Showing posts with label الپ ارسلان. Show all posts
Showing posts with label الپ ارسلان. Show all posts

Alp Arslaan last episode 27 Urdu subtitles

 Alp Arslaan last episode 27 Urdu subtitles 

Alp Arslaan last episode 27 Urdu subtitles 




🍃🔅🍃🔅🍃🔅🍃🔅🍃🔅🍃🔅🍃🔅🍃🔅🍃🔅🍃🔅🍃    


*🍃دو چـیـزیـں اچھـی بھـی اور بـری بھـی🍃*


*ایک بہت بڑے حکیم گزرے ہیں، جن کا نام لقمان تھا۔ یہ دوا دینے والے حکیم نہیں تھے بلکہ اللہ تعالی نے ان کو بہت زیادہ سمجھ اور عقل عطا کی تھی، جس کی وجہ سے اچھی اچھی اور حکمت کی باتیں لوگوں کو بتایا کرتے تھے اور لوگوں کے مسائل حل کر دیا کرتے تھے ۔ یہ ایک مالک کے نوکر تھے۔*


 *ایک مرتبہ کی بات ھے کہ ان کے مالک نے ان سے کہا  جاؤ، ایک بکری ذبح کرو اور اس کے پورے جسم میں سے دو اچھے حصے کاٹ کا میرے پاس لے آؤ۔ چنانچہ لقمان گئے اور بکری ذبح کی، پھر اس کے جسم سے دل اور زبان کو کاٹ کر مالک کے سامنے پیش کر دیا۔*


*مالک نے پھر حکم دیا: جاؤ، اب دوسری بکری ذبح کرو اور اس کے جسم کے دو سب سے خراب حصے کاٹ کر لے آؤ۔ اس مرتبہ بھی لقمان نے وھی دو حصے دل اور زبان لاکر مالک کے سامنے رکھ دیے۔ مالک نے تعجب سے پوچھا: یہ کیا بات ھے کہ تم دونوں مرتبہ یہی دو حصے لائے!*


 *لقمان نے جواب دیا: اصل بات یہ ھے کہ دل اور زبان  اگر ٹھیک رہیں، تو جسم میں ان سے اچھا اور کوئی حصہ نہیں اور اگر یہ دونوں بگڑ جائیں تو جسم میں ان سے زیادہ خراب بھی کوئی حصہ نہیں۔*

Alp Arslaan last episode season 2 Urdu subtitles

  *پیارے دوستو! ھمیں چاہیے کہ زبان کی حفاظت کریں، گندی بات نہ کریں اور دل کو ھمیشہ صاف رکھیں۔ کسی کو برا نہ سمجھیں ....!!!*

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے 



Alp Arslan episode 26 Urdu subtitles

Alp Arslan episode 26 Urdu subtitles 

Alp Arslan episode 26 Urdu subtitles




🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴


*گھر کا ماحول بہترین درسگاہ اور ایک شاندار منیجر*



ایک بڑی کمپنی کو منیجر کی پوسٹ کے لئے کسی انتہائی قابل شخص کی تلاش تھی تاہم  پینٹ کوٹ پہنے ہوئے اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں کے درجنوں انٹرویوز کے باوجود کوئی بھی امیدوار یہ نوکری حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا، اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ کمپنی کا مالک انٹرویورز کے پینل میں خود بھی بیٹھتا تھا اور جب پینل کے دیگر ممبران اپنے سوالات مکمل کر لیتے تو مالک آخر میں ہر امیدوار سے یہ سوال ضرور پوچھتا کہ ایک اچھے منیجر کی سب سے خاص بات کیا ہوتی ہے؟ 


اس سوال کے جواب میں میں کوئی امیدوار کہتا کہ ایک اچھے منیجر کو وقت کا پابند ہونا چاہیے، کسی کا جواب ہوتا اسے پروفیشنل ہونا چاہیے، کوئی کہتا اسے سکلڈ ہونا چاہیے اسی طرح کوئی تجربہ کاری، کوئی ذمہ داری تو کوئی ایمانداری کو اچھے منیجر کی پہچان بتاتا، تاہم کمپنی مالک ان میں سے ہر جواب پر غیر تسلی بخش انداز میں خاموش ہو جاتا اور امیدوار کو جانے کا کہہ دیتا، پینل کے دیگر ممبران ایک تو انٹرویو کر کر کے تنگ آچکے تھے دوسرا وہ اس تجسس میں تھے کہ آخر کمپنی مالک کے نزدیک ایک اچھے منیجر کی سب سے خاص بات کیا ہو سکتی ہے، انھوں نے خود بھی اس سوال کا جواب کمپنی مالک سے جاننے کی کوشش کی تاہم مالک نے اپنا مطلوبہ جواب کسی پر ظاہر نہیں کیا اور پینل کو انٹرویوز جاری رکھنے کو کہا۔


ایک روز ایک سادہ سے کپڑوں میں ملبوس اور عام سے حلیے والا نوجوان انٹرویو دینے آ گیا، اسے دیکھ کر پینل کے ممبران طنزیہ انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں کہ اتنے ماڈسکاڈ اور اپ ٹو ڈیٹ قسم کے لوگ یہ انٹرویو پاس نہیں کر پائے تو یہ دیسی سا انسان کہاں سلیکٹ ہو پائے گا اور اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اسے اس سوال کا جواب معلوم ہو جو باقی امیدواروں کی ناکامی کی وجہ بنا۔


خیر نوجوان نے پینل کے سوالات کے انتہائی اعتماد سے جواب دئیے، جس کے بعد کمپنی کے مالک نے اپنا سوال پوچھا جینٹل مین، یہ بتائیں کہ ایک اچھے منیجر کی سب سے بہترین کوالٹی کیا ہوتی ہے؟


نوجوان نے سوال سن کر کچھ دیر کے لیے سر جھکایا اور پھر کمپنی مالک کی طرف دیکھ کر پورے اعتماد سے مسکرا کر کہا:

سر، اچھا منیجر وہی ہے جو کمپنی کے معاملات کو کمپنی کے مالک سے بھی زیادہ بہتر جانتا اور سمجھتا ہو اور جس کے ہوتے ہوئے مالک برائے نام مالک ہی کہلائے، یہ عجیب و غریب سن کر پینل ممبران چونک گئے، وہ نوجوان کی اس  بدتمیزی اور  گستاخانہ لہجے پر تلملا اٹھے اور اس پر 'شٹ اپ' اور' ماینڈ یور لینگویج' جیسے کلمات کی بوچھاڑ کر دی تاہم کمپنی مالک نے ممبران کو خاموش رہنے اور انتظار کرنے کو کہا پھرمسکرا کر نوجوان سے مخاطب ہو کر کہا: بالکل ٹھیک جواب دیا آپ نے لیکن یہ بات آپ نے کس سے سیکھی؟ 


پینل ممبران حیرت سے ایک دوسرے کے منہ دیکھنے لگے، نوجوان نے بد دستور خود اعتمادی کے ساتھ مسکراتے ہوئے جواب دیا سر اپنے گھر سے اور اپنے والدین سے۔


پینل ممبران نوجوان کی بات غور سے سننے لگے نوجوان نے باری باری ان ممبران کی جانب دیکھتے ہوئے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی کہ ہم بہن بھائیوں نے اپنے والد کو اپنے گھر کے سربراہ کا درجہ دیا، ایک منٹ کے لئے مان لیجیے کہ وہ کمپنی مالک تھے، گھر بھر کی کفالت ان کی ذمہ داری تھی لیکن گھر کو چلانا کس منیجر کا کام تھا؟ 


کس کے کپڑے کہاں ٹانگے ہیں، کس کے جوتے کہاں رکھے ہیں، کس کی کتابیں کہاں دھری ہیں، کس کے کھلونے کہاں پڑے ہیں، کپڑے گندے ہو گئے تو کون دھوے گا، استری کر کے کون دے گا،  سب کی من پسند  کھانا بنانا، بنا کے سامنے رکھنا، پھر برتن دھونا کس کی ذمہ داری ہے، پھر گھر بھر کی صفائی، جھاڑوپونچھ، فرش کی دھلائی، رات سب کو سلاکر پھر سونا، صبح سب سے پہلے جاگ کر سب کو جگانا، ایک ایک کو کھلا پلاکر تیار کر کے سکول بھیجنا، کپڑے پھٹ جاتے تو پیوند لگانا، بٹن ٹوٹ جاتا تو ٹانکا لگانا، بیمار پڑ جاتے تو پرہیز والا کھانا اور دوائی دینا،عید شادیوں، سیر سپاٹے، رشتہ داروں سے ملنے جانے کے لئے سب کی تیاری،گھر میں دعوت پر درجن بھر مہمانوں کا کھانا بنانا، سر میں تیل ڈالنا، جوییں نکالنا، بخار میں ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں رکھنا،  مالش کرنا، کبھی کھیر، کبھی حلوہ، کبھی گجریلا کبھی کھچڑی، کبھی زردہ، کبھی شربت، کبھی ابلے ہوئے انڈے،  اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ 

الپ ارسلان قسط نمبر 25 دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں

یہ سب مینج کرنے والی میری امی تھیں، وہ شاندار منیجر تھیں، کبھی بھول کر ہم ابو سے پوچھ لیتے کہ ہماری فلاں چیز کہاں پڑی ہے تو ڈانٹ کر کہتے ارے بھئی مجھے کیا معلوم اپنی امی سے پوچھو اور اس سے بھی مزیدار بات یہ کہ خود ابو کا موبائل، پرس، کپڑے، جوتے، موٹر سائیکل کی چابی حتیٰ کہ دفتر کی فائلیں تک امی کے پتے پر ہوتی تھیں، تبھی ہم اکثر ابو کو چھیڑتے ہوئے کہا کرتے تھے، آپ تو بس برائے نام ہی گھر کے مالک ہیں، آپ سے کہیں زیادہ تو امی گھر کو جانتی اور سمجھتی ہیں اور ابو بھی ہنس کر اعتراف کیا کرتے کہ امی کے ہوتے ہوئے انھیں کبھی کسی بھی بات کی فکر نہیں ہوتی، اس لیے وہ  گھر کے برائے نام مالک ہی ٹھیک ہیں۔ 


بس سر اس لیے میرے نزدیک ایک اچھے منیجر کی یہی تعریف ہے، کمپنی مالک نے  تحسین آمیز نگاہوں سے نوجوان کو دیکھا اور پھر پینل سے مخاطب ہو کر کہا آپ سب نے اس نوجوان کا جواب سن کر اسے ڈانٹ دیا تھا لیکن اب جبکہ اس نے اپنے جواب کی تشریح کی ہے تو مجھے امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس کے جواب کے پیچھے اس کا مشاہدہ بھی ہے اور عمر بھر کا تجربہ بھی اور ایک ٹھوس نظریہ بھی۔ 


مجھے بھی ایسا ہی منیجر چاہیے، جس کے ہوتے ہوئے میں برائے نام مالک اور بے فکر شخص بن جاؤں، یہ کہہ کر کمپنی مالک نے نوجوان کو منیجر کی پوسٹ کے لئے منتخب ہونے کی مبارک باد دیتے ہوئے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا اور پینل کے ممبران کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگ گئے۔

Alp arslan episode number 26 dekhny k ley Yahan click kren

اس کہانی کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ گھر کا ماحول بہترین درسگاہ ہے اور دوسرا یہ کہ  دوسروں کو قائل کرنے کے لیے رٹی رٹائی اور گھسی پٹی کتابی باتوں کا سہارا لینے کی بجائے سادہ الفاظ، عملیت پسندی اور فطری مشاہدات پر مبنی سوچ سے کام لیں، آپ زیادہ معتبر ٹھہریں گے.....


التماسِ دعا:

اَلَّهُمَّ صَلِ عَلَى ُمُحَمَّدٍ ُّوعَلَى اَلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ ابْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْد مَجِيِد۔ 

اَلَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وعَلَى اَلِ مُحَمّدٍ كَمَابَارَكْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْد مَّجِيد.....

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے 


Alp Arslan episode 25 urdu subtitles

 Alp Arslan episode 25 urdu subtitles 

Alp Arslan episode 25 urdu subtitles




*.                     خواہشات کی غلامی مت کیجیے* 


 ایک دفعہ ایک چوہے کی دوستی ایک جن سے ہو گٸی ۔ چوہا دن بھر جن کے ساتھ مزے کیا کرتے مزے مزے کے کھانے بغیر محنت ہی مل جاتے ۔ زندگی بہت مزے سے گزر رہی تھے ۔ ایک دن چوہے نے جن سے پوچھا کیا ایسا ممکن نہیں تم مجھے اپنی طاقت سے بلی بنا دو ۔ جن نے کہا ایسا ممکن تو ہے مگر تم ایسا کیوں چاہتے ہو کیا میرے ساتھ دوستی کا لطف نہیں آ رہا ۔* 


نہیں نہیں ایسی بات نہیں اصل میں مجھے بلی سے ڈر لگتا ہے اس لیے خواہش ہے کہ خود ہی بلی بن جاوں ۔ جن نے کہا یہ بات ہے تو چلو آنکھیں بند کرو میں تمھیں بلی بنا دیتا ہوں ۔ جن نے پلک جھپکنے میں چوہے کو بلی بنا دیا ۔ اب چند دن گزرے کے چوہے نے کہا یار جن بلی بن کر مجھے لطف نہیں آیا تو جن کہنے لگا ٹھیک ہے میں تمھیں دوبارہ چوہا بنا دیتا ہوں ۔چوہا فورا بولا۔ او نہیں نہیں اصل میں میری خواہش ہے کتا بن جاوں ۔ وہ کیوں ۔ یار مجھے کتا گھورتا ہے تو میری خواہش ہے کتا بن کر ذرا اس کی طاقت کا لطف لوں ۔ جن نے کہا ٹھیک ہے اور چوہے کو بلی سے کتا بنا دیا ۔ 




پھر ابھی چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ چوہے نے کہا یار جن ایک اور خواہش ہے اگر ناراض نہ ہو تو میرا وعدہ یہ آخری بات مان لو ۔ جن نے کہا وہ کیا ہے جناب ۔ یار میں نے سنا ہے کہ بھیڑیا کے دانت کتے سے زیادہ نوکیلے ہوتے ہیں اور اس سے سب ڈرتے ہیں ۔ *مجھے ایسا رعب دار بننا ہے جس کی زیادہ سے زیادہ جنگل میں مانی سنی جاۓ ۔جن نے کہا ٹھیک ہے کوشش کرتے ہیں مگر یہ تم کن چکروں میں پڑ گٸے ہو ۔تم نے تو خواہشات کی غلامی شروع کر دی ہے* جبکہ بنانے والے خدا نے تمھیں اگر چوہا بنایا ہے تو اس کی منشا میں بے شمار حکمتیں ہوں گی ۔ *اچھا نا یار اب تم تقریر کرنے لگے ہو کہا نا اس بار میری بات مان لو ۔ جن نے پلک جھپکنے میں جن نے چوہے کو کتے سے بھیڑیا بنا دیا ۔* اب چوہا جنگل میں رعب سے چلنے پھرنے لگا پھر کیا ایک دن شیر سے اس کا سامنا ہو گیا تو چوہے کو محسوس ہوا کہ جنگل کے جانور بھیڑیا سے زیادہ شیر سے ڈرتے ہیں اور تو اور اس کی چھاتی چوڑی اور پنجہ زور دار ہے۔۔




اس فکر نے اسے بے چین کیا ہوا تھا ۔ *اب دل ہی دل میں خواہش پیدا ہو رہی تھی کہ اس شیر جیسا کیوں نا بنا جاۓ ۔اب اس خواہش نے چوہے جناب کے دن رات کی نیندیں اڑاٸی ہوٸی تھی۔بالآخر ضبط ٹوٹا اور اپنے دوست جن کے پاس منہ بناۓ پہنچ گیا اور کہا یار بھیڑیا بنانے پر تیرا شکریہ مگر جنگل میں ایک شیر ہی باقی رہ گیا ہے سارا جنگل اسی کی بادشاہت میں ہے میری جیسے کوٸی عزت اور مقام ہی نہیں ۔* بس مجھے بھیڑیا سے شیر بننا ہے ۔ اب میں اور کچھ نہیں سنوں گا ۔ تجھے اس دوستی کی لاج رکھنی ہے ۔جن خاموشی سے چوہے کی گفتگو سنتا رہا اور کہا چلو آنکھیں بند کرو کچھ کرتے ہیں ۔چوہے نے خوشی سے پھولے نا سماتے جلدی سے آنکھیں بند کر لیں ۔ 


Watch Alp Arslan episode 25 in Urdu click this line

جن نے اپنی طاقت کا زور لگایا اور چوہے کو بھیڑیے سے دوبارہ چوہا بنا دیا اور کہا آنکھیں کھولو ۔ *چوہے نے آنکھیں کھولیں تو حیران رہ گیا یہ کیا۔میں پھر سے چوہا بنا دیا گیا ہوں ۔چوہے نے کہا تم کیسے دوست ہو طاقت ہونے کے باوجود تم نے مجھے چوہا بنا دیا حالانکہ تم میری یہ خواہش پوری کر سکتے تھے ۔ جن نے بڑے پیار سے اسے سمجھایا یار دیکھو میں تمھیں دنیا کی کچھ بھی چیز بنا دوں تمھارے جسم کو بدل دوں اس سے ذرا فرق نہیں پڑے گا* 



۔کیونکہ تمھارا جسم جو بھی ہو تم دنیا کی کسی نا کسی چیز سے خوفزدہ رہو گے اور ہر بار ایک نٸی خواہش کے پیچھے بھاگو گے کیونکہ تمھارا دل تو چوہے کا ہے ۔ *تم دنیا میں کسی بھی مقام و مرتبے کا حقیقی لطف لینا چاہتے ہو تو پہلے اپنے دل کو بدلنا ہوگا۔چوہے نے فورا سوال کیا، کیا تم میرا دل نہیں بدل سکتے؟ نہیں! دل بدلنا میرا کام نہیں ہے۔ وہ تب بدلے گا، جب وہ خود چاہے گا۔ جب تم دل سے چاہو گے تو تمہارا دل بدلے گا۔* پھر تمہیں خالق کی حکمت سمجھ میں آۓ گی اور چوہا ہونے کی وہ طاقت نظر آئے گی! جو بلی، کتے، بھیڑیے یا شیر کے پاس بھی نہیں ہے ۔ تب تم خالق کے بنائے اپنے وجود سے نفرت نہیں کرو گے، بلکہ اپنی طاقتوں کو پہچان کر کام میں لاؤ گے۔ سر تبسم نے اس کہانی کو لکھنے میں اگر اتنا وقت لگایا ہے تو سب سے بڑا مقصد آپ کو یہی سمجھانا ہے کہ خواہشات کی غلامی مت کیجیے ۔ *نفس کو کنٹرول کریں ایسے مت زندگی گزاریں کے نفس آپ کو کنٹرول کر رہا ہو ۔دل میں ذرا سی جو خواہش پیدا ہوٸی اس کے پورا کرنے کے لیے آپ جاٸز نا جاٸز دیکھے بغیر حلال حرام دیکھے بغیر کوشش شروع کر دیں ۔دل خواہشات کا مرکز ہے اگر اس پر قابو پا لیا جاۓ تو انسان عزت کماتا ہے انسان سکون پاتا ہے اور اگر اسے لگام نہ ڈالی تو یہ آپ کو ذلیل و رسوا کر دے گا ۔



چوہا تو ایک چھوٹی سی مثال ہے یاد رکھیں اس دنیا میں ہم سب بھی اپنی صلاحیتوں اور کمزوریوں کے ساتھ آئے ہیں۔ ہم میں سے کچھ دوسروں کی ظاہری طاقت سے مرعوب ہو کر ان جیسا بننا چاہتے ہیں۔* مگر بھول جاتے ہیں کہ جس خالق نے دوسروں کو بنایا ہے، اسی نے ہمیں بھی تخلیق کیا ہے۔ ہمیں خود کو عطاء کردہ صلاحیتوں کو پہچان کر انکا فائدہ اٹھانا چاہیئے نہ کہ کسی دوسرے کا بہروپ بن کر زندگی گزارنے کی خواہش رکھنا ۔ *خواہشات کی اندھی پیروی چھوڑ کر اپنے آپ کو پہچانیے کیونکہ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے رب کو پہچان لیا*



  عید میلاد النبی ﷺ – رحمتِ دو جہاں کی آمد کا دن 🌸 عید میلاد النبی ﷺ – رحمتِ دو جہاں کی آمد کا دن 🌸 عید...