Type Here to Get Search Results !

کلمہ طیبہ کی فضیلت

مخلوق کیلیے شرف کا مقام ہے کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت اور اسی کی بندگی پر کار بند رہے، احکامات الہیہ اور تخلیق کی یہی حکمت ہے، اسی بندگی کی بنا پر دنیا اور آخرت میں کامیابی ملے گی، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا}  اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے وہ یقیناً بہت عظیم کامیابی پا گیا۔[الأحزاب: 71]

خوشی، سرور، لذت اور  خوشگوار لمحات صرف اللہ تعالی کی معرفت، اسے ایک ماننے اور اس پر ایمان لانے میں ہے، افضل اور محبوب ترین کلام وہ ہے جس میں اس کی حمد و ثنا ہو، اور اللہ تعالی کی بہترین  ثنا کلمہ توحید: لا الہ الا اللہ ہے۔

اسی کلمے کی بنیاد پر آسمان و زمین قائم ہیں، اسی کے لیے موجودات کو وجود دیا گیا، اللہ تعالی نے اپنی کتابیں بھی اسی کیلیے نازل کیں اور رسولوں کو مبعوث فرمایا، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ}  اور آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف  یہی وحی کرتے رہے کہ " میرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لہذا صرف میری ہی عبادت کرو " [الأنبياء: 25]

لا الہ الا اللہ کے ذریعے رسولوں نے اپنی اقوام کو ڈرایا، فرمانِ باری تعالی ہے: { أَنْ أَنْذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ}  متنبہ کر دو کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں لہذا مجھ ہی  سے ڈرو [النحل: 2]

اس کلمے  کے ذریعے اللہ تعالی نے اپنے بارے میں گواہی دی اور اس پر اپنی افضل ترین مخلوقات کو گواہ بنایا، فرمانِ باری تعالی ہے: {شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} اللہ نے خود بھی اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، اور فرشتوں نے بھی اور اہل علم  نے بھی راستی اور انصاف کے ساتھ یہی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہی غالب ہے، حکمت والا ہے [آل عمران: 18]

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ جلیل القدر، سب سے عظیم، مبنی بر عدل اور سچی گواہی ہے ، اس گواہی کے شاہد اور مشہود دونوں ہی جلیل القدر ہیں"

تمام شریعتوں کی بنیاد یہی کلمہ ہے، اور دین سارے کا سارا اسی لا الہ الا اللہ کے حقوق پر مبنی ہے، ثواب اسی پر موقوف ہے، اور عذاب اس کلمے کو ترک کرنے یا اس کے حقوق میں کمی کرنے پر ہو گا۔

کلمہ توحید عالی مرتبت اور ڈھیروں فضائل والا کلمہ ہے، یہ علی الاطلاق اسلام کی چوٹی ہے، اسلام کا سب سے پہلا رکن اور بنیاد ہے، یہی کلمہ اسلام کے تمام ارکان کی بنیاد ہے، یہ کلمہ اللہ تعالی پر ایمان لانے کا رکن اور ایمان باللہ کا سب سے بڑا حصہ ہے؛ اسی لیے کلمے کے بغیر  ایمان صحیح نہیں ہو سکتا اور ایمان میں استحکام بھی اسی سے آتا ہے، کلمہ ہی ملت کی بنیاد اور قبلے کے تعین  کی وجہ ہے، یہ تمام بندوں پر اللہ تعالی کا حق ہے، کلمۂ توحید اسلام اور جنت کی چابی ہے، اسی کی بنیاد پر لوگ بد بخت اور نیک بخت  ہیں، مقبول اور دھتکارے ہوئے ہیں، یہ کلمہ کفر اور اسلام میں فرق کرتا ہے ۔

قوتِ گویائی رکھنے والے لا الہ الا اللہ سے اچھا بول نہیں بول سکتے، اور نہ ہی عمل کرنے والے اس کے تقاضوں سے اچھا کوئی عمل کر سکتے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کے ہاں چار الفاظ محبوب ترین ہیں: سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَاللهُ أَكْبَرُ) مسلم

یہی کلمۂ تقوی ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے اولیاء کیلیے مختص کیا ، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى} اور ان پر کلمۂ تقوی لازم کر دیا۔[الفتح: 26]

اور یہی مضبوط کڑا ہے، جسے تھامنے والا نجات پائے گا، فرمانِ باری تعالی ہے: {فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا} جو شخص طاغوت سے کفر کرے اور اللہ ایمان پر لائے تو اس نے ایسے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتا ۔[البقرة: 256]

بلندی اس کلمے کی امتیازی صفت اور بقا اس کا خاصہ ہے: {وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا} کلمۂ الہی ہی  بلند و بالا ہے۔[التوبہ: 40]

یہی کلمہ طیبہ ہے اور اس کیلیے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مثال دیتے ہوئے فرمایا: {أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ} آپ دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ  کی کیسی عمدہ مثال بیان کی ہے جیسے وہ ایک پاکیزہ  درخت ہو جس کی جڑ (زمین میں خوب) جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان میں ہیں [ابراہیم: 24]

اسی کلمے سے شرح صدر ہوتی ہے: {فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ}پس جس کے بارے میں اللہ تعالی ارادہ فرمائے اس کی اسلام کیلیے شرح صدر فرما دیتا ہے۔ [الأنعام: 125] ابن جریج رحمہ اللہ کہتے ہیں: " یعنی لا الہ الا اللہ کے ذریعے شرح صدر ہو جاتی ہے"

اسی سے انسان سلیم القلب بنتا ہے، {يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ} اس دن دولت اور نرینہ اولاد فائدہ نہیں پہنچا سکتے [88]ماسوائے اس شخص کے جو قلب سلیم لیکر آئے۔[الشعراء: 88، 89] ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یعنی: " قلب سلیم وہ ہوتا ہے جو لا الہ الا اللہ کی گواہی دے، یہی حق کی دعوت ہے جس میں کوئی باطل نہیں، یہی سیدھی بات ہے جس میں کوئی ٹیڑھ پن نہیں، یہی سچی گواہی  ہے اس میں جھوٹ کا شائبہ بھی نہیں، یہ اللہ تعالی کو مخلوق سے ممتاز کرنے والا وصف ہے ، اور یہی ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں باقی رہنے والا کلمہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ} اور اسے اس کی نسل میں باقی رہنے والا کلمہ بنایا، تا کہ وہ رجوع کریں۔[الزخرف: 28]"

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:  " یعنی لا الہ الا اللہ کو ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں دائمی طور پر آباد فرما دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں جسے اللہ تعالی ہدایت دے گا وہی اس پر چلے گا"

لا الہ الا اللہ مخلوقات کیلیے عظیم ترین نعمت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً} اور اس نے تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں بہا دی ہیں۔[لقمان: 20] اس کی تفسیر میں سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:  " اللہ تعالی نے بندوں کو لا الہ الا اللہ کی معرفت سے بڑھ کوئی نعمت عطا نہیں فرمائی"

یہ کلمہ دنیا وما فیہا سے بہتر ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اگر میں : سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ کہوں تو یہ میرے لیے ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج طلوع ہوا) مسلم

علم اور عمل کے اعتبار سے لا الہ الا اللہ سب سے پہلا فریضہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ } پس جان لو کہ بیشک اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔[محمد: 19] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " سلف صالحین اور ائمہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ بندوں کو جس چیز کا سب سے پہلے حکم دیا جائے گا وہ شہادتین ہیں"

نیز لا الہ الا اللہ سب سے آخری واجب بھی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جس شخص کے آخری الفاظ لا الہ الا اللہ ہوئے تو وہ جنت میں جائے گا) ابو داود

ایسا عالم جو اس پر عمل پیرا ہو وہی استقامت پر ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ} بیشک جن لوگوں نے کہا : ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر اس پر ڈٹ گئے ، تو ان پر نہ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔[الأحقاف: 13] ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "یعنی: جو لا الہ الا اللہ کی گواہی پر ڈٹ گئے"

جس قدر آپ یہ کلمہ کہنے میں سچے ہوں گے اپنے دل کو اسی مقدار میں غیر اللہ سے پاک صاف کر لیں گے؛ یہی وجہ ہے کہ جو شخص بھی اس کلمے کو سچے دل سے کہتا ہے وہ اللہ کے سوا کسی سے محبت نہیں کرتا، وہ صرف اسی سے امید لگاتا ہے، وہ اسی سے ڈرتا ہے، اسی پر توکل کرتا ہے، اس کے دل میں نفس یا خواہش پرستی کے معمولی اثرات بھی باقی نہیں رہتے۔

لا الہ الا اللہ مال و جان کے تحفظ کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جس شخص نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا اور اللہ کے سوا جن کی  عبادت کی جاتی ہے ان کا انکار کر دیا تو اس کا مال اور جان محفوظ ہو گئی، اور اب اس کام معاملہ اللہ تعالی کے ساتھ ہے) مسلم

لا الہ الا اللہ ہی سب سے پہلی دعوت ہے، نبی ﷺ نے بھی اپنی دعوت کا آغاز اسی سے فرمایا، اسی پر اپنے صحابہ کرام سے بیعت لیتے تھے، نبی ﷺ اپنے داعیانِ دین کو مختلف علاقوں میں ارسال فرماتے ہوئے اسی کی تلقین فرماتے، چنانچہ آپ ﷺ نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا: (تم اہل کتاب کے پاس جا رہے ہو، سب سے پہلے اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور میں [محمد ﷺ] اللہ کا رسول ہوں۔)متفق علیہ

کلمہ توحید تمام مخلوقات کے ہاں یکساں مسلمہ ہے، اسی پر اتحاد و اتفاق ممکن ہے، اس کے بغیر گروہ بندی اور اختلاف پیدا ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا} آپ ان سے کہہ دیں: اے اہل کتاب ! اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں مسلم ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک بھی نہ بنائیں۔ [آل عمران: 64]

سچے دل سے کلمہ پڑھنے والا کامیاب ہو گیا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (لوگو! لا الہ الا اللہ کہہ دو؛ تم کامیاب ہو جاؤ گے) احمد

کلمہ توحید پر قائم دائم شخص  ایمان کے اعلی ترین درجے پر فائز ہوتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (ایمان کے ستر سے زائد درجے ہیں ان میں افضل ترین لا الہ الا اللہ کہنا ہے) مسلم

جس آیت میں لا الہ الا اللہ کا ذکر ہے وہ قرآن مجید کی سب سے افضل ترین آیت ہے، اسی طرح سید الاستغفار کے الفاظ میں بھی لا الہ الا اللہ موجود ہے۔

جن اعمال کا ثواب کئی گنا بڑھا چڑھا کر دیا جائے گا ان میں بھی لا الہ الا اللہ کا ذکر ہے، چنانچہ جو شخص ایک دن میں 100 بار کہے: (" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ "[اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کیلیے تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔] تو اس کیلیے یہ کلمات دس غلام آزاد کرنے  کے برابر ہوں گے، اس کیلیے 100 نیکیاں لکھی جائیں گی ، اس کے 100 گناہ مٹا دیے جائیں گے، اور اس دن شام تک کیلیے  شیطان سے حفاظت میں ہو گا، نیز اس شخص سے افضل عمل صرف وہی شخص کر سکتا ہے  جو اس سے بھی زیادہ بار اسے پڑھے) متفق علیہ

اور اسی طرح جو شخص دس بار کہے: (" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ "[اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کیلیے تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔] تو اس کیلیے یہ کلمات اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے دس غلام آزاد کرنے  کے برابر ہوں گے) مسلم

یہ کلمہ مال خرچ کئے بغیر بہت بڑا صدقہ ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے)

یہ کلمہ بندے کیلیے قبر میں عذاب سے نجات  اور ثابت قدمی کا باعث ہے، چنانچہ : "مسلمان سے قبر میں جب پوچھا جائے گا تو وہ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی گواہی دے گا ، اللہ تعالی کے اس فرمان میں یہی ثابت قدمی سے مراد ہے: {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ} جو لوگ ایمان لائے انھیں اللہ قول ثابت (کلمہ طیبہ) سے دنیا کی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں بھی رکھے گا   [ابراہیم: 27] بخاری

اللہ تعالی کے حکم سے گناہوں کے رجسٹر  کلمہ توحید کے مقابلے میں ہلکے ہو جائیں گے: ( ایک شخص کو لایا جائے گا اور اس کے سامنے اللہ تعالی [اس کے گناہوں کے]ننانوے رجسٹر کھولے گا جن میں سے ہر رجسٹر تا حد نگاہ ہوگا ۔پھر  کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا جائے گا جس میں لکھا ہوگا " أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ "[یعنی: میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں اور یہ کہ محمد-ﷺ-اس کے بندے اور رسول ہیں]  پھر ان رجسٹروں کو ایک پلڑے میں رکھا جائے گا ان کا پلڑا اوپر ہو جائے گا اور کاغذ کے اس پرزے والا پلڑا جھک جائے گا)احمد

(اگر ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور لا الہ الا اللہ کو دوسرے پلڑے میں تو لاالہ الا اللہ والا پلڑا جھک جائے گا اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمین ایک ٹھوس کڑی ہوتی تو لاالہ الا اللہ انہیں بھی توڑ دیتا) احمد

لا الہ الا اللہ کہنے والے شفاعت بھی کریں گے، رحمان نے ان سے وعدہ  کیا ہوا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا} کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہوگا سوائے ان کے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ لے لیا ہے  ۔[مريم: 87]

رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کے سب سے زیادہ حقدار اخلاص اور سچائی کے ساتھ کلمہ پڑھنے والے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (قیامت کے دن میری شفاعت کے سب سے زیادہ حقدار وہ ہیں جنہوں نے سچے دل کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہا) بخاری

جنت اس شخص کا بدلہ ہے جس نے کلمہ اخلاص اور سچے دل کے ساتھ پڑھا، بغیر کسی شک کے اس پر یقین کیا، اس کے مطابق عمل کیا اور اس سے متصادم چیزوں سے دور رہا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جس شخص نے بھی لا الہ الا اللہ کہا اور اسی پر فوت ہو گیا تو وہ جنت میں جائے گا) متفق علیہ

لا الہ الا اللہ کہنے والے کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے وہ جہاں سے چاہے داخل ہو جائے، بلکہ جو شخص سچے دل سے کلمہ پڑھے، اس کے مطابق عمل کرے تو اسے آگ نہیں چھوئے گی، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (کوئی بھی شخص سچے دل کے ساتھ یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور بیشک محمد اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالی اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے) متفق علیہ

لا الہ الا اللہ کہنے والے کو اللہ تعالی  جہنم سے ضرور باہر نکالے گا چاہے اس کے دل میں ذرے کے برابر ایمان ہو، حدیث قدسی ہے: (مجھے میرے جلال ، کبریائی اور عظمت کی قسم! جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا میں انہیں جہنم سے ضرور نکالوں گا) بخاری

بندے کی زندگی میں کلمۂ توحید کی اہمیت کے پیش نظر شریعت نے کلمۂ توحید پر قائم رہنے کی ترغیب دلائی ؛چاہے حالات یا معاملات کسی بھی قسم کے ہوں، چنانچہ  جو شخص صبح اور شام کے وقت (" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ "[اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کیلیے تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے] کہتا ہے تو اس کیلیے یہ کلمات اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے غلام آزاد کرنے  کے برابر ہوں گے، اس کیلیے 10 نیکیاں لکھی جائیں گی ، اس کے 10گناہ مٹا دیے جائیں گے، اس کے 10درجات بلند کر دئیے جائیں گے، اور اس دن شام تک کیلیے  شیطان سے حفاظت میں ہو گا، اور اگر وہ شام کے وقت کہے تو اس کیلیے صبح تک ایسا ہی اجر ہو گا) ابو داود

اور اگر وضو سے فراغت کے بعد کہے تو: اس کیلیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (کوئی بھی شخص اچھی طرح وضو کرے  اور پھر کہے: " أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ "[میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں  وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں] تو اس کیلیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں وہ جہاں سے مرضی داخل ہو جائے) مسلم

کلمے کے الفاظ اذان کی ابتدا اور انتہا میں بھی ہیں۔(جو شخص بھی انہیں سچے دل کے ساتھ مؤذن کی اذان کے بعد پڑھے تو وہ جنت میں داخل ہو گا) مسلم، اور اسی طرح فرمایا: ( جو شخص بھی مؤذن کی اذان سننے کے بعد کہے: "أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِالْإِسْلَامِ دِيْنًا "[ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا  ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور بیشک محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ تعالی کو اپنا رب، محمد کو رسول اور اسلام کو اپنا دین مان کر راضی ہوں]اس کے گناہ معاف کر دئیے گئے) مسلم

مسلمان نماز کی ابتدا بھی توحید سے کرتا ہے، تشہد [یعنی کلمے کی گواہی]کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوتی اور پھر سلام پھیرنے سے پہلے نمازی اللہ تعالی کو اسی کا وسیلہ دے کر مانگتا ہے: (اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ[اے اللہ میں نے جو پہلے گناہ کیے ہیں اور جو میں نے پیچھے گناہ کیے، اور جو میں نے پوشیدہ کیے اور جو اعلانیہ کیے، اور جو میں نے زیادتی کی جسے تو مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے، تو ہی پہلے اور تو ہی آخر ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود بر حق اور الہ نہیں]) مسلم

اور ہر نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ فرماتے: (لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کیلیے تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے]) متفق علیہ، یہ کلمات کہتے ہوئے سبحان اللہ، الحمد للہ، اور اللہ اکبر  کی تسبیح مکمل کرتا ہے تو (اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں) مسلم

رسول اللہ ﷺ مناسک میں جس وقت صفا اور مروہ پہاڑی پر چڑھتے  تو قبلہ رخ ہو کر اللہ تعالی کی وحدانیت بیان کرتے اور تکبیرات کہتے۔ مسلم

رسول اللہ ﷺ  مزدلفہ  آ کر مشعر الحرام  پر چڑھے، قبلہ رخ ہوئے، اللہ تعالی کی حمد  اور کبریائی بیان کی، لا الہ الا اللہ کہا، اور اللہ تعالی کی وحدانیت بیان کی۔ نسائی

جس وقت حج، عمرہ، یا کسی غزوے کے سفر سے واپس ہوتے تو ہر چڑھائی پر تین بار تکبیر کہتے اور پھر فرماتے: (لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[اللہ کے سوا کوئی معبودِ  بر حق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کیلیے تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے]) متفق علیہ

نیکیوں کی بہار والے ایام میں لا الہ الا اللہ کا کثرت سے ورد کرنا مستحب ہے، جیسے کہ عشرہ ذو الحجہ کے ایام۔

رسول اللہ ﷺ اپنے خطبے کا آغاز  کلمہ توحید  سے فرماتے۔

جس وقت آپ ﷺ لوگوں میں گھل مل کر رہتے ہوئے ایسی مجلس میں بیٹھ جاتے جہاں بہت زیادہ باتی ہوئی ہوں تو اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے فرماتے: (سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ [یا اللہ! تو پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے بخشش کا طلب گار ہوں اور تیری جانب رجوع کرتا ہوں] تو اس مجلس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں) ترمذی

اور (جو شخص رات کے وقت  بیدار ہوا اور یہ الفاظ پڑھنے کے بعد دعا مانگی تو اسکی دعا قبول ہوگی، اور اگر وضو کر کے نماز پڑھی تو اس کی نماز بھی قبول ہوگی) بخاری

پریشانی اور دکھ بھرے حالات میں آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے: (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ  رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ)[اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہی عظمت والا اور برد بار ہے، اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہی عرش عظیم کا پروردگار ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں  وہی آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے، وہی عرش کریم کا پروردگار ہے] متفق علیہ

اللہ تعالی سے مانگنے سے قبل ثنائے الہی  دعا کی قبولیت کا سبب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ[87] فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ} مچھلی والے  [یونس علیہ السلام]  کو یاد کرو! جبکہ وہ غصہ سے چل دیئے اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے،  بالا آخر وہ اندھیروں   کے اندر سے پکار اٹھا: الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ہی ظالموں میں سے تھا  [87] تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات دے دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیا کرتے ہیں ۔[الأنبياء: 87-88]آپ ﷺ کا فرمان ہے: (کوئی بھی مسلمان اپنی کسی بھی ضرورت میں ان الفاظ کے ذریعے مانگے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے) ترمذی

کلمہ توحید غیر اللہ کی قسم اٹھانے کا کفارہ ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص قسم اٹھاتے ہوئے کہہ دے: لات اور عزی کی قسم، تو وہ [اس کے کفارے میں ] کہے: لا الہ الا اللہ) متفق علیہ

قریب المرگ کو کلمے کی تلقین کرنا مستحب ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اپنے مردوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو) مسلم

اگر کوئی شخص کافر ہے تو اسے بھی کلمہ پڑھنے کی دعوت دی جائے گی چاہے وہ قریب المرگ ہی کیوں نہ ہو، (جس وقت ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: "چچا  لا الہ الا اللہ کہہ دو؛ اس کی وجہ سے میں تمہاری اللہ تعالی کے ہاں گواہی دوں گا") مسلم

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!

عزت اور غلبہ عقیدہ توحید  میں ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "ہم ایسی قوم ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں اسلام کی وجہ سے عزت بخشی" کلمے کی گواہی عزت اور غلبے کا پتہ ہے، اور ایسی بات میں کوئی خیر نہیں جس کی پاسداری خود اپنا عمل نہ کرے، جس شخص نے اپنی زبان سے کلمہ نہیں پڑھا تو اس سے دنیا و آخرت کی لذتیں چوک گئیں، مسلمانوں کی ترقی اور تنزلی کا دارو مدار اس کلمے کے ساتھ قولی اور عملی لگاؤ پر ہے، کلمہ ہی اللہ تعالی کے ہاں معیار ہے، چنانچہ اگر کلمے کی جڑیں پختہ ہیں تو اللہ تعالی ان سے راضی ہے، وہ خود بھی معزز اور عالی مرتبت ہوں گے، اور اگر کلمے کی جڑیں کچی ہیں تو وہ اللہ تعالی سے دور اور کمزور ہوں گے۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: {فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ}  ذہن نشین کر لو: اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اپنے لئے نیز مومن مردوں و خواتین کے لئے بھی گناہ کی معافی طلب کری۔ اللہ تو تمہارے چلنے پھرنے کے مقامات کو بھی جانتا اور آخری ٹھکانے  کو بھی۔ [محمد: 19]

 اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی  بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area