Showing posts with label اسلام. Show all posts
Showing posts with label اسلام. Show all posts

شکر کی اہمیت و فضیلت

 شکر کی اہمیت وفضیلت 

شکر کی اہمیت و فضیلت 





شکر کی اہمیت🌹


🌹قرآنی آیات کی روشنی میں🌹


فَاذۡكُرُوۡنِىۡٓ اَذۡكُرۡكُمۡ وَاشۡکُرُوۡا لِىۡ وَلَا تَكۡفُرُوۡنِ  ۞ 


(سورة البقرة آیت نمبر 152)


*"پس تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرتے رہو، کفران نعمت نہ کرو"*


مَا يَفۡعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمۡ اِنۡ شَكَرۡتُمۡ وَاٰمَنۡتُمۡ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِيۡمًا ۞ 

(سورة النساء آیات نمبر 147)


*"اگر تم لوگ اللہ کا شکر ادا کرو اور خلوص نیت سے ایمان لے آؤ تو اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں عذاب دے (جبکہ) اللہ بڑا قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے"*


وَاِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّكُمۡ لَئِنۡ شَكَرۡتُمۡ لَاَزِيۡدَنَّـكُمۡ‌ وَلَئِنۡ كَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِىۡ لَشَدِيۡدٌ‏ ۞ 

(سورة ابراھیم آیات نمبر 7)



*"اور جب تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا : اگر تم شکر کزار بنو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو پھر میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے"*


وَاٰتٰٮكُمۡ مِّنۡ كُلِّ مَا سَاَلۡـتُمُوۡهُ‌ ؕ وَاِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ لَا تُحۡصُوۡهَا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَـظَلُوۡمٌ كَفَّارٌ  ۞ 

(سورة ابراھیم آیات نمبر 34)


شکر کی اہمیت و فضیلت 

*"اور جو کچھ بھی تم نے اللہ سے مانگا وہ اس نے تمہیں دیا۔ اور اگر اللہ کی نعمتیں گننا چاہو تو کبھی ان کا حساب نہ رکھ سکو گے۔ انسان تو ہے ہی بےانصاف اور ناشکرا"*


۔۔۔۔۔۔ وَسَيَجۡزِى اللّٰهُ الشّٰكِرِيۡنَ ۞ 

(سورة آل عمران آیات نمبر 144)


*"اور جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے اللہ تعالیٰ جلد ہی اچھا بدلہ عطا کرے گا"*


۔۔۔۔۔۔۔وَمَنۡ يَّشۡكُرۡ فَاِنَّمَا يَشۡكُرُ لِنَفۡسِهٖ‌ۚ وَمَنۡ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ حَمِيۡدٌ‏

(سورة لقمان آیات نمبر 12)


شکر کی اہمیت و فضیلت 


*"جو کوئی شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی (فائدہ کے) لئے کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو اللہ یقینا (اس کے شکر سے) بےنیاز ہے اور خود اپنی ذات میں محمود ہے"*


    •┈┈•┈┈•⊰✿•🌼•✿⊱•┈┈•┈┈•

یہ کوئی تضاد یا نفاق نہیں بلکہ توبہ کی امید ہے

 یہ کوئی تضاد یا نفاق نہیں بلکہ توبہ کی امید ہے 

یہ کوئی تضاد یا نفاق نہیں بلکہ توبہ کی امید ہے 









یہ کوئی تضاد یا نفاق نہیں بلکہ توبہ کی امید ہے 




یہ کوئی تضاد یا نفاق نہیں ہے...


ایک ایسا گناہ جس سے چھٹکارا حاصل کرنا بظاہر آسان لگتا ہے، لیکن کرنے والے کے دل پر وہ بہت بھاری ہوتا ہے۔

مثلاً:


ایک شخص جو سگریٹ پیتا ہے لیکن قرآن بھی پڑھتا ہے۔


ایک سگریٹ نوش جو نماز کا پابند ہے۔


ایک خاتون جو بے پردہ ہے لیکن سفر میں قرآن سنتی ہے اور وقتِ نماز اسدال پہن کر نماز ادا کرتی ہے۔


ایک شخص جو پوشیدہ گناہوں کا عادی ہے لیکن سردی کے موسم میں بھی غسل کر کے فجر کی نماز پڑھتا ہے۔

ایک شخص 25 سال کی عمر میں ارب پتی کیسے بنا؟

یہ نفاق یا تضاد نہیں، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل میں شیطان مایوسی پیدا نہیں کر سکا۔ وہ اللہ سے ہدایت اور توبہ کی امید رکھتے ہیں۔


لہٰذا، کبھی یہ نہ سوچیں کہ آپ کے کچھ گناہوں کی وجہ سے آپ اور اللہ کے درمیان تمام تعلقات ختم ہو گئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"اور جو لوگ ہمارے راستے میں کوشش کرتے ہیں، ہم ضرور ان کو اپنے راستے دکھائیں گے۔"

(سورہ العنکبوت: 69)


اور فرمایا:

"اور کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ انہوں نے نیک عمل بھی کیے اور برے بھی۔ امید ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کر لے۔ بے شک اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔"

(سورہ التوبہ: 102)











یہ کوئی تضاد یا نفاق نہیں بلکہ توبہ کی امید ہے 

عشر کا حساب کیسے لگائیں ؟

 عشر کا حساب کیسے لگائیں آسان طریقہ





*ایک گاؤں کے عشر کا حساب*

*فرض کرتے ہیں کہ ایک موضع میں 1000ایکڑ پر گندم لگی ہے جو ایورج 40 من فی ایکڑ ہوگی۔*

*کل گندم 40 ہزار من ہوگی*

*ہر بیسواں من عشر ہے جسکی* *کوئی معافی نہیں وہ شامل ہوکر باقی 19 من کو بھی ناپاک کرے گا۔ ہمارے گھروں میں بے برکتی* *و دیگر مسائل اسی وجہ سے ہیں بے موسمی بارشوں کو بھی دیکھ کر ہم اللّٰہ کی طرف* *متوجہ نہیں ہوتے۔ہم اللّٰہ کا یہ حق ادا نہیں کرتے۔ علماء توجہ دلاتے ہیں مگر ہم ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔*

*100 سے 5 من اور ہزار من سے 50 من عشر ہوا* 

*کل 40 ہزار من کا عشر 2 ہزار من گندم بنتا ہے*  

*3900 روپے ایک من گندم کی قیمت ہے۔ تو  2 ہزار من کی قیمت 78لاکھ روپے بنتی ہے۔*

*جس سے گاؤں کا کوئی ایک بھی غریب و سفید پوش سال بھر کی گندم سے محروم نہیں رہ سکتا۔*

*بد قسمتی سے اس 2ہزار من میں سے میرے خیال میں 2سو من بھی عشر بڑی مشکل سے نکلتا ہوگا۔* 

*جو چند گھر نکالتے ہیں*

*آئیں تمام زمیندار بھائیوں کی توجہ اس طرف دلائیں*

*ہمیں اپنے حصے کا دیپ بھی جلانا ہے۔*

کراماتِ اولیاء قرآن وحدیث کی روشنی میں

کرامات اولیاء قرآن وحدیث کی روشنی میں 




 قراٰن سے ثبوت:حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے پاس گرمی کے پھل سردیوں میں اور سردیوں کے پھل گرمی میں موجود ہوتے۔ 

(تحفۃ المرید،ص363) حضرت زَکَرِیَّا علیہ السَّلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے پوچھا:یہ پھل تمہارے پاس کہاں سے آئے؟ تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:یہ اللہ پاک کی طرف سے ہیں چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے

:( كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ-وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاۚ-قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَاؕ-قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-) ترجمۂ کنزالایمان:جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ بولیں وہ اللہ کے پاس سے ہے۔(پ3، اٰل عمرٰن:37)




جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے لشکر سے فرمایا کہ تم میں کون ایسا شخص ہے جو بلقیس کے آنے سے پہلے ان کے تخت کو میرے پاس لے آئے؟تو جنات میں سے ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا کہ آپ اپنے مقام سے اٹھنے سے قبل میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں،آپ نے فرمایا:مجھے وہ تخت اور جلد چاہئیے! تب حضرت آصف بن برخیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت چاہی اور پلک جھپکنے سے پہلے آپ کی خدمت میں وہ تخت لے کر حاضر ہوگئے۔جیساکہ سورئہ نمل  میں مذکور ہے




اللہ تعالی کی عظیم قدرت سے اصحاب کہف کی یہ کرامت ہے کہ انہوں نے تین سو نو( 309)سال کا طویل عرصہ غار میں بغیر کچھ کھائے‘پئے گزارا ،ان کے جسم سلامت رہے، اور ان کے در پر رہنے والاکُتَّابھی محفوظ رہا۔ جتنا عرصہ اصحاب کہف نے غار میں گزارا اتنے عرصہ تک سورج نے اپنی روش کو تبدیل کردیا،جب وہ طلوع ہوتا تو دائیں جانب ہوجاتا اور جب غروب ہوتا تو بائیں جانب ہوکر غروب ہوتا،اس طرح سورج کی شعاعیں ان پر نہ پڑتیں۔سورج کا اپنے مقررہ نظام سے ہٹ کر اس طرح طلوع وغروب ہونا قدرتِ خدا وندی کی دلیل اوراصحاب کہف کی کرامت ہے








حدیث شریف سے کرامت کا ثبوت:ترجمہ:سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہےمیں اس سے جنگ کا اعلان کرتا ہوں،اور میرا بندہ میری بارگاہ میں کسی چیز کے ذریعہ تقرب حاصل نہیں کیا جو اس فرض سے زیادہ محبوب ہو جو میں نے اس کے ذمہ کیا ہے ،اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ مسلسل میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں ‘پھر جب میںاسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے،میں اس کی آنکھ ہوجاتاہوں جس سے وہ دیکھتا ہے،میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے،میں اس کے پیر ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور بضرور اسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ طلب کرے تو ضرور بضرورمیں اسے پناہ دیتا ہوںاور میں کسی چیز کو کرنا چاہوں تو اس سے توقف نہیں کرتا ،جس طرح مومن کی جان لینے سے توقف کرتا ہوں جبکہ وہ موت کو ناپسند کرے،اور میں اس کو تکلیف دینا گوارا نہیں کرتا۔( صحیح البخاری ،کتاب الرقاق، باب التواضع ،حدیث نمبر:6502)اس حدیث قدسی سے اولیاء کرام و صالحین امت کی عظمت وجلالت کا اظہار ہوتا ہے اوران کی کرامات کا ثبوت ملتا ہے کہ جب ان کی سماعت وبصارت،کلام وحرکت میں قدرت الہی کار فرما ہے تو وہ اپنے کان سے قریب کی بھی سنتے ہیں اور دور کی بھی،اپنی آنکھ سے قریب کو بھی دیکھ لیتے ہیں اور دور کو بھی۔



امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ ایک صالح نوجوان کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: اے فُلاں! اللہ  پاک نے وعدہ فرمایا ہے کہ (وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(۴۶)) ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جَنّتیں ہیں۔(پ27،الرحمٰن: 46) اے نوجوان!بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟اس صالح نوجوان نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارااوربُلَند آواز سے دو مرتبہ جواب دیا: میرے رب نے مجھے یہ دونوں جنّتیں عطا فرما دیں۔(حجۃ اللہ علی العالمین،ص612




حضرت سیّدُنا سفینہ رضی اللہ عنہ کی کرامت بھی بہت مشہور ہے کہ یہ رُوم کی سَرزمین میں دورانِ سفر اسلامی لشکر سے بِچَھڑ گئے۔ لشکر کی تلاش میں جارہے تھے کہ اچانک جنگل سے ایک شیر نکل کر ان کے سامنے آگیا۔حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے شیر کو مخاطب کر کے کہا: اے شیر! اَنَامَولٰی رَسُولِ اللہِ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم یعنی میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا غلام ہوں، میرا معاملہ اِس اِس طرح ہے۔ یہ سُن کر شیر دُم ہِلاتا ہُوا ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا۔ جب کوئی آواز سنتا تو اُدھر چلا جاتا، پھر آپ کے بَرابَر چلنے لگتا حتّٰی کہ آپ لشکر تک پہنچ گئے پھر شیر واپس چلا گیا۔(مشکاۃ المصابیح ،ج2،ص400،حدیث:5949




ہمارے پیارے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے صحابی حضرت عبدُاللہ رضی اللہ عنہ کا علمِ غیب دیکھئے کہ اپنی مَوت، نَوعِیَتِ مَوت، حُسنِ خاتِمَہ وغیرہ سب کی خبر پہلے سے دے دی۔ چنانچہ حضرت سیّدُنا جابِر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب غَزْوَۂ اُحُد ہوا میرے والد نے مجھے رات میں بُلا کر فرمایا: میں اپنے متعلق خیال کرتا ہوں کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ میں پہلا شہید میں ہوں گا۔میرے نزدیک رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد تم سب سے زیادہ پیارے ہو۔ مجھ پر قرض ہے تم ادا کردینا اور اپنی بہنوں کے لئے بھلائی کی وَصِیَّت قبول کرو۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم نے دیکھا صبح سب سے پہلے شہید وہی تھے۔(بخاری،ج1،ص454،حدیث:1351مختصراً




نماز کے 100 اہم ترین مسائل بمعہ فرائض واجبات


 نماز کے 100 اہم مسائل


نماز کےفراٸض


١-جگہ کا پاک ہونا

٢-جسم کا پاک ہونا

٣-کپڑوں کا پاک ہونا

٤-ستر کا چھپانا

٥-وقت کی پہچان کرنا

٦-قبلہ رخ ھونا

٧-نیت کرنا

٨-تکبیر تحریمہ کہنا

٩-قیام کرنا

١٠-قرأت کرنا

١١-رکوع کرنا

١٢-دو سجدے کرنا

١٣-آخری قعدہ میں تشہد کی مقدار بیٹھنا۔



واجبات نماز


١-فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں اور باقی تمام نمازوں کی تمام رکعتوں میں سورت فاتحہ پڑھنا

 ٢-فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں اور باقی تمام نمازوں کی تمام رکعتوں میں کوٸی ایک سورت پڑھنا

  ٣-سورت فاتحہ سورت سے پہلے پڑھنا

٤-امام کا سری نمازوں میں آہستہ اور جہری نمازوں میں بلند آواز سے تلاوت کرنا

 ٥ -قومہ کرنا

 ٦-جلسہ کرنا

 ٧-تعدیل ارکان

 ٨- ترتیب ارکان 

٩- قعدہ اولٰی میں تشہد کی مقدار بیٹھنا 

١٠- دونوں قعدوں میں تشہد پڑھنا 

١١- قعدہ اولیٰ میں تشہد پڑھنے کے فوراً بعد تیسری رکعت کےلیے کھڑا ہونا

 ١٢- نماز وتر کی تیسری رکعت میں تکبیر کہنا اور دعاۓ قنوت پڑھنا

 ١٣-نماز عیدین میں زاٸد چھ تکبیریں کہنا

 ١٤- لفظ اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ  کہ کر نماز مکمل کرنا ۔


     مفسدات نماز


1۔سلام کرنا قصداً ہو یا بھول کر۔


2۔کلام کرنا قصداً ہو یا بھول کر۔


3۔کسی بھی بات کا جواب دینا قصداً ہو یا بھول کر۔


4۔تکلیف کی وجہ سے آہ یا اُف کرنا ۔


5۔کسی بری خبر پر انا للہ اچھی خبر پر الحمداللہ یا عجیب خبر پر سبحان اللہ کہنا ۔


6۔درد یا مصیبت میں آواز کے ساتھ رونا ۔


7۔اپنے امام کے سوا کسی کو لقمہ دینا۔


8۔امام سے آگے بڑھ جانا یعنی کسی رکن کو امام سے پہلے ادا کرنا۔


9۔قران شریف دیکھ کر پڑھنا۔


10۔قرآن شریف پڑھنے میں کوئی سخت غلطی کرنا۔

11۔ناپاک جگہ پر سجدہ کرنا۔


12۔کھانا پینا قصداً ہو یا بھول کر۔


13۔سینہ کو بلا عذر قبلہ سے پھیر لینا۔


14۔ستر کھل جانے کی صورت میں ایک رکن کی مقدار ٹھہرنا۔


15۔دو صف آگے یا دو صف پیچھے چلنا ۔


16۔بالغ آدمی کا نماز میں قہقہہ لگا کر یا با آواز ہنسنا


17۔عمل کثیر یعنی کوئی ایسا عمل کرنا جس سے دیکھنے والے یہ سمجھیں کہ یہ شخص نماز نہیں پڑھ رہا۔


18۔دعا میں ایسی چیز مانگنا جو آدمیوں سے مانگی جاتی ہے مثلاً یااللہ مجھے سو روپے دے دے۔



نماز کی سنتیں


1۔تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا ۔


2۔دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اپنے حال پر کھلی اور قبلہ رخ رکھنا۔


3۔تکبیر کہتے وقت سر کو نہ جھکانا۔


4۔امام کا تکبیر تحریمہ اور ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے کےلئے تمام تکبیریں بقدرضرورت بلند آواز سے کہنا۔


5۔دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر ناف کے نیچے باندھنا۔


6۔ثناء پڑھنا۔


7۔تعوز یعنی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا۔


8۔بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا۔


9 فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا۔


10۔آمین کہنا۔


11۔ثناء ، تعوذ ، بسم اللہ ، آمین سب کو آہستہ پڑھنا ۔


12۔سنت کے مطابق قرات کرنا یعنی جس نماز میں جس قدر قرآن پڑھنا سنت ہے اس کے موافق پڑھنا۔


13۔رکوع اور سجدہ میں کم از کم تین بار تسبیحات پڑھنا۔


14۔رکوع میں سر اور پیٹھ کو ایک سیدھ میں رکھنا اور دونوں ہاتھوں کی کھلی انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑ لینا۔


15۔قومہ میں امام کو سمع اللہ لمن حمدہ  اور مقتدی کو ربنا لک الحمد کہنا اور منفرد کو دونوں کہنا۔


16۔سجدے میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنے پھر ہاتھ پھر ناک پھر پیشانی رکھنا۔


17۔جلسہ اور قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا اور سیدھے پاؤں کو اس طرح کھڑا رکھنا کہ اس کی انگلیوں کے سرے قبلے کی طرف رہیں اور دونوں ہاتھ رانوں پر رکھنا۔


18۔تشہد میں اشھد الا الہ الا اللہ پر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا۔


19۔قعدہ آخیر میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھنا۔


20۔درود شریف کے بعد دعا پڑھنا۔


21۔پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف سلام پھیرنا۔



مکروہات نماز 


1۔سستی اور بے پرواہی کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنا۔


2۔بالوں کو سر پر جمع کرکے چٹیا باندھنا۔


3۔عمامہ کے پیچ پر سجدہ کرنا۔


4۔ہاتھ یا سر کے اشارے سے سلام کا جواب دینا۔


5۔آنکھوں کو بند کرنا لیکن اگر نماز میں دل لگنے کے لیے بند کریں تو مکروہ نہیں۔


6۔قبلے کی طرف سے منہ پھیر کر یا صرف نگاہ سے ادھر ادھر دیکھنا۔


7۔منہ میں روپیہ وغیرہ یا کوئی ایسی چیز رکھ کر نماز پڑھنا جس کی وجہ سے قرآت کرنے میں  دشواری ہو۔


8۔قصداّ جمائی لینا یا روک سکنے کی حالت میں نہ روکنا۔


9۔انگڑائی لینا ۔


10۔اس طرح کپڑا لپیٹ کر نماز پڑھنا کہ جلدی ہاتھ باہر نہ نکل سکیں۔


11۔کمر یا کوکھ یا کولہے پر ہاتھ رکھنا۔


12۔پیشاب یا پاخانہ کی حاجت ہونے کی حالت میں نماز پڑھنا۔


13۔انگلیاں چٹخانہ یا ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنا۔


14۔آیتیں یا سورتیں یا تسبیحات کو انگلیوں پر شمار کرنا۔


15۔کنکریوں کو ہٹانا لیکن اگر سجدہ کرنا مشکل ہو تو ایک مرتبہ ہٹانے میں مذائقہ نہیں۔


16۔بلا عذر چار زانوں بیٹھنا۔


17۔اکڑوں بیٹھنا یعنی اس طرح بیٹھناکہ رانیں کھڑی کر کے اور رانوں کو پیٹ سے اور گھٹنوں کو سینے سے ملا لینا اور ہاتھوں کو زمین پر رکھ لینا۔


18۔کسی کے منہ کی طرف کھڑے ہو کر نماز پڑھنا۔


19۔اگلی صف میں جگہ ہونے کے باوجود پچھلی صف میں اکیلے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا۔


20۔امام کا ایک ہاتھ شرعی اکیلے مقتدیوں سے اوپر کھڑے ہو کر نماز پڑھنا۔


21۔امام کا محراب کے اندر کھڑا ہونا۔


22۔خلاف سنت نماز پڑھنا۔


23۔کہنیوں کو بچھا کر سجدہ کرنا۔


24۔سدل یعنی کپڑے کا لٹکانا مثلا چادر سر پر ڈال کر اس کے دونوں کنارے لٹکا دینا اچکن یا چوغہ بغیر آستینوں میں ہاتھ ڈالے کندھوں پر ڈال لینا۔


25۔کپڑوں کو مٹی سے بچانے کے لیے ہاتھ سے سمیٹنا۔


26۔کپڑوں سے یا بدن سے کھیلنا۔


27۔معمولی کپڑے پہن کر نماز پڑھنا۔


28۔جاندار کی تصویر والے کپڑے پہن کر نماز پڑھنا۔


29۔ایسی جگہ نماز پڑھنا کے نمازی کے سر کے اوپر یا اس کے سامنے یا دائیں بائیں سجدے کی جگہ تصویر ہو۔


مستحبات نماز 


1۔تکبیر تحریمہ کہتے وقت مردوں کو دونوں ہتھیلیاں آستینوں سے باہر نکالنا اور عورتوں کو دوپٹے کے اندر ہی سے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھانا۔


2۔رکوع اور سجدے میں منفرد کو تین مرتبہ سے زیادہ تسبیح کہنا۔


3۔قیام کی حالت میں سجدے کی جگہ پر رکوع میں قدموں پر سجدے میں ناک پر قعدہ میں گود پر اور سلام کہتے وقت اپنے کندھوں پر نگاہ رکھنا۔


4۔کھانسی کو اپنی طاقت بھر نہ آنے دینا۔


5۔جمائی میں منہ کو بند رکھنا اور اگر کھل ہی جائے تو قیام کی حالت میں دائیں ہاتھ کی پشت سے اور بقیہ ارکان میں بائیں ہاتھ کی پشت سے چھپا لینا۔


نوٹ۔دین کو سیکھنا اس پر عمل کرنا اور آگے پھیلانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے

درودِ پاک کی فضیلت

 

درودِ پاک کی فضیلت

کل دعاءٍ محجوب حتى يصلى على محمدٍ ﷺ 


(ہر دعا اس وقت تک حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور نبی اکرم ﷺ پر درود نہ بھیجا جائے)


(3)بخاری شریف میں فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : “ اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ یعنی  بندہ جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ ہوگا۔ “ (بخاری ، 4 / 147 ، حدیث : 6168) تو دُرود شریف پڑھنے  سے چونکہ دل میں نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی محبت بیٹھ جاتی ہے تو اس محبتِ رسول کی وجہ سے اِنْ شَآءَ اللہ قبر و حشر میں رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ساتھ نصیب ہوگا۔


قول النبي ﷺ : تبلغني صلاتکم و سلامکم حيث کنتم

(فرمان نبوی ﷺ : تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا درود و 

سلام مجھے پہنچ جاتا ہے 


الصلاة على النبي ﷺ صدقة لمن لم يکن له مال

(حضور ﷺ پر درود بھیجنا اس شخض کا صدقہ ہے جس کے پاس مال نہ ہو 


من نسي الصلاة عَلَيَّ خطئي طريق الجنة

(جو مجھ پر درود بھیجنا بھول گیا وہ جنت کا راستہ بھول گیا) 


البخيل هو الذي إن ذکر عنده النبي ﷺ لم يصل عليه

(بخیل ہے وہ شخص کہ جس کے سامنے حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر ہو اور وہ آپ ﷺ پر درود نہ بھیجے) 



امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو نعتیہ قصیدہ لکھنے پر بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چادر اور شفایابی کا تحفہ عطا ہوا صاحبِ ’’قصیدہ بردہ‘‘ امام شرف الدین بوصیری )


608۔ 696ھ( کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اپنے زمانے کے متبحر عالمِ دین، شاعر اور شہرۂ آفاق ادیب تھے۔ اللہ رب العزت نے آپ کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کی بناء پر اُمراء و سلاطینِ وقت آپ کی بہت قدر کرتے تھے۔ ایک روز جارہے تھے کہ سرِ راہ ایک نیک بندۂ خدا سے آپ کی ملاقات ہوگئی، انہوں نے آپ سے پوچھا : بوصیری! کیا تمہیں کبھی خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی ہے؟ آپ نے اس کا جواب نفی میں دیا لیکن اس بات نے ان کی کایا پلٹ دی اور دل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت کا جذبہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیال میں مستغرق رہنے لگے۔ اِسی دوران میں آپ نے چند نعتیہ اَشعار بھی کہے۔

پھر اچانک ان پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا آدھا جسم بیکار ہوگیا، وہ عرصہ دراز تک اس عارضہ میں مبتلا رہے اور کوئی علاج کارگر نہ ہوا۔ اس مصیبت و پریشانی کے عالم میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال گزرا کہ اس سے پہلے تو دنیاوی حاکموں اور بادشاہوں کی قصیدہ گوئی کرتا رہا ہوں کیوں نہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر اپنی اس مرضِ لادوا کے لیے شفاء طلب کروں؟ چنانچہ اس بیماری کی حالت میں قصیدہ لکھا۔ رات کو سوئے تو مقدر بیدار ہوگیا اور خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔ عالم خواب میں پورا قصیدہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سنایا۔ امام بوصیری کے اس کلام سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس درجہ خوش ہوئے کہ اپنی چادر مبارک ان پر ڈالی اور اپنا دستِ شفاء پھیرا جس سے دیرینہ بیماری کے اثرات جاتے رہے اور وہ فوراً تندرست ہوگئے۔ اگلی صبح جب آپ اپنے گھر سے نکلے تو سب سے پہلے جس شخص سے آپ کی ملاقات ہوئی وہ اس زمانے کے مشہور بزرگ حضرت شیخ ابو الرجاء تھے۔ انہوں نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو روکا اور درخواست کی کہ وہ قصیدہ جو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں لکھا ہے اُنہیں بھی سنائیں۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ کون سا قصیدہ؟ انہوں نے کہا : وہی قصیدہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے :


أمن تذکر جيران بذي سلم

مزجت دمعا جري من مقلة بدم


)کیا تو نے ذی سلم کے پڑوسیوں کو یاد کرنے کی وجہ سے گوشۂ چشم سے بہنے والے آنسو کو خون سے ملا دیا ہے؟


(

آپ کو تعجب ہوا اور پوچھا کہ اس کا تذکرہ تو میں نے ابھی تک کسی سے نہیں کیا، پھر آپ کو کیسے پتہ چلا؟ انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم جب آپ یہ قصیدہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کا اظہار فرما رہے تھے تو میں بھی اسی مجلس میں ہمہ تن گوش اسے سن رہا تھا۔ اس کے بعد یہ واقعہ مشہور ہوگیا اورا س قصیدہ کو وہ شہرتِ دوام ملی کہ آج تک اس کا تذکرہ زبان زدِ خاص و عام ہے اور اس سے حصولِ برکات کا سلسلہ جاری ہے۔

قصیدہ بردہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سے خوش ہو کر اپنی چادر مبارک ان کے بیمار جسم پر ڈالی اور اپنا دست شفاء پھیرا جس کی برکت سے وہ فوراً شفاء یاب ہوگئے۔ لہٰذا اس چادرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے اس قصیدہ کا نام ’’قصیدہ بردہ‘‘ مشہور ہوا۔


خرپوتي، عصيدة الشهدة شرح قصيدة البردة : 3 -5










علامہ ذیشان صاحب کی آواز میں خوبصورت کلام

اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ محترم احباب امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے علامہ ذیشان صاحب کی بہت پیاری آواز میں نہایت خوبصورت کلام سنیں اور اپنے دلوں میں عشق حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دل میں بسائیںhttps://www.historypk.site/2021/01/blog-post_18.html


علامہ حافظ ضیاء الحسن صاحب کی آواز میں نعت رسول کا خوبصورت کلپ

علامہ حافظ ضیاء الحسن صاحب نے بہت خوبصورت نعت پڑھی جسے سن کر سب لوگوں کو سرور آ گیا آپ بھی ضرور سنیں علامہ صاحب کے خطاب سننے کے لیے اس پر کلک کریں

دنیا کی دو ایسی چیزیں جن پر کسی کا کچھ خرچ نہیں ہوتا

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ہم اس ویڈیو میں جانیں گے کہ کون سی 2 ایسی چیزیں ہیں جن پر کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا لیکن اس کا فائدہ ہر ایک کو ہوتا ہے۔

بیدار ہونے کے لیے ملکوں کے باشندوں کے طریقے مزاہب کے اعتبار سے جانئے بہترین رپورٹ میں

 


دن کی پہلی دھڑکن اکثر الارم گھڑی کے خوفناک بیپس یا پلنگ کے فون سے ڈیجیٹل سمفنی ہوتی ہیں۔


 یہ جدید الیکٹرانک الارم ہمیں نیند سے بیدار کرنے کے لئے استعمال کیے جانے والے طریقوں کے ایک طویل سلسلے میں صرف تازہ ترین ہیں: قدیم شہر کی دیواروں پر چوکیداروں سے لے کر پہیelsوں پر حالیہ گھڑیوں تک جو بجنے کو روکنے کے لئے پیچھا کرنا پڑتا ہے۔


 جب ہمارے جسم کی گھڑیاں ہمیں سونے کے لئے کہہ رہی ہیں تو ہمیں بیدار کرنے کا کام ایک بہت بڑا سوال ہے۔  ہم نے سب سے پہلے الارم کا استعمال کب شروع کیا ، اور ان کی آواز کیا محسوس ہوئی؟  وقت کی آوازوں کے بارے میں کیا تبدیل ہوا ، اور کیا نہیں ہوا؟


 برڈ سونگ

 ہمارے پاس وقت کی پیمائش کے لئے کچھ ابتدائی الفاظ رات کے مختلف حصوں کو تقسیم کرنے میں لوگوں کی خصوصی دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔


 جدید دور کی دنیا میں ، بغیر بجلی کی روشنی اور بجلی کے الارموں کے ، لوگوں نے روشنی کے معیار اور آس پاس کی آوازوں پر زیادہ توجہ دی۔  رات کے مختلف حصوں کے لئے قدیم زبانوں میں ایک بھرپور ذخیرہ الفاظ نکلا۔  طلوع فجر سے قبل لاتین کا ایک ابتدائی لفظ گیلیکینیئم تھا ، مرغ کے کوے کا وقت۔  سائنس دانوں نے اس کے بعد سے مرغوں کو دریافت کیا ہے کہ وہ کیا وقت ہے۔


 مرغی نے گھر کے باہر کوکنا شروع کیا ‘Cocker-doodle-doo!’ جدید ماڈرن رات کو متعدد حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ، اور طلوع فجر سے پہلے کا وقت مرغ کے کوے کے نام پر رکھا گیا تھا۔  شٹر اسٹاک

 جاگنے کے تجربے کا ایک اہم طریقہ برڈسنونگ رہ گیا ہے۔  آسٹریلیا میں ، ہم اکثر نیند اور جاگنے کے بارے میں سوچتے وقت - پرندوں کی آواز کو بیدار کرتے ہیں۔ صبح کیرولنگ میپی سے لے کر ، ورسٹائل کراوونگ یا آدھی رات کو ویلی واگٹیل کی کال تک۔  کم مدھر ، اگرچہ اتنا ہی حیرت انگیز ، پرندوں کا ایک اور ممکنہ شور ہے جو ابتدائی طلوع ہونے سے وابستہ ہے - "چڑیا کا پادنا" - پہلی بار اس کی تصدیق 19 ویں صدی میں ہوئی۔


 مزید پڑھیں: برڈ سونگ نے انسانوں کو صدیوں سے متاثر کیا ہے: کیا یہ موسیقی ہے؟


 انسانی جاگ اٹھنے کی کالیں

 انسانی جسم نے الارم کا اپنا ذخیرہ تیار کیا ہے۔


 اسلامی دعوت نامہ ، اذان ، جسے مردین کہتے ہیں ، سب سے پُرجوش حیرت انگیز مثالوں میں سے ایک ہے ، جس کے مختلف ورژن روایات اور خطوں کے مابین اختلافات ظاہر کرتے ہیں۔  میلمیٹک نعرہ - جہاں متعدد میوزیکل نوٹوں پر ایک ہی عبارت گایا جاتا ہے - یہ دعا کے لئے جاگ اٹھنا ("نماز نیند سے بہتر ہے") اور خود ہی ایک دعا ہے۔

صبح کے وقت کچھ کالیں موسم کی پیش گوئی کے نظام کے ساتھ مل گ. تھیں۔  15 ویں صدی میں انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر واقع سینڈ وچ کی بندرگاہ پر آنے والے شہر کے ہوائوں نے رات کے وقت ہوا میں ہونے والی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا تاکہ سمندری مسافروں کو معلوم ہوجائے گا کہ ہوا کے تیز ہواؤں کا چلنا کب ہوگا۔  بہت بعد میں ، صنعتی دنیا کے کچھ حصوں میں ، پیشہ ورانہ دستک باز آپ کو اپنی شفٹ کے ل wake جاگنے کے ل windows کھڑکیوں پر ٹیپ لگانے کے لئے مٹر شوٹر کا استعمال کر سکتا ہے یا چھڑی دے سکتا ہے۔


 انسانوں کو آپ کے بیدار کرنے کا عام طور پر مطلب یہ ہوگا کہ کسی کو پوری رات بیدار رہنا ہے۔  لیکن اس شخص کو کیسے پتہ چلے گا کہ الارم کب رونا ہے؟  سنڈیئلس ظاہر ہے بیکار ہوں گے۔  رات کے اوقات گننے کے ل technologies یہ ایک وجہ ہے کہ ٹیکنالوجیز تیار کی گئیں۔ یہ نشان لگانے والی قدیم اور قرون وسطی کے پانی کی گھڑیاں جو یہ بتانے کے ل. کہ پانی کا بہاؤ وقت گزرنے کے مساوی تھا ، اور بعد میں (چودہویں صدی کے آس پاس سے) واش گلاس شیشے کی شکل میں۔


 آدمی ونڈو پر ٹیپ کرتا ہے اس کی خدمت۔  پیشہ ورانہ نوکر اپر کارکنوں کو بیدار کرتے تھے۔  وکیمیڈیا کامنس / نیشنال آرچف مکینیکل گھڑیاں

 قرون وسطی نے ہماری ایک حیرت انگیز ایجاد دیکھی - مکینیکل گھڑیاں جو اصل میں وزن کے ذریعہ چلتی ہیں۔  کشش ثقل نے گھڑی کے طریقہ کار کو چلانے کے ل suspended معطل وزن کو نیچے کھینچ لیا۔  وزن کو وقتا فوقتا کسی اور سائیکل کے ل wound زخمی کردیا جاتا ہے۔


 یہ گھڑیاں چرچوں اور ٹاؤن بیلفریز میں بڑی چیزوں کے طور پر شروع ہوئی تھیں۔  کچھ میں توسیع شدہ آٹوماٹا تھا: 16 ویں صدی کی غیر معمولی اسٹراسبرگ گھڑی میں ایک مشہور کوکریل شامل ہے جس کی چیخ کیتیڈرل سے ہوتی ہے۔  اس کا خودکار مرغا چودہویں صدی میں تیار کردہ گھڑی کا ہے۔


 قدیم گرجا گھر کیتھیڈرل نوٹری ڈیم ، اسٹراس برگ ، السیسی میں فلکیاتی گھڑی۔  شٹر اسٹاک

 کچھ بڑی گھڑیوں نے گھنٹوں بجانے سے پہلے گھنٹوں پر موسیقی بجائی۔  اس سال کی 700 ویں سالگرہ ہے جو اس طرح کی پہلی موسیقی گھڑی ہوسکتی ہے ، جو 1321 میں روین کے قریب ایک خانقاہ میں نصب کی گئی تھی۔ اس نے ایڈونٹ کے سیزن کے لئے ، کنڈیٹر ایلم سیڈرم (ستاروں کے پیارے تخلیق کار) کی ایک تسبیح ادا کی ، جو عیسائی شروع ہوتا ہے۔  سال


 اس طرح کے چیمز ہماری پہلی ریکارڈ شدہ میکانیکل میوزک ہیں ، اور آج کے میوزیکل الارم کا پیش خیمہ ہیں۔  یہ ٹیکنالوجی شاید ٹیک گیک راہبوں کے ذریعہ تیار کی گئی تھی کہ وہ رات کو جاگتے ہوئے اپنی دعائیں گزارنے کے لئے جاگتے تھے۔ اس سے بھی بہتر یہ کہ اگر اذان کی طرح جاگ اٹھنے کی آواز خود بھی ایک متقی دعا ہوتی۔


 مزید پڑھیں: آسیڈیا: اس جذبات کا کھوئے ہوئے نام جو ہم سب کو محسوس ہورہے ہیں


 جدید الارم گھڑی

 آج ہم جس گھڑیوں کے بارے میں جانتے ہیں ان کے ابتدائی ورژن بڑی جماعتوں ، عوامی مقامات یا درباری اشرافیہ کے لئے بنائے گئے تھے۔


 گھڑی پر پہیے پہلوؤں پر مشتمل ‘گھڑی دار’ الارم گھڑی کے لئے واکر کو اس کا پیچھا کرنا پڑتا ہے۔  کلاکی ڈاٹ کام

 آہستہ آہستہ اگرچہ ، اور یقینی طور پر 15 ویں صدی کے آخر تک ، آپ کو نجی مکانات میں لوہے کی دیوار کی بھاری گھڑیاں مل گئیں (ایسی جگہوں پر بنائ گئیں جو گھڑیوں کے بنانے کے لئے مشہور ہیں ، جیسے سوئٹزرلینڈ)۔  ان میں اکثر پن ہوتے تھے جو آپ کسی خاص وقت میں گھنٹی بجنے کیلئے گھنٹوں کے چہرے کے آس پاس رکھ سکتے ہیں۔  یہ گھریلو الارم گھڑیاں مالک کو کام کرنے اور دعا کرنے کے لئے بیدار کرسکتی ہیں۔


 اس عرصے کے دوران ، یہ بھی ، کمپیکٹ بہار کے میکانزم نے 16 ویں صدی سے جسم پر چھوٹی چھوٹی چھوٹی گھڑیوں کو ممکن بنایا ، اٹھایا یا پہن لیا۔


 وقت کی نجکاری 19 ویں صدی میں تیز ہوئی اور کچھ جنگلی جدید الارم گھڑیوں کو جنم ملا۔  فرانسیسی جادوگر ژان یوگین رابرٹ ہاؤڈین کی حیرت انگیز ایجادات میں سے ایک گھڑی تھی جس نے الارم بجنے کے بعد موم بتی روشن کی۔

مزید پڑھیں: صبح کی کہر: کیوں وقت آگیا ہے کہ اسنوز بٹن کو مارنا بند کیا جائے


 اگرچہ ناشتے میں بننے والی روڈ گولڈ برگ طرز کے الارم گھڑیوں کے سامان پر کچھ بھی نہیں پہنچ سکا ہے ، لیکن آٹو میٹن گھڑی کے الارموں نے تازہ ترین کافی اور ٹوسٹ یا صرف ان کی خوشبو کا وعدہ کیا ہے۔  یہاں باورچی خانے کی واقفیت کی آوازیں ، ان کی صبح کی خوشبو کے ساتھ ، نیند سے بے ہودہ بیداری کو نرم کرتی ہیں۔


 آج کے الارم ، ان کی تمام ایجادات کے ساتھ ، قرون وسطی کے آج ہمارے لئے ایک تحفہ (یا اس پر منحصر https://www.historypk.site/2021/02/blog-post.htmlہے کہ آپ بیدار ہونے میں کتنا لطف اٹھاتے ہیں ، 

انڈیا کے مسلمان زبردست تحریر ضرور پڑھیں

 اسلام یہ ہے کہ ایشین ملک کا دوسرا سب سے بڑا عقیدہ ، [6] جس میں ملک کی چودہ اعشاریہ دو فیصد آبادی یا اس کی تقریبا. آبادی ہے۔  اسلام کے پیروکار (2011 کی مردم شماری) کے طور پر 172 ملین لوگ مخصوص ہیں۔ [7] [8]  یہ ایشین ملک کو مسلم اکثریتی ممالک سے باہر سب سے اہم مسلمان آبادی والا ملک بناتا ہے۔  ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق اسلام کے سنی فرقے سے ہے جبکہ مذہبی نظام ایک بڑی تعداد میں اقلیت کی طرح ہے۔

گجرات ، کیرالہ ، اور جغرافیائی علاقے میں عرب ساحلی تجارتی راستوں پر واقع ایشین ملک میں اسلام کا وجود اس لئے موجود تھا کہ جب سے یہ عقیدہ وجود پایا اور جزیرہ نما کے اندر ابتدائی طور پر قبولیت حاصل کرلی ، حالانکہ نئی مسلم جانشین ریاستوں کے ذریعہ بحر کے ذریعے پہلا حملہ  خلافت راشدین میں throughout 63 World دھات یا 3 643 AD کے قریب عرب دنیا واقع ہوئی ، اس سے بہت پہلے کہ کوئی بھی عرب فوج زمینی راستے سے ایشین ملک کے سرحدی علاقے تک پہنچ جاتی ہے۔  گجرات کے گھوگھا میں خدا کا بارواڈا گھر 623 دھات سے پہلے ڈیزائن کیا گیا تھا ، میٹھاالہ ، کیرالا میں خدا کا چیرامان جمعہ گھر (629 عیسوی) اور صوبہ مربع کیلوکرائی میں واقع حالیہ جمعہ کی عبادت گاہ - 628 - 630 عیسوی۔  ایشین ملک کی 3 بنیادی مساجد کی پیمائش کریں جو عربی مرچنٹ کی سمندری حدود سے تیار کی گئیں۔ [9] [10] [11] [12] [13]  ساتویں صدی کے اندر اسلام ایک بار عربوں نے سندھ پر فتح حاصل کیا اور بعد میں بارہویں صدی میں غوریوں کی فتح کے راستے شمالی ہندوستان پہنچا اور اس کے بعد سے ہندوستان ہندوستان کے غیر سیکولر اور ثقافتی ورثے کا ایک مقام بن گیا۔ [१ 14] [१ 15]  [16] [17] [18]


 شہر کی ریاست اور مغل سلطنت نے بھی جنوبی ایشیاء کے بیشتر حص dominے پر غلبہ حاصل کیا ہے اور جغرافیائی علاقہ ریاست ، دکن سلطنت بھی اور سور Emp سلطنت بھی بڑے معاشی اور سیاسی کرداروں کا مقابلہ کرتی ہے۔  فتویٰ عالمگیری کی تالیف اور ادارہ پر ، دنیا کی سب سے بڑی معیشت ، شہنشاہ اورنگزیب کے دور میں ، توحیدی فرمان کے ایشین ملک کے عروج کو [19] کے نیچے نشان زد کیا گیا تھا۔ [20] [21] [22]  میسور کنگ فخر بولیویا کے عظیم الشان ترک کے ذریعہ اضافی توحید پالیسیاں کے دوبارہ تعارف نے جنوبی ہندوستان کی ثقافت میں اہم کردار ادا کیا۔ [23] [24]  نظاموں کا غلبہ حیدرآباد ریاست نے اس لئے کام کیا کیوں کہ ہندوستان کی تسلط تک اس کی آخری خودمختار سلطنت {ہندوستان | بھارت | جمہوریہ ایشین ملک | بھارت | ایشین ملک | ایشین قوم} جب تک ہندوستان کے تسلط سے منسلک نہیں ہوا۔  صدیوں سے ، ہندوستان بھر میں ہندو اور مسلم ثقافتوں کا اہم انضمام رہا ہے [२]] [२]] اور مسلمان ایشیائی ملک کی معاشی سائنس ، سیاست اور ثقافت میں قابل ذکر کردار ادا کرتے ہیں۔ [२ 27]


مسجد نبوی کی تعمیر

ترکوں نے جب مسجد نبوی کی تعمیر کاارادہ کیا تو انہوں نے اپنی وسیع عریض ریاست میں اعلان کیا کہ انھیں عمارت 
سازی سے متعلق فنون کے ماہرین درکار ھیں، اعلان کرنے کی دیر تھی کہ ھر علم کے مانے ھوۓ لوگوں نے اپنی خدمات پیش کیں، 

سلطان کے حکم سے استنبول کے باہر ایک شہر بسایا گیا جس میں اطراف عالم سے آنے
والے ان ماہرین کو الگ الگ محلوں میں بسایا گیا اس کے بعد عقیدت اور حیرت کا ایسا باب شروع ھوا جس کی نظیر مشکل ھے.
 خلیفۂ وقت جو دنیا کا سب سے بڑا فرمانروا تھا شہر میں آیا اور ھر شعبے کے ماہر کو تاکید کی کہ اپنے ذھین ترین بچے کو اپنا فن اس طرح سکھاۓ کہ اسے یکتا و بیمثال کر دے اس اثنا میں ترک حکومت اس بچے کو حافظ قرآن اور شہسوار بناۓ گی 

دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب و غریب منصوبہ کئی سال جاری رھا 25 سال بعد نوجوانوں کی ایسی جماعت تیار ہوئی جو نہ صرف اپنے شعبے میں یکتاۓ روزگار تھے بلکہ ہر شخص حافظ قرآن اور باعمل مسلمان بھی تھا یہ لگ بھگ 500 لوگ تھے اسی دوران ترکوں نے پتھروں کی نئی کانیں دریافت کیں، جنگلوں سے لکڑیاں کٹوایٔیں، تختے حاصل کئے گئے اور شیشے کا سامان بہم پہنچایا گیا،

یہ سارا سامان نبی کریم ﷺ کے شہر پہنچایا گیا تو ادب کا یہ عالم تھا کہ اسے رکھنے کے لیۓ مدینہ سے دور ایک بستی بسائی گیٔ تا کہ شور سے مدینہ کا ماحول خراب نہ ھو، 

نبی ﷺ کے ادب کی وجہ سے اگر کی پتھر میں ترمیم کی ضرورت پڑتی تو اسے واپس اسی بستی بھیجا جاتا ماھرین کو حکم تھا کہ ھر شخص کام کے دوران با وضو رھے اور درود شریف اور تلاوت قرآن میں مشغول رھے ھجرہ مبارک کی جالیوں کو کپڑے سے لپیٹ دیا گیا کہ گرد غبار اندر روضہ پاک میں نہ جاۓ ستون لگاۓ گئے کہ ریاض الجنت اور روضہ پاک پر مٹی نہ گرے یہ کام پندرہ سال تک چلتا رھا اور تاریخ عالم گواہ ھے ایسی محبت ایسی عقیدت سے کوئی تعمیر نہ کبھی پہلے ہوئی اور نہ کبھی بعد میں ھو گی ۔“ سبحان اللہ سبحان اللہ
Bad boy

فضیلت سورہ اخلاص

سبب نزول سورة الإخلاص:

قد روى الثعالبي في تفسيره[1] بسنده عن أبي بن كعب أن المشركين قالوا لرسول الله (عليه السلام) : انسب لنا ربك، فأنزل الله سبحانه قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ الى آخر السورة.

وقال الضحاك عن ابن عباس: إنّ وفد نجران قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم سبعة أساقفة من بني الحرث بن كعب فيهم السيد والعاقب، فقالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: صف لنا ربك من أي شيء هو؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إنّ ربي ليس من شيء وهو بائن من الأشياء» فأنزل الله سبحانه قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ أي واحد[2].

فضائل سورة الإخلاص:

الله يحب من يقرأ سورة الإخلاص:

عن عائشة: أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث رجلا على سرية، وكان يقرأ لأصحابه في صلاتهم، فيختم ب ” قل هو الله أحد ” فلما رجعوا ذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: “سلوه: لأي شيء يصنع ذلك؟ “. فسألوه، فقال: لأنها صفة الرحمن، وأنا أحب أن أقرأ بها. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: “أخبروه أن الله تعالى يحبه”.[3]

محب سورة الإخلاص يدخل الجنة:

عن أنس قال: كان رجل من الأنصار يؤمهم في مسجد قباء، فكان كلما افتتح سورة يقرأ بها لهم في الصلاة مما يقرأ به افتتح ب ” قل هو الله أحد ” حتى يفرغ منها، ثم يقرأ سورة أخرى معها، وكان يصنع ذلك في كل ركعة. فكلمه أصحابه فقالوا: إنك تفتتح بهذه السورة ثم لا ترى أنها تجزئك حتى تقرأ بالأخرى، فإما أن تقرأ بها، وإما أن تدعها وتقرأ بأخرى. فقال: ما أنا بتاركها، إن أحببتم أن أؤمكم بذلك فعلت، وإن كرهتم تركتكم. وكانوا يرون أنه من أفضلهم، وكرهوا أن يؤمهم غيره. فلما أتاهم النبي صلى الله عليه وسلم أخبروه الخبر، فقال: “يا فلان، ما يمنعك أن تفعل ما يأمرك به أصحابك، وما حملك على لزوم هذه السورة في كل ركعة؟ “. قال: إني أحبها. قال: “حبك إياها أدخلك الجنة”.[4]

سورة الإخلاص تعدل ثلث القرآن:

عن أبي الدرداء أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أيعجز أحدكم أن يقرأ ثلث القرآن في ليلة» قلت: يا رسول الله ومن يطيق ذاك؟ قال: «اقرءوا قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ».[5]

عن أبي سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأصحابه: “أيعجز أحدكم أن يقرأ ثلث القرآن في ليلة؟ “. فشق ذلك عليهم وقالوا: أينا يطيق ذلك يا رسول الله؟ فقال: “الله الواحد الصمد ثلث القرآن”.[6]

عن أبي سعيد. أن رجلا سمع رجلا يقرأ: ” قل هو الله أحد ” يرددها، فلما أصبح جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فذكر ذلك له، وكأن الرجل يتقالها، فقال النبي  صلى الله عليه وسلم: “والذي نفسي بيده، إنها لتعدل ثلث القرآن”.[7]

  عید میلاد النبی ﷺ – رحمتِ دو جہاں کی آمد کا دن 🌸 عید میلاد النبی ﷺ – رحمتِ دو جہاں کی آمد کا دن 🌸 عید...