مالٹا اور تیونس کا فاتح: علوق علی پاشا
افتخار راجہ
بحری جہازوں کی دنیا پر ترکوں کے عظیم راج داستان جسے آج تک اہلِ مغرب نہیں بھولے لیکن آفسوس صد آفسوس ہم مسلمان ان عظیم ہستیوں کو بھلا بیٹھے 😢😢
مالٹا اور تیونس کا فاتح علوق علی پاشااٹلی کے جنوبی علاقے کلابریہ Calabria میں 1519 ء میں پیدا ہوا، اسکا مقام پیدائش ساحلی علاقہ le castella تھا۔ و ہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔وہ 1538ء میں خیر الدین بربروسا کے ہاتھوں قیدی بنا ، کچھ سالوں کے بعد اس نے عیسائی مذہب کو ترک کردیا، اور ایک ترک کو قتل کرنے کے بعد وہ مسلمان ہوگیا۔ اس نے مسلمان لڑکی سے شادی کرلی اور پھر ترک نیوی میں شامل ہو گیا۔وہ بہت تیزی سے ترقی کرکے الیکسندریہ کے بحری بیڑے کا کمانڈر بن گیا۔بعد ازاں تریپولی کا گورنربنا دیا گیا۔اس نے اطالوی ساحلوں پر تباہی پھیلا دی تھی، نا صرف جنوبی اطالیہ کے ساحلی علاقے بلکہ مالٹا، سسلی، کورسیکا، جینوا اور آج کا فرانس اس کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنے۔ اس نے وہاں کے باشندو ں کو غلام بنالیا تھا، کئی بڑے بڑے نامور لوگ اسکے غلام ہوئے۔ 1565ء میں مالٹا کے محاصرہ کے دوران وہ مرتے مرتے بچا۔اس نے 1571ء میں کوسولا Curzola (کروشیا) کو فتح کیا، اوربحری بیڑے کے سب سے بڑے خطاب ’’ایڈمرل ‘‘کا مستحق ٹھہرا۔ 1571ء میں ،جنگ لیپانطو lepanto کے موقع پر ترک سلطان معین زادہ علی پاشا مرکزی بیڑے کی کمان کررہا تھا۔دوسرے بیڑے کی کمان مراد دراگوت اور تیسرے کے بیڑے کی کمان علوق علی پاشا کے پاس تھی۔ اس کا مقابلہ طاقتور دنیا کے متحدہ بیڑے سے تھا۔مخالف فوج وینس، سارڈینیا ، اٹلی فرانس، اسپین اور برطانیہ کے بیڑے پر مشتمل تھی۔اس بحری جنگ میں افرادی قوت کی شدید کمی کے باعث ترک فوج سنبھل نہ سکی ۔کیونکہ ترک بیڑا صرف وینس کے بیڑے کی برابر تھا۔اس جنگ میں ترکوں کو شکست ہوئی۔ علی پاشا کا پرچم عیسائیوں کے ہاتھ لگ گیا جو آج بھی Pisa پیسا کے عجائب گھر میں موجود ہے۔اس حصے کے تمام جہاز یا غرق ہوگئے یا دشمنوں نے قابوکرلئے ، ترک سلطان علی پاشا شہید ہوگیا۔ مگر علوق علی پاشا نے کمال مہارت کے ساتھ اپنے ساتھ تیس جہازوں اور بہت سے سپاہیوں کو سلامتی سے نکال کر استنبول پہنچادیا۔ ترک سلطان سلیم دوئم نے اسے کمان عطا کی۔ بعد ازاں اس نے کئی فتوحات کیں، جن میں 1574 ئمیں تیونس اور مالٹا پر دوبارہ قبضہ کرنا بھی شامل تھا۔ کیونکہ اس پر مخالف بحری بیڑے نے قبضہ جمالیا تھا۔ علوق علی پاشا 1587 ء میں استنبول کے قریب ایک گاؤں میں واقع اپنے محل میں طبی موت مرا، یہ گاؤں اس نے خود آباد کیا تھا اور اسکانام نیا کلابریہ رکھا تھا ، علوق علی پاشا نے وصیت میں اپنے غلاموں اور ملازموں کیلئے جائیدادیں اور مکانات وقف کر دئیے جو جس مکان میں رہتا تھا وہ اسے ہی دے دیا گیا۔ کلابریہ کے ساحلی شہر Le castela میں آج بھی علوق علی پاشا کا مجسمہ نصب ہے۔اہل کلابریہ کو اس پر فخر کرتے ہیں ۔
سردار اویس احمد
افتخار راجہ
بحری جہازوں کی دنیا پر ترکوں کے عظیم راج داستان جسے آج تک اہلِ مغرب نہیں بھولے لیکن آفسوس صد آفسوس ہم مسلمان ان عظیم ہستیوں کو بھلا بیٹھے 😢😢
مالٹا اور تیونس کا فاتح علوق علی پاشااٹلی کے جنوبی علاقے کلابریہ Calabria میں 1519 ء میں پیدا ہوا، اسکا مقام پیدائش ساحلی علاقہ le castella تھا۔ و ہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔وہ 1538ء میں خیر الدین بربروسا کے ہاتھوں قیدی بنا ، کچھ سالوں کے بعد اس نے عیسائی مذہب کو ترک کردیا، اور ایک ترک کو قتل کرنے کے بعد وہ مسلمان ہوگیا۔ اس نے مسلمان لڑکی سے شادی کرلی اور پھر ترک نیوی میں شامل ہو گیا۔وہ بہت تیزی سے ترقی کرکے الیکسندریہ کے بحری بیڑے کا کمانڈر بن گیا۔بعد ازاں تریپولی کا گورنربنا دیا گیا۔اس نے اطالوی ساحلوں پر تباہی پھیلا دی تھی، نا صرف جنوبی اطالیہ کے ساحلی علاقے بلکہ مالٹا، سسلی، کورسیکا، جینوا اور آج کا فرانس اس کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنے۔ اس نے وہاں کے باشندو ں کو غلام بنالیا تھا، کئی بڑے بڑے نامور لوگ اسکے غلام ہوئے۔ 1565ء میں مالٹا کے محاصرہ کے دوران وہ مرتے مرتے بچا۔اس نے 1571ء میں کوسولا Curzola (کروشیا) کو فتح کیا، اوربحری بیڑے کے سب سے بڑے خطاب ’’ایڈمرل ‘‘کا مستحق ٹھہرا۔ 1571ء میں ،جنگ لیپانطو lepanto کے موقع پر ترک سلطان معین زادہ علی پاشا مرکزی بیڑے کی کمان کررہا تھا۔دوسرے بیڑے کی کمان مراد دراگوت اور تیسرے کے بیڑے کی کمان علوق علی پاشا کے پاس تھی۔ اس کا مقابلہ طاقتور دنیا کے متحدہ بیڑے سے تھا۔مخالف فوج وینس، سارڈینیا ، اٹلی فرانس، اسپین اور برطانیہ کے بیڑے پر مشتمل تھی۔اس بحری جنگ میں افرادی قوت کی شدید کمی کے باعث ترک فوج سنبھل نہ سکی ۔کیونکہ ترک بیڑا صرف وینس کے بیڑے کی برابر تھا۔اس جنگ میں ترکوں کو شکست ہوئی۔ علی پاشا کا پرچم عیسائیوں کے ہاتھ لگ گیا جو آج بھی Pisa پیسا کے عجائب گھر میں موجود ہے۔اس حصے کے تمام جہاز یا غرق ہوگئے یا دشمنوں نے قابوکرلئے ، ترک سلطان علی پاشا شہید ہوگیا۔ مگر علوق علی پاشا نے کمال مہارت کے ساتھ اپنے ساتھ تیس جہازوں اور بہت سے سپاہیوں کو سلامتی سے نکال کر استنبول پہنچادیا۔ ترک سلطان سلیم دوئم نے اسے کمان عطا کی۔ بعد ازاں اس نے کئی فتوحات کیں، جن میں 1574 ئمیں تیونس اور مالٹا پر دوبارہ قبضہ کرنا بھی شامل تھا۔ کیونکہ اس پر مخالف بحری بیڑے نے قبضہ جمالیا تھا۔ علوق علی پاشا 1587 ء میں استنبول کے قریب ایک گاؤں میں واقع اپنے محل میں طبی موت مرا، یہ گاؤں اس نے خود آباد کیا تھا اور اسکانام نیا کلابریہ رکھا تھا ، علوق علی پاشا نے وصیت میں اپنے غلاموں اور ملازموں کیلئے جائیدادیں اور مکانات وقف کر دئیے جو جس مکان میں رہتا تھا وہ اسے ہی دے دیا گیا۔ کلابریہ کے ساحلی شہر Le castela میں آج بھی علوق علی پاشا کا مجسمہ نصب ہے۔اہل کلابریہ کو اس پر فخر کرتے ہیں ۔
سردار اویس احمد