_مجاہد_کی_اذاں_اور
ایک یوم شہداء کشمیر کی وادیوں میں منایا جائے گا ۔ ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ۔ اقوام متحدہ اور عالمی سامراجوں کے سامنے کشمیر میں ہندؤ سامراج کے ظلم کی داستاں بیان کی جائے گی مگر ایک یوم شہداء جنت الفردوس کے بالاخانوں پر بھی منعقد ہو گا جس کی قیادت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کر رہے ہوں گے ۔
میری محبت سمجھیں یا عقیدت ، یا اس مرتبہ مقام پر پہنچنے کی ہر مسلمان کی طرح ایک حسرت ، میں چشم تصور میں دیکھتا ہوں کہ
جنت الفردوس کے سر سبز و رنگین باغات میں چشمے کے اوپر لگے مسند ، ان پہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ براجمان ہیں ۔ انکے ساتھ وہ مؤذن بیٹھے ہوں گے جو سنت بلالی کو نبھاتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے ۔ خوب نعمتوں سے بھرا اور سجا دستر خوان ہو گا ۔ کنیزیں اور غلام خدمت پر معمور ہوں گے ۔ اللہ پا ک کی نعمتوں سے رضامندی سے اپنے زخمی و لہولہان وجود کو راحت و فرحت سے ہمکنار کر رہیں ہوں گے ۔
یہ مؤذن کون ہوں گے یہ وہ با سعادت لوگ ہیں جن کو 13 جولائی 1931ء کو سنٹرل جیل سرینگر کے باہر ایک کے بعد ایک رب العالمین کی کبریائی بیان کرتے ہوئے بائیس جوان جام شہادت کو نوش کر گئے تھے ۔
حرمت قرآن کے مسئلے کو لے کر احتجاج چل رہا تھا جس کا ٹرائل سرینگر جیل میں ہو رہا تھا ۔ لوگوں کا جم غفیر باہر فیصلے کا منتظر اور سزا کا مطالبہ لئے سراپا احتجاج تھا ۔ نماز کا وقت ہوا ایک جوان اٹھا اس نے اللہ اکبر کی صدا سے اذان بلند کی ۔ مگر وقت کے فرعونوں کو رب ذوالجلال کی وحدانیت و حقانیت اور اس کا برملا اظہار کسی بھی دور میں قابل برداشت نہیں رہا ۔ ہمیشہ اوچھے اور انسانیت سوز ہتھکنڈوں سے اس کو دبانے کی ناکام کوشش کی گئی ۔
سیدنا بلال کا احد احد کہنا بھی امیہ ، ابو جہل اور عتبہ و شیبہ کی سماعتوں پر بجلیاں گراتا تھا تو انکی زبان پر گرم کوئلہ رکھا گیا ۔ زبان کو جلانے کی کوشش کی گئی ۔ مگر وہ بھی بلال تھے ۔ نہ قدم ڈگمگائے نہ مؤقف سے ہٹے نہ احد احد کی صدا کی آواز میں کمی آئی۔
بالکل عین اسی طرح ڈوگرہ راج کے یہ ظالم و جابر غنڈوں نے اذان دینے والے کشمیری نوجوان پر فائر کیا اور وہ موقع پر شہید ہو گیا ۔ مگر جو اس کے بعد ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا ۔ وہ وہی انداز وفا داری تھا جو بلال نے اسلام قبول کرنے کے بعد نبھایا ۔
ایک شہید ہوا تو دوسرے نے کھڑے ہو کر اذان کو انہی الفاظ سے آگے بڑھایا جہاں تک اس کےمنہ سے وقت نزاع جاری تھے ۔ ظالموں نے دوسرے پر بھی فائر کھول دیا ۔ اور یہ سلسلہ اذان کے مکمل ہونے تک بائیس نوجوانوں کی شہادت سے مکمل ہوا. 22 ماؤں کے لعل قربان ہو گئے..
غاصب، ظالم، درندہ صفت ہندو فوج نے ظلم کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی. جرم کیا تھا کہ رب العزت کی کبریائی کو اذان کو بلند کرنا...
ہم ان شہیدوں کو سلیوٹ کرتے ہیں. وہ رب کی جنتوں کے خاص مہمان بن گئے.
اور اقوام عالم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیری عوام کو جینے کا حق دیا جائے....
✍️.. محمد طلحہ
ایک یوم شہداء کشمیر کی وادیوں میں منایا جائے گا ۔ ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ۔ اقوام متحدہ اور عالمی سامراجوں کے سامنے کشمیر میں ہندؤ سامراج کے ظلم کی داستاں بیان کی جائے گی مگر ایک یوم شہداء جنت الفردوس کے بالاخانوں پر بھی منعقد ہو گا جس کی قیادت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کر رہے ہوں گے ۔
میری محبت سمجھیں یا عقیدت ، یا اس مرتبہ مقام پر پہنچنے کی ہر مسلمان کی طرح ایک حسرت ، میں چشم تصور میں دیکھتا ہوں کہ
جنت الفردوس کے سر سبز و رنگین باغات میں چشمے کے اوپر لگے مسند ، ان پہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ براجمان ہیں ۔ انکے ساتھ وہ مؤذن بیٹھے ہوں گے جو سنت بلالی کو نبھاتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے ۔ خوب نعمتوں سے بھرا اور سجا دستر خوان ہو گا ۔ کنیزیں اور غلام خدمت پر معمور ہوں گے ۔ اللہ پا ک کی نعمتوں سے رضامندی سے اپنے زخمی و لہولہان وجود کو راحت و فرحت سے ہمکنار کر رہیں ہوں گے ۔
یہ مؤذن کون ہوں گے یہ وہ با سعادت لوگ ہیں جن کو 13 جولائی 1931ء کو سنٹرل جیل سرینگر کے باہر ایک کے بعد ایک رب العالمین کی کبریائی بیان کرتے ہوئے بائیس جوان جام شہادت کو نوش کر گئے تھے ۔
حرمت قرآن کے مسئلے کو لے کر احتجاج چل رہا تھا جس کا ٹرائل سرینگر جیل میں ہو رہا تھا ۔ لوگوں کا جم غفیر باہر فیصلے کا منتظر اور سزا کا مطالبہ لئے سراپا احتجاج تھا ۔ نماز کا وقت ہوا ایک جوان اٹھا اس نے اللہ اکبر کی صدا سے اذان بلند کی ۔ مگر وقت کے فرعونوں کو رب ذوالجلال کی وحدانیت و حقانیت اور اس کا برملا اظہار کسی بھی دور میں قابل برداشت نہیں رہا ۔ ہمیشہ اوچھے اور انسانیت سوز ہتھکنڈوں سے اس کو دبانے کی ناکام کوشش کی گئی ۔
سیدنا بلال کا احد احد کہنا بھی امیہ ، ابو جہل اور عتبہ و شیبہ کی سماعتوں پر بجلیاں گراتا تھا تو انکی زبان پر گرم کوئلہ رکھا گیا ۔ زبان کو جلانے کی کوشش کی گئی ۔ مگر وہ بھی بلال تھے ۔ نہ قدم ڈگمگائے نہ مؤقف سے ہٹے نہ احد احد کی صدا کی آواز میں کمی آئی۔
بالکل عین اسی طرح ڈوگرہ راج کے یہ ظالم و جابر غنڈوں نے اذان دینے والے کشمیری نوجوان پر فائر کیا اور وہ موقع پر شہید ہو گیا ۔ مگر جو اس کے بعد ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا ۔ وہ وہی انداز وفا داری تھا جو بلال نے اسلام قبول کرنے کے بعد نبھایا ۔
ایک شہید ہوا تو دوسرے نے کھڑے ہو کر اذان کو انہی الفاظ سے آگے بڑھایا جہاں تک اس کےمنہ سے وقت نزاع جاری تھے ۔ ظالموں نے دوسرے پر بھی فائر کھول دیا ۔ اور یہ سلسلہ اذان کے مکمل ہونے تک بائیس نوجوانوں کی شہادت سے مکمل ہوا. 22 ماؤں کے لعل قربان ہو گئے..
غاصب، ظالم، درندہ صفت ہندو فوج نے ظلم کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی. جرم کیا تھا کہ رب العزت کی کبریائی کو اذان کو بلند کرنا...
ہم ان شہیدوں کو سلیوٹ کرتے ہیں. وہ رب کی جنتوں کے خاص مہمان بن گئے.
اور اقوام عالم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیری عوام کو جینے کا حق دیا جائے....
✍️.. محمد طلحہ