Type Here to Get Search Results !

حسن صباح کی مصنوعی جنت قسط 1 انتہائی بہترین تحریر

 حســـن بـن صـــبـاح کی مصنـــوعی جنـــــت

قسط نمبر.1.

تحریر کے بارے میں راے دینے کے لیے کومنٹ کے زریعے آگاہ فرمائیں۔اور گھنٹی کا بٹن دبا دیں تاکہ میری تمام تحاریر آپ سب تک بآسانی پہنچ سکیں

اولاد آدم کی داستان حیات اتنی ہی طویل ہے جتنی لمبی لمبی صدیاں گزر گئیں ہیں۔

انسان اتنے لمبے اور ایسے کٹھن سفر میں اکیلا نہیں تھا ابلیس اس کا ہمسفر رہا آخری منزل تک ہم سفر رہے گا،،،،،، اس کا نتیجہ یہ کہ اولاد آدم کی زندگی کی کہانی سزا و جزا کی داستان بن گئی ہے ،مگر عجوبہ یہ کہ انسان اپنی ہی آپ بیتی پر نگاہ ڈالتا ہے تو محو حیرت ہو جاتا ہے عبرت حاصل نہیں کرتا شرمسار نہیں ہوتا بلکہ خود فریبی سے اپنا دل پر جا لیتا ہے اور اس ابلیس کے آگے سجدہ ریز ہوجاتا ہے جس نے الله کے اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا تھا کہ آدم کے آگے سر بسجود ہو جا۔

کہانی کوئی بھی ہو کسی کی بھی ہو اسی صورت میں دلچسپ سنسنی خیز عبرتناک اور خیال افزا بنتی ہے جب اس کہانی کے کردار الله والے ہوں سوائے ایک دو کے جو ابلیس کے پجاری ہوں، اگر ابلیس الله کا حکم مان لیتا اور آدم کے آگے سجدہ میں گر پڑتا تو بات الله کی عظمت اور بندوں کی بندگی پر اور عابد و معبود تک ہی رہ جاتی۔

الله نے نیک اور پارسا بندوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے ۔

ابلیس نے بندوں کو بدی کے راستے پر ڈال کر انہیں دنیا میں جنت دکھا دی ہے۔

اور یہی ہے وہ ابلیس کی جنت جس نے اولاد آدم کی سوانح حیات میں قوس قزح جیسے رنگ بھرے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ابلیس نے اپنے پجاریوں کے لیے جو جنت بنائی اور اسے بڑی ہی دلنشین رنگ دیئے، وہ کچھ عرصے بعد صرف ایک رنگ میں روپوش ہوگئی،،،، یہ رنگ خون کا تھا۔

شداد عاد حضرت موسی علیہ السلام کے دور کے لگ بھگ ایک ملک کا حکمران تھا، مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ صحیح طور پر وہ کس دور کا بادشاہ تھا، جب بھی تھا جہاں بھی تھا اس میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس حقیقت پر سب متفق ہیں کہ شداد کے مزاج شاہی میں فرعونیت تھی، اس کا طرز حکومت فرعونوں جیسا تھا ،رعایا کو وہ اس کے بندے نہیں سمجھتا تھا جس نے انہیں پیدا کیا تھا بلکہ وہ انہیں اپنا غلام اور اپنی ملکیت سمجھتا تھا ،درندہ صفت بادشاہ تھا۔

مقہور مجبور رعایا نے جب اس کے آگے سجدے کرنے شروع کر دیئے تو اس نے خدائی کا دعوی کردیا ،اور بھوکی ننگی رعایا نے اسے خدا مان لیا، وہ معبود بن گیا۔

وہ خدا ہی کیا جس کے پاس جنت نہ ہو، شداد نے ایک جنت بنائی جو آج تک باغی ارم کے نام سے مشہور ہے، اس میں اس نے جنت کے تمام تر رنگینیاں اور رعنائیاں سمو ڈالیں، اس جنت میں اس نے حوروں کو بھی لا بسایا ،یہ حسین اور نوجوان لڑکیاں تھیں، شراب کے مٹکے رکھوا دیے، اور ابلیسیت کے تمام تر دلنشین دلفریب اور سحر انگیز اہتمام کیے۔

جنت مکمل ہوچکی تو شداد اپنی جنت دیکھنے کے لئے گیا، مگر جنت کے صدر دروازے میں قدم رکھا ہی تھا کہ گر گیا اور مر گیا ۔

خدا کو اپنی جنت میں قدم رکھنا بھی نصیب نہ ہوا۔

روایت ہے کہ الله ،سبحانہ وتعالی نے فرشتہ اجل سے پوچھا کیا کبھی تجھے کسی جسم سے روح نکالتے وقت افسوس بھی ہوا ہے؟ 

ہاں !،،،،،،،اے پروردگار عالم ۔۔۔۔فرشتہ اجل نے جواب دیا۔۔۔۔دو بار، ایک بار ایک جہاز سمندر میں ڈوب گیا تھا مسافروں میں سے صرف ایک ماں زندہ بچ نکلی تھی جس کی گود میں دو تین ماہ عمر کا بچہ تھا ،وہ بچے کو بھی زندہ نکال لائی تھی،،،،،، باری تعالی تو نے حکم دیا کے اس عورت کی روح نکال لاؤ، مجھے بہت دکھ ہوا کہ ماں زندہ نہ رہی تو بچے کا کیا بنے گا، لیکن خدائے بزرگ و برتر موت و حیات تیرے اختیار میں ہے میں نے تیرے حکم کی تعمیل کی۔

اور دوسری بار؟ 

اے پروردگار!،،،،،، عالم فرشتہ اجل نے کہا۔۔۔ شداد ایک بادشاہ تھا اس نے بڑی محنت سے جنت بنائی تھی اس پر خزانے لٹا دئیے تھے اس کی تکمیل میں اس کی عمر کا ایک حصہ گزر گیا تھا، اس نے اپنی جنت کی تعمیر اس وقت شروع کی تھی جب جوان تھا، تکمیل اس وقت ہوئی جب جوانی گزر گئی تھی، وہ اپنی جنت کو دیکھنے گیا تو تیرا حکم ہوا کہ یہ شخص اپنی بنائی ہوئی جنت میں داخل ہونے لگے تو اس کی روح نکال لاؤ،،،،،، 

میں نے تیرے حکم کی تعمیل کی، اپنا فرض ادا کیا، لیکن میرا دل رنج و ملال میں مبتلا ہو گیا کہ یہ شخص اپنی بنائی ہوئی جنت میں قدم بھی نہ رکھ سکا کہ اس کا بے روح جسم جنت کے دروازے میں گر پڑا ،لیکن اے خالق کائنات !،،،میں چوں و چرا نہیں کرسکتا۔

جانتے ہو یہ شداد کون تھا؟،،،،، باری تعالی نے پوچھا اور خود ہی جواب دیا ۔۔۔یہ وہی بچہ تھا جسے ماں سمندر میں سے زندہ نکال لائی تھی، اور میں نے تجھے کہا تھا کہ اس کی ماں کی روح نکال لاؤ۔

*یا حی و یا قیوم یا ممیت*  فرشتہ اجل نے رکوع میں جاکر کہا۔۔۔ بے شک تو ہمیشہ زندہ رہنے والا، زندگی اور موت دینے والا ہے۔

پھر تاریخ میں ایک اور جنت کا ذکر ملتا ہے، جو شداد کے باغ ارم جیسی پرانی بات نہیں بلکہ کل کی بات لگتی ہے، پانچویں صدی ہجری کو تاریخ پرانی بات نہیں کہتی، تاریخ میں سال لمحوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

یہ ابلیس کے حکم سے بنائی ہوئی دوسری ارضی جنت تھی جس کا خالق حسن بن صباح تھا ،اس نے خدائی کا دعویٰ تو نہیں کیا لیکن بلا خوف و تردید یہ دعویٰ کرتا تھا کہ خداوند تعالی اس پر وحی نازل کرتا ہے اور براہ راست احکام دیتا ہے۔

اس کے بنائے ہوئے فرقے کے پیروکار آج بھی موجود ہیں، حسن بن صباح نے ابلیس کی حکومت قائم کر دی تھی، اس نے جو فرقہ بنایا تھا وہ انتہائی خوفناک سازشیں، زعماء کے قتل اور بے حد شرمناک اور ہولناک گناہوں کی وجہ سے مشہور ہوا ،اس فرقے کی بنیاد بدی پر رکھی گئی تھی۔

جتنی بھیانک ورادتیں حسن بن صباح نے کروائیں وہ سن کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، حسین اور نوجوان لڑکیوں کا جو استعمال حسن بن صباح نے کیا وہ اس سے پہلے یا بعد کے ادوار میں کبھی نہیں ہوا ،اور اولاد آدم اور ابلیس کی جو پراسرار سنسنی خیز اور فکر انگیز کہانیاں اس دور میں ملتی ہے وہ کسی اور دور میں نہیں ملتی۔

بھنگ جسے حشیش کہتے ہیں اس فرقے کی روحانی غذا تھی، اس فرقے کی کامیابی کا راز بھنگ میں تھا ،حسن بن صباح کی جنت میں دو ہی تو چیزیں تھیں جو انسان کو ابلیس کا چیلا نہیں بلکہ مکمل ابلیس بنا دیتی تھی ۔

یہ چیزیں تھیں حشیش اور حوریں، اس جنت میں حیران کن حد تک خوبصورت اور نوخیز لڑکیاں رکھی جاتی تھیں، مؤرخ لکھتے ہیں کہ حوریں ان سے زیادہ کیا خوبصورت ہوں گی۔

نشہ شراب کا ہو خواہ حشیش کا،  یا چرس کا ہو خواہ ہیروئن کا، الله تبارک و تعالی نے اسے ام الخبائث کہا ہے، اس میں نسوانی حسن اور جنت کا نشہ شامل ہوجائے تو انسان خود خبائث کا چلتا پھرتا مجسمہ بن جاتا ہے۔

اولاد آدم جب راہ حیات کے اس موڑ پر آئے جہاں حسن بن صباح نے جنت بنائی تھی تو اسے ابلیس کے قہقہے سنائی دینے لگے ، یہاں سے ایسے قصوں اور کہانیوں نے جنم لیا جو آج بھی سنو تو دل پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے ،کبھی شک ہوتا ہے کہ یہ واقعہ صداقت پیمانے پر پورے نہیں اترتے، لیکن یہ چھوٹی سے چھوٹی تفصیل تک سچے ہیں۔

اعمال صالحہ کہانی نہیں بنا کرتے، کہانی اعمال بد کی کوکھ سے جنم لیا کرتے ہیں ۔ 

یہ کوئی کہانی نہیں ہوتی کہ انسان نے ایک پیاسے کو پانی پلایا ، کہانی اس سے بنتی ہے کہ ایک انسان نے ایک انسان کا خون پی لیا۔

پانی کا پیاسا کسی کہانی کا کردار نہیں بنا کرتا ،کہانی اس انسان سے بنتی ہے جو انسان کے خون کا پیاسا ہو۔

آج آپ کے لئے اس دور کی داستانیں لے کر آیا ہے جو سلجوقیوں کا دور حکومت تھا ،خلافت بغداد کی چولیں ڈھیلی ہو گئی تھیں، اسلام کا پرچم یوں پھڑپھڑا رہا تھا جیسے شمع بجھنے سے پہلے ٹمٹمایا کرتی ہے۔

طوائف الملوکی اسلام کے تار او پود بکھیر رہی تھی، اہل صلیب پرچم ستارہ و ہلال کو ہمیشہ کے لیے گرا دینے کو طوفان کی طرح بڑھے آرہے تھے۔

الله نے اپنے دین کو ہر دور میں سنبھالا اور سہارا دینے کا سبب پیدا کیا ،اس پرآشوب دور میں جب خلفاء ہوس اقتدار کے دیوانے ہو کر اپنے فرائض کو بھلا بیٹھے تھے اور مسلمانوں کی عسکری قوت خلفاء کی عدم توجہی اور شاہانہ طرز بودوباش کی وجہ سے کمزور ہوتی چلی جا رہی تھی، الله نے سلجوقیوں کو بھیجا، ان ترک جنگجوؤں نے آکر اسلام کے گرتے ہوئے پرچم کو تھاما ،دین کی بنیادیں مستحکم کی، طوائف الملوکی کا خاتمہ کیا۔ فوج میں عسکری روح پیدا کی ،اور اہل صلیب کے لشکروں کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کھڑی کر دی۔

اس دور میں فرقہ باطنیہ نے سر اٹھایا اور حسن بن صباح ابلیس کے روپ میں سامنے آیا اور جسد اسلام کا ناسور بن گیا ۔

حسن بن صباح آیا کہاں سے تھا؟ 

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*

تھوڑا سا ذکر سلجوقیوں کا بھی ہو جائے تاکہ بات سمجھنے میں آسان رہے۔

 ان کا دور حکومت اسلام کے عروج اور عظمت و اقبال کا زمانہ تھا ،سلجوقی ایک غیر مسلم جنگجو سلجوق بن یکاک نسل سے تھے، جو ترکستان کے خان اعظم کے یہاں ملازم تھا، یہ لوگ فطرتاً جنگجو تھے۔

الله نے اس غیر مسلم خاندان کو اسلام کی بقا سلطنت اسلامیہ کی سلامتی اور توسیع اور دین کی فروغ کی سعادت عطا کرنی تھی، اس کا سبب یوں بنا کے سلجوق بن یکاک نے خان ترکستان کی ملازمت چھوڑ دی اور اپنے خاندان کے ساتھ بخارا چلا گیا ،اس کا قبیلہ بھی اس کے ساتھ ہی ہجرت کر گیا ،کیونکہ اس میں کچھ ایسے اوصاف تھے کہ قبیلہ اسے اپنا پیر و مرشد مانتا تھا۔

سلجوق اپنے اوصاف اور صلاحیتوں کو کسی بہتر اور عظیم مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا، وہ یقیناً  کسی ایسے عقیدے اور ایسے مذہب کی تلاش میں تھا جو فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہو، بخارا میں وہ اسلام سے متعارف ہوا تو اس نے بلا پس و پیش اسلام قبول کرلیا اور اپنے خاندان اور قبیلے کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرا کے کہا کہ وہ سب مسلمان ہو جائیں، وہ تو حکم کے منتظر تھے پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔

یہ ایک معجزہ تھا *کن فیکون* کا مظاہرہ تھا، آل سلجوق تو ترکستان میں وحشی جنگلی اور تہذیب و تمدن سے بے بہرا مشہور تھے، جنگجو ایسے کے ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا، لیکن الله نے انھیں سے اپنے دین کا تحفظ کرانا تھا، سلجوق صرف مسلمان ہی نہ ہوئے بلکہ اسلام کو سربلند کرنے کی ذمہ داری بھی اپنے سر لے لی۔

یہ ایک اور داستان ہے کہ سلجوقیوں نے سلطنت اسلام کی عنان کس طرح اپنے ہاتھ میں لی ، مختصر یہ کہ غیر مہذب اور آوارہ گرد ترک تہذیب اور شائستگی کے پیکر بن گئے ،تعلیم سے بے بہرہ سلجوقیوں نے عالموں اور فاضلوں کو دربار میں اکٹھا کرکے ان کی پذیرائی کی، ان کی خانہ بدوش ذہنیت مدنیت کے رنگ میں رنگی گی۔

یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ دین اسلام کا نور توحید اور رسالت کا محافظ و ناصر خود الله تبارک وتعالی ہے، اس کی ذات باری نے جس طرح عرب کے بُریا نشینوں ،صحرانوردوں، گناہوں اور جاہلیت میں ڈوبے ہوئے بندوں کو اپنے دین سے نوازا تھا، اسی طرح پسماندہ ترکوں کو اعزاز بخشا کہ انہیں عسکری قوت اور کردار کی عظمت عطا کی، اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایران، عراق، شام، الجزیرہ ،اور ایشیائے کوچک پر چھا گئے، ان کے سامنے جو بھی اسلام دشمن طاقت آئی اسے کچل اور مسل کر ختم کردیا۔

بنیادی تبدیلی تو یہ آئی کہ خلافت عباسیہ کے کردار کی کمزوریوں نے سلطنت میں جو طوائف الملوکی پیدا کر دی تھی اس کا قلع قمع ہو گیا،سلجوقیوں نے اس کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ ایک بادشاہی قائم کردی، اور افغانستان سے بحیرہ روم تک کا علاقہ ایک سلطنت بن گیا ،اور یہ سلطنت اسلامیہ تھی، 

بادشاہت کا نظام حکومت اسلامی کے منافی ہے لیکن سلجوقیوں نے سلطنت کو ایک مرکز کی تحت لانے کے لئے بادشاہت کا نظام اپنایا تھا، اس کے نتیجے میں یہ فائدہ حاصل ہوا کہ سلطنت میں جو انتشار اور عدم اتحاد پیدا ہو گیا تھا وہ یکجہتی اور قومی اتحاد میں بدل گیا۔

پھر ان سلجوقیوں نے یورپ کے اہل صلیب کی یلغار کو یوں قہر و غضب سے روکا کے انہیں بار بار حملہ کرنے کے قابل نہ چھوڑا۔

سلجوق بن یکاک کی حکومت اس کے پوتوں طغرل بیگ سلجوقی، اور چغرا بیگ سلجوقی تک پہنچی، بادشاہوں کے خاندانوں میں یہ روایت لازمی طور پر چلتی رہی کہ سگے بھائی تخت نشین پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے تھے، اگر کوئی بہن ہوتی تو وہ الگ سازشیں کرتی تھی ، محلاتی سازشیں شاہی خاندانوں میں لازمی سمجھی جاتی تھی، لیکن سلاطین آل سلجوق آپس میں عناد رکھنے کو گناہ سمجھتے تھے۔

طغرل بیگ اور چغرا بیگ سگے بھائی تھے، تاریخ بتاتی ہے کہ ان کا آپس میں پیار تھا کہ تخت کا وارث بڑا بھائی تھا، لیکن بڑے نے چھوٹے بھائی کو اقتدار میں اپنے ساتھ رکھا اور دو دارالسلطنت بنا دیے، چغرا بیگ کے لئے ترکستان کا مَرو، اور خراسان کا شہر نیشاپور جو طغرل بیگ کا دارالسلطنت تھا ،اس طرح بھائیوں میں پیار اور اتحاد بھی قائم رہا اور سلطنت چونکہ وسیع تھی اس لئے دو دارالسلطنت بننے سے انتظام پہلے سے بہتر ہو گیا۔

آل سلجوق نے خلیفہ کو نہ چھوڑا اور اسے کچھ علاقہ دے کر اس کی حیثیت برقرار رکھی تھی۔

 یہاں ایک واقعے کا ذکر بے محل نہ ہوگا اس وقت خلیفہ قائم بامرالله تھا ، ہجری 450 کا ذکر ہے کہ بساسیری نام کے ایک غیر مسلم نے خلیفہ قائم کو کمزور اور تہنا سمجھ کر بغداد پر حملہ کردیا اور خلیفہ کو قید میں ڈال دیا۔

طغرل بیگ کو اطلاع ملی تو اس نے بساسیری پر حملہ کردیا اور اسے بہت بری شکست دے کر اسے گرفتار کر لایا ،حکم دیا کے اس کا سر کاٹ کر میرے حوالے کیا جائے، تھوڑی ہی دیر میں سر اس کے سامنے پڑا تھا، طغرل بیگ نے سر اٹھا لیا اور خلیفہ کے گھر کی طرف چل پڑا ،خلیفہ کو بساسیری کی قید سے رہا کرالیا گیا تھا ،۔

 طغرل بیگ نے بساسیری کا سر خلیفہ کے قدموں میں رکھ دیا۔

طغرل !،،،،،،خلیفہ قائم بامرالله نے کہا۔۔۔ کیا تم چار سال انتظار کر سکتے ہو ؟

کیسا انتظار ؟،،،،،طغرل بیگ نے پوچھا۔

میں اس احسان کا تمہیں صلہ دینا چاہتا ہوں جو تم نے مجھ پر کیا ہے۔۔۔ خلیفہ قائم نے کہا۔ پہلی بات یہ ہے محترم خلیفہ!،،،،، طغرل بیگ نے کہا ۔۔۔۔کہ میں نے آپ پر احسان نہیں کیا فرض ادا کیا ہے، دوسری بات یہ کہ میں چار سال انتظار کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔

میری ایک ہی بیٹی ہے۔۔۔ خلیفہ نے کہا ۔۔۔ابھی کمسن  ہے، بارہ تیرہ سال عمر ہے، چار سال بعد جوان ہو جائے گی تو اس کی شادی تمہارے ساتھ کروں گا، یہ ایسا انعام ہے یا تحفہ ہے جو میں کسی غیر عباسی کو نہیں دے سکتا، ہم اپنی لڑکیاں عباسیوں میں ہی بیہاتے  ہیں، تم سلجوقی ہو لیکن تمہارے احسان کا صلہ اس سے کم نہیں دوں گا ،میں نے اپنی بیٹی تمہیں دے دی ،چار سال بعد شادی ہو جائے گی، چار سال بعد خلیفہ نے اپنی بیٹی کی شادی طغرل بیگ سے کردی۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

بادشاہوں کے ہاں رواج یہ رہا ہے کہ انھیں وزیروں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، لیکن رسمی طور پر وہ ایک وزیراعظم اور برائے نام دو تین وزیر رکھ لیتے تھے، حکم تو  بادشاہ کا چلتا تھا، وزیر تائید اور خوشامد کرتے تھے، ان کے مشیر بھی حاشیہ بردار اور جی حضوری ہوتے تھے، بادشاہ ان سے رسماً کسی کام یا کسی مسئلے کا مشورہ لیتا تو وہ بادشاہ کی مرضی اور مزاج کے مطابق مشورہ دیا کرتے تھے، لیکن سلجوقیوں کے یہاں یہ رواج نہیں تھا۔

سلاطین آل سلجوق علم و فضل کے قدر دان تھے، ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ بادشاہوں جیسے دربار نہیں لگاتے تھے، اس لیے وہ خوشامدیوں اور درباریوں کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے، ان کے فیصلے دو ٹوک اور اٹل ہوتے تھے۔

چغرا بیگ اور طغرل بیگ کا دور حکومت تھا جنہوں نے دو دارالسلطنت بنا لیے تھے، چغرا بیگ مَرو میں تھا، ایک روز ایک جواں سال آدمی اس کی ملاقات کے لئے آیا، اس شخص کا لباس بتا رہا تھا کہ وہ معمولی سا کوئی سوالی نہیں، وہ کوئی عالم یا کسی اونچے درجے کے خاندان کا فرد لگتا تھا۔

سلطان کو کیا بتاؤں آپ کو نہیں؟،،،، دربان نے پوچھا ۔۔۔اور غرض ملاقات کیا ہے؟ 

میرا نام خواجہ حسن طوسی ہے۔۔۔ ملاقاتی نے بتایا۔۔۔ نیشا پور سے آیا ہوں، نیشاپور کے امام موافق کا شاگرد ہوں، ان کے مدرسے سے فارغ التحصیل ہو کر آیا ہوں، فقیہ اور محدث ہوں، غرض ملاقات سلطان کو بتاؤں گا۔

دربان کے لئے حکم تھا کہ کوئی عالم ملاقات کے لیے آ جائے تو اسے روکا نہ جائے ،چنانچہ دربان نے اندر جاکر سلطان چغرا بیگ کو اطلاع دی۔

کیا وہ فقیہ اور محدث لگتا ہے؟،،،، سلطان نے پوچھا ۔

ہاں سلطان محترم !،،،،دربان نے جواب دیا ۔۔۔زبان شائستہ اور لباس عالمانہ ہے ،چہرے سے مہذب لگتا ہے۔

تو اسے اتنی دیر باہر کھڑا رکھنا خلاف تہذیب ہے ۔۔۔سلطان نے کہا ۔۔۔اسے فوراً اندر بھیج دو۔

 چند لمحوں بعد خواجہ حسن طوسی سلطان چغرا بیگ کے سامنے کھڑا تھا ،سلطان نے اسے احترام سے بٹھایا ۔

اے نوجوان !،،،،،سلطان نے پوچھا۔۔۔ میں کیسے مان لوں کے تو امام موافق کا شاگرد ہے، ہم جانتے ہیں امام موافق کی شاگردی کتنا بڑا اعزاز ہے۔

میرے پاس سند ہے ۔۔۔خواجہ طوسی نے سند سلطان کے حوالے کرتے ہوئے کہا ۔۔۔میں نے فقہ اور حدیث کی اور دیگر دینی امور کی تعلیم پائی ہے۔

 کیا تو فارغ التحصیل ہو گیا ہے؟،،،، سلطان نے پوچھا۔

 نہیں سلطان عالی مقام !،،،،،،خواجہ طوسی نے جواب دیا۔۔۔ میں مدرسے سے فارغ ہوا ہوں تحصیل علم سے نہیں، علم ایک سمندر ہے موتی اسی کے ہاتھ آتا ہے جو اس سمندر میں غوطہ زن ہوکر تہہ سے سیپی اٹھا لانے کا عزم رکھتا ہے۔

سلطان چغرا بیگ کچھ متاثر ہوا ۔

ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ  تو کتنا کچھ دانشمند ہے ۔۔۔سلطان نے کہا ۔۔۔کتابیں علم دے سکتی ہے عقل نہیں، تو اپنے آپ کو کتنا دانشمند سمجھتا ہے؟ 

سلطان محترم!،،،،،، خواجہ حسن طوسی نے کہا ۔۔۔انسان اتنا ہی احمق ہے جتنا وہ اپنے آپ کو دانشمند سمجھتا ہے، اور انسان اتنا ہی چھوٹا ہے جتنا وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے، یہ فیصلے دوسرے کیا کرتے ہیں کہ فلاں احمق اور فلاں دانشمند ہے۔

ایک بات بتا طوسی !،،،،،سلطان نے پوچھا۔۔۔ حکمران میں کیا صفات اور کیسے اوصاف ہونے چاہیے کہ وہ رعایا میں ہر دل عزیز ہو ،اور مرنے کے بعد بھی لوگ اسے اچھے الفاظ سے یاد کریں۔

وہ اپنے دین اور سلطنت کے لئے آگ کا طوفان ہو۔۔۔۔خواجہ حسن طوسی نے جواب دیا ۔۔۔رعایا کے لئے پانی ہو ،زمین کی طرح فیاض اور آسمان کی طرح مرئی ہو، عقاب کی مانند تیز نگاہ، کوے کی طرح محتاط، اور کوئل کی طرح خوش گلو ہو ،شیر کی طرح بے خوف اور چاند ستاروں کے مانند راست گو ہو، یوں نہیں کہ آج ادھر کل ادھر بھٹکتا پھرے۔

کیا یہ صفات ہم میں ہے؟۔۔۔ سلطان نے پوچھا۔

اگر میں نے کہا ہاں تو یہ خوشامد ہوگی۔۔۔ خواجہ طوسی نے کہا۔۔۔ خوشامد منافقت ہے، میں منافق نہیں بننا چاہتا، اگر میں نے کہا سلطان میں کچھ صفات کی کمی ہے، تو میں معتوب ہونگا ،مجھ میں تابِ عتاب نہیں۔

اے نوجوان !،،،،،سلطان نے کہا ۔۔۔تیری صاف گوئی قابل داد ہے، لیکن ایک بات بتا،،،، اگر ان صفات اور اوصاف میں سے ایک یا دو ہم میں نہ ہو تو کیا فرق پڑتا ہے؟

سلطان عالی مقام !،،،،خواجہ حسن طوسی نے کہا ۔۔۔تسبیح میں ایک سو دانے اور گرہ صرف ایک ہوتی ہے، اگر یہ ایک گرہ کھل جائے تو تمام دانے بکھر جاتے ہیں، ہو سکتا ہے آپ کی اور وہ وصف کمزور ہو جو گرہ کی حیثیت رکھتا ہے، تو گرہ کسی بھی وقت صفات و اوصاف کے دانے بکھیر دے گی۔

خواجہ حسن طوسی !،،،،سلطان چغرا بیگ نے پرجوش لہجے میں کہا ۔۔۔ہم نے تجھے مشیر مقرر کیا، اگر تو نے راست گوئی اور صداقت پسندی کو قائم رکھا تو یہ ہماری پیشن گوئی ہے کہ ایک روز تو اس سلطنت کا وزیراعظم ہوگا۔

بیس بائیس سال بعد سلطان چغرا بیگ کی پیشن گوئی پوری ہوگئی، خواجہ حسن طوسی وزیراعظم بن گیا، اس وقت کا سلطان چغرا بیگ کا پوتا سلطان ملک شاہ حکمران تھا، مَرو یعنی دوسرے دارالسلطنت میں سلطان الپ ارسلان تھا ،خواجہ طوسی سلطان الپ ارسلان کا وزیر اعظم تھا۔

خواجہ حسن طوسی تاریخ اسلام کی مشہور و معروف شخصیت ہے، اسے سلجوقی سلطانوں نے نظام الملک کا خطاب دیا تھا ،تاریخوں میں اسے خواجہ حسن طوسی کم ،نظام الملک زیادہ لکھا گیا ہے، اس لئے وہ اسی نام سے جانا پہچانا جاتا ہے، وہ دینی امور کا اور فقہ و حدیث کا عالم تھا۔

نظام الملک نے بغداد میں مدرسہ نظامیہ بنایا تھا ۔سلطان صلاح الدین ایوبی اور اس کے ساتھ ہی بہاؤالدین شداد کو جو اس وقت کا مشہور تاریخ دان تھا اسی مدرسے میں اکٹھے پڑھے تھے۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

ایک روز نظام الملک طوسی اپنے کام کاج میں مصروف تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ نیشا پور سے ایک شخص اسے ملنے آیا ہے اور اپنا نام عمر خیام بتاتا ہے، نظام الملک نے ذہن پر زور دیا یہ نام اسے کچھ مانوس لگا اور ایک شک کی بنا پر کہا کہ اسے اندر بھیج دو۔

عمر خیام اندر آیا، نظام الملک نے اسے دیکھا تو اچھل کر اٹھا اس نے عمر خیام کو پہچان لیا تھا ،دونوں اس طرح بغلگیر ہو کر ملے جیسے لمبی مدت کے بچھڑے ہوئے دوست ملا کرتے ہیں۔

وہ تھے ہی پرانے اور بچھڑے ہوئے دوست، امام موافق کے مدرسے میں ہم جماعت تھے،اس مدرسے کے متعلق تاریخوں میں لکھا ہے کہ طلباء کم ہوا کرتے تھے اور جو بھی طالب علم امام موافق کی شاگردی سے فارغ ہوتا تھا وہ حکومت یا معاشرے میں اونچے درجے پر فائز ہوجاتا تھا، اس کی ایک مثال خواجہ حسن طوسی کی تھی جو سلطنت سلجوقی کا وزیر اعظم بنا ،نظام الملک کا خطاب پایا اور تاریخ میں آج تک اس کا نام زندہ ہے اور تاابد زندہ رہے گا۔

پھر ایک اور مثال عمر خیام کی ہے، عمر خیام کی رباعی آج بھی مشہور ہیں، اردو میں بھی ان رباعیوں کا ترجمہ ہوا ہے اور انگریزی میں بھی ،اس طرح عمر خیام اردو اور انگریزی ادب کا ایک مقبول شاعر بن گیا ہے۔

عمر خیام کوئی عام قسم کا شاعر نہ تھا ،وہ فلسفی شاعر تھا اس کی رباعیوں میں نسوانی حسن کی رعنائیاں تو بہت ہیں لیکن ان رباعیوں میں زندگی کا فلسفہ اور دانش ہوتی تھیں، اس کی رباعیاں خیال کی گہرائیوں کی بدولت آج بھی زندہ ہیں۔

یہی نہیں عمر خیام حکیم بھی تھا ،اس نے حکمت  ہی نہیں کی تھی بلکہ بعض لاعلاج امراض کی دوائیاں بھی ایجاد کی تھیں، ایک روایت یہ بھی ہے کہ عمر خیام نے آب حیات بھی تیار کر لیا تھا جو ہر مرض کی دوا اور لامحدود عمر کا ضامن تھا، لیکن یہ محض روایت ہے کسی بھی مؤرخ نے آب حیات کا ذکر نہیں کیا۔

یہ تھا عمر خیام جو اپنے پرانے ہم جماعت خواجہ حسن طوسی نظام الملک سے ملنے آیا تھا، یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ عمر خیام کسی امیر باپ کا بیٹا نہیں تھا ،اس کا باپ جس کا نام عثمان تھا موٹے کھدر کا کپڑا بنتا تھا ،یہ اس کا خاندانی پیشہ تھا ،اس کے بعد اس نے خیموں کی سلائی کا کام شروع کردیا تھا اسی وجہ سے وہ خیام کہلانے لگا ،عثمان خیام اس کے بیٹے عمر نے جب دیکھا کہ وہ شعر موزوں کرسکتا ہے تو اس نے باپ کے پیشے کی مناسبت سے اپنا تخلص خیام رکھ لیا، یہ تخلص اس کے نام کا حصہ بن گیا اور عمر خیام کے نام سے مشہور ہوا۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

کہو عمر !،،،،،نظام الملک نے پرمسرت لہجے میں کہا۔۔۔ اتنا عرصہ کہاں رہے، آج تم نے لڑکپن یاد دلا دیا ہے۔

پہلی بات یہ ہے خواجہ!،،،،،، عمر خیام نے کہا۔۔۔ میں اب عمر نہیں عمر خیام ہوں،شعر و شاعری میں مقام پیدا کر لیا ہے، حکمت میں قسمت آزمائی کر رہا ہوں ،علم و ادب کی کتابیں بھی پڑھ رہا ہوں اور حکمت کی بھی، لیکن ذریعہ معاش کوئی نہیں، باپ خیمہ بافی کرتا ہے میں نے اس پیشے کو اپنانے کی کوشش کی تھی لیکن میرے ذہنی روجحان نے اسے قبول نہیں کیا ،میری صلاحیتیں مجھے کسی اور طرف لے جارہی تھی، باپ کو بھی میں نے ناراض کردیا کہ میں روٹی کمانے کے لیے اس کا ساتھ نہیں دیتا۔

تمہیں کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش تو تلاش کرنا ہی ہوگا ۔۔۔نظام الملک نے کہا۔۔۔ بغیر کام کے زندگی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔

 میں تمہیں ایک عہد نامہ یاد دلانے آیا ہوں خواجہ!،،،،، عمر خیام نے کہا۔۔۔ عہد نامہ ہم نے لڑکپن میں کیا تھا ۔

عہد نامہ؟،،،،،، نظام الملک نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا۔۔۔بائیس تئیس سال گزر گئے ہیں، عمر ذرا سا اشارہ دے دو۔

نظام الملک اور عمر خیام کا ایک ہم جماعت اور بھی تھا، اس نے تو تاریخ میں ایسا نام پایا ہے کہ اسے تاقیامت بھلایا نہیں جا سکے گا ،یہ تھا جنت ارضی کا خالق حسن بن صباح، ان کے ہم جماعت تو اور بھی تھے، لیکن نظام الملک، عمر خیام، اور حسن بن صباح کی آپس میں دوستی اتنی گہری ہوگئی تھی کہ وہ ایک ہی کمرے میں رہتے اور جدھر ایک نے جانا ہوتا تو اُدھر تینوں جاتے تھے۔

ایک روز حسن بن صباح نے ایک عہد نامہ پیش کیا ،اور تینوں دوستوں نے آپس میں یہ عہد کیا، یہ ان کا ایک تاریخی عہد نامہ ہے جس کا ذکر تقریباً ہر مؤرخ نے کیا ہے، اتنی مدت بعد عمر خیام نظام الملک سے ملا تو نظام الملک عہد نامہ بھول چکا تھا۔

مدرسہ کی ایک رات یاد کرو خواجہ!،،،،، عمر خیام نے نظام الملک کو عہد نامہ یاد دلانے کے لئے کہا۔۔۔ ہم تینوں دوست اس روز کا پڑھا ہوا سبق دہرا کر فارغ ہوئے تو حسن بن صباح نے کہا کہ اس مدرسے کی یہ روایت ہے کہ جو یہاں سے پڑھ کر نکلا اور جسے امام موافق نے ذہین اور لائق کہا وہ کسی نہ کسی اونچے رتبے پر پہنچا،،،،، پھر حسن بن صباح نے کہا تھا کہ ضروری نہیں کہ ہم تینوں اونچے رتبے پر پہنچیں گے، ہو سکتا ہے ہم تینوں میں سے کوئی ایک کسی بلند مرتبے تک جا پہنچے اور باقی دو بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کما سکیں،،،،،،، 

پھر حسن بن صباح نے کہا تھا کہ آؤ آپس میں عہد کریں کہ ہم میں سے جو بھی کسی اونچے منصب یا رتبے پر پہنچا تو دونوں دوستوں کی مالی معاونت کرے گا ،اور انہیں اپنی خوش بختی میں برابر کا شریک بنائے گا، یا ان کے ذریعہ معاش کا بندوبست کرے گا، اور طوطا چشمی اور خود غرضی سے گریز کرے گا، ہم تینوں نے پوری سنجیدگی اور سچے دل سے عہد و پیمان کئے تھے کہ ایسا ہی ہوگا۔

ہاں عمر !،،،،نظام الملک نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔مجھے یاد آ گیا ہے ،جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے سب سے زیادہ پرجوش طریقے سے عہد کیا تھا کہ مجھے الله نے کوئی بڑا رتبہ دے دیا اور میرے دونوں دوستوں کو میری ضرورت محسوس ہوئی تو میں ان کی مالی اور ہر طرح کی معاونت کروں گا۔

تو پھر خواجہ !،،،،،عمر خیام نے کہا ۔۔۔میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ اتنا عرصہ میرا کوئی ذریعہ معاش نہیں بنا۔

میں اس کا کچھ بندوبست کر دوں گا۔۔۔ نظام الملک نے کہا ۔۔۔تم صاحب علم و فضل ہو، فلسفہ ،شاعری، اور حکمت میں دسترس رکھتے ہو، میں سلطان سے کہوں گا کہ تم سلطنت کے لیے معتمد اور سود مند ثابت ہو سکتے ہو ،اور میں سلطان سے یوں کہوں گا کہ تمہیں میرے ساتھ ملازمت دے دی جائے، اور تمہیں میرا معاون بنا دیا جائے، یہ سلاطین مجھے اچھا چاہتے ہیں ،اور مجھ سے بہت ہی متاثر ہیں۔

میں تمہارے کردار کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔۔۔ عمر خیام نے کہا ۔۔۔لیکن خواجہ تم تو مجھے اعلیٰ منصب پر اپنے ساتھ بٹھانا چاہتے ہو، لیکن میں اس منصب کے قابل نہیں، میں ساری عمر تمہارا مشکور و ممنون رہوں گا۔

نہیں عمر!،،،،، نظام الملک نے کہا ۔۔۔میرا خیال ہے کہ ذریعہ معاش کے بغیر تم نے جو اتنا عرصہ گزارا ہے اس کے زیر اثر تمہیں اپنے آپ پر اعتماد نہیں رہا، میں تمہارا اعتماد بحال کرنا چاہتا ہوں، اور مجھے پوری امید ہے کہ سلطان محترم میرے کہنے پر تمہیں اچھے منصب پر قبول کرلیں گے۔

نہیں خواجہ یہ بات نہیں ۔۔۔عمر خیام نے کہا۔۔۔ میں کام کرنے سے نہیں گھبراتا، اور بے روزگاری نے مجھ پر کوئی نقصان دہ اثر نہیں چھوڑا ،میری صلاحیتیں جس طرف چل نکلی ہیں میں چاہتا ہوں کہ میں اسی راستے کی منزل تک پہنچ جاؤں، میں اپنی تحریریں اشعار اور حکمت کے نسخے جو میں نے دریافت کیے ہیں اپنے ساتھ لایا ہوں، میں علم و ادب اور حکمت میں مزید تحقیقات کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، ایک نظر انہیں دیکھ لو، میرے پاس کوئی پیسہ نہیں جس سے میں اپنے اس تحقیقی مسلک کو آگے بڑھاؤں، اگر میں نے ملازمت قبول کرلی تو اس سے صرف یہ حاصل ہوگا کہ میں اور میرے اہل و عیال باعزت روٹی کھا لیں گے، اور مجھے عزت حاصل ہو جائے گی۔

میری اس بات پر غور کرو خواجہ!،،،،،، میں صرف اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے روٹی نہیں چاہتا ،میں بنی نوع انسان کے لئے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، میں نے نایاب اور انتہائی کارآمد جڑی بوٹیاں تلاش کرنی ہے، اور کچھ قیمتی سامان بھی درکار ہے، اس کے ساتھ ساتھ میرے پاس اتنی رقم ہونی چاہیے جس سے میں گھر والوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرسکوں۔

نظام الملک نے اس کے کاغذات کا پلندہ دیکھا تب اسے اندازہ ہوا کہ یہ شخص علم و ادب کے لیے اور حکمت کے لیے کتنا بڑا کام کر رہا ہے، اور اگر اسے مالی معاونت مل جائے تو بنی نوع انسان کے لئے اس کی یہ کاوش بہت ہی سود مند ثابت ہو گی، چنانچہ اس نے عمر خیام کو اپنے ہاں مہمان رکھا ،اور اس کا یہ تحقیقی کام سلطان الپ ارسلان کو دکھایا، اور اسے اس تحقیق کی افادیت اور اہمیت بتائی۔

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ سلاطین سلجوق علم و فضل اور عمر خیام جیسے تحقیقی کام کرنے والوں کی بہت قدر کرتے تھے، سلطان نے عمر خیام کے لیے بارہ سو مثقال سونا سالانہ وظیفہ مقرر کردیا ،آج کی رقم کے حساب سے بارہ سو مثقال پینتیس ہزار روپے کے برابر تھے، عمر خیام پہلا وظیفہ وصول کرکے نیشاپور چلا گیا۔

عمر خیام کو اتنی زیادہ مالی سہولت حاصل ہوگئی تو وہ علم و حکمت کے تحقیقی کاموں میں مصروف ہوگیا، اس نے اپنی پہلی جو کتاب لکھی وہ عقیدت مندی اور شکریہ کے طور پر خواجہ نظام الملک کے نام سے منسوب کی، پھر اس نے اپنی تحقیق اور تجربات کی ایک اور کتاب مرتب کی جس کا نام

*علم المسات والمکعبات*  تھا اور پھر اس نے اقلیدس کے اصول و مسائل پر ایک کتاب لکھی، عمر خیام علم قیافہ میں بھی دسترس رکھتا تھا، ان کی کتابوں کی بدولت عمر خیام ایران میں اس قدر مشہور و مقبول ہوگیا کہ اسے بو علی سینا کا ہم پلہ سمجھا جانے لگا، 

عمر خیام کا مستقل قیام نیشاپور میں تھا۔ نیشاپور خراسان کا دارالسلطنت تھا اور وہاں کا سلطان ملک شاہ تھا، ملک شاہ ارباب علم نور اہل نظر کا اتنا قدردان تھا کہ اس نے عمر خیام کی شہرت سنی تو اسے نیشاپور بلایا اور اسے اصلاح تقویم کی ذمہ داری  سونپ دی، عمر خیام علم الاعداد میں بھی دسترس رکھتا تھا ،اس علم میں اس نے خاصی اصلاح و ترمیم کی۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

 یہ تھا عمر خیام جیسے خواجہ حسن طوسی نظام الملک نے بام عروج پر پہنچایا ،ان کا ایک تیسرا دوست بھی تھا حسن بن صباح ،ہم ذرا پیچھے چلتے ہیں جہاں عمر خیام نظام الملک کے پاس مَرو گیا تھا ،عمر خیام نے نظام الملک کو مدرسے کے دور کا عہد نامہ یاد دلایا تو حسن بن صباح کا ذکر آیا ۔

کیا جانتے ہو عمر وہ کہاں ہے؟،،،،، نظام الملک نے پوچھا۔

میں اتنا ہی جانتا ہوں کہ وہ رے چلا گیا تھا۔۔۔ عمر خیام نے جواب دیا۔۔۔ وہ وہیں کا رہنے والا تھا، تمہیں یاد ہو گا وہ خاصا ہوشیار اور چالاک ہوا کرتا تھا ،تمہیں شاید یاد نہ ہو اُس نے مدرسے کے ایک لڑکے کے کچھ پیسے چرا لیے تھے، ہم دونوں نے اس کی وکالت کی تھی کہ حسن چور نہیں ہوسکتا، لیکن اس نے یہ چوری کی تھی پھر بھی ہم نے اسے دوست بنائے رکھا تھا۔

ہاں عمر!،،،،، نظام الملک نے کہا ۔۔۔مجھے یاد آگیا ،اس میں کوئی ایسی بات ضرور تھی جو ہمیں اتنی اچھی لگتی تھی کہ میں اس کے بغیر اپنے آپ کو ادھورا سمجھتا تھا۔

یہ اس کی زبان کا کمال تھا۔۔۔ عمر خیام نے کہا۔۔۔ بولتے تو ہم بھی ہیں لیکن جب وہ بولتا تھا تو کچھ اور ہی تاثر پیدا ہوتا تھا ،ویسے بھی وہ خوبرو تھا ،اس کی آنکھوں میں کوئی ایسی تاثیر تھی کہ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا تھا تو سننے والا بلا پس و پیش اس کی بات مان لیتا تھا۔

دونوں دوست حسن بن صباح کی باتیں کرتے رہے، دو تین دنوں بعد عمر خیام چلا گیا۔

 چار پانچ دن گزرے ہوں گے کہ نظام الملک کو اطلاع ملی کہ رے سے ایک آدمی اسے ملنے آیا ہے، اپنا نام حسن بن صباح بتاتا ہے۔

حسن بن صباح!،،،،،، نظام الملک نے بڑے اشتیاق سے کہا ۔۔۔اور اٹھتے ہوئے بولا اسے فوراً اندر بھیجو، حسن بن صبا اندر آیا تو نظام الملک کو اپنے استقبال کے لئے دروازے میں کھڑا پایا، دونوں ہم جماعت دوست تادیر بغل گیر رہے۔

میں نے سنا کہ میرا دوست وزیراعظم ہو گیا ہے، تو میں خوشی سے پھٹنے لگا ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میں اٹھ دوڑا کے اپنے لڑکپن کے جگری یار کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر بیٹھا دیکھو ۔

وہ تو تم نے دیکھ لیا ہے ۔۔۔نظام الملک نے کہا۔۔۔ یہ بتا یہ بائیس تئیس سال کہاں رہے، اور ذریعہ معاش کیا ہے؟ 

خاک ہے میرا ذریعہ معاش۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔بہت قسمت آزمائی کی، مصر تک گیا لیکن قسمت نے کہیں بھی ساتھ نہ دیا ،کچھ دنوں کے لئے روزگار ملا پھر وہی بے روزگاری، ایک جگہ گیا تو مجھے بہت اچھا جواب ملا، مجھے کہا گیا کہ تم نے تعلیم ایسی اور اتنی زیادہ پائی ہے کہ تم کوئی چھوٹی نوکری نہیں کر سکتے،اور اسی وجہ سے تمھارا دماغ تجارت کو بھی قبول نہیں کرتا۔ 

ہاں حسن !،،،،نظام الملک نے کہا۔۔۔ اس شخص نے دانش مندی کی بات کی ہے ،امام موافق کا شاگرد کوئی عام سی نوکری نہیں کر سکتا، اور وہ دکان داری بھی نہیں کر سکتا، ہمارا دوست عمر آیا تھا وہ اب عمر خیام ہے، اس نے فلسفہ علم و ادب اور حکمت میں بہت کام کیا ہے، لیکن ذریعہ معاش کوئی نہیں۔

ہاہا۔۔۔ عمر!،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ ہمارا پیارا دوست اسے فلسفی اور شاعر ہی بننا تھا۔

 اس نے مجھے عہدنامہ یاد دلایا تھا۔۔۔ نظام الملک نے کہا۔۔۔ میں تو اس عہد نامے کو بھول گیا تھا جو ہم تینوں دوستوں نے ایک رات مدرسے میں کیا تھا ۔

پھر تم نے اس کے لئے کچھ کیا ہے؟

ہاں حسن!،،،،،، نظام الملک نے کہا ۔۔۔میں نے اس کے لئے سالانہ وظیفہ منظور کرا لیا ہے۔

میں بھی تمہیں وہی عہد نامہ یاد دلانے آیا ہوں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔لیکن مجھے وظیفہ نہیں چاہیے ،مجھے اپنی تعلیم اور خاندانی حیثیت کے مطابق ملازمت چاہیے۔

میں دوستی کا حق ادا کروں گا حسن!،،،،، نظام الملک نے کہا ۔۔۔اور میں لڑکپن کے عہد نامے کا پورا پاس کروں گا ،تم سلطان سے ملنے کے لئے تیار ہو جاؤ میں اس کے ساتھ پہلے ہی بات کر لوں گا۔

معروف تاریخ نویس ابن اثیر نے چند ایک مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ عہد طفلی کا ایک عہد نامہ تھا ،جس کی حیثیت ایک مذاق سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تھ،ی نہ ہی یہ عہد نامہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ کیا گیا تھا ،لیکن نظام الملک صاحب کردار اور دیندار آدمی تھا، سلطان چغرا بیگ نے اس میں یہی اوصاف دیکھ کر اسے اعلیٰ منصب پر فائز کیا تھا، اور انہیں اوصاف کے بدولت وہ سلطنت کا وزیراعظم بن گیا تھا ،اس نے لڑکپن کے عہد نامے کا اتنا پاس کیا کہ سلطان کے آگے حسن بن صباح کے کردار تعلیم اور دانشمندی ایسے انداز سے بیان کی کہ سلطان متاثر ہو گیا۔

اس نے حسن بن صباح سے کہا ۔۔۔وہ اسے سلطان سے ملوائے گا اور وہ اپنی تعلیم اور دانشمندی کا پراثر مظاہرہ کرے۔

 حسن بن صباح فن گفتگو کا تو استاد تھا ،نظام الملک نے اسے سلطان کے سامنے پیش کیا تو اس نے زبان کا جادو چلا کر سلطان کو متاثر کر لیا ،اس کا راستہ تو نظام الملک نے پہلے ہی صاف کر دیا تھا۔

 یہ فیصلہ وزیراعظم کو کرنا چاہیے کہ اس دانشمند شخصیت کو کس منصب پر فائز کیا جائے۔۔۔ سلطان نے کہا۔

میں حسن بن صباح کو سلطان عالی مقام کے معتمد خاص کے رتبے سے کم درجے کا کوئی نہیں سمجھتا نظام الملک نے کہا سلطان عالی مقام کو ایک معتمد خاص کی ضرورت بھی ہے

ہمیں منظور ہے سلطان نے کہا آپ انہیں رکھ لیں اور انہیں اچھی طرح بتا دیں کہ ان کا کام کیا ہوگا انہیں تمام تر امور سلطنت سمجھا دیں کچھ دن اپنی نگرانی میں رکھیں

اس طرح حسن بن سبا کو وہ رتبہ مل گیا جو اختیارات کے لحاظ سے وزارات سے کم نہ تھا وہ اسی دن اپنا سامان اور بیوی بچوں کو لانے کے لئے روانہ ہو گیا 

نظام الملک محسوس نہ کرسکا کہ اس نے ابلیس کے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا ہے۔

*<==÷=÷۔=÷=÷=÷=÷>*

حسن بن صباح کون تھا ؟

اس کا باپ خراسان کے شہر طوس کا رہنے والا تھا ،اس کا نام علی بن احمد تھا اور وہ اسماعیلی مذہب کا پیروکار تھا ،حسن بن صباح طوس میں پیدا ہوا تھا ،اس کا باپ شہر رے میں جاکر رہائش پذیر ہوگیا تھا، رے کا حاکم ابومسلم رازی تھا، علی بن احمد نے ابو مسلم رازی تک رسائی حاصل کر لی تھی ، اس کا کام تھا ابو مسلم رازی کی خوشامد کرنا، اور لوگوں کے خلاف مخبری کرنا، وہ چاہتا تو کسی شریف آدمی کو ناکردہ گناہ میں گرفتار کرا دیتا اور کسی مجرم کو جھوٹ کے ذریعے بے گناہ ثابت کرا دیتا۔

رے تجارت کا مرکز تھا ،جہاں غیر ملکی تاجر آتے رہتے تھے، علی بن احمد منڈی میں چلا جاتا اور کسی نہ کسی غیر ملکی تاجر کو جھانسا دے کر اس کا مال اڑا لیتا، یا کچھ رقم بٹور لیتا تھا، یہ کام وہ ایسی مہارت اور ایسے معزز انداز سے کرتا تھا کہ نقصان اٹھانے والے اس پر ہاتھ ڈالنے سے جھجکتے تھے، اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ رے کے حاکم ابومسلم رازی کا خاص آدمی اور اس کا منظور نظر ہے۔

علی بن احمد کی عیاری کے قصے  اتنے کم نہیں کے داستان گو سارے سنا دے، وہ بردہ فروشی تک کرتا تھا، لیکن یوں نہیں کہ ایک لڑکی کو اغوا کیا اور اسے بیچ ڈالا ،وہ کسی حسین اور نوجوان لڑکی کو یا کسی جوا سال بیوہ کو نہایت باعزت طریقے سے ورغلاتا اور ایسے سبز باغ دکھاتا کہ لڑکی پر سحر طاری ہو جاتا تھا ،نوخیز لڑکی ہوتی یا جواں سال عورت نتائج سے بے خبر اس کے جال میں آ جاتی تھی، وہ چار دن اسے اپنے پاس رکھ کر عیش و عشرت کرتا تھا، اس فریب کاری میں لڑکی کو اسے بتائے بغیر کوئی نشہ بھی پلاتا تھا، اس دوران وہ گاہک کی تلاش میں رہتا اور ایک دن اسے کسی مالدار گاہک کے حوالے کر دیتا تھا۔

کسی گھر میں لڑائی جھگڑا ہوتا ،یا بازار میں دو دکانداروں کے درمیان جھگڑا ہوجاتا ،یا تاجروں کا آپس میں کوئی تنازع ہوتا تو وہ ثالث یا منصف بن کر اپنے آپ کو ان پر مسلط کرکے تصفیہ کراتا تھا۔

لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص عیار اور فریب کار ہے پھر بھی اس کی عزت کرتے اور اس سے مشورے اور مدد لیتے تھے ،لوگوں میں مقبول عام بننے کے لئے وہ ان کے چھوٹے موٹے مسئلے حل کر دیا کرتا تھا ،اس میں ڈھیٹ پن اتنا زیادہ تھا کہ کہیں سے دھتکار دیا جاتا تو وہاں سے ایک دروازے سے نکل کر دوسرے دروازے سے پھر اندر چلا جاتا اور عیاری کا کوئی اور حربہ استعمال کر کے دھتکارنے والوں کو شیشے میں اتار لیتا تھا۔

لوگوں میں یہ جو مشہور تھا کہ وہ حاکم ابومسلم رازی کا منظور نظر ہے غلط نہ تھا ،ابو مسلم جابر اور دانشمند حاکم تھا ،لیکن علی بن احمد کمال استادی سے اسے دوستانہ سطح پر لے آیا کرتا تھا۔

ابومسلم رازی اہلسنت وجماعت تھا ،علی بن احمد بلاشک و شبہ اسماعیلی تھا ،لیکن ابو مسلم کو اس نے یقین دلایا تھا کہ وہ اہل سنت ہے، ایک بار ابو مسلم کو مصدقہ اطلاع ملی کہ علی بن احمد سنی نہیں اسماعیلی ہے، ابو مسلم نے اس سے جواب طلبی کی، اس نے قرآن ہاتھوں پر اٹھا کر قسم کھائی اور کہا کہ وہ سنی مسلمان ہے۔

اس کا بیٹا حسن بن صباح کئی سالوں سے ایک اسماعیلی عالم اور اتالیق عبدالملک بن عطاش کے یہاں تعلیم حاصل کر رہا تھا، اس کا علم ابو مسلم کو ہو گیا، اس نے ایک روز علی بن احمد کو بلایا۔

اس کا بچہ کہاں پڑھتا ہے مجھے کیا ۔۔۔ابومسلم نے علی سے کہا ۔۔۔اپنی اولاد کے متعلق ماں باپ کے فیصلوں کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں، لیکن تمہارے بیٹے کے متعلق میں اس لئے بات کر رہا ہوں کہ تم اہل سنت و جماعت ہو، لیکن اپنے بیٹے کو تم نے اسماعیلی عالم کی شاگردی میں بٹھا رکھا ہے،،،،،کیوں؟،،، کیا یہ تمہارے اسماعیلی ہونے کا ثبوت نہیں۔

نہیں ابومسلم !،،،،،علی بن احمد نے کہا ۔۔۔یہ میری ایک مجبوری کا ثبوت ہے، میں اپنے بیٹے کو نیشاپور امام موافق کی شاگردی میں بھیجنا چاہتا ہوں، لیکن میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کرسکوں۔

پیسے میں دلواتا ہوں،،،،،، ابو مسلم رازی نے کہا۔۔۔ میں سرکاری خزانے سے پیسے دلواؤں گا۔

 علی بن احمد نے ایسے انداز سے خوشی کا اظہار کیا جیسے اس کا ایک لا یخل مسئلہ حل ہو گیا ہو، اس نے سرکاری خزانے سے رقم وصول کی اور حسن بن صباح کو نیشاپور امام مؤافق کے مکتب میں بھیج دیا، امام مؤافق کٹر اہلسنت تھا ،تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ابومسلم رازی علی بن احمد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا، لیکن اسے دھتکار بھی نہیں سکتا تھا۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*

حسن بن صباح اپنے باپ کی عیارانہ سرگرمیوں سے بڑی اچھی طرح واقف تھا، اس نے باپ سے متاثر ہوکر عیاری کو ہی اپنا اصول بنا لیا تھا ،اس نے باپ کے خاص کمرے میں بڑی حسین اور نوخیز لڑکیاں بھی دیکھی تھیں، اسے یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ اس کا باپ کبھی کبھار ایسی ایک لڑکی یا ایک جوان عورت لاتا ہے اور اسے ایک نشہ پلاتا ہے ،حسن بن صباح نے یہ نشہ دیکھ لیا اور اس کی تھوڑی مقدار شربت میں ملا کر پی تھی ،تھوڑی ہی دیر بعد اسے یوں نظر آنے لگا تھا جیسے یہ دنیا بہت ہی حسین ہوگئی ہو، مؤرخ لکھتے ہیں کہ اسے بوڑھی عورتیں بھی جوان نظر آنے لگی تھیں۔

اس نے چرب زبانی باپ سے سیکھی تھی، لڑکپن میں ہی وہ زبان کے جادو کا ماہر ہو گیا تھا، اپنے باپ کو وہ اپنا بہترین استاد سمجھتا تھا، اس کے باپ کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس کے بیٹے میں اسی کی ذہنی رجحانات پیدا ہو گئے ہیں ،اس نے بیٹے کو کبھی روکا ٹوکا نہیں تھا، بلکہ نیشاپور امام مؤافق کے مکتب میں بھیجتے وقت اس نے بیٹے کو کچھ ہدایات دی تھیں۔

یہ نہ بھولنا بیٹے!،،،،، اس نے حسن بن صباح سے کہا تھا۔۔۔ ہم اسماعیلی ہیں اہلسنت نہیں، تم نے اہلسنت کا درس لینا ہے اور رہنا اسماعیلی ہے، اس مدرسے سے جو طلباء اچھے درجے میں کامیاب ہو کر نکلتے ہیں وہ اونچے رتبے پر فائز ہو جاتے ہیں، تم ایسے ایک دو لائق لڑکوں کے ساتھ دوستی کر لینا، آگے چل کر یہ تمہارے کام آئیں گے۔

باپ کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ اس کا بیٹا اسی عمر میں اس سے کہیں زیادہ چالاک ہو گیا ہے جتنا وہ سمجھتا ہے، بیٹے نے مدرسے میں خواجہ حسن طوسی اور عمر خیام کو دوستی کے لئے منتخب کرلیا، اس کی دوربین نگاہوں نے بھانپ لیا تھا کہ یہ دونوں پڑھنے میں بہت تیز ہیں اور یہ بڑے ہوکر اونچے رتبے پر پہنچیں گے۔

ائمہ تلبیس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ تینوں دوستوں میں یہ جو معاہدہ ہوا تھا کہ جو دوست کسی اعلی منصب پر فائز ہو گیا وہ دونوں دوستوں کی مدد کرے گا، اور اپنے مال و دولت میں بھی انہیں شریک سمجھے گا ،یہ معاہدہ حسن بن صباح کے عیّار دماغ کی اختراع تھا۔

اس عہد نامے سے عمر خیام نے بھی فائدہ اٹھایا، لیکن وہ جائز فائدہ تھا، عمر خیام کے شاہکار آج تک زندہ ہیں، لیکن حسن بن صباح نے نظام الملک سے اس عہد نامے کا جو فائدہ اٹھایا وہ ایک ابلیس کا کارنامہ تھا، یہ حسن بن صباح کا پہلا قدم تھا، وہ جب نظام الملک کے پاس یہ سن کر گیا تھا کہ وہ وزیراعظم ہوگیا ہے تو اس نے جھوٹ بولا تھا کہ وہ اتنا عرصہ بےروزگار رہا ہے، وہ کچھ خفیہ سرگرمیوں میں مصروف رہا تھا، وہ اپنا ایک فرقہ بنانے کے لئے زمین ہموار کر رہا تھا۔

اس مقصد کے لئے وہ مصر تک چلا گیا تھا۔ مصر میں عبیدیوں کی حکومت تھی جو ظاہری طور پر اسماعیلی کہلاتے تھے لیکن وہ درپردہ باطنی تھے، وہاں بات چیت کرکے واپس رے آ گیا، کچھ دنوں بعد عبیدیوں کا ایک وفد اس کے پاس رے آیا، وفد چلا گیا تو ابومسلم رازی کو اطلاع ملی اور اسے حسن بن صباح کے عزائم معلوم ہوئے، ابومسلم نے حسن بن صباح کی گرفتاری کا حکم دے دیا، حسن بن صباح کو قبل از وقت پتہ چل گیا اور وہ بھاگ گیا۔

وہ اس وقت زمین دوز روپوشی سے ابھرا جب وہ نظام الملک کی مروت اور کوششوں سے سلطان ملک شاہ کے معتمد خاص کا منصب حاصل کر چکا تھا، اور رے اپنا سامان اور اپنی بیوی بچے لینے آیا تھا، ابومسلم خاموش ہو گیا۔

اس وقت اس کا باپ بستر مرگ پر پڑا تھا، حسن بن صباح نے آکر اسے خوش خبری سنائی کہ اسے یہ رتبہ مل گیا ہے۔

اب میں سکون سے مروں گا۔۔۔ باپ نے کہا۔۔۔ میں تمہیں اسی منصب پر دیکھنا چاہتا تھا،،،،،جانتے ہو اب تمہیں کیا کرنا ہے؟ 

جانتا ہوں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔سب سے پہلے نظام الملک کو اس کرسی سے اٹھانا محل سے نکلوانا اور خود وزیراعظم بننا ہے۔

شاباش !،،،،باپ نے کہا ۔۔۔تم دروازے میں داخل ہو گئے ہو، اہم کمروں پر قبضہ کرنا تمہارا کام ہے،،،،،، یاد رکھو بیٹے  بدی میں بڑی طاقت ہے اس سے زیادہ طاقت عورت اور نشے میں ہے، ان دو چیزوں کے ذریعے تم دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور بادشاہ کو اپنے قدموں میں بٹھا سکتے ہو۔

باپ کو ہچکی آئی اور اس کے ناپاک جسم سے روح نکل گئی، لیکن وہ اپنی ابلیسیت اپنے بیٹے میں منتقل کر گیا، یہاں سے عورت اور نشے کی عیاری اور بدی کی ایسی داستان نے جنم لیا جن سے زمین و آسمان کانپ اٹھے، آج بھی سنو تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

*<========۔=====>

جاری ہے

https://www.historypk.site/2021/01/blog-post_22.html

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area