Fakhar Tv For Latest Tech & Quotes Historic Article Tips And Tricks Turkish Series Subtitles And Daily News Jobs
سلطان محمد فاتح
قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولا
ننگے بدن والا ایک صحابی کا لقب
#_ننگے_بدن_والا 🌋
ایک انسان تھا جسے دنیا "ضرار بن ازور ؓ " کے نام سے جانتی تھی!
۔ ۔ ۔
یہ ایک ایسے انسان تھے کہ اس دور میں دشمن ان کے نام سے کانپ اٹھتے تھے اور انکی راہ میں آنے سے کتراتے تھے۔ جنگ ہوتی تھی تو سارے دشمن اور فوجیں زرہ اور جنگی لباس پہن کر جنگ لڑتے تھے۔
لیکن آفریں حضرت ضرار ؓ پر, زرہ تو درکنار اپنا کرتا بھی اتار دیتے تھے۔
لمبے بال لہراتے چمکتے بدن کے ساتھ جب میدان میں اترتے تھے تو ان کے پیچھے دھول نظر آتی تھی اور انکے آگے لاشیں۔ اتنی پھرتی، تیزی اور بہادری سے لڑتے تھے کہ دشمن کے صفیں چیر کر نکل جاتے تھے۔ ان کی بہادری نے بےشمار مرتبہ حضرت خالد بن ولید ؓ کو تعریف کرنے اور انعام و کرام دینے پر مجبور کیا۔
دشمنوں میں وہ "ننگے بدن والا" کے نام سے مشہور تھے۔
رومیوں کے لاکھوں کی تعداد پر مشتمل لشکر سے جنگِ اجنادین جاری تھی۔ حضرت ضرارؓ حسب معمول میدان میں اترے اور صف آراء دشمن فوج پر طوفان کی طرح ٹوٹ پڑے, اتنی تیزی اور بہادری سے لڑے کہ لڑتے لڑتے دشمن فوج کی صفیں چیرتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر سے بچھڑ کر دشمن فوج کے درمیان تک پہنچ گئے۔ دشمن نے انہیں اپنے درمیاں دیکھا تو ان کو نرغے میں لے کر بڑی مشکل سے قید کر لیا۔
مسلمانوں تک بھی خبر پہنچ گئی کہ حضرت ضرار ؓ کو قید کر لیا گیا ہے۔
حضرت خالد بن ولید ؓ نے اپنی فوج کے بہادر نوجوانوں کا دستہ تیار کیا اور حضرت ضرارؓ کو آزاد کروانے کے لیے ہدایات وغیرہ دینے لگے۔
اتنے میں انہوں نے ایک نقاب پوش سوار کو دیکھا جو گرد اڑاتا دشمن کی فوج پر حملہ آور ہونے جا رہا ہے۔ اس سوار نے اتنی تند خوہی اور غضب ناکی سے حملہ کیا کہ اس کے سامنے سے دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا۔
حضرت خالد ؓ اس کے وار دیکھ کر اور شجاعت دیکھ کر عش عش کر اٹھے اور ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ سوار کون ہے؟ لیکن سب نے لاعلمی ظاہر کی کہ وہ نہیں جانتے۔ حضرت خالد ؓ نے جوانوں کو اس سوار کی مدد کرنے کو کہا اور خود بھی مدد کرنے اس سوار کی جانب لپکے۔
گھمسان کی جنگ جاری تھی کبھی حضرت خالد بن ولید ؓ اس سوار کو نرغے سے نکلنے میں مدد کرتے اور کبھی وہ سوار حضرت خالد ؓ کی مدد کرتا۔
حضرت خالد ؓ اس سوار کی بہادری سے متاثر ہو کر اس کے پاس گئے اور پوچھا کون ہو تم؟ اس سوار نے بجائے جواب دینے کے اپنا رخ موڑا اور دشمنوں پر جارحانہ حملے اور وار کرنے لگا موقع ملنے پر دوسری بار پھر حضرت خالد ؓ نے پوچھا: اے سوار تو کون ہے؟ اس سوار نے پھر جواب دینے کی بجائے رخ بدل کر دشمن پر حملہ آور ہوا, تیسری بار حضرت خالد ؓ نے اس سوار سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ اے بہادر تو کون ہے؟
تو نقاب کے پیچھے سے نسوانی آواز آئی کہ میں ضرار ؓ کی بہن "خولہ بنت ازور ؓ" ہوں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک اپنے بھائی کو آزاد نہیں کروا لیتی۔ حضرت خالد ؓ نے کہا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا تو کہنے لگی آپ نے منع کر دینا تھا۔ حضرت خالد ؓ نے کہا آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی ہم تھے آزاد کروانے کے لیے تو حضرت خولہ ؓ نے جواب دیا کہ جب بھائیوں پر مصیبت آتی ہے تو بہنیں ہی آگے آیا کرتیں ہیں۔
پھر مسلمانوں اور حضرت خولہ ؓ نے مل کر حضرت ضرار ؓ کو آزاد کروا کر ہی دم لیا۔
ایک گزارش ::
اسلام خون اور قربانیوں کے دریا میں تیر کر پہنچا ہے اس کی قدر کریں جذبہ جہاد کو زندہ رکھیں کہ جب تک جہاد تھا مسلمان ہمیشہ غالب رہے جب جہاد چھوٹا تو مسلمانوں پر زوال آیا۔
کم از کم اپنے بچوں کے نام ان اسلام کے ہیروز کے نام پر رکھیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ان کا نام کس کے نام پر ہے اور نام کا اثر شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔اور ان کی تربیت ایسے کریں کہ اسلام کا مستقبل روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
یمن کا بادشاہ تبع خمیری
پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہ ہی علماء نے جو کتب سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبّی آخر الزمّاں صلّی اللہ علیہِ وآلہ وَسّلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے پڑھی تھیں ، ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہاں ہی مر جائیں گے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبّی آخر الزمّاں صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔
یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم تشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نّبی آخر الزماں صلّی اللہ علیہِ وآلہ وسّلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ سرکّار ابد قرار صلّی اللہ علیہِ وآلہ وسّلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا۔
وہ خط نبّی کریم صلّی اللہ علیہِ وآلہ وسّلم کی خدمت اقدس مین ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟سنئیے اور عظمت حضّور صلّی اللہ علیہِ وآلہ وسّلم کی شان دیکھئے:
”کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے شفیع سیّد المرسلین مُحمّد رسّول اللہ صلّی اللّہ علیہِ وآلہ وسّلم اما بعد: اے اللّہ کے حبیّب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّہ ایک ہے اور آپ اس کے سچّے رسّول ہیں۔“
شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور جب حضّور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آ رہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضّور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم میرے گھر تشریف لائیں۔ حضّور صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسّلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع خمیری نے حضّور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا ، اسی میں حضّور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضّور کو شاہ یمن تبع خمیری کا خط دے آو جب ابو لیلٰی حاضر ہوا تو حضّور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔ حضّور نے فرمایا میں محّمد رسّول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط دیا، حضّور نے پڑھ کر فرمایا، صالح بھائی تُبّع کو آفرین و شاباش ہے۔
سبحان اللہ!) صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم
بحوالہ کُتب: (میزان الادیان)(کتاب المُستظرف)(حجتہ اللہ علے العالمین)(تاریخ ابن عساکر)
نوٹ کمنٹ میں محّمد صلّی اللہ علیہ وآلہ وَسّلم پورا لکھیں
اس تحریر کو شیئر کریں آپکا ایک سینکڈ لگے گا اور لوگوں کے علم میں اضافہ ہوگا
جزاک اللہ
پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ پیش ،کن علاقوں کو شامل کرلیا گیا ؟پاکستانیوں کے لیے بڑی خوشخبری
ترگت الپ تاریخی تناظر میں
کیونکہ لوگ کلہاڑی کے ساتھ اس کے لڑنے کا طریقہ پسند کرتے ہیں
ہم نے تاریخ کا مطالعہ کیا کہ تاریخ کس طرح ترگت الپ کے بارے میں ہماری رہنمائی کرتی ہے ں
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عثمانی تاریخ کا ایک اہم حصہ تھا
اگر انہیں کورولس عثمان میں شامل نہ کیا گیا تو یہ تاریخی طور پر غلط ہوگا
کیونکہ ، تاریخ کے مطابق ، وہ عثمان غازی کے بیٹے اورہان غازی کے عہد تک زندہ رہا اور 125 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوگیا
دوستو انھیں عثمانی تاریخ کا ایک بہترین جنگجو اور ارطغرل غازی کا قریبی دوست قرار دیا گیا ہے۔
9
وہ کائی قبیلے کا ایک الپ تھا اور اس کی کلہاڑی بہت مشہور تھی اور سلطنت عثمانیہ کے غازیوں میں اس کا نام بھی شامل تھا
10
اس کی پیدائش کی جگہ معلوم نہیں ہے ، لیکن تاریخ میں ان کی تاریخ پیدائش 1200CE ہے
11
ارغول غازی کی موت کے بعد ، انہوں نے عثمانی سلطنت کے بانی عثمانی غازی کی حمایت جاری رکھی۔
12
وہ عثمان غازی کی ساری مہموں میں اس کے ساتھ رہا
13
عثمان غازی نے اسے اینگول نامی ایک شہر فتح کرنے کی مہم پر بھیجا
14
00:01:41,840 --> 00:01:48,140
انہوں نے بہترین ہتھکنڈوں سے شہر کو فتح کیا اور اس شہر کا حکمران مقرر کیا
15
00:01:48,359 --> 00:01:58,599
انہوں نے شہر اور امن و خوشحالی کے ساتھ کئی سال حکمرانی کی اور ایک بہترین جنگجو ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین منتظم کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔
16
00:01:58,739 --> 00:02:08,519
عثمان غازی کے بعد ، انہوں نے اپنے بیٹے کی حمایت جاری رکھی اور ایک انتہائی قابل اعتماد مشیر کی حیثیت سے ان کی رہنمائی کی۔
17
00:02:08,659 --> 00:02:18,939
تاریخ کے مطابق ، انہوں نے طویل زندگی گزاری اور اپنے مشہور کلہاڑی سے لڑائی کے دوران شہید ہوگئے
18
00:02:19,039 --> 00:02:29,919
اس کا مقبرہ ترکی کے شہر اینگلول ، ترکی کے گاؤں ترگوٹ الپ (جنسی) کے قبرستان میں واقع ہے۔ ارطغرل غازی کے مقبرے کے باہر یہ قبر ایک اعزازی قبر ہے
19
00:02:30,039 --> 00:02:38,099
جیسا کہ آپ جانتے ہیں ، عثمانی تاریخ tugut alp دلچسپ کہانی کے بغیر نامکمل ہے
20
00:02:38,240 --> 00:02:44,040
https://link2fakhar.blogspot.com/2020/07/blog-post_27.html
حج بہترین عبادت
حج - ایک روحانی سفر حج - ایک روحانی سفر حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔ ہر مسل...

-
Kuruluş Osman Season 6, the thrilling historical drama that has captivated audiences worldwide, is gearing up for its much-anticipated sixth...
-
Watch Sultan Mehmed Fateh with Urdu Subtitles By Makki TV | Hadaf Play || Historical Point | Ajmal Play Mehmed II, often referred to as Meh...
-
The cryptocurrency market is notorious for its volatility. Prices can swing dramatically within hours, presenting both challenges and opport...