#چین_کے_ساتھ_نہرطلاس_کا_معرکہ
چین کا ہمیشہ وسطی ایشیاء ( ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان، قرغیزستان، قازقستان اوراذربیجان)پراثرورسوخ رہا ہے۔ یہ علاقے چین کے شہ رگ ہوا کرتے تھے اور ان علاقوں میں ترکمن قبائل رہتے تھے جو چینی بادشاہ کے وفادار ہوتے تھے اور اس کو ٹیکس دیا کرتے تھے۔ جب اسلامی فتوحات شروع ہوئیں ابتداء میں چین نے ان کو زیادہ اہمیت نہیں دی اسکی کئی وجوہات تھیں ایک یہ کہ یہ علاقے چین سے بہت دور ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اس کی زیر نظر نہیں ہوتے تھے دوسری وجہ یہ کہ چین کے لوگ فارس کی ساسانی سلطنت سے جان چھڑانا چاہتے تھے جو وسطی ایشیاء میں چین کے ساتھ رسہ کشی کرتی تھی۔
چین کی پریشانی میں اضافہ اس وقت ہوا جب اموی خلافت نے وسطی ایشیاء کے ساتھ ایران کو بھی فتح کیا۔ سندھ کے ساتھ ایران اور وسطی ایشیا کی فتح میں حجاج بن یوسف کا بڑا ہاتھ ہے انہوں نے فوج کو تیار کرنے کے بعد دو کمانڈروں" محمد بن قاسم" اور "قتیبہ بن مسلم" کو بلا کر کہا: "تم میں سے جو پہلے چین کو فتح کرے گا وہی اس کا گورنر بنایا جائےگا"، محمد بن قاسم سندھ کی طرف سے قتیبہ بن مسلم وسطی ایشیاء کیطرف سے چین پر جھپٹنے کےلیےتیار تھےمگر قتیہ بن مسلم نےجو اس وقت "خراسان" کے گورنر بھی تھے پہلے چین کےگریبان میں ہاتھ ڈلا اور اس کو پھاڑتا ہوا "کاشعر" پہنچا۔ چین وسطی ایشیاء میں اسلامی فتوحات کو عسکری قوت سے روکنے میں ناکام رہا تاہم قبائل سرداروں کی مدد جاری رکھی اور انکو مسلمانوں سے لڑنے پر ابھارتا رہا۔ جس میں کئی جگہ کامیاب بھی ہوا۔
اس وقت چین عسکری طور پر اسلامی فوج کا سامنا کر بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے اندرونی مسائل, آزادی کی تحریکیں اور انارکی اسکی اجازت نہیں دیتی تھیں اور اسلامی فوج کے بارے میں چینیوں نے یہ سن رکھا تھا کہ "ناقابل تسخیر فوج ہے" خاص کر رومن سلطنت کو شکست دینے اور فارس کی سلطنت کو گرانے پر چین پر بھی رعب طاری ہو گیا تھا۔ پھر امویوں کے اندرونی بغاوتوں کو کچلنے میں مصروفیت کو دیکھ کر موقعے سے فائدہ اٹھا کر چین نے" جاوزیانزی" کی قیادت میں فوجی مہم وسطی ایشیاء بھیجا جس نے موجودہ "ازبکستان" کو واپس لیا اور بات بہت آگے بڑھی یہاں تک کہ وسطی ایشیاء میں مسلمانوں کے اہم شہر کابل پر بھی خطرے کے بادل منڈلانے لگے۔
جب عباسی خلافت قائم ہوئی اور امن وامان بحال ہوا تو خلیفہ ابوجعفر منصور نے خراسان میں اپنےگورنر "ابو مسلم خرسانی"کو سنکیانگ پر حملےکا حکم بھیجا،گورنر ابو مسلم فوج کی قیادت کرتے ہوئے خود روانہ ہو گئے پھر افغانستان سےمزید فوج شامل ہوگئی۔ سمرقند سےہوتی ہوئی فوج اس فوج سے جا ملی جو " زیاد بن صالح" کی قیادت میں چین کی طرف رواں دواں تھی۔
چین نے ایک لاکھ فوج "جاوزیانزی" کی قیادت میں جولائی 751م میں اسلامی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا۔ "طلاس" شہر کےقریب فوجیں آمنےسامنے ہوئیں، اب طلاس جمہوریہ قرغیزستان کا حصہ ہے۔اسلامی فوج نےچینی فوج کو بڑی مہارت سےمحاصرے میں لیا اور اسکےگرد گھیرا تنگ کیا زبردست جنگ ہوئی ہزاروں چینی فوجیوں کو قتل کیا کمانڈر "جاوزیانزی" بھاگ گیا، زیادبن صالح نے20ہزار جنگی قیدیوں کو بغداد روانہ کیا جن کو بغداد میں غلاموں کے بازار میں فروخت کیا گیا۔
طلاس کا معرکہ ہی خلافت اور چین کےدرمیان آخری معرکہ تھا جس کے بعد وسطی ایشیاء میں چین کا اثر رسوخ ختم ہوگیا اور وسطی ایشیاء اسلام سے جڑ گیا اور اسلام کے رنگ میں رنگ گیا جو کہ اللہ کا رنگ ہے۔ پھر یہاں سے ابوحنیفہ، بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداود وغیرہ جیسے علماء پیدا ہوئے جوکہ خلافت کا اعمال جاریہ ہیں جن سے کروڑوں انسانوں کو ہدایت ملی۔
خلافت کے خاتمے کے بعد ہم پر ذلت آمیز نظام مسلط کیا گیا جس نے ذلیل قسم کی قیادتیں جنم دی جو غلامی کے علاوہ کچھ نہیں جانتی جو کبھی امریکہ کبھی چین اور روس کے تلوے چاٹنے کی باتیں کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو جلد سے جلد اس نظام اور ان ذلیل ایجنٹوں سے جان چھڑانی پڑے گی تاکہ پھر قتیبہ اور محمد بن قاسم اور ابو مسلم آئیں اور اسلام کی نور کو دنیا تک پہنچائیں۔
🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹