Type Here to Get Search Results !

عید الاضحی اور قربانی کے مسائل

زاویہ نظر
مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن

فلسفہ ٔقربانی
اصل عربی لفظ ’’قُربان‘‘ ہے اور اس کا مادّہ ’’ق ر ب ‘‘ہے ،اس کے معنی ہیں :اللہ تعالیٰ کی ذات سے قربت حاصل کرنے اور اُس کی رضا کے لیے عبادت کی نیت سے اس کی بارگاہ میں کوئی جانی یا مالی نذر اور صدقہ پیش کرنا ، اس لفظ کو ہم نے اردو میں بدل کر ’’قربانی‘‘ بنا دیا ، جیسے عربی کے لفظ ’’حَاجّ‘‘ کو ہم نے اردو میں ’’حاجی‘‘ بنا دیا۔خاص طورپردس تا بارہ ذوالحجہ مسلمان حضرات ابراہیم واسماعیل وسیدنا محمد رّسول اللہ عَلَیْھِمُ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَام کی سنت کے طور پرجو جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں، اسے قرآن وحدیث میں ’’نُسُک ،اُضْحِیَہ، ضَحِیَّہ، بَدْنَہ اورشَعَائر‘‘بھی کہا گیاہے ،اُضْحِیَّہ کی جمع ’’اَضَاحِی‘‘ اور ضَحِیَّۃ  کی جمع ’’ضَحَایَا‘‘ ہے۔

 ہردور میں اہلِ دانش یہ کہتے رہے ہیں کہ تین دنوں میں اتنی بڑی تعداد میں قربانی کے جانور وںکا ذبح کیاجانا ایک غیردانش مندانہ وغیراقتصادی عمل اور وسائل کا ضیاع ہے۔ ایک مشورہ یہ بھی دیا جاتاہے کہ قربانی پر خرچ ہونے والے پیسے کو انسانی فلاح کے کاموں پر خرچ کردیا جائے۔ یہ سوچ عقلیت پسندی کی مظہر ہے کہ ہر چیز کو مادّی نفع ونقصان کی کسوٹی پرپرکھاجائے اور جس بات کو عقلِ عیّار قبول نہ کرے اُسے ردّ کردیا جائے ۔ قربانی ایک عبادت ہے،یہ ابتدائے آفرینش سے تمام الہامی شریعتوں میں کسی نہ کسی صورت میں چلی آرہی ہے ، اس کا مَدار اﷲ تعالیٰ کے اُس حکم پر ہے جو نبی کریم علیہ السلام کے ذریعے ہم تک پہنچا ، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ قربانی کے دنوں میں انسان کا کوئی بھی نیک عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں (قربانی کے جانور کا)خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قیامت کے دن یہ جانوراپنے سینگوں ، بالوں اور کُھروں (یعنی پورے وجود )سمیت حاضر ہوگا اور ذبیحے کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کے مرتبے کو پالیتاہے، (سو اے اہلِ ایمان!)خوش دلی سے قربانی کیا کرو،(سنن ترمذی : 1493)‘‘۔

  اگر مادّی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ قربانی کے جانور کا گوشت اور کھال رُل رہی ہو اور کوئی اس کا طلب گار نہ ہو،بلکہ ہمیں تو ایک انار سو بیمار کا منظر نظر آتا ہے ۔الغرض قربانی کے جانوروں کی چربی، اوجھڑیاں ، آنتیں ، سری پائے اور مختلف اعضاء لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ جو لوگ قربانی نہیں کرتے، انہوں نے قربانی کے مساوی رقم نکال کر کسی فلاحی ادارے کو دے دی ہو۔ قرآن کریم نے روحِ قربانی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:(۱)’’ ان (قربانی کے جانوروں) کاگوشت اور خون اﷲ کی بارگاہ میں نہیں پہنچتا ، بلکہ (اس فعل کے پیچھے )جو تقویٰ کارفرماہے، وہ اللہ کی بارگاہ میں پہنچتاہے ،(الحج:37)‘‘۔

 (۲)(اے رسول!) کہہ دیجیے، بے شک میری نماز، میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے یہی( پیغام پہنچانے) کا حکم دیا گیا ہے اورمیں سب سے پہلا مسلمان ہوں ، (الانعام: 162-63)‘‘ ۔ مفسرین کرام نے     نبی کریم ﷺ کے سب سے پہلا مسلمان ہونے کے بارے میں دو توجیہات بیان کی ہیں: (۱)اگر حقیقی معنی مراد لیا جائے تو آپ عالم ارواح میں خَلق کے اعتبار سے اول المسلمین ہیں،فرمایا: ’’میں اس وقت بھی نبی تھا جب کہ آدم علیہ السلام روح کے جسم کے ساتھ متعلق ہونے کے مرحلے میں تھے، (مصنف ابن ابی شیبہ:36553)‘‘،(۲)بعثت کے بعد ہر نبی اپنی امت کے اعتبار سے پہلا مسلم ہوتا ہے ۔

 قربانی کا مقصد گوشت پوست کا حصول نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ ماضی کی امتیں جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کوئی نذر یا صدقہ یا قربانی پیش کرتیں، تو اسے کھلے میدان میں رکھ دیا جاتا، آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا ڈالتی اور یہ اُس کی قبولیت کی دلیل ہوتی۔ قرآن کریم میں ہے : یہودنے کہا :’’ اللہ نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں تاوقتیکہ وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی پیش کرے جسے آگ کھا جائے، کہہ دیجیے : مجھ سے پہلے کئی رسول تمہارے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے اور یہ نشانی بھی جس کا تم نے مطالبہ کیاہے، توتم نے ان رسولوں کو کیوں شہید کیااگرتم سچے ہو،(آل عمران:183)‘‘۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے اس مطالبے کو حجّت بازی سے تعبیر فرمایا اور اس کے ساتھ اشارتاً یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ ماضی میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو نذر یا صدقہ یا قربانی پیش کی جاتی تھی ، آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا ڈالتی اور یہ اُس کی قبولیت کی دلیل ہوتی تھی ۔

 قربانی کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسان کی تاریخ ، سورۂ مائدہ آیت :27میں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کی جانب سے   اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی پیش کیے جانے ، ایک کی قربانی کے قبول ہونے اور دوسرے کی رد ہونے کا ذکر ہے ۔ ظاہر ہے کہ قبولیت کی علامت یہی تھی کہ آسمان سے آگ آتی اوراسے جلا ڈالتی اور قربانی کے قبول یا ردہونے کا نتیجہ فوری سامنے آجاتا، جس کی قربانی رد ہوجاتی وہ سرِ عام رسوا ہوتا، حدیث پاک میں ہے : ’’(ایک نبی کو اللہ تعالیٰ نے جہاد میں فتح عطا فرمائی تو) انہوں نے مالِ غنیمت کو (میدان میں)ڈھیر کردیا، اُسے کھانے کے لیے آگ آئی ، لیکن اُسے نہ جلایا ۔اس نبی نے فرمایا:تم میں کوئی خائن ہے ، تمہارے ہر قبیلے کا سردارمیرے ہاتھ پر بیعت کرے ،سو انہوں نے بیعت کی ، تو ایک شخص کا ہاتھ اُن کے ہاتھ سے چمٹ گیا ،انہوں نے فرمایا:خائن تمہارے قبیلے کا آدمی ہے ، اب تمہارے قبیلے کا ہر فرد میرے ہاتھ پر بیعت کرے ،تو (ان میں سے )دو یا تین افراد کے ہاتھ نبی کے ہاتھ سے چمٹ گئے ،انہوں نے فرمایا: تم نے خیانت کی ہے ،پھر وہ گائے کے سر کے برابر سونا نکال کر لائے ۔اُس نبی نے فرمایا: اسے دوسرے مال پررکھ دو ،پھر آگ آئی اور پورے مال کوجلاڈالا، پس ہم سے پہلے کسی نبی کی امت کے لیے مالِ غنیمت حلال نہ تھا ،اللہ تعالیٰ نے ہمارے عَجز کو دیکھا اور ہمارے لیے اسے پاک قرار دے دیا، (صحیح مسلم:1747)‘‘۔رسول اللہ ﷺ نے دیگر انبیائے کرام پر اپنی فضیلت کے مِن جملہ اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی بیان فرمایا:’’میرے لیے مالِ غنیمت کو حلال کردیا گیاہے، جومجھ سے پہلے کسی بھی نبی (کی امت) کے لیے حلال نہیں تھا،(صحیح مسلم:521)‘‘۔

 الغرض اﷲتعالیٰ نے اس امت پر خصوصی کرم فرمایا کہ اپنے صدقات اور قربانیوں پر اجر بھی پائیں اوران سے فائدہ بھی اٹھائیں۔  ردّوقبول کے اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی فرمائی اور سرِعام رسوا ہونے سے بچا لیا، ورنہ کون جانے کہ دس ہزار روپے والے کی قربانی قبول ہوئی یا پچیس لاکھ روپے والے کی۔

 اگرچہ فقہی اعتبار سے قربانی کا جانور جتنا قیمتی ہوگا ،اُسی کے مطابق اجر بھی عطا ہوگا۔ لیکن آج کل قربانی میں نام ونمود کا عنصر سرایت کرگیا ہے ، انتہائی قیمتی جانوروں کی میڈیا پر تشہیر کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے بعض لوگ اپنی شان وشوکت کا اظہار کرتے ہیں، یہ شِعار روحِ قربانی اور جذبۂ عبادت کے منافی ہے ۔پس اعتدال سے کام لینا چاہیے،کیونکہ آج کل غربت اور امارت کا تفاوت بڑھتا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشی اعتبار سے نچلے طبقات میں مایوسی کے جذبات فروغ پاتے ہیں ۔ اگر ہمارے ریاستی اور حکومتی نظام نے سماجی زندگی میں نمود کے کلچر کی حوصلہ شکنی نہ کی تو کوئی بھی مہم جو عوام میں اشتعال پیدا کرکے نفرت کے جذبات کو ابھار سکتاہے، جبکہ ہم پہلے ہی کورونا وائرس اور ٹڈی دل کی زد میں ھیں اور معاشی جمود کا شکار ھیں۔

 المیہ یہ ہے کہ ہم صورتِ عبادت تو اختیار کرلیتے ہیں ، لیکن روحِ عبادت اور حقیقتِ عبادت سے کوسوں دور رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری عبادات کے روحانی ، اخلاقی اور سماجی اثرات معاشرے میں رونما نہیں ہوتے۔ ہم نماز کے فضائل بیان کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ نماز نظم وضبط سکھاتی ہے ، لیکن آج ہم ایک منظم قوم کی بجائے منتشر ہجوم میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔ فرد اور حکومت اورافراد کے مابین حقوق وفرائض کا عدل پر مبنی جونظام ہونا چاہیے ، وہ ہمارے ہاں مفقود ہے، حتیٰ کہ تخریب وفساد کے ماحول سے نکلنے کے لیے بھی ہم یک سُونہیں ہیں ۔ ہماری حکومتی پالیسیاں حکمت وبصیرت اور تدبّر سے عاری نظر آتی ہیں ، ہم داخلی اورخارجی خطرات کاجرأت واستقامت کے ساتھ سامنا کرنے کی بجائے خوف کے عالم میں ہنگامی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں اور کوئی بھی خوفزدہ قوم کسی بھی داخلی یا خارجی محاذ پر فتح یاب اور سرخ رُو نہیں ہوسکتی۔ حالات ہم سے مختلف سطحوں پر قربانی اور ایثار کا تقاضا کرتے ہیں ، لیکن ہم نوشتۂ دیوار پڑھنے کی صلاحیت سے عاری ہوچکے ہیں۔ لوگ اقتدار سے باہر ہوں تو اُن کی سوچ کا انداز کچھ اور ہوتاہے اور اقتدار کے’’ بیتُ الجِنّ ‘‘میں داخل ہوجائیں تو سوچ کے انداز بدل جاتے ہیں، پھر وہ حقائق وواقعات کو اقتدار کی عینک سے دیکھتے ہیں،علامہ اقبال نے کہا ہے:

تھا جو ناخوب ،بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

 اقوامِ عالَم یادگار یںقائم کرنے کے لیے بڑے بڑے ٹاور ،مینار اور گنبد تعمیر کرتے ہیں ،لیکن اسلام نے اَقدار کوعبادت کا درجہ دے کر قیامت تک کے لیے زندہ وتابندہ کردیا ۔صحابۂ کرام نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:’’یارسول اللہ!یہ قربانیاں کیا ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہیں ،انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ! ہمارے لیے اس میں کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے ،صحابۂ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ!روئیں والے جانور کا کیا حکم ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا: روئیں کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے ،(سنن ابن ماجہ:3127)‘‘۔یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو بھی ’’شَعَائِرُ اللّٰہ‘‘ (اللہ کی نشانیوں) سے تعبیر فرمایا اور مزدلفہ کو’’ مَشْعَرُ الْحَرَام‘‘ کہا ،شعار اور مَشعر ہم معنی الفاظ ہیں ۔سوجو خوش نصیب حج پہ جاتا ہے اور مناسکِ حج کو ادا کرتا ہے، تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اُس کے ذہن میں حضرات ابراہیم واسماعیل اور سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہم کی یاد تازہ نہ ہو۔
(روزنامہ دنیا، 20جون2020ء)
Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area