Barbrosa episode 30 Urdu subtitles

 

Barbrosa episode 30 in Urdu subtitles 

Barbrosa episode 30 Urdu subtitles





➖➖➖➖➖


➖➖➖➖➖➖➖


*محمد شاہ مکران کا ایک بادشاہ گزرا ہے ، ایک مرتبہ وہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ شکار کو نکلا ۔*


*بادشاہ سلامت شکار کھیل رہے تھے ، سپاہیوں کے ہاتھ ایک بوڑھی عورت کی گائے آ گئی ۔*


*انہوں نے اسے ذبح کرکے اس کا گوشت بُھون کر کھالیا ۔*


*بڑھیا نے کہا کہ مجھے پیسے دے دو تا کہ میں کوئی اور گائے خرید لوں ، انہوں نے پیسے دینے سے انکار کر دیا ۔*


*اب وہ بڑی پریشان ہوئی ، اس نے کسی عالم کو بتایا کہ میرا تو روزی کا دار ومدار اسی گائے پر تھا ، یہ سپاہی اس کو بھی کھا گئے ہیں اور اب پیسے بھی نہیں دیتے ، اب میں کیا کروں ؟*


*انہوں نے کہا کہ بادشاہ نیک آدمی ہے ، لہٰذا تم سیدھی جا کر بادشاہ سے بات کرو ۔*


*اس نے کہا کہ مجھے یہ سپاہی آگے جانے بھی نہیں دیتے ۔*


*انہوں نے کہا کہ میں تجھے ایک طریقہ بتا دیتا ہوں کہ بادشاہ کو پرسوں اپنے گھر جانا ہے ، اس کے گھر کے راستہ میں ایک دریا ہے اور اس کا ایک ہی پُل ہے ، وہ اس پر سے لازمی گزرے گا ۔*


*تم اس پل پر پہنچ جانا اور جب بادشاہ کی سواری وہاں سے گزرنے لگے تو اس کی سواری ٹھہرا کر تم اپنی بات بیان کر دینا ۔*

کرولش عثمان سیزن 3 قسط نمبر 93 دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں

*چنانچہ تیسرے دن بڑھیا وہاں پہنچ گئی ، بادشاہ کی سواری پل پر پہنچی تو بڑھیا تو پہلے ہی انتظار میں تھی ، اس نے کھڑے ہو کر بادشاہ کی سواری روک لی ۔*


*بادشاہ نے کہا : اماں ! آپ نے میری سواری کو کیوں روکا ہے ؟*


*بڑھیا کہنے لگی : محمد شاہ ! میرا اور تیرا ایک معاملہ ہے ، اتنا پوچھتی ہوں کہ تو وہ معاملہ اس پل پر حل کرنا چاہتا ہے یا قیامت کے دن پل صراط پر حل کرنا چاہتا ہے ؟*


*پل صراط کا نام سنتے ہی بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ، وہ نیچے اترا اور کہنے لگا :*


*اماں میں اپنی پگڑی آپ کے پاؤں پر رکھنے کیلئے تیار ہوں ، آپ بتائیں کہ آپ کو کیا تکلیف پہنچی ہے ؟*


*مجھے معافی دے دو ، میں قیامت کے دن پل صراط پر کسی جھگڑے کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ہوں ، چنانچہ اس بڑھیا نے اپنی بات بتادی ۔*

Click this link and watch Barbrosa episode 30 in urdu subtitles

*بادشاہ نے اسے ستر گایوں کے برابر قیمت بھی دے دی اور معافی مانگ کر اس بڑھیا کو راضی بھی کیا ، تاکہ قیامت کے دن پل صراط پر اس کا دامن نہ پکڑے ۔*


*اہل دل کے تڑپا دینے والے واقعات ، جلد دوم ، ص : 150*

Post a Comment

0 Comments