سلطان محمد فاتح

 قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولا


29 مئی 1453: رات کا ڈیڑھ بجا ہے۔ دنیا کے ایک قدیم اور عظیم شہر کی فصیلوں اور گنبدوں پر سے 19ویں قمری تاریخ کا زرد چاند تیزی سے مغرب کی طرف دوڑا جا رہا ہے جیسے اسے کسی شدید خطرے کا اندیشہ ہے۔

اس زوال آمادہ چاند کی ملگجی روشنی میں دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ شہر کی فصیلوں کے باہر فوجوں کے پرے منظم مستقل مزاجی سے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ان کے دل میں احساس ہے کہ وہ تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔

یہ شہر قسطنطنیہ (موجودہ نام: استنبول) ہے اور فصیلوں کے باہر عثمانی فوج آخری ہلہ بولنے کی تیاری کر رہی ہے۔ عثمانی توپوں کو شہر پناہ پر گولے برساتے ہوئے 47 دن گزر چکے ہیں۔ کمانڈروں نے خاص طور پر تین مقامات پر گولہ باری مرکوز رکھ کر فصیل کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔

21 سالہ عثمانی سلطان محمد ثانی غیر متوقع طور پر اپنی فوج کے اگلے مورچوں پر پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ حتمی یلغار فصیل کے 'میسو ٹیکیون' کہلانے والے وسطی حصے سے کی جائے گی جس میں کم از کم نو شگاف پڑ چکے ہیں اور خندق کا بڑا حصہ پاٹ دیا گیا ہے۔

سر پر بھاری پگڑ باندھے اور طلائی خلعت میں ملبوس سلطان نے اپنے سپاہیوں کو ترکی زبان میں مخاطب کیا: 'میرے دوستوں اور بچو، آگے بڑھو، اپنے آپ کو ثابت کرنے کا لمحہ آ گیا ہے!'

اس کے ساتھ ہی نقاروں، قرنوں، طبلوں اور بگلوں کے شور نے رات کی خاموشی کو تار تار کر دیا، لیکن اس کان پھاڑتے شور میں بھی عثمانی دستوں کے فلک شگاف نعرے صاف سنائی دیے جا سکتے تھے جنھوں نے فصیل کے کمزور حصوں پر ہلہ بول دیا۔ ایک طرف خشکی سے اور دوسری طرف سے سمندر میں بحری جہازوں پر نصب توپوں کے دہانوں نے آگ برسانا شروع کر دی۔

بازنطینی سپاہی اس حملے کے لیے فصیلوں پر تیار کھڑے تھے۔ لیکن پچھلے ڈیڑھ ماہ کے محاصرے نے ان کے حوصلے پست اور اعصاب شکستہ کر دیے تھے۔ بہت شہری بھی مدد کے لیے فصیلوں پر آ پہنچے اور پتھر اٹھا اٹھا کر کے نیچے اکٹھا ہونے والے حملہ آوروں پر پھینکنا شروع کر دیے۔ دوسرے اپنے اپنے قریبی چرچ کی طرف دوڑے اور گڑگڑا گڑگڑا کر مناجاتیں شروع کر دیں۔ پادریوں نے شہر کے متعدد چرچوں کی گھنٹیاں پوری طاقت سے بجانا شروع کر دیں جن کی ٹناٹن نے ان لوگوں کو بھی جگا دیا جو ابھی تک سو رہے تھے۔

ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے عیسائی اپنے صدیوں پرانے اختلاف بھلا کر ایک ہو گئے اور ان کی بڑی تعداد شہر کے سب سے بڑے اور مقدس کلیسا ہاجیہ صوفیہ میں اکٹھی ہو گئی۔

دفاعی فوج نے جانفشانی سے عثمانیوں کی یلغار روکنے کی کوشش کی۔ لیکن اطالوی طبیب نکولو باربیرو جو اس دن شہر میں موجود تھے، لکھتے ہیں کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جانثاری دستے ’بےجگر شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔'

روشنی پھیلنے تک ترک سپاہی فصیل کے اوپر پہنچ گئے۔ اس دوران اکثر دفاعی فوجی مارے جا چکے تھے اور ان کا سپہ سالار جیووانی جسٹینیانی شدید زخمی ہو کر میدانِ جنگ سے باہر ہو چکا تھا۔

جب مشرق سے سورج کی پہلی کرن نمودار ہوئی تو اس نے دیکھا کہ ایک ترک سپاہی کرکوپورتا دروازے کے اوپر نصب بازنطینی پرچم اتار کر اس کی جگہ عثمانی جھنڈا لہرا رہا ہے۔

سلطان محمد سفید گھوڑے پر اپنے وزرا اور عمائد کے ہمراہ ہاجیہ صوفیہ پہنچے۔ صدر دروازے کے قریب پہنچ کر وہ گھوڑے سے اترے اور گلی سے ایک مٹھی خاک لے کر اپنی پگڑی پر ڈال دی۔ ان کے ساتھیوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

مسلمان سات سو سال کی جدوجہد کے بعد بالآخر قسطنطنیہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔

ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر 1480 برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج چھو لیا اور وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے حصوں پر بڑی شان سے حکومت کرتی رہی۔

1453 ہی وہ سال ہے جسے قرونِ وسطیٰ (مڈل ایجز) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فتحِ قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد ثابت ہو گیا کہ اب بارود کے استعمال اور بڑی توپوں کی گولہ باری کے بعد فصیلیں کسی شہر کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔

شہر پر ترکوں کے قبضے کے بعد یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں یونانی بولنے والے شہری بھاگ کر یورپ اور خاص طور پر اٹلی کے مختلف شہروں میں جا بسے۔ اس وقت یورپ 'تاریک دور' سے گزر رہا تھا اور قدیم یونانی تہذیب سے کٹا ہوا تھا۔ لیکن اس تمام عرصے میں قسطنطنیہ میں یونانی زبان اور ثقافت بڑی حد تک برقرار رہی تھی۔ یہاں پہنچنے والے مہاجروں کے پاس ہیرے جواہرات سے بیش قیمت خزانہ تھا۔ ارسطو، افلاطون، بطلیموس، جالینوس اور دوسرے حکما و علما کے اصل یونانی زبان کے نسخے۔

ان سب نے یورپ میں قدیم یونانی علوم کے احیا میں زبردست کردار ادا کیا اور مورخین کے مطابق انھی کی وجہ سے یورپ میں نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوا جس نے آنے والی صدیوں میں یورپ کو باقی دنیا سے سبقت لینے میں مدد دی جو آج بھی برقرار ہے۔

تاہم نوجوان سلطان محمد کو، جسے آج دنیا سلطان محمد فاتح کے نام سے جانتی ہے، 29 مئی کی صبح جو شہر نظر آیا یہ وہ شہر نہیں تھا جس کی شان و شوکت کے افسانے اس نے بچپن سے سن رکھے تھے۔ طویل انحطاط کے بعد بازنطینی سلطنت آخری سانسیں لے رہی تھی اور قسطنطنیہ، جو صدیوں تک دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے مالدار شہر رہا تھا، اب اس کی آبادی سکڑ کر چند ہزار رہ گئی تھی اور شہر کے کئی حصے ویرانی کے سبب ایک دوسرے سے کٹ ہو کر الگ الگ دیہات میں تبدیل ہو گئے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ نوجوان سلطان نے شہر کی حالتِ زار دیکھ کر شیخ سعدی سے منسوب یہ شعر پڑھا:

بوم نوبت میزند بر طارم افراسیاب ۔۔۔ پرده داری میکند در قصر قیصر عنکبوت

(اُلو افراسیاب کے میناروں پر نوبت بجائے جاتا ہے ۔۔۔ قیصر کے محل پر مکڑی نے جالے بن لیے ہیں)

قسطنطنیہ کا قدیم نام بازنطین تھا۔ لیکن جب 330 عیسوی میں رومن شہنشاہ کونسٹینٹائن اول نے اپنا دارالحکومت روم سے یہاں منتقل کیا تو شہر کا نام بدل کر اپنے نام کی مناسبت سے کونسٹینٹینوپل کر دیا، (جو عربوں کے ہاں پہنچ 'قسطنطنیہ' بن گیا)۔ مغرب میں رومن امپائر کے خاتمے کے بعد یہ سلطنت قسطنطنیہ میں برقرار رہی اور چوتھی تا 13ویں صدی تک اس شہر نے ترقی کی وہ منازل طے کیں کہ اس دوران دنیا کا کوئی اور شہر اس کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمان شروع ہی سے اس شہر کو فتح کرنے کے خواب دیکھتے آئے تھے۔

چنانچہ اس مقصد کے حصول کی خاطر چند ابتدائی کوششوں کی ناکامی کے بعد 674 میں ایک زبردست بحری بیڑا تیار کر کے قسطنطنیہ کی سمت روانہ کیا۔ اس بیڑے نے شہر کے باہر ڈیرے ڈال دیے اور اگلے چار سال تک متواتر فصیلیں عبور کرنے کی کوششیں کرتا رہا۔

آخر 678 میں بازنطینی بحری جہاز شہر سے باہر نکلے اور انھوں نے حملہ آور عربوں پر حملہ کر دیا۔ اس بار ان کے پاس ایک زبردست ہتھیار تھا، جسے ’آتشِ یونانی‘ یا گریک فائر کہا جاتا ہے۔ اس کا ٹھیک ٹھیک فارمولا آج تک معلوم نہیں ہو سکا، تاہم یہ ایک ایسا آتش گیر مادہ تھا جسے تیروں کی مدد سے پھینکا جاتا تھا اور یہ کشتیوں اور جہازوں سے چپک جاتا تھا۔ مزید یہ کہ پانی ڈالنے سے اس کی آگ مزید بھڑک جاتی تھی۔

عرب اس آفت کے مقابلے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے تمام بحری بیڑا آتش زار کا منظر پیش کرنے لگا۔ سپاہیوں نے پانی میں کود کر جان بچانے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی پناہ نہیں ملی کیوں کہ آتشِ یونانی پانی کی سطح پر گر کر بھی جلتی رہتی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے پورے بحرِ مرمرہ نے آگ پکڑ لی ہے۔

عربوں کے پاس پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ واپسی میں ایک ہولناک سمندری طوفان نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور سینکڑوں کشتیوں میں سے ایک آدھ ہی بچ کر لوٹنے میں کامیاب ہو سکی۔

اسی محاصرے کے دوران مشہور صحابی ابو ایوب انصاری نے بھی اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ ان کا مقبرہ آج بھی شہر کی فصیل کے باہر ہے۔ سلطان محمد فاتح نے یہاں ایک مسجد بنا دی تھی جسے ترک مقدس مقام مانتے ہیں۔

اس کے بعد 717 میں بنو امیہ کے امیر سلیمان بن عبدالملک نے زیادہ بہتر تیاری کے ساتھ ایک بار پھر قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا، لیکن اس کا بھی انجام اچھا نہیں ہوا، اور دو ہزار کے قریب جنگی کشتیوں میں سے صرف پانچ بچ کر واپس آنے میں کامیاب ہو سکیں۔

شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد چھ صدیوں تک مسلمانوں نے دوبارہ قسطنطنیہ کا رخ نہیں کیا، حتیٰ کہ سلطان محمد فاتح نے بالآخر شہر پر اپنا جھنڈا لہرا کر سارے پرانے بدلے چکا دیے۔

شہر پر قبضہ جمانے کے بعد سلطان نے اپنا دارالحکومت ادرنہ سے قسطنطنیہ منتقل کر دیا اور خود اپنے لیے قیصرِ روم کا لقب منتخب کیا۔ آنے والے عشروں میں اس شہر نے وہ عروج دیکھا جس نے ایک بار پھر ماضی کی عظمت کی یادیں تازہ کر دیں۔

سلیمان عالیشان نے قسطنطنیہ کو نئی بلندیوں سے روشناس کروایا
سلطان نے اپنی سلطنت میں حکم نامہ بھیجا: 'جو کوئی چاہے، وہ آ جائے، اسے شہر میں گھر اور باغ ملیں گے۔' صرف یہی نہیں، اس نے یورپ سے بھی لوگوں کو قسطنطنیہ آنے کی دعوت دی تاکہ شہر پھر سے آباد ہو جائے۔

اس کے علاوہ اس نے شہر کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی ازسرِ نو تعمیر کی، پرانی نہروں کی مرمت کی اور نکاسی کا نظام قائم کیا۔ اس نے بڑے پیمانے پر نئی تعمیرات کا سلسلہ بھی شروع کیا جس کی سب سے بڑی مثال توپ کاپی محل اور گرینڈ بازار ہے۔ جلد ہی طرح طرح کے دست کار، کاریگر، تاجر، خطاط، مصور، سنار، اور دوسرے ہنرمند شہر کا رخ کرنے لگے۔

سلطان فاتح نے ہاجیہ صوفیہ کو چرچ سے مسجد بنا دیا، لیکن انھوں نے شہر کے دوسرے بڑے گرجا ’کلیسائے حواریان‘ کو یونانی آرتھوڈاکس فرقے کے پاس ہی رہنے دیا اور یہ فرقہ ایک ادارے کی صورت میں آج بھی قائم و دائم ہے۔

سلطان فاتح کے بیٹے سلیم کے دور میں عثمانی سلطنت نے خلافت کا درجہ اختیار کر لیا اور قسطنطنیہ اس کا دارالخلافہ، اور تمام سنی مسلمانوں کا مرکزی شہر قرار پایا۔

سلطان فاتح کے پوتے سلیمان عالیشان کے دور میں قسطنطنیہ نے نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ یہ وہی سلیمان ہیں جنھیں مشہور ترکی ڈرامے 'میرا سلطان' میں دکھایا گیا ہے۔ سلیمان عالیشان کی ملکہ خرم سلطان نے مشہور معمار سنان کی خدمات حاصل کیں جس نے ملکہ کے لیے ایک عظیم الشان محل تعمیر کیا۔ سنان کی دوسری مشہور تعمیرات میں سلیمانیہ مسجد، خرم سلطان حمام، خسرو پاشا مسجد، شہزادہ مسجد اور دوسری عمارتیں شامل ہیں۔

یورپ پر سقوطِ قسطنطنیہ کا بڑا گہرا اثر ہوا اور وہاں اس سلسلے میں کتابیں اور نظمیں لکھی گئیں اور متعدد پینٹنگز بنائی گئیں اور یہ واقعہ ان کے اجتماعی شعور کا حصہ بن گیا۔

یہی وجہ ہے کہ یورپ کبھی اسے بھول نہیں سکا۔ نیٹو کا اہم حصہ ہونے کے باوجود یورپی یونین ترکی کو قبول کرنے لیت و لعل سے کام لیتی ہے جس کی وجوہات صدیوں پرانی ہیں۔

یونان میں آج بھی جمعرات کو منحوس دن سمجھا جاتا ہے۔  29 مئی 1453 کو جمعرات ہی کا دن تھا۔

ننگے بدن والا ایک صحابی کا لقب

#_ننگے_بدن_والا 🌋


ایک انسان تھا جسے دنیا "ضرار بن ازور ؓ " کے نام سے جانتی تھی!


۔ ۔ ۔

یہ ایک ایسے انسان تھے کہ اس دور میں دشمن ان کے نام سے کانپ اٹھتے تھے اور انکی راہ میں آنے سے کتراتے تھے۔ جنگ ہوتی تھی تو سارے دشمن اور فوجیں زرہ اور جنگی لباس پہن کر جنگ لڑتے تھے۔

لیکن آفریں حضرت ضرار ؓ پر, زرہ تو درکنار اپنا کرتا بھی اتار دیتے تھے۔


لمبے بال لہراتے چمکتے بدن کے ساتھ جب میدان میں اترتے تھے تو ان کے پیچھے دھول نظر آتی تھی اور انکے آگے لاشیں۔ اتنی پھرتی، تیزی اور بہادری سے لڑتے تھے کہ دشمن کے صفیں چیر کر نکل جاتے تھے۔ ان کی بہادری نے بےشمار مرتبہ حضرت خالد بن ولید ؓ کو تعریف کرنے اور انعام و کرام دینے پر مجبور کیا۔


دشمنوں میں وہ "ننگے بدن والا" کے نام سے مشہور تھے۔


رومیوں کے لاکھوں کی تعداد پر مشتمل لشکر سے جنگِ اجنادین جاری تھی۔ حضرت ضرارؓ حسب معمول میدان میں اترے اور صف آراء دشمن فوج پر طوفان کی طرح ٹوٹ پڑے, اتنی تیزی اور بہادری سے لڑے کہ لڑتے لڑتے دشمن فوج کی صفیں چیرتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر سے بچھڑ کر دشمن فوج کے درمیان تک پہنچ گئے۔ دشمن نے انہیں اپنے درمیاں دیکھا تو ان کو نرغے میں لے کر بڑی مشکل سے قید کر لیا۔

مسلمانوں تک بھی خبر پہنچ گئی کہ حضرت ضرار ؓ کو قید کر لیا گیا ہے۔


حضرت خالد بن ولید ؓ نے اپنی فوج کے بہادر نوجوانوں کا دستہ تیار کیا اور حضرت ضرارؓ کو آزاد کروانے کے لیے ہدایات وغیرہ دینے لگے۔

اتنے میں انہوں نے ایک نقاب پوش سوار کو دیکھا جو گرد اڑاتا دشمن کی فوج پر حملہ آور ہونے جا رہا ہے۔ اس سوار نے اتنی تند خوہی اور غضب ناکی سے حملہ کیا کہ اس کے سامنے سے دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا۔ 

حضرت خالد ؓ اس کے وار دیکھ کر اور شجاعت دیکھ کر عش عش کر اٹھے اور ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ سوار کون ہے؟ لیکن سب نے لاعلمی ظاہر کی کہ وہ نہیں جانتے۔ حضرت خالد ؓ نے جوانوں کو اس سوار کی مدد کرنے کو کہا اور خود بھی مدد کرنے اس سوار کی جانب لپکے۔

 

گھمسان کی جنگ جاری تھی کبھی حضرت خالد بن ولید ؓ اس سوار کو نرغے سے نکلنے میں مدد کرتے اور کبھی وہ سوار حضرت خالد ؓ کی مدد کرتا۔

حضرت خالد ؓ اس سوار کی بہادری سے متاثر ہو کر اس کے پاس گئے اور پوچھا کون ہو تم؟ اس سوار نے بجائے جواب دینے کے اپنا رخ موڑا اور دشمنوں پر جارحانہ حملے اور وار کرنے لگا موقع ملنے پر دوسری بار پھر حضرت خالد ؓ نے پوچھا: اے سوار تو کون ہے؟ اس سوار نے پھر جواب دینے کی بجائے رخ بدل کر دشمن پر حملہ آور ہوا, تیسری بار حضرت خالد ؓ نے اس سوار سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ اے بہادر تو کون ہے؟ 


تو نقاب کے پیچھے سے نسوانی آواز آئی کہ میں ضرار ؓ کی بہن "خولہ بنت ازور ؓ" ہوں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک اپنے بھائی کو آزاد نہیں کروا لیتی۔ حضرت خالد ؓ نے کہا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا تو کہنے لگی آپ نے منع کر دینا تھا۔ حضرت خالد ؓ نے کہا آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی ہم تھے آزاد کروانے کے لیے تو حضرت خولہ ؓ نے جواب دیا کہ جب بھائیوں پر مصیبت آتی ہے تو بہنیں ہی آگے آیا کرتیں ہیں۔


پھر مسلمانوں اور حضرت خولہ ؓ نے مل کر حضرت ضرار ؓ کو آزاد کروا کر ہی دم لیا۔


ایک گزارش ::

اسلام خون اور قربانیوں کے دریا میں تیر کر پہنچا ہے اس کی قدر کریں جذبہ جہاد کو زندہ رکھیں کہ جب تک جہاد تھا مسلمان ہمیشہ غالب رہے جب جہاد چھوٹا تو مسلمانوں پر زوال آیا۔ 

کم از کم اپنے بچوں کے نام ان اسلام کے ہیروز کے نام پر رکھیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ان کا نام کس کے نام پر ہے اور نام کا اثر شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔اور ان کی تربیت ایسے کریں کہ اسلام کا مستقبل روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

یمن کا بادشاہ تبع خمیری

حضّور صلّی اللّہ عَلیہ وآلہ وَسّلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع خمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی ، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی اس مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہ ہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا ، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے، اے بادشاہ! آپ نے اگر کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی ، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔
پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہ ہی علماء نے جو کتب سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبّی آخر الزمّاں صلّی اللہ علیہِ وآلہ وَسّلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے پڑھی تھیں ، ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہاں ہی مر جائیں گے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبّی آخر الزمّاں صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔
یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم تشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نّبی آخر الزماں صلّی اللہ علیہِ وآلہ وسّلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ سرکّار ابد قرار صلّی اللہ علیہِ وآلہ وسّلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا۔
وہ خط نبّی کریم صلّی اللہ علیہِ وآلہ وسّلم کی خدمت اقدس مین ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟سنئیے اور عظمت حضّور صلّی اللہ علیہِ وآلہ وسّلم کی شان دیکھئے:
”کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے شفیع سیّد المرسلین مُحمّد رسّول اللہ صلّی اللّہ علیہِ وآلہ وسّلم اما بعد: اے اللّہ کے حبیّب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّہ ایک ہے اور آپ اس کے سچّے رسّول ہیں۔“
شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور جب حضّور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آ رہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضّور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم میرے گھر تشریف لائیں۔ حضّور صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسّلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع خمیری نے حضّور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا ، اسی میں حضّور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضّور کو شاہ یمن تبع خمیری کا خط دے آو جب ابو لیلٰی حاضر ہوا تو حضّور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔ حضّور نے فرمایا میں محّمد رسّول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط دیا، حضّور نے پڑھ کر فرمایا، صالح بھائی تُبّع کو آفرین و شاباش ہے۔
سبحان اللہ!) صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم
بحوالہ کُتب: (میزان الادیان)(کتاب المُستظرف)(حجتہ اللہ علے العالمین)(تاریخ ابن عساکر)
نوٹ کمنٹ میں محّمد صلّی اللہ علیہ وآلہ وَسّلم پورا لکھیں

اس تحریر کو شیئر کریں آپکا ایک سینکڈ لگے گا اور لوگوں کے علم میں اضافہ ہوگا
جزاک اللہ

پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ پیش ،کن علاقوں کو شامل کرلیا گیا ؟پاکستانیوں کے لیے بڑی خوشخبری

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )پاکستان نے اپنی جغرافیائی حدود کا تعین کرتے ہوئے نیا سیاسی نقشہ پیش کردیا جس میں جموں و مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔نقشے میں لائن آف کنٹرول کو بھی واضح طور پر دکھا یا گیا ہے۔میڈ یا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے نئے نقشے کو اقوام متحدہ میں پیش کیا جائے گا۔وزیراعظم عمران خان نے سیاسی نقشے کی تقریب رونمائی کے دوران کابینہ ممبران سے خطاب کرتے ہوئے کہا ایک دن یہ ہی نقشہ پاکستان کا نقشہ ہو گا ،یہ نقشہ پاکستانی قوم کی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے ۔بعد ازاں میڈ یا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتا یا کہ نئے نقشے میں فاٹا کے علاقوں کو خیبر پختونخواہ میں ضم کر دیا گیا ۔ان کا کہنا تھاکہ اس نقشے کے حوالے سے اپوزیشن پارٹیوں اور کشمیر ی قیادت کو اعتماد میں لیا گیا ۔

ترگت الپ تاریخی تناظر میں

دوستو ترگت الپ دیرلیس ارطغرل کا ایک اہم کردار تھا اور بہت سے لوگ اسے کرولس عثمان میں دیکھنا پسند کرتے ہیں


 کیونکہ لوگ کلہاڑی کے ساتھ اس کے لڑنے کا طریقہ پسند کرتے ہیں


 ہم نے تاریخ کا مطالعہ کیا کہ تاریخ کس طرح ترگت الپ کے بارے میں ہماری رہنمائی کرتی ہے ں

 تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عثمانی تاریخ کا ایک اہم حصہ تھا

 اگر انہیں کورولس عثمان میں شامل نہ کیا گیا تو یہ تاریخی طور پر غلط ہوگا
کیونکہ ، تاریخ کے مطابق ، وہ عثمان غازی کے بیٹے اورہان غازی کے عہد تک زندہ رہا اور 125 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوگیا


 دوستو انھیں عثمانی تاریخ کا ایک بہترین جنگجو اور ارطغرل غازی کا قریبی دوست قرار دیا گیا ہے۔

9
 وہ کائی قبیلے کا ایک الپ تھا اور اس کی کلہاڑی بہت مشہور تھی اور سلطنت عثمانیہ کے غازیوں میں اس کا نام بھی شامل تھا

10
 اس کی پیدائش کی جگہ معلوم نہیں ہے ، لیکن تاریخ میں ان کی تاریخ پیدائش 1200CE ہے

11
 ارغول غازی کی موت کے بعد ، انہوں نے عثمانی سلطنت کے بانی عثمانی غازی کی حمایت جاری رکھی۔

12
 وہ عثمان غازی کی ساری مہموں میں اس کے ساتھ رہا

13
 عثمان غازی نے اسے اینگول نامی ایک شہر فتح کرنے کی مہم پر بھیجا

14
00:01:41,840 --> 00:01:48,140
 انہوں نے بہترین ہتھکنڈوں سے شہر کو فتح کیا اور اس شہر کا حکمران مقرر کیا

15
00:01:48,359 --> 00:01:58,599
 انہوں نے شہر اور امن و خوشحالی کے ساتھ کئی سال حکمرانی کی اور ایک بہترین جنگجو ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین منتظم کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔

16
00:01:58,739 --> 00:02:08,519
 عثمان غازی کے بعد ، انہوں نے اپنے بیٹے کی حمایت جاری رکھی اور ایک انتہائی قابل اعتماد مشیر کی حیثیت سے ان کی رہنمائی کی۔

17
00:02:08,659 --> 00:02:18,939
 تاریخ کے مطابق ، انہوں نے طویل زندگی گزاری اور اپنے مشہور کلہاڑی سے لڑائی کے دوران شہید ہوگئے

18
00:02:19,039 --> 00:02:29,919
 اس کا مقبرہ ترکی کے شہر اینگلول ، ترکی کے گاؤں ترگوٹ الپ (جنسی) کے قبرستان میں واقع ہے۔ ارطغرل غازی کے مقبرے کے باہر یہ قبر ایک اعزازی قبر ہے

19
00:02:30,039 --> 00:02:38,099
 جیسا کہ آپ جانتے ہیں ، عثمانی تاریخ tugut alp دلچسپ کہانی کے بغیر نامکمل ہے

20
00:02:38,240 --> 00:02:44,040
 شتاریخ کے مطابق ، ہم امید کر سکتے ہیں کہ ہم کورول عثمان میں بھی ان کے کردار کو دیکھیں
https://link2fakhar.blogspot.com/2020/07/blog-post_27.html

حج بہترین عبادت

حج - ایک روحانی سفر حج - ایک روحانی سفر حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔ ہر مسل...