہ* 


 جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی  ہے  تو میں آپ کی تلاش میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر آیا وہاں ابوقحافہ موجود تھے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس طرف سے گزرتے ہوئے دیکھ کر نہایت برہمی سے کہا کہ ان بچوں نے میرے لڑکے کو بھی خراب کر دیا ابو قحافہ فتح مکہ تک نہایت استقلال کے ساتھ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے وہ اپنے فرزند سعید ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ضعف پیری کو دیکھ کر فرمایا کہ انہیں کیوں تکلیف دی میں خود ان کے پاس پہنچ جاتا اس کے بعد آپ نے نہایت شفقت سے ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور کلمات طیبات تلقین کر کے مشرف بااسلام فرمایا 


 *🌟حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ نے بڑی عمر پائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنے فرزند ارجمند* حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد بھی کچھ دنوں تک زندہ رہے آخر عمر میں بہت ضعیف ہوگئے تھے آنکھوں کی بصارت جاتی رہے تھی 14 ہجری میں 97 برس کی عمر میں وفات پائی


 *♦️حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ♦️* 


 *🌟حضرت ام الخیر سلمیٰ بنت صخر کو ابتدا ہی میں حلقہ بگوشان اسلام میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا اس سے پہلے صرف* 39 اصحاب مسلمان ہوئے تھے یہ قلیل جماعت با اعلان اپنے اسلام کا اظہار نہیں کر سکتی تھی اور نہ مشرکین و کفار کو ببانگ دہل دین مبین کی دعوت دے سکتی تھی


 *🌟لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مذہبی جوش  اس بے بسی پر نہایت مضطرب تھا آپ نے ایک روز* نہایت اصرار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر مجمع عام میں شریعت فقہہ کے فضائل و محامد پر تقریر کی اور کفار و مشرکین کو شرک و بت پرستی چھوڑ کر اسلام قبول کر لینے کی دعوت دی اور کفار و مشرکین جن کے کان کبھی ان الفاظ سے مانوس نہ تھے نہایت برہم ہوئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نہایت بے رحمی اور خدا ناترسی کے ساتھ اس قدر مارا کہ بالآخر بنی تیم کو باوجود مشرک ہونے کے اپنے قبیلے کے ایک فرد کو اس حال میں دیکھ کر ترس آگیا اور انہوں نے عام مشرکین کے پنجہ ظلم سے چھڑا کر ان کو مکان تک پہنچا دیا شب کے وقت بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ باوجود درد اور تکلیف کے اپنے والد اور خاندانی اعزہ کو اسلام کی دعوت دیتے رہے ہیں صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ دریافت کرکے اپنی والدہ کے ساتھ ارقم رضی اللہ عنہ  بن رقم کے مکان میں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میری والدہ حاضر ہیں ان کو راہ حق کی ہدایت کی جائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور وہ مشرف بہ اسلام ہو گئیں


 *🌟حضرت ام الخیر رضی اللہ عنہا نے بھی طویل عمر پائی چنانچہ* حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلافت تک زندہ رہیں لیکن اپنے شوہر سے پہلے وفات پائی۔


    *♦️قبل اسلام♦️* 


 *🌟حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام سے قبل ایک متمول تاجر کی حیثیت رکھتے تھے اور* ان کی دیانت راست بازی اور امانت کا خاص شہرہ  تھا اہلِ مکہ ان کو علم، تجربہ اور حسن خلق کے باعث نہایت معزز سمجھتے تھے ایام جاہلیت مین خون بہا کا مال آپ ہی کے ہاں جمع ہوتا تھا اگر کبھی کسی دوسرے شخص کے یہاں جمع ہوتا تو قریش اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایام جاہلیت میں بھی شراب سے ویسے ہی نفرت تھی جیسی زمانہ اسلام میں اس قسم کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ شراب نوشی میں نقصان آبرو ہے۔


 *🌟آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچپن ہی سے ان کو خاص انس اور خلوص تھا اور* آپ کے حلقہ احباب میں داخل تھے اکثر تجارت کے سفروں میں بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہوتا تھا 


 *♦️اسلام♦️* 


 *🌟آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خلعت نبوت عطا ہوا اور آپ نے مخفی طور پر احباب مخلصین اور محرمان راز کے سامنے* اس حقیقت کو ظاہر فرمایاتو مردوں میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا بعض ارباب سیر نے ان کے قبول اسلام کے متعلق بہت سے طویل قصے نقل کئے ہیں لیکن یہ سب حقیقت سے دور ہیں اصل یہ  ہے کہ  ابوبکر رضی اللہ عنہ کا آئینہ دل پہلے سے صاف تھا فقط خورشید حقیقت کی عکس افگنی کی دیر تھی گزشتہ صحبتوں کے تجربوں نے نبوت کے خد و خال کو اس طرح واضح کردیا تھا کہ معرف حق کے لیے کوئی انتظار باقی نہ رہا۔ البتہ ان کے اول مسلمان ہونے میں بعض مورخین اور اہل آثار نے کلام کیا ہے 


🌟 *بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اسلام سب سے مقدم ہے* بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اولیت کا فخر حاصل ہے اور بعض کا خیال ہے کہ حضرت زید بن ثابت بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے لیکن اس کے مقابلے میں ایسے اخبار و آثار بھی بکثرت موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اولیت کا طغرائے شرف و امتیاز صرف اسی ذات گرامی کے لیے مخصوص ہے حضرت حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت کے قصیدہ سے بھی اسی خیال کی تائید ہوتی ہے


 *اذا تذکرت شجوا من اخی ثقة* 

 *فاذکر اخاک ابابکر بما فعلا* 

 *خیر البریة اتقاھا واعدلھا* 

 *بعد النبی واوفاھا بما حملا* 

 *والثانی التالی المحمود مشھدہ* 

 *واول الناس منھم صدق المرسلا* 


 *🌟جب تمہیں کسی سچے بھائی کا غم آئے تو اپنے بھائی ابوبکر کو یاد کرو ان کے کارناموں کی بنا پر وہ* تمام مخلوق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تقوی اور عدل کے لحاظ سے بہتر تھے اور انہوں نے جو کچھ اٹھایا اس کو پورا کرکے چھوڑا وہی ثانی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد متصل ہیں جن کے مشکلات میں موجودگی کی تعریف کی گئی اور وہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے رسولوں کی تصدیق کی ہے محققین نے ان مختلف احادیث و آثار میں  اس طرح تطبیق دی ہے کہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا عورتوں میں، حضرت علی رضی اللہ عنہ بچوں میں، حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ غلاموں میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق آزاد اور بالغ مردوں میں سب سے اول مومن ہیں۔


 *♦️اشاعت اسلام♦️* 


 *🌟حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسلمان ہونے کے ساتھ ہی دین حنیف کی نشر و اشاعت کے لیے جدوجہد شروع کردی اور* صرف آپ کی دعوت پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ بن عفان،حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بن العوام ،حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ جو معدن اسلام کے سب سے تاباں و درخشاں جواہر ہیں مشرف باسلام ہوئے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ بھی آپ ہی کی ہدایت سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے 


🌟 *یہ وہ اکابر صحابہ ہیں جو آسمان اسلام کے اختر ہائے تاباں ہیں لیکن ان ستاروں کا مرکز شمسی* حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کی ذات تھی اعلانیہ دعوت کے علاوہ ان کا مخفی روحانی اثر بھی سعید روحوں کو اسلام کی طرف مائل کرتا تھا چنانچہ اپنے صحن خانہ میں ایک چھوٹی سی مسجد بنائی تھی اور اس میں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت الہی میں مشغول رہتے تھے آپ نہایت رقیق القلب تھے قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے لوگ آپ کی گریا وبکا کو دیکھ کر جمع ہو جاتے اور اس پر اثر منظر سے نہایت متاثر ہوتے۔


 *♦️مکہ کی زندگی♦️* 


 *🌟آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد کفار کی ایذا رسانی کے باوجود تیرہ برس تک* مکہ میں تبلیغ و دعوت کا سلسلہ جاری رکھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس بے بسی کی زندگی میں جان، مال، رائے و مشورہ، غرض ہر حیثیت سے آپ کے دست و بازو اور رنج و راحت میں شریک رہے  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ صبح و شام حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے جاتے اور دیر تک مجلس راز قائم رہتی۔


 *🌟قبائل عرب اور عام مجمعوں میں تبلیغ و ہدایت کے لئے جاتے تو یہ بھی ہمرکاب ہوتے* اور نسب دانی اور کثرت ملاقات کے باعث لوگوں سے آپ کا تعارف کراتے


 *🌟مکہ میں ابتداءً جن لوگوں نے داعی توحید کو لبیک کہا ان میں کثیر تعداد غلاموں اور لونڈیوں کی تھی جو* اپنے مشرک آقاؤں کے پنجۂ ظلم و ستم میں گرفتار ہونے کے باعث طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان مظلوم بندگان توحید کو ان کے جفا کار مالکوں سے خرید کر آزادکردیا چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ، عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ،نذیرہ رضی اللہ عنہ، نہدیہ رضی اللہ عنہ، جاریہ رضی اللہ عنہ، بنی مومل رضی اللہ عنہ  اور بنت نہدیہ وغیرہ نے اسی صدیقی جودو کرم کے ذریعہ سے نجات پائی۔کفار جب کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دست تعدی درازی کرتے تو یہ مخلص جانثار خطرہ میں پڑ کر خود سینہ سپر ہو جاتا۔


 *🪔ایک دفعہ آپ خانہ کعبہ میں تقریر فرما رہے تھے مشرکین اس تقریر سے سخت برہم ہوئے اور اس قدر مارا کہ* آپ ﷺ بے ہوش گئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر کہا" خدا تم سے سمجھئے کیا تم صرف ان کو اس لئے قتل کر دو گے کہ ایک خدا کا نام لیتے ہیں" 


🪔 *اسی طرح ایک روز آنحضرت نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی حالت میں عقبہ بن معیط نے اپنی چادر سے گلوئے مبارک میں پھندا  ڈال دیا* اس وقت اتفاقاً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچ گئے اور اس نا ہنجار کی گردن پکڑ کر خیر الانام علیہ السلام سے علیحدہ کیا اور فرمایا "کیا تم اس کو قتل کرو گے جو تمہارے پاس خدا کی نشانیاں لایا اور کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟" 


 *🪔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں رشتہ مصابرت* مکہ ہی میں قائم ہوا یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں  آئیں لیکن رخصتی ہجرت کے دو سال بعد ہوئی۔


 *🌹تمت بالخیر بحمدہ تعالیٰ🌹* 


 *اسباق کا سلسلہ جاری ہے۔۔۔۔*

❤️💚❤️💚❤️💚❤️💚❤️💚❤️

شیخ ادیبالی کا تعارف


 #شیخ_ادیبالی کا مختصراً تعارف (1326-1206)


-شیخ ادیبالی غالباً کرمان میں 1206 میں پیدا ہوئے، ان کا انتقال 1326 میں، 120 سال کی عمر میں، بیلجک میں ہوا، جوکہ گہوارہ اور سلطنت عثمانیہ کا پہلا دارالحکومت تھا۔ ایدیبالی کو اکثر بالیشیہ کہا جاتا تھا، اور ان کے اعزاز میں، وسطی اناطولیہ کے صوبہ کرککلے کے ایک چھوٹے سے قصبے اور ضلعے کا نام بالیشیہ رکھا گیا ہے۔


-شیخ ایدیبالی نے کرمان میں اسلامی قانون کی تعلیم حاصل کی، اور پھر دمشق چلے گئے جہاں وہ معروف اسلامی اسکالرز اور فلسفیوں کے شاگرد تھے۔ 


-شیخ ادیبالی ایک انتہائی بااثر ترک صوفی شیخ، اخوان المسلمین کے رکن اور اخوان المسلمین [آہی - ترک اسلامک گلڈ] کے رکن تھے اور بنو تمیم قبیلے اور الخطر خاندان سے تعلق رکھنے والے، مذہبی حلقوں میں ان کی بڑی عزت تھی۔


-ایک امیر شخص ہونے کے ناطے، ایدبالی نے اپنی خوش قسمتی ان لوگوں پر خرچ کی جو اتنے اچھے نہیں تھے۔شیخ نے مذہبی طلباء کے لیے قیام گاہیں تعمیر کروائیں، غریبوں کو کھانا کھلاتے اور اناطولیہ میں اسلامی قانون [شریعت] کے پروگراموں کی سرپرستی کی جس میں ترکوں کو اسلام کے اصولوں کی تعلیم دی گئی۔

.

-ایدیبالی، جسے بعض اوقات "ملا" کے طور پر بھی جانا جاتا ہے [قرآن کے مقدس قانون سے اچھی طرح واقف اسلامی سکالر]، سلطنت عثمانیہ کے روحانی بانی اور پہلے قاضی [جج] تھے۔


-عثمان غازی "ارطغرل غازی کا سب سے چھوٹا بیٹا" جو اپنے بچپن میں ہی ایدیبالی سے متوجہ ہو گیا تھا، بیلیجک کے ضلعے Eskisehir Sultanou کے گاؤں Kozağaç میں ایدیبالی کے گھر میں کافی وقت گزارا۔ [وہ گھر درگاہ کے نام سے مشہور ہوا، وہ جگہ جہاں درویش ملتے تھے۔]


"شیخ ایدیبالی کا عثمان غازی کو مشورہ/نصیحت (1299)"

-مشہور صوفی شیخ عثمان نوری توپباش Hocaefendi کی کتاب سے لیا گیا حوالہ؛ 

"عثمان غازی کو شیخ ایدیبالی کے مشورے نے عثمانیوں کی انتظامیہ اور چھ صدیوں تک حکمرانی کی تشکیل اور ترقی کی۔

* ایک مشہور اعلان میں، ایدیبالی نے عثمان سے کہا:

"اے میرے بیٹے! اب آپ حکمران ہیں!

اب سے، غضب ہمارے لیے ہے۔ لیکن آپ کے لیے سکون ہے!

ہمیں ناراض کرنے کے لیے؛ آپ کو خوش کرنے کے لئے!

ہم پر الزام لگانے کے لیے؛ آپ کو برداشت کرنے کے لئے!

ہمارے لیے بے بسی اور غلطی کرنا۔ آپ کے لئے، رواداری!

ہمارے لیے، جھگڑا؛ آپ کے لئے، انصاف!

ہمارے لیے حسد، افواہ، بہتان؛ آپ کے لیے، معافی!

اے میرے بیٹے!

اب سے، یہ ہمارے لئے تقسیم کرنا ہے؛ آپ کو متحد کرنا ہے!

ہمارے لیے، کاہلی؛ آپ کے لیے، انتباہ اور حوصلہ افزائی!

اے میرے بیٹے!

صبر کرو، پھول اپنے وقت سے پہلے نہیں کھلتا۔ کبھی نہ بھولیں؛ انسان کو پھلنے پھولنے دیں اور ریاست بھی پھلے پھولے گی۔

اے میرے بیٹے!

آپ کا بوجھ بھاری ہے، آپ کا کام مشکل ہے، آپ کی طاقت ایک بال پر لٹکی ہوئی ہے! اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو!"


-عثمان غازی کو شیخ ادیبالی کی یہ منفرد نصیحت ایک بہتی قوت بن گئی، جو بہت ساری مادی اور روحانی فتوحات کا سبب بنی، سلطان سے لے کر علماء تک، اور سپاہیوں سے لے کر درویشوں تک عثمانی معاشرے کے تمام افراد کے لیے، شیخ ایدیبالی نے بڑھتی ہوئی عثمانی ریاست کی پالیسیاں بھی تیار کیں۔


شیخ کا انتقال 1326 میں، 120 سال کی عمر میں Bilecik میں ہوا اور اسے اپنے لاج کے ذکر والے کمرے میں دفن کیا گیا اور ان کی وفات کے تقریباً چار ماہ بعد داماد عثمان غازی کا بھی انتقال ہو گیا۔

اسلامی دنیا کا عظیم لنگڑا جنگجو

 السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ


امید ہے سب خیریت ہوں گے 

آج ہم بات کریں گے تاتاریوں کے بارے میں

یہ تاریخ 2 حصوں میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے

آپ سب اس کو لازمی سنیں اور لنک اپنے دوستوں سے شیئر کریں

شکریہ



سلطان محمد فاتح

 قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولا


29 مئی 1453: رات کا ڈیڑھ بجا ہے۔ دنیا کے ایک قدیم اور عظیم شہر کی فصیلوں اور گنبدوں پر سے 19ویں قمری تاریخ کا زرد چاند تیزی سے مغرب کی طرف دوڑا جا رہا ہے جیسے اسے کسی شدید خطرے کا اندیشہ ہے۔

اس زوال آمادہ چاند کی ملگجی روشنی میں دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ شہر کی فصیلوں کے باہر فوجوں کے پرے منظم مستقل مزاجی سے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ان کے دل میں احساس ہے کہ وہ تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔

یہ شہر قسطنطنیہ (موجودہ نام: استنبول) ہے اور فصیلوں کے باہر عثمانی فوج آخری ہلہ بولنے کی تیاری کر رہی ہے۔ عثمانی توپوں کو شہر پناہ پر گولے برساتے ہوئے 47 دن گزر چکے ہیں۔ کمانڈروں نے خاص طور پر تین مقامات پر گولہ باری مرکوز رکھ کر فصیل کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔

21 سالہ عثمانی سلطان محمد ثانی غیر متوقع طور پر اپنی فوج کے اگلے مورچوں پر پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ حتمی یلغار فصیل کے 'میسو ٹیکیون' کہلانے والے وسطی حصے سے کی جائے گی جس میں کم از کم نو شگاف پڑ چکے ہیں اور خندق کا بڑا حصہ پاٹ دیا گیا ہے۔

سر پر بھاری پگڑ باندھے اور طلائی خلعت میں ملبوس سلطان نے اپنے سپاہیوں کو ترکی زبان میں مخاطب کیا: 'میرے دوستوں اور بچو، آگے بڑھو، اپنے آپ کو ثابت کرنے کا لمحہ آ گیا ہے!'

اس کے ساتھ ہی نقاروں، قرنوں، طبلوں اور بگلوں کے شور نے رات کی خاموشی کو تار تار کر دیا، لیکن اس کان پھاڑتے شور میں بھی عثمانی دستوں کے فلک شگاف نعرے صاف سنائی دیے جا سکتے تھے جنھوں نے فصیل کے کمزور حصوں پر ہلہ بول دیا۔ ایک طرف خشکی سے اور دوسری طرف سے سمندر میں بحری جہازوں پر نصب توپوں کے دہانوں نے آگ برسانا شروع کر دی۔

بازنطینی سپاہی اس حملے کے لیے فصیلوں پر تیار کھڑے تھے۔ لیکن پچھلے ڈیڑھ ماہ کے محاصرے نے ان کے حوصلے پست اور اعصاب شکستہ کر دیے تھے۔ بہت شہری بھی مدد کے لیے فصیلوں پر آ پہنچے اور پتھر اٹھا اٹھا کر کے نیچے اکٹھا ہونے والے حملہ آوروں پر پھینکنا شروع کر دیے۔ دوسرے اپنے اپنے قریبی چرچ کی طرف دوڑے اور گڑگڑا گڑگڑا کر مناجاتیں شروع کر دیں۔ پادریوں نے شہر کے متعدد چرچوں کی گھنٹیاں پوری طاقت سے بجانا شروع کر دیں جن کی ٹناٹن نے ان لوگوں کو بھی جگا دیا جو ابھی تک سو رہے تھے۔

ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے عیسائی اپنے صدیوں پرانے اختلاف بھلا کر ایک ہو گئے اور ان کی بڑی تعداد شہر کے سب سے بڑے اور مقدس کلیسا ہاجیہ صوفیہ میں اکٹھی ہو گئی۔

دفاعی فوج نے جانفشانی سے عثمانیوں کی یلغار روکنے کی کوشش کی۔ لیکن اطالوی طبیب نکولو باربیرو جو اس دن شہر میں موجود تھے، لکھتے ہیں کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جانثاری دستے ’بےجگر شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔'

روشنی پھیلنے تک ترک سپاہی فصیل کے اوپر پہنچ گئے۔ اس دوران اکثر دفاعی فوجی مارے جا چکے تھے اور ان کا سپہ سالار جیووانی جسٹینیانی شدید زخمی ہو کر میدانِ جنگ سے باہر ہو چکا تھا۔

جب مشرق سے سورج کی پہلی کرن نمودار ہوئی تو اس نے دیکھا کہ ایک ترک سپاہی کرکوپورتا دروازے کے اوپر نصب بازنطینی پرچم اتار کر اس کی جگہ عثمانی جھنڈا لہرا رہا ہے۔

سلطان محمد سفید گھوڑے پر اپنے وزرا اور عمائد کے ہمراہ ہاجیہ صوفیہ پہنچے۔ صدر دروازے کے قریب پہنچ کر وہ گھوڑے سے اترے اور گلی سے ایک مٹھی خاک لے کر اپنی پگڑی پر ڈال دی۔ ان کے ساتھیوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

مسلمان سات سو سال کی جدوجہد کے بعد بالآخر قسطنطنیہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔

ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر 1480 برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج چھو لیا اور وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے حصوں پر بڑی شان سے حکومت کرتی رہی۔

1453 ہی وہ سال ہے جسے قرونِ وسطیٰ (مڈل ایجز) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فتحِ قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد ثابت ہو گیا کہ اب بارود کے استعمال اور بڑی توپوں کی گولہ باری کے بعد فصیلیں کسی شہر کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔

شہر پر ترکوں کے قبضے کے بعد یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں یونانی بولنے والے شہری بھاگ کر یورپ اور خاص طور پر اٹلی کے مختلف شہروں میں جا بسے۔ اس وقت یورپ 'تاریک دور' سے گزر رہا تھا اور قدیم یونانی تہذیب سے کٹا ہوا تھا۔ لیکن اس تمام عرصے میں قسطنطنیہ میں یونانی زبان اور ثقافت بڑی حد تک برقرار رہی تھی۔ یہاں پہنچنے والے مہاجروں کے پاس ہیرے جواہرات سے بیش قیمت خزانہ تھا۔ ارسطو، افلاطون، بطلیموس، جالینوس اور دوسرے حکما و علما کے اصل یونانی زبان کے نسخے۔

ان سب نے یورپ میں قدیم یونانی علوم کے احیا میں زبردست کردار ادا کیا اور مورخین کے مطابق انھی کی وجہ سے یورپ میں نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوا جس نے آنے والی صدیوں میں یورپ کو باقی دنیا سے سبقت لینے میں مدد دی جو آج بھی برقرار ہے۔

تاہم نوجوان سلطان محمد کو، جسے آج دنیا سلطان محمد فاتح کے نام سے جانتی ہے، 29 مئی کی صبح جو شہر نظر آیا یہ وہ شہر نہیں تھا جس کی شان و شوکت کے افسانے اس نے بچپن سے سن رکھے تھے۔ طویل انحطاط کے بعد بازنطینی سلطنت آخری سانسیں لے رہی تھی اور قسطنطنیہ، جو صدیوں تک دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے مالدار شہر رہا تھا، اب اس کی آبادی سکڑ کر چند ہزار رہ گئی تھی اور شہر کے کئی حصے ویرانی کے سبب ایک دوسرے سے کٹ ہو کر الگ الگ دیہات میں تبدیل ہو گئے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ نوجوان سلطان نے شہر کی حالتِ زار دیکھ کر شیخ سعدی سے منسوب یہ شعر پڑھا:

بوم نوبت میزند بر طارم افراسیاب ۔۔۔ پرده داری میکند در قصر قیصر عنکبوت

(اُلو افراسیاب کے میناروں پر نوبت بجائے جاتا ہے ۔۔۔ قیصر کے محل پر مکڑی نے جالے بن لیے ہیں)

قسطنطنیہ کا قدیم نام بازنطین تھا۔ لیکن جب 330 عیسوی میں رومن شہنشاہ کونسٹینٹائن اول نے اپنا دارالحکومت روم سے یہاں منتقل کیا تو شہر کا نام بدل کر اپنے نام کی مناسبت سے کونسٹینٹینوپل کر دیا، (جو عربوں کے ہاں پہنچ 'قسطنطنیہ' بن گیا)۔ مغرب میں رومن امپائر کے خاتمے کے بعد یہ سلطنت قسطنطنیہ میں برقرار رہی اور چوتھی تا 13ویں صدی تک اس شہر نے ترقی کی وہ منازل طے کیں کہ اس دوران دنیا کا کوئی اور شہر اس کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمان شروع ہی سے اس شہر کو فتح کرنے کے خواب دیکھتے آئے تھے۔

چنانچہ اس مقصد کے حصول کی خاطر چند ابتدائی کوششوں کی ناکامی کے بعد 674 میں ایک زبردست بحری بیڑا تیار کر کے قسطنطنیہ کی سمت روانہ کیا۔ اس بیڑے نے شہر کے باہر ڈیرے ڈال دیے اور اگلے چار سال تک متواتر فصیلیں عبور کرنے کی کوششیں کرتا رہا۔

آخر 678 میں بازنطینی بحری جہاز شہر سے باہر نکلے اور انھوں نے حملہ آور عربوں پر حملہ کر دیا۔ اس بار ان کے پاس ایک زبردست ہتھیار تھا، جسے ’آتشِ یونانی‘ یا گریک فائر کہا جاتا ہے۔ اس کا ٹھیک ٹھیک فارمولا آج تک معلوم نہیں ہو سکا، تاہم یہ ایک ایسا آتش گیر مادہ تھا جسے تیروں کی مدد سے پھینکا جاتا تھا اور یہ کشتیوں اور جہازوں سے چپک جاتا تھا۔ مزید یہ کہ پانی ڈالنے سے اس کی آگ مزید بھڑک جاتی تھی۔

عرب اس آفت کے مقابلے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے تمام بحری بیڑا آتش زار کا منظر پیش کرنے لگا۔ سپاہیوں نے پانی میں کود کر جان بچانے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی پناہ نہیں ملی کیوں کہ آتشِ یونانی پانی کی سطح پر گر کر بھی جلتی رہتی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے پورے بحرِ مرمرہ نے آگ پکڑ لی ہے۔

عربوں کے پاس پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ واپسی میں ایک ہولناک سمندری طوفان نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور سینکڑوں کشتیوں میں سے ایک آدھ ہی بچ کر لوٹنے میں کامیاب ہو سکی۔

اسی محاصرے کے دوران مشہور صحابی ابو ایوب انصاری نے بھی اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ ان کا مقبرہ آج بھی شہر کی فصیل کے باہر ہے۔ سلطان محمد فاتح نے یہاں ایک مسجد بنا دی تھی جسے ترک مقدس مقام مانتے ہیں۔

اس کے بعد 717 میں بنو امیہ کے امیر سلیمان بن عبدالملک نے زیادہ بہتر تیاری کے ساتھ ایک بار پھر قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا، لیکن اس کا بھی انجام اچھا نہیں ہوا، اور دو ہزار کے قریب جنگی کشتیوں میں سے صرف پانچ بچ کر واپس آنے میں کامیاب ہو سکیں۔

شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد چھ صدیوں تک مسلمانوں نے دوبارہ قسطنطنیہ کا رخ نہیں کیا، حتیٰ کہ سلطان محمد فاتح نے بالآخر شہر پر اپنا جھنڈا لہرا کر سارے پرانے بدلے چکا دیے۔

شہر پر قبضہ جمانے کے بعد سلطان نے اپنا دارالحکومت ادرنہ سے قسطنطنیہ منتقل کر دیا اور خود اپنے لیے قیصرِ روم کا لقب منتخب کیا۔ آنے والے عشروں میں اس شہر نے وہ عروج دیکھا جس نے ایک بار پھر ماضی کی عظمت کی یادیں تازہ کر دیں۔

سلیمان عالیشان نے قسطنطنیہ کو نئی بلندیوں سے روشناس کروایا
سلطان نے اپنی سلطنت میں حکم نامہ بھیجا: 'جو کوئی چاہے، وہ آ جائے، اسے شہر میں گھر اور باغ ملیں گے۔' صرف یہی نہیں، اس نے یورپ سے بھی لوگوں کو قسطنطنیہ آنے کی دعوت دی تاکہ شہر پھر سے آباد ہو جائے۔

اس کے علاوہ اس نے شہر کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی ازسرِ نو تعمیر کی، پرانی نہروں کی مرمت کی اور نکاسی کا نظام قائم کیا۔ اس نے بڑے پیمانے پر نئی تعمیرات کا سلسلہ بھی شروع کیا جس کی سب سے بڑی مثال توپ کاپی محل اور گرینڈ بازار ہے۔ جلد ہی طرح طرح کے دست کار، کاریگر، تاجر، خطاط، مصور، سنار، اور دوسرے ہنرمند شہر کا رخ کرنے لگے۔

سلطان فاتح نے ہاجیہ صوفیہ کو چرچ سے مسجد بنا دیا، لیکن انھوں نے شہر کے دوسرے بڑے گرجا ’کلیسائے حواریان‘ کو یونانی آرتھوڈاکس فرقے کے پاس ہی رہنے دیا اور یہ فرقہ ایک ادارے کی صورت میں آج بھی قائم و دائم ہے۔

سلطان فاتح کے بیٹے سلیم کے دور میں عثمانی سلطنت نے خلافت کا درجہ اختیار کر لیا اور قسطنطنیہ اس کا دارالخلافہ، اور تمام سنی مسلمانوں کا مرکزی شہر قرار پایا۔

سلطان فاتح کے پوتے سلیمان عالیشان کے دور میں قسطنطنیہ نے نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ یہ وہی سلیمان ہیں جنھیں مشہور ترکی ڈرامے 'میرا سلطان' میں دکھایا گیا ہے۔ سلیمان عالیشان کی ملکہ خرم سلطان نے مشہور معمار سنان کی خدمات حاصل کیں جس نے ملکہ کے لیے ایک عظیم الشان محل تعمیر کیا۔ سنان کی دوسری مشہور تعمیرات میں سلیمانیہ مسجد، خرم سلطان حمام، خسرو پاشا مسجد، شہزادہ مسجد اور دوسری عمارتیں شامل ہیں۔

یورپ پر سقوطِ قسطنطنیہ کا بڑا گہرا اثر ہوا اور وہاں اس سلسلے میں کتابیں اور نظمیں لکھی گئیں اور متعدد پینٹنگز بنائی گئیں اور یہ واقعہ ان کے اجتماعی شعور کا حصہ بن گیا۔

یہی وجہ ہے کہ یورپ کبھی اسے بھول نہیں سکا۔ نیٹو کا اہم حصہ ہونے کے باوجود یورپی یونین ترکی کو قبول کرنے لیت و لعل سے کام لیتی ہے جس کی وجوہات صدیوں پرانی ہیں۔

یونان میں آج بھی جمعرات کو منحوس دن سمجھا جاتا ہے۔  29 مئی 1453 کو جمعرات ہی کا دن تھا۔

ننگے بدن والا ایک صحابی کا لقب

#_ننگے_بدن_والا 🌋


ایک انسان تھا جسے دنیا "ضرار بن ازور ؓ " کے نام سے جانتی تھی!


۔ ۔ ۔

یہ ایک ایسے انسان تھے کہ اس دور میں دشمن ان کے نام سے کانپ اٹھتے تھے اور انکی راہ میں آنے سے کتراتے تھے۔ جنگ ہوتی تھی تو سارے دشمن اور فوجیں زرہ اور جنگی لباس پہن کر جنگ لڑتے تھے۔

لیکن آفریں حضرت ضرار ؓ پر, زرہ تو درکنار اپنا کرتا بھی اتار دیتے تھے۔


لمبے بال لہراتے چمکتے بدن کے ساتھ جب میدان میں اترتے تھے تو ان کے پیچھے دھول نظر آتی تھی اور انکے آگے لاشیں۔ اتنی پھرتی، تیزی اور بہادری سے لڑتے تھے کہ دشمن کے صفیں چیر کر نکل جاتے تھے۔ ان کی بہادری نے بےشمار مرتبہ حضرت خالد بن ولید ؓ کو تعریف کرنے اور انعام و کرام دینے پر مجبور کیا۔


دشمنوں میں وہ "ننگے بدن والا" کے نام سے مشہور تھے۔


رومیوں کے لاکھوں کی تعداد پر مشتمل لشکر سے جنگِ اجنادین جاری تھی۔ حضرت ضرارؓ حسب معمول میدان میں اترے اور صف آراء دشمن فوج پر طوفان کی طرح ٹوٹ پڑے, اتنی تیزی اور بہادری سے لڑے کہ لڑتے لڑتے دشمن فوج کی صفیں چیرتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر سے بچھڑ کر دشمن فوج کے درمیان تک پہنچ گئے۔ دشمن نے انہیں اپنے درمیاں دیکھا تو ان کو نرغے میں لے کر بڑی مشکل سے قید کر لیا۔

مسلمانوں تک بھی خبر پہنچ گئی کہ حضرت ضرار ؓ کو قید کر لیا گیا ہے۔


حضرت خالد بن ولید ؓ نے اپنی فوج کے بہادر نوجوانوں کا دستہ تیار کیا اور حضرت ضرارؓ کو آزاد کروانے کے لیے ہدایات وغیرہ دینے لگے۔

اتنے میں انہوں نے ایک نقاب پوش سوار کو دیکھا جو گرد اڑاتا دشمن کی فوج پر حملہ آور ہونے جا رہا ہے۔ اس سوار نے اتنی تند خوہی اور غضب ناکی سے حملہ کیا کہ اس کے سامنے سے دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا۔ 

حضرت خالد ؓ اس کے وار دیکھ کر اور شجاعت دیکھ کر عش عش کر اٹھے اور ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ سوار کون ہے؟ لیکن سب نے لاعلمی ظاہر کی کہ وہ نہیں جانتے۔ حضرت خالد ؓ نے جوانوں کو اس سوار کی مدد کرنے کو کہا اور خود بھی مدد کرنے اس سوار کی جانب لپکے۔

 

گھمسان کی جنگ جاری تھی کبھی حضرت خالد بن ولید ؓ اس سوار کو نرغے سے نکلنے میں مدد کرتے اور کبھی وہ سوار حضرت خالد ؓ کی مدد کرتا۔

حضرت خالد ؓ اس سوار کی بہادری سے متاثر ہو کر اس کے پاس گئے اور پوچھا کون ہو تم؟ اس سوار نے بجائے جواب دینے کے اپنا رخ موڑا اور دشمنوں پر جارحانہ حملے اور وار کرنے لگا موقع ملنے پر دوسری بار پھر حضرت خالد ؓ نے پوچھا: اے سوار تو کون ہے؟ اس سوار نے پھر جواب دینے کی بجائے رخ بدل کر دشمن پر حملہ آور ہوا, تیسری بار حضرت خالد ؓ نے اس سوار سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ اے بہادر تو کون ہے؟ 


تو نقاب کے پیچھے سے نسوانی آواز آئی کہ میں ضرار ؓ کی بہن "خولہ بنت ازور ؓ" ہوں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک اپنے بھائی کو آزاد نہیں کروا لیتی۔ حضرت خالد ؓ نے کہا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا تو کہنے لگی آپ نے منع کر دینا تھا۔ حضرت خالد ؓ نے کہا آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی ہم تھے آزاد کروانے کے لیے تو حضرت خولہ ؓ نے جواب دیا کہ جب بھائیوں پر مصیبت آتی ہے تو بہنیں ہی آگے آیا کرتیں ہیں۔


پھر مسلمانوں اور حضرت خولہ ؓ نے مل کر حضرت ضرار ؓ کو آزاد کروا کر ہی دم لیا۔


ایک گزارش ::

اسلام خون اور قربانیوں کے دریا میں تیر کر پہنچا ہے اس کی قدر کریں جذبہ جہاد کو زندہ رکھیں کہ جب تک جہاد تھا مسلمان ہمیشہ غالب رہے جب جہاد چھوٹا تو مسلمانوں پر زوال آیا۔ 

کم از کم اپنے بچوں کے نام ان اسلام کے ہیروز کے نام پر رکھیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ان کا نام کس کے نام پر ہے اور نام کا اثر شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔اور ان کی تربیت ایسے کریں کہ اسلام کا مستقبل روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

یمن کا بادشاہ تبع خمیری

حضّور صلّی اللّہ عَلیہ وآلہ وَسّلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع خمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی ، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی اس مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہ ہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا ، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے، اے بادشاہ! آپ نے اگر کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی ، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔
پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہ ہی علماء نے جو کتب سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبّی آخر الزمّاں صلّی اللہ علیہِ وآلہ وَسّلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے پڑھی تھیں ، ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہاں ہی مر جائیں گے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبّی آخر الزمّاں صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔
یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم تشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نّبی آخر الزماں صلّی اللہ علیہِ وآلہ وسّلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ سرکّار ابد قرار صلّی اللہ علیہِ وآلہ وسّلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا۔
وہ خط نبّی کریم صلّی اللہ علیہِ وآلہ وسّلم کی خدمت اقدس مین ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟سنئیے اور عظمت حضّور صلّی اللہ علیہِ وآلہ وسّلم کی شان دیکھئے:
”کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے شفیع سیّد المرسلین مُحمّد رسّول اللہ صلّی اللّہ علیہِ وآلہ وسّلم اما بعد: اے اللّہ کے حبیّب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّہ ایک ہے اور آپ اس کے سچّے رسّول ہیں۔“
شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور جب حضّور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آ رہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضّور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم میرے گھر تشریف لائیں۔ حضّور صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسّلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع خمیری نے حضّور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا ، اسی میں حضّور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضّور کو شاہ یمن تبع خمیری کا خط دے آو جب ابو لیلٰی حاضر ہوا تو حضّور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔ حضّور نے فرمایا میں محّمد رسّول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط دیا، حضّور نے پڑھ کر فرمایا، صالح بھائی تُبّع کو آفرین و شاباش ہے۔
سبحان اللہ!) صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم
بحوالہ کُتب: (میزان الادیان)(کتاب المُستظرف)(حجتہ اللہ علے العالمین)(تاریخ ابن عساکر)
نوٹ کمنٹ میں محّمد صلّی اللہ علیہ وآلہ وَسّلم پورا لکھیں

اس تحریر کو شیئر کریں آپکا ایک سینکڈ لگے گا اور لوگوں کے علم میں اضافہ ہوگا
جزاک اللہ

ترگت الپ تاریخی تناظر میں

دوستو ترگت الپ دیرلیس ارطغرل کا ایک اہم کردار تھا اور بہت سے لوگ اسے کرولس عثمان میں دیکھنا پسند کرتے ہیں


 کیونکہ لوگ کلہاڑی کے ساتھ اس کے لڑنے کا طریقہ پسند کرتے ہیں


 ہم نے تاریخ کا مطالعہ کیا کہ تاریخ کس طرح ترگت الپ کے بارے میں ہماری رہنمائی کرتی ہے ں

 تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عثمانی تاریخ کا ایک اہم حصہ تھا

 اگر انہیں کورولس عثمان میں شامل نہ کیا گیا تو یہ تاریخی طور پر غلط ہوگا
کیونکہ ، تاریخ کے مطابق ، وہ عثمان غازی کے بیٹے اورہان غازی کے عہد تک زندہ رہا اور 125 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوگیا


 دوستو انھیں عثمانی تاریخ کا ایک بہترین جنگجو اور ارطغرل غازی کا قریبی دوست قرار دیا گیا ہے۔

9
 وہ کائی قبیلے کا ایک الپ تھا اور اس کی کلہاڑی بہت مشہور تھی اور سلطنت عثمانیہ کے غازیوں میں اس کا نام بھی شامل تھا

10
 اس کی پیدائش کی جگہ معلوم نہیں ہے ، لیکن تاریخ میں ان کی تاریخ پیدائش 1200CE ہے

11
 ارغول غازی کی موت کے بعد ، انہوں نے عثمانی سلطنت کے بانی عثمانی غازی کی حمایت جاری رکھی۔

12
 وہ عثمان غازی کی ساری مہموں میں اس کے ساتھ رہا

13
 عثمان غازی نے اسے اینگول نامی ایک شہر فتح کرنے کی مہم پر بھیجا

14
00:01:41,840 --> 00:01:48,140
 انہوں نے بہترین ہتھکنڈوں سے شہر کو فتح کیا اور اس شہر کا حکمران مقرر کیا

15
00:01:48,359 --> 00:01:58,599
 انہوں نے شہر اور امن و خوشحالی کے ساتھ کئی سال حکمرانی کی اور ایک بہترین جنگجو ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین منتظم کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔

16
00:01:58,739 --> 00:02:08,519
 عثمان غازی کے بعد ، انہوں نے اپنے بیٹے کی حمایت جاری رکھی اور ایک انتہائی قابل اعتماد مشیر کی حیثیت سے ان کی رہنمائی کی۔

17
00:02:08,659 --> 00:02:18,939
 تاریخ کے مطابق ، انہوں نے طویل زندگی گزاری اور اپنے مشہور کلہاڑی سے لڑائی کے دوران شہید ہوگئے

18
00:02:19,039 --> 00:02:29,919
 اس کا مقبرہ ترکی کے شہر اینگلول ، ترکی کے گاؤں ترگوٹ الپ (جنسی) کے قبرستان میں واقع ہے۔ ارطغرل غازی کے مقبرے کے باہر یہ قبر ایک اعزازی قبر ہے

19
00:02:30,039 --> 00:02:38,099
 جیسا کہ آپ جانتے ہیں ، عثمانی تاریخ tugut alp دلچسپ کہانی کے بغیر نامکمل ہے

20
00:02:38,240 --> 00:02:44,040
 شتاریخ کے مطابق ، ہم امید کر سکتے ہیں کہ ہم کورول عثمان میں بھی ان کے کردار کو دیکھیں
https://link2fakhar.blogspot.com/2020/07/blog-post_27.html

غازی محمد خالد پٹھان

تمام ممبران متوجہ ہوں
غازی محمد خالد پٹھان صاحب نے کس کو قتل کیا اور کیوں قتل کیا توجہ سے پڑھیں مکمل 👇👇👇👇👇👇👇👇👇
ملزم نے دعوی نبوت کیا تھا اور اس پہ اس کے بیانات بھی تھے قتل کی وجہ قادیانی ہونا نہیں بلکہ دعوی نبوت کرنا اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرناہے
پشاور۔مقامی عدالت میں توہین رسالت ملزم کی قتل کے مزید تفصیلات سامنے آگئی۔مقتول کا نام طاہر قادیانی ساکن پیشتخرہ جس نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا تھا اور 2018 میں تھانہ سربند میں اس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔۔
دو سال سے مقدمہ کی پیروی ہوتی رہی لیکن پیشی پر پیشی ہونے کی وجہ سے کیس آگے نہ بڑھ سکا ، این جی او از نے اس ملزم کے حق میں مظاہرے بھی کئے اور اسکی طرف سے فریق بھی بنیں ، آج دو سال مین 13 ویں پیشی تھی جس میں ایک نوجوان نے اسکے سر میں گالی مار کر قتل کر دیا ۔

کورٹ کے جج کے نائب نے ابھی دس منٹ پہلے کنفرم کیا ہے (ایک قریبی دوست کو)
اور اسی طرح ایک انتہائی اہم شخص کے توسط سے کورٹ میں موجود ایک پولیس والے نے کنفرم کیا کہ اس کے گولی مارنے پر ہم نے پوچھا تواس نے بتایا کہ مجھے خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو قتل کرنے کا حکم دیا

قادیانی پر تمام مقدمات کی تفصیل بھی بھیجی ہے اور اس غازی نے بتایا کہ میرے اس بیان کے بعد کورٹ میں موجود پولیس والوں نے اسکے سر کو بوسے بھی دٸیے..
👇👇👇
یہ بات طے ہے کہ اسلام کسی  فرد کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا تو پھر لوگ کیوں قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں ؟؟؟آخر کیوں ؟؟
ظاہر ہے عوام الناس کا اعتماد ہمارے موجودہ نظام عدل سے اٹھتا جارہاہے اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہر شخص فوری انصاف کے لیے طالب ہے اگر 295 سی کو ختم ہی کردیاگیا تو پھر تو ہر نوجوان فوری فیصلہ کرے گا اس پہ سب ارباب اقتدار کو سوچناہوگا اور یہ بات بھی طے ہے کہ

‎ *_عزت اُسی کی ہوگی جو حضورﷺ کی اہل بیت و صحابہؓ اِکرام
کی عزّت کی بات کرے گا_*

دلیر ترین جاسوس

⚔️دلیر ترین جاسوس⚔️

👤کیا آپ نے تاریخ کے اس سے دلیر ترین جاسوس کے بارے میں سن رکھا ہے؟

🎖️سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی للہ عنہ نے 7 افراد لشکر فارس کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کیلئے بھیجے اور انھیں حکم دیا کہ اگر ممکن ہو سکے تو اس لشکر کے ایک آدمی کو گرفتار کر کے لے آئیں...!!
یہ ساتوں آدمی ابھی نکلے ہی تھے کہ اچانک انھوں نے دشمن کے لشکر کو سامنے پایا.
جبکہ ان کا گمان یہ تھا کہ لشکر ابھی دور ہے. انھوں نے آپس میں مشورہ کر کے واپس پلٹنے کا فیصلہ کیا. مگر ان میں سے ایک آدمی نے امیر لشکر سعد کی جانب سے ذمہ لگائی گئی مہم کو سرانجام دئیے بغیر واپس لوٹنے سے انکار کر دیا اور یہ چھ افراد مسلمانوں کے لشکر کی جانب واپس لوٹ آئے.
جبکہ ہمارا یہ بطل اپنی مہم کی ادائیگی کیلئے فارسیوں کے لشکر کی جانب تنہا بڑھتا چلاگیا!! انھوں نے لشکر کے گرد ایک چکر لگایا اور اور اندر داخل ہونے کیلئے پانی کے نالوں کا انتخاب کیا اورا س میں سے گزرتا ہوا فارسی لشکر کے ہراول دستوں تک جاپہنچا جو کہ 40 ہزار لڑاکوں پر مشتمل تھے!! .پھروہاں سے لشکر کے قلب سے گذرتا ہوا یک سفید خیمے کے سامنے جاپہنچا ، جس کے سامنے ایک بہترین گھوڑا بندھا کھڑا تھا، اس نے جان لیا کہ یہ دشمن کے سپہ سالاررستم کا خیمہ ہے!! چنانچہ یہ اپنی جگہ پر انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ رات گہری ہو گئی ، رات کا کافی حصہ چھا جانے پر یہ خیمہ کی جانب گئے ، اور تلوار کے ذریعے خیمہ کی رسیوں کو کاٹ ڈالا ، جس کی وجہ سے خیمہ رستم اور خیمہ میں موجود افراد پر گر پڑا ، گھوڑے کی رسی کاٹی اور گھوڑے پر سوار ہو کر نکل پڑے اس سے ان کا مقصد فارسیوں کی تضحیک اور ان کے دلوں میں رعب پیدا کرنا تھا!! گھوڑا لے کر جب فرار ہوئے تو گھڑسوار دستے نے ان کا پیچھا کیا.
جب یہ دستہ قریب آتا تو یہ گھوڑے کو ایڑ لگا دیتے اور جب دور ہو جاتا تو اپنی رفتار کم کر لیتے تاکہ وہ ان کے ساتھ آملیں ، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان میں سے ایک کو دھوکے سے کھینچ کرسعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے حکم کے مطابق لے جائے!!
 چنانچہ 3 سواروں کے علاوہ کوئی بھی ان کا پیچھا نہ کر سکا .. انھوں نے ان میں سے دو کو قتل کیا اور تیسرے کو گرفتار کرلیا...! یہ سب کچھ تن تنہا انجام دیا!! قیدی کو پکڑا ، نیزہ اس کی پیٹھ کے ساتھ لگایا ، اور اسے اپنے آگے ہانکتے ہوئے مسلمانوں کے معسکر جا پہنچے اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا. فارسی کہنے لگا: مجھے جان کی امان دو میں تم سے سچ بولوں گا. سعدرضی اللہ عنہ کہنے لگے: تجھے امان دی جاتی ہے اور ہم وعدے کی پاسداری کرنے والی قوم ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جھوٹ مت بولنا.. پھرسعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں اپنی فوج کے بارے میں بتاؤ ..فارسی انتہائی دہشناک اور ہذیان کی کیفیت میں کہنے لگا :اپنے لشکر کے بارے میں بتانے سے قبل میں تمہیں تمہارے آدمی کے بارے میں بتلاتاہوں !!!! کہنے لگا :
"یہ آدمی، ہم نے اس جیسا شخص آج تک نہیں دیکھا ، میں ہوش سنبھالتے ہی جنگوں میں پلا بڑھا ہوں ، اس آدمی نے دو فوجی چھاؤنیوں کو عبور کیا ، جنہیں بڑی فوج بھی عبور نہ کر سکتی تھی، پھر سالار لشکر کا خیمہ کاٹا ، اس کا گھوڑا بھگا کر لے اڑا ، گھڑ سوار دستے نے اس کا پیچھا کیا ، جن میں سے محض 3 ہی اس کی گرد کو پا سکے ، ان میں سے ایک مارا گیا ۔جسے ہم ایک ہزار کے برابر سمجھتے تھے ، پھر دوسرا مارا گیا جو ہمارے نزدیک ایک ہزار افراد کے برابر تھا ، اور دونوں میرے چچا کے بیٹے تھے۔ میں نے اس کا پیچھا جاری رکھا اوران دونوں مقتولین کے انتقام کی آگ سے میرا سینہ دھک رہا تھا ، میرے علم میں فارس کا کوئی ایسا شخص نہیں جو قوت میں میرا مقابلہ کر سکے اور جب میں اس سے ٹکرایا تو موت کو اپنے سر پر منڈلاتے پایا، چنانچہ میں نے امان طلب کر کے قیدی بننا قبول کر لیا۔اگر تمہارے پاس اس جیسے اور افراد ہیں تو تمہیں کوئی ہزیمت سے دوچار نہیں کر سکتا!!!"
 پھر اس فارسی نے اسلام قبول کر لیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ عظیم بطل کون تھے؟ جنہوں نے لشکر فارس کو دہشت زدہ کیا ، ان کے سالار کو رسوا کیا اور ان کی صفوں میں نقب لگا کر واپس آگئے۔ یہ طلیحہ بن خویلد الاسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
...

سلطان غیاث الدین کے تیر

"سلطان غیاث الدین کے تیر" 
https://link2fakhar.blogspot.com/2020/07/history-of-turkish-rule-in-africa.html
 تمام وزیر میدان میں تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے ۔سلطان غیاث الدین بھی ان کے ساتھ شریک تھا ۔ اچانک سلطان کا نشانہ خطا ہو گیا اور وہ تیر ایک بیوہ عورت کے بچے کو جا لگا۔ اس سے وہ مر گیا۔ سلطان کو پتہ نہ چل سکا۔

وہ عورت قاضی سلطان کی عدالت میں پہنچ گئی۔ قاضی سراج الدین نے عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا:
'' کیا بات ہے ؟ تم کیوں رو رہی ہو؟ "
عورت نے روتے ہوئے سلطان کے خلاف شکایت لکھوائی،
''سلطان کے تیر سے میرا بچہ ہلاک ہو گیا ہے.''
قاضی سراج الدین نے عورت کی بات پوری توجہ سے سنی اور پھر اسی وقت سلطان کے نام خط لکھا:
''آپ کے خلاف شکایت آئی ہے۔ فوراً عدالت میں حاضر ہو جائیں اور اپنے خلاف آنے والی شکایت کا جواب دیں.''
پھر یہ حکم عدالت کے ایک پیادے کو دے کر ہدایت کی:
'' یہ حکم نامہ فوراً سلطان کے پاس لے جاؤ !"
پیادے کو یہ حکم دے کر قاضی سراج الدین نے ایک کَوڑا نکالا اور اپنی گدی کے نیچے چھپا دیا۔ پیادہ جب سلطان کے محل میں پہنچا تو اس دیکھا کہ سلطان کو درباریوں نے گھیر رکھا ہے اور قاضی کا حکم نامی سلطان تک پہنچانا مشکل ہے۔ یہ دیکھ کر پیادہ نے اونچی آواز میں اذان دینا شروع کر دی۔ بے وقت اذان سن کر سلطان نے حکم دیا:
''اذان دینے والے کو میرے سامنے پیش کرو."
پیادے کو سلطان کے سامنے پیش کیا گیا۔ سلطان نے گرج کر پوچھا:
''بے وقت اذان کیوں دے رہے تھے.''
'' قاضی سراج الدین نے آپ کو عدالت میں طلب کیا ہے آپ فوراً میرے ساتھ عدالت چلیں. ''
پیادے نے قاضی صاحب کا حکم نامہ سلطان کو دیتے ہوئے کہا۔ سلطان فوراً اُٹھا۔ ایک چھوٹی سی تلوار اپنی آستین میں چھپا لی ۔ پھر پیادے کے ساتھ عدالت پہنچا۔ قاضی صاحب نے بیٹھے بیٹھے مقتول کی ماں اور سلطان کے بیان باری باری سنے پھر فیصلہ سنایا:
'' غلطی سے ہو جانے والے قتل کی وجہ سے سلطان پر کفارہ اور اس کی برادری پر خون کی دیت آئے گی ۔ ہاں اگر مقتول کی ماں مال کی کچھ مقدار پر راضی ہو جائے تو اس مال کے بدلے سلطان کو چھوڑا جا سکتا ہے ''۔
سلطان نے لڑکے کی ماں کو بہت سے مال پر راضی کر لیا پھر قاضی سے کہا :
'' میں نے لڑکے کی ماں کو مال پر راضی کر لیا ہے ''
قاضی نے عورت سے پوچھا :
'' کیا آپ راضی ہو گئیں.''
'' جی ہاں میں راضی ہو گئی ہوں ''
عورت نے قاضی کو جواب دیا ۔

 اب قاضی اپنی جگہ سے سلطان کی تعظیم کے لیے اٹھے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھایا۔ سلطان نے بغل سے تلوار نکال کر قاضی سراج الدین کو دکھاتے ہوئے کہا:
'' اگر آپ میری ذرا سی بھی رعایت کرتے تو میں اس تلوار سے آپ کی گردن اڑا دیتا.
'' قاضی نے بھی اپنی گدی کے نیچے سے کَوڑا نکال کر سلطان غیاث الدین کو دکھاتے ہوئے کہا:
'' اور اگر آپ شریعت کا حکم ماننے سے ذرا بھی ہچکچاتے تو میں اس کَوڑے سے آپ کی خبر لیتا۔ بےشک یہ ہم دونوں کا امتحان تھا.''

❤ ایسے بھی حکمران تھے اور ایسے عادل منصفین تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ایسے عادل جج اور نیک حکمران عطا فرمائے ..‼
#Ertugrul_Ghazi #Osman_Ghazi
#kurulus  #dirilisertugrul

اسلام کے جرنیل کی عظیم داستان

ثمرقند سے طویل سفر طے کر کے آنے والا قاصد ، سلطنت اسلامیہ کےحکمران سے ملنا چاہتا تھا۔

اس کے پاس ایک خط تھا جس میں غیر مسلم پادری نے مسلمان سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت کی تھی۔

پادری نے لکھا !
  "ہم نے سنا تھا کہ  مسلمان  جنگ اور حملے سے پہلے قبول اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر دعوت قبول نہ کی جائے تو جزیہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر  کوئی ان دونوں شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرے تو  جنگ کے لئے  تیار ہو جاتے ہیں۔

مگر ہمارے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا اور اچانک حملہ کر کے ہمیں مفتوح کر لیا گیا ہے۔  

یہ خط ثمر قند کے سب سے بڑے پادری نے اسلامی سلطنت کے فرماں روا  عمر بن عبد العزیز  کے نام  لکھا تھا۔

دمشق کے لوگوں سے شہنشاہ وقت کی قیام گاہ کا معلوم کرتے کرتے وہ قاصد ایک ایسے گھر جا پہنچا کہ جو انتہائی معمولی اور خستہ حالت میں تھا۔ ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا تھا اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی تھی۔

جس راستے سے آیا تھا واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اُسے راستہ بتایا تھا۔
اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے  اسلامی سلطنت کے بادشاہ کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔

لوگوں نے کہا، ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم وقت عمر بن عبد العزیز  کا گھر ہے ۔

قاصد پر مایوسی چھا گئی اور بے دلی سے دوبارہ اُسی گھرپر جا کر دستک دی، جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا وہی اند ر سے نمودار ہوا۔

قاصدنے اپنا تعارف کرایا اور خط عمر بن عبدالعزیز کو دے دیا۔

عمر بن عبدالعزیز نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر لکھا :
عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام؛ ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔ مہر لگا کر خط واپس قاصدکو دیدیا۔

سمرقند لوٹ کر قاصدنے خط کا جواب اور ملاقات کا احوال جب  پادری کو سنایا ، توپادری پر بھی مایوسی چھا گئی۔
اس نے سوچا کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا ؟ اُنہیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔

مگر کوئی اور راستہ بھی نہ تھا چنانچہ خط لیکر ڈرتے ڈرتے  امیر لشکر اور حاکم ثمرقند قتیبہ بن مسلم کے پاس پہنچے ۔
قتیبہ نے خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی کا تعین کردیا جو اس کے اپنے خلاف سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔

قاضی نے پادری سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا ؟

پادری نے کہا : قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔

قاضی نے قتیبہ کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں ؟

قتیبہ نے کہا : قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے۔
سمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے، بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔

سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا۔

قاضی نے قتیبہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا : قتیبہ میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی ؟

قتیبہ نے کہا : نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔

قاضی نے کہا : میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔
اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل و انصاف کی وجہ سے ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔

میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک اور مال غنیمت چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔
 اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔

پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل  یقین تھا۔ چند گھنٹوں کے اندر ہی مسلمانوں  کا عظیم  لشکر قافلہ در قافلہ شہر کو چھوڑ کے جا  چکا تھا۔

ثمر قندیوں نے اپنی تاریخ  میں ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا کہ جب طاقتور فاتح قوم  کمزور مفتوح قوم کو یوں دوبارہ آزادی بخش دے۔

 ڈھلتے سورج کی روشنی میں لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ کیسا مذہب اور کیسے پیروکار ہیں ۔ عدل کا یہ معیار کہ اپنوں کے خلاف ہی فیصلہ دے دیں۔ اور طاقتور سپہ سالار اس فیصلہ پہ سر جھکا کر عمل بھی کر دے۔

 تاریخ گواہ ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں پادری کی قیادت میں تمام  شہر کے لوگ گھروں سے نکل کر لشکر کے پیچھے سرحدوں کی طرف دوڑے  اور لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے ہوئے اُن کو واپس لے آئے کہ یہ آپ کی سلطنت ہے اور ہم آپ کی رعایا بن کر رہنا اپنے لئے ٖفخر  سمجھیں گے۔

دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔

کبھی رہبر دو عالم  حضرت محمد ﷺ کی امت ایسی ہوا کرتی تھی۔ آج غیر مسلم تو دور کی بات ،مسلمان سے مسلمان کو کوئی امان نہیں۔

  وہ کیا گردوں تھا کہ تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

ابن سینا کا نظریہ اور کورونا

ابن سینا کا نظریہ قرنطینہ

کرونا وائرس نے اس وقت تقریبًا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ اور دنیا بھر کے سائنسدان اس کا توڑ نکالنے یا اس کے خاتمے کے لیئے ویکسین بنانے میں لگے ہوئے ہیں دن رات محنت کر رہے ہیں ۔
ابن سینا مسلم سائنسدانوں میں مشہور ترین سائنسدان تھے ۔ وہ طبیعات ، رہاضی ، فلسفیات ، فلکیات اور ماہر دینیات بھی تھے۔

ابن سینا ایک عظیم طبیب تھے انہوں نے وبائی امراض کے خاتمے کیلئے ہزاروں سال قبل کچھ طریقے ایجاد کرلیے تھے جس سے موجودہ دور میں فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔
آج پوری دنیا میں کورونا پھیل چکا ہے اور اس کی کوئی ویکسین بھی نہیں ہے نا ہی آج سے پہلے کبھی اس کا ذکر ہوا ہے ۔

اس سے بچاؤ کا بس ایک ہی طریقہ ہے وہ احتیاط اور قرنطینہ۔ یہ ایک ایسی وبا ہے کہ جس کی وجہ سے صرف چار ماہ جیسے قلیل عرصے میں لاکھوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اس سے بچاو کے لیئے پوری دنیا میں لاک ڈاون نافذ کر دیا گیا ہے۔

یہ طریقہ بھی ابن سینا کا بتایا گیا طریقہ ہے۔ ابن سینا نے ہزاروں سال قبل قرنطینہ کا فلسفہ پیش کیا تھا کہ کسی بھی وبائی بیماری جو کے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو اس کیلئے سب سے پہلے قرنطینہ اختیار کرنا چاہیے۔

ابن سینا کی سب سے اہم کتاب “دی کینن آف میڈیسن” جو کہ 1025 میں شائع ہوئی اس میں ابنِ سینا نے قرنطینہ سے متعلق اپنا نظریہ پیش کیا سینا کا کہنا تھا کسی بھی انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہونے والی وباء کے آنے پر 40 روز کا قرنطینہ اختیار کیا جائے تاکہ وباء کو پھیلنے سے پہلے کمزور کیا جاسکے۔ ابن سینا کی یہ کتاب بہت مشہور ہے اور روشن چراغ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب سے میڈیسن بنانے والی کمپنیاں اب بھی مستفید ہو رہی ہیں۔

ابن سینا ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے پتہ لگایا کہ یرقان کیسے ہوتا ہے انہوں نے ہی بہت ساری جان لیوا بیماریوں کے علاج کے دوران مریض کو بے ہوش کرنے کا طریقہ بھی بتایا ۔ بہت سے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ ابنِ سینا ایک ایسے طبیب تھے جو اپنی خدمات کا معاوضہ بھی نہیں لیتے تھے۔

اس عظیم مسلمان سائنسدان کی تحقیقات سے آج دنیا بھر کے سائنسدان اور میڈیسن کمپنیاں کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے فائدہ اٹھا رہی ہیں، اور ایک مسلمان قوم ہے جو اپنے اجداد کی اتنی خدمات کے باوجود آج دنیا کے ہر شعبے میں پیچھے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
https://link2fakhar.blogspot.com/2020/07/blog-post_16.html

Ghazi Artaghal history

Asslam o Alikum Doston
Aj hum is post men byan kren Ghazi Artaghal k bary men...jesa k ap janty hen k ghazi Aartaghal Qai qabeelaa k sardar bany apny walid suleman shah ki wafat k bad.
Ghazi Artaghal or unk qabeela Qai ny bohat qurbanian den.or ye sb Allah pak k karam or un pr khas rehmat ki wajah sy hoa.

Amir Ghazi Ertugrul bin Suleiman Shah Qaywi Turkmen 
Ottoman Turkish : ارتغرل ؛ ارطغرل (Ertuğrul)) is a Turkish word and is made up of two words "ار" and "طغرل", "er" means man, soldier. Or "hero" while "tughral tuğrul" means eagle , [2] which is known as the strong bird of prey, [3] thus "ertugrul" means eagle man, eagle soldier or hunter hero, etc. ) [4] (died 1280 AD) Turkish auguz branch qayy clan chief Suleiman son of the Ottoman Empire founder Osman First the father of. [5]The date of birth is around 1191 while the year of death is said to be 1281 and the burial is located in the city of Soghoth in Anatolia . Ertugrul Ghazi was a brave, fearless, fearless, wise, courageous, honest and fearless soldier. He remained loyal to the Seljuk Empire all his life Inspired by the services of Ertugrul , Sultan Aladdin I gave him Soghoth and other towns in the vicinity as a jagir, as well as the title of "High Commander ". After that all the surrounding Turkish tribes came under his rule.

  عید میلاد النبی ﷺ – رحمتِ دو جہاں کی آمد کا دن 🌸 عید میلاد النبی ﷺ – رحمتِ دو جہاں کی آمد کا دن 🌸 عید...