کرامات اولیاء قرآن وحدیث کی روشنی میں
قراٰن سے ثبوت:حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے پاس گرمی کے پھل سردیوں میں اور سردیوں کے پھل گرمی میں موجود ہوتے۔
(تحفۃ المرید،ص363) حضرت زَکَرِیَّا علیہ السَّلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے پوچھا:یہ پھل تمہارے پاس کہاں سے آئے؟ تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:یہ اللہ پاک کی طرف سے ہیں چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے
:( كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ-وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاۚ-قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَاؕ-قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-) ترجمۂ کنزالایمان:جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ بولیں وہ اللہ کے پاس سے ہے۔(پ3، اٰل عمرٰن:37)
جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے لشکر سے فرمایا کہ تم میں کون ایسا شخص ہے جو بلقیس کے آنے سے پہلے ان کے تخت کو میرے پاس لے آئے؟تو جنات میں سے ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا کہ آپ اپنے مقام سے اٹھنے سے قبل میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں،آپ نے فرمایا:مجھے وہ تخت اور جلد چاہئیے! تب حضرت آصف بن برخیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت چاہی اور پلک جھپکنے سے پہلے آپ کی خدمت میں وہ تخت لے کر حاضر ہوگئے۔جیساکہ سورئہ نمل میں مذکور ہے
اللہ تعالی کی عظیم قدرت سے اصحاب کہف کی یہ کرامت ہے کہ انہوں نے تین سو نو( 309)سال کا طویل عرصہ غار میں بغیر کچھ کھائے‘پئے گزارا ،ان کے جسم سلامت رہے، اور ان کے در پر رہنے والاکُتَّابھی محفوظ رہا۔ جتنا عرصہ اصحاب کہف نے غار میں گزارا اتنے عرصہ تک سورج نے اپنی روش کو تبدیل کردیا،جب وہ طلوع ہوتا تو دائیں جانب ہوجاتا اور جب غروب ہوتا تو بائیں جانب ہوکر غروب ہوتا،اس طرح سورج کی شعاعیں ان پر نہ پڑتیں۔سورج کا اپنے مقررہ نظام سے ہٹ کر اس طرح طلوع وغروب ہونا قدرتِ خدا وندی کی دلیل اوراصحاب کہف کی کرامت ہے
حدیث شریف سے کرامت کا ثبوت:ترجمہ:سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہےمیں اس سے جنگ کا اعلان کرتا ہوں،اور میرا بندہ میری بارگاہ میں کسی چیز کے ذریعہ تقرب حاصل نہیں کیا جو اس فرض سے زیادہ محبوب ہو جو میں نے اس کے ذمہ کیا ہے ،اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ مسلسل میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں ‘پھر جب میںاسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے،میں اس کی آنکھ ہوجاتاہوں جس سے وہ دیکھتا ہے،میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے،میں اس کے پیر ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور بضرور اسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ طلب کرے تو ضرور بضرورمیں اسے پناہ دیتا ہوںاور میں کسی چیز کو کرنا چاہوں تو اس سے توقف نہیں کرتا ،جس طرح مومن کی جان لینے سے توقف کرتا ہوں جبکہ وہ موت کو ناپسند کرے،اور میں اس کو تکلیف دینا گوارا نہیں کرتا۔( صحیح البخاری ،کتاب الرقاق، باب التواضع ،حدیث نمبر:6502)اس حدیث قدسی سے اولیاء کرام و صالحین امت کی عظمت وجلالت کا اظہار ہوتا ہے اوران کی کرامات کا ثبوت ملتا ہے کہ جب ان کی سماعت وبصارت،کلام وحرکت میں قدرت الہی کار فرما ہے تو وہ اپنے کان سے قریب کی بھی سنتے ہیں اور دور کی بھی،اپنی آنکھ سے قریب کو بھی دیکھ لیتے ہیں اور دور کو بھی۔
امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ ایک صالح نوجوان کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: اے فُلاں! اللہ پاک نے وعدہ فرمایا ہے کہ (وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(۴۶)) ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جَنّتیں ہیں۔(پ27،الرحمٰن: 46) اے نوجوان!بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟اس صالح نوجوان نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارااوربُلَند آواز سے دو مرتبہ جواب دیا: میرے رب نے مجھے یہ دونوں جنّتیں عطا فرما دیں۔(حجۃ اللہ علی العالمین،ص612
حضرت سیّدُنا سفینہ رضی اللہ عنہ کی کرامت بھی بہت مشہور ہے کہ یہ رُوم کی سَرزمین میں دورانِ سفر اسلامی لشکر سے بِچَھڑ گئے۔ لشکر کی تلاش میں جارہے تھے کہ اچانک جنگل سے ایک شیر نکل کر ان کے سامنے آگیا۔حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے شیر کو مخاطب کر کے کہا: اے شیر! اَنَامَولٰی رَسُولِ اللہِ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم یعنی میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا غلام ہوں، میرا معاملہ اِس اِس طرح ہے۔ یہ سُن کر شیر دُم ہِلاتا ہُوا ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا۔ جب کوئی آواز سنتا تو اُدھر چلا جاتا، پھر آپ کے بَرابَر چلنے لگتا حتّٰی کہ آپ لشکر تک پہنچ گئے پھر شیر واپس چلا گیا۔(مشکاۃ المصابیح ،ج2،ص400،حدیث:5949
ہمارے پیارے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے صحابی حضرت عبدُاللہ رضی اللہ عنہ کا علمِ غیب دیکھئے کہ اپنی مَوت، نَوعِیَتِ مَوت، حُسنِ خاتِمَہ وغیرہ سب کی خبر پہلے سے دے دی۔ چنانچہ حضرت سیّدُنا جابِر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب غَزْوَۂ اُحُد ہوا میرے والد نے مجھے رات میں بُلا کر فرمایا: میں اپنے متعلق خیال کرتا ہوں کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ میں پہلا شہید میں ہوں گا۔میرے نزدیک رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد تم سب سے زیادہ پیارے ہو۔ مجھ پر قرض ہے تم ادا کردینا اور اپنی بہنوں کے لئے بھلائی کی وَصِیَّت قبول کرو۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم نے دیکھا صبح سب سے پہلے شہید وہی تھے۔(بخاری،ج1،ص454،حدیث:1351مختصراً