چین کے ساتھ نہر طلاس کا عظیم الشان معرکہ

 #چین_کے_ساتھ_نہرطلاس_کا_معرکہ

چین کا ہمیشہ وسطی ایشیاء ( ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان، قرغیزستان، قازقستان اوراذربیجان)پراثرورسوخ رہا ہے۔ یہ علاقے چین کے شہ رگ ہوا کرتے تھے اور ان علاقوں میں ترکمن قبائل رہتے تھے جو چینی بادشاہ کے وفادار ہوتے تھے اور اس کو ٹیکس دیا کرتے تھے۔ جب اسلامی فتوحات شروع ہوئیں ابتداء میں چین نے ان کو زیادہ اہمیت نہیں دی اسکی کئی وجوہات تھیں  ایک یہ کہ یہ علاقے چین سے بہت دور ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اس کی زیر نظر نہیں ہوتے تھے دوسری وجہ یہ کہ چین کے لوگ  فارس کی ساسانی سلطنت سے جان چھڑانا چاہتے تھے جو وسطی ایشیاء میں چین کے ساتھ رسہ کشی کرتی تھی۔

چین کی پریشانی میں اضافہ اس وقت ہوا جب اموی خلافت نے وسطی ایشیاء کے ساتھ ایران کو بھی فتح کیا۔ سندھ کے ساتھ ایران اور وسطی ایشیا کی فتح میں حجاج بن یوسف کا بڑا ہاتھ ہے انہوں نے فوج کو تیار کرنے کے بعد دو کمانڈروں" محمد بن قاسم" اور "قتیبہ بن مسلم" کو بلا کر کہا: "تم میں سے جو پہلے چین کو فتح کرے گا وہی اس کا گورنر بنایا جائےگا"، محمد بن قاسم سندھ کی طرف سے قتیبہ بن مسلم وسطی ایشیاء کیطرف سے چین پر جھپٹنے کےلیےتیار تھےمگر قتیہ بن مسلم  نےجو اس وقت "خراسان" کے گورنر بھی تھے پہلے چین کےگریبان میں ہاتھ ڈلا اور اس کو پھاڑتا ہوا  "کاشعر"  پہنچا۔ چین وسطی ایشیاء میں اسلامی فتوحات کو عسکری قوت سے روکنے میں ناکام رہا تاہم قبائل سرداروں کی مدد جاری رکھی اور انکو مسلمانوں سے لڑنے پر ابھارتا رہا۔ جس میں کئی جگہ کامیاب بھی ہوا۔

اس وقت چین عسکری طور پر اسلامی فوج کا سامنا کر بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ  اس کے اندرونی مسائل, آزادی کی تحریکیں اور انارکی اسکی اجازت نہیں دیتی تھیں اور اسلامی فوج کے بارے میں چینیوں نے یہ سن رکھا تھا کہ "ناقابل تسخیر فوج ہے" خاص کر رومن سلطنت کو شکست دینے اور فارس کی سلطنت کو گرانے پر چین پر بھی رعب طاری ہو گیا تھا۔ پھر امویوں کے اندرونی بغاوتوں کو کچلنے میں مصروفیت کو دیکھ کر موقعے سے فائدہ اٹھا کر چین نے" جاوزیانزی" کی قیادت میں فوجی مہم وسطی ایشیاء بھیجا جس نے موجودہ "ازبکستان" کو  واپس لیا اور بات بہت آگے بڑھی یہاں تک کہ  وسطی ایشیاء میں مسلمانوں کے اہم شہر کابل پر بھی خطرے کے بادل منڈلانے لگے۔

جب عباسی خلافت قائم ہوئی اور امن وامان بحال ہوا تو خلیفہ ابوجعفر منصور نے خراسان میں اپنےگورنر "ابو مسلم خرسانی"کو سنکیانگ پر حملےکا حکم بھیجا،گورنر ابو مسلم  فوج کی قیادت کرتے ہوئے خود روانہ ہو گئے پھر افغانستان سےمزید فوج شامل ہوگئی۔ سمرقند سےہوتی ہوئی فوج اس فوج سے جا ملی جو " زیاد بن صالح" کی قیادت میں چین کی طرف رواں دواں تھی۔

چین نے ایک لاکھ فوج "جاوزیانزی" کی قیادت میں جولائی 751م میں  اسلامی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا۔ "طلاس" شہر کےقریب فوجیں آمنےسامنے ہوئیں، اب طلاس جمہوریہ قرغیزستان کا حصہ ہے۔اسلامی فوج نےچینی فوج کو بڑی مہارت سےمحاصرے میں لیا اور اسکےگرد گھیرا تنگ کیا زبردست جنگ ہوئی ہزاروں چینی فوجیوں کو قتل کیا کمانڈر "جاوزیانزی" بھاگ گیا، زیادبن صالح نے20ہزار جنگی قیدیوں کو  بغداد روانہ کیا جن کو بغداد میں غلاموں کے بازار میں فروخت  کیا گیا۔

طلاس کا معرکہ ہی خلافت اور چین کےدرمیان آخری معرکہ  تھا جس کے بعد وسطی ایشیاء میں چین کا اثر رسوخ ختم ہوگیا اور وسطی ایشیاء اسلام سے جڑ گیا اور اسلام کے رنگ میں رنگ گیا جو کہ اللہ کا رنگ ہے۔ پھر یہاں سے ابوحنیفہ، بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداود وغیرہ جیسے علماء پیدا ہوئے جوکہ خلافت کا اعمال جاریہ ہیں جن سے کروڑوں انسانوں کو ہدایت ملی۔

   خلافت کے خاتمے کے بعد ہم پر ذلت آمیز نظام مسلط کیا گیا جس نے ذلیل قسم کی قیادتیں جنم دی جو غلامی کے علاوہ کچھ نہیں جانتی جو کبھی امریکہ کبھی چین اور روس کے تلوے چاٹنے کی باتیں کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو جلد سے جلد اس نظام اور ان ذلیل ایجنٹوں سے جان چھڑانی پڑے گی تاکہ پھر قتیبہ اور محمد بن قاسم اور ابو مسلم آئیں اور اسلام کی نور کو دنیا تک پہنچائیں۔

🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹 🌹


Android mobile best new update


 اینڈرائیڈ موبائِل اور کیمرہ 


دوستو ،

 زیادہ تر لوگ کیمرہ کے دوتین فنکشنز جانتے ہیں جیسے اگلے اور پچھلے کیمرے سے تصاویر بنانا یا ویڈیوز بنانا


لیکن انڈرائید فون کے کیمرے سے کئی دوسرے زبردست اور مفید کام بھی لیئے جاتے ہیں۔جن میں سے پانچ کا ذکر یہاں کررہا ہوں۔ آپ انہیں پلے سٹور سے با آسانی اپنے فون پر انسٹال کرسکتے ہیں۔


❶ ۔ Google Translator

 اس سافٹ وئیر سے تو سبھی لوگ واقف ہونگے۔ آپ اسے انسٹال کریں۔ زبان کی سیٹنگ کریں۔ اسکے اندر کیمرہ کے نشان کو کلک کریں۔۔ پھر اس کیمرہ کو گھر میں کہین بھی لکھی ہوئ انگریزی یا اردو پر لے جائیں وہ آپکو اردو یا انگلش میں ترجمہ کرکے دکھا دے گا۔


❷ ۔ PhotoMath 

اسے انسٹال کریں ، اسکے اندر جاکر کیمرہ آن کریں۔۔ کاغذ پر پن سے ریاضی کا کوئ بھی مشکل یا آسان سوال لکھیں۔۔ کیمرہ اس لائین کے اوپر لے جائیں یہ اسے فوکس اور سکین کرکے آپ کو سیکنڈوں میں جواب دکھا دے گا۔


❸ ۔ IP Webcam

اس ایپ کی مدد سے آپ اپنے موبائل کو خفیہ یا سیکورٹی کیمرہ میں تبدیل کرسکتے ہیں۔اگرچہ میں نے اسے خود یوز نہیں کیا لیکن اسکی ڈسکرپشن دیکھی ہے۔ اس ایپ کو اوپن کریں اسکے اندر سے ایپ کا آئ پی ایڈریس نوٹ کریں۔۔ اس آئ پی ایڈریس کو اپنے کمپیوٹر یا دوسرے موبائل کے براؤزرز میں ڈالیں ۔۔اب جو مناظر اپ کا پہلا کیمرہ دکھائے گا وہی آپ کا ڈسک ٹاپ یا دوسرا موبائل دکھائے گا۔


❹ ۔ CrookCatcher - Anti Theft

یہ سب سے زبردست ایپ ہے۔ اگر آپ کا موبائل کہیں گم یا چوری ہوجائے اور چور جب اسے یوز کرنے کے لیئے موبائل کا سیکورٹی پن یا پیٹرن غلط لگائے گا تو یہ سافٹ وئیر اپنا کام شروع کردے گا،، یہ موبائل کے فرنٹ کیمرے سے اس چور کی تصویر بنالے گا۔۔ پھر اس تصویر اور لوکیشن کو آپ کے دیئے گئے ای میل ایڈریس پر بھیج دے گا


❺ ۔CamScanner - Phone PDF Creator

 اس ایپ کی مدد سے آپ اپنی لائیبریری میں موجود کسی بھی چھوٹی یا بڑی کتاب کو منٹوں میں پی ڈی ایف فارمٹ میں تبدیل کرسکتے ہو۔۔ اس ایپ کی مدد سے کیمرہ آن کریں۔۔ جس پیج کو کنورٹ کرنا ہے اسے فوکس کرکے تصویر لیں اور کنورٹ کریں۔


جزاک اللہ

سلطان محمد فاتح

 قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولا


29 مئی 1453: رات کا ڈیڑھ بجا ہے۔ دنیا کے ایک قدیم اور عظیم شہر کی فصیلوں اور گنبدوں پر سے 19ویں قمری تاریخ کا زرد چاند تیزی سے مغرب کی طرف دوڑا جا رہا ہے جیسے اسے کسی شدید خطرے کا اندیشہ ہے۔

اس زوال آمادہ چاند کی ملگجی روشنی میں دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ شہر کی فصیلوں کے باہر فوجوں کے پرے منظم مستقل مزاجی سے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ان کے دل میں احساس ہے کہ وہ تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔

یہ شہر قسطنطنیہ (موجودہ نام: استنبول) ہے اور فصیلوں کے باہر عثمانی فوج آخری ہلہ بولنے کی تیاری کر رہی ہے۔ عثمانی توپوں کو شہر پناہ پر گولے برساتے ہوئے 47 دن گزر چکے ہیں۔ کمانڈروں نے خاص طور پر تین مقامات پر گولہ باری مرکوز رکھ کر فصیل کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔

21 سالہ عثمانی سلطان محمد ثانی غیر متوقع طور پر اپنی فوج کے اگلے مورچوں پر پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ حتمی یلغار فصیل کے 'میسو ٹیکیون' کہلانے والے وسطی حصے سے کی جائے گی جس میں کم از کم نو شگاف پڑ چکے ہیں اور خندق کا بڑا حصہ پاٹ دیا گیا ہے۔

سر پر بھاری پگڑ باندھے اور طلائی خلعت میں ملبوس سلطان نے اپنے سپاہیوں کو ترکی زبان میں مخاطب کیا: 'میرے دوستوں اور بچو، آگے بڑھو، اپنے آپ کو ثابت کرنے کا لمحہ آ گیا ہے!'

اس کے ساتھ ہی نقاروں، قرنوں، طبلوں اور بگلوں کے شور نے رات کی خاموشی کو تار تار کر دیا، لیکن اس کان پھاڑتے شور میں بھی عثمانی دستوں کے فلک شگاف نعرے صاف سنائی دیے جا سکتے تھے جنھوں نے فصیل کے کمزور حصوں پر ہلہ بول دیا۔ ایک طرف خشکی سے اور دوسری طرف سے سمندر میں بحری جہازوں پر نصب توپوں کے دہانوں نے آگ برسانا شروع کر دی۔

بازنطینی سپاہی اس حملے کے لیے فصیلوں پر تیار کھڑے تھے۔ لیکن پچھلے ڈیڑھ ماہ کے محاصرے نے ان کے حوصلے پست اور اعصاب شکستہ کر دیے تھے۔ بہت شہری بھی مدد کے لیے فصیلوں پر آ پہنچے اور پتھر اٹھا اٹھا کر کے نیچے اکٹھا ہونے والے حملہ آوروں پر پھینکنا شروع کر دیے۔ دوسرے اپنے اپنے قریبی چرچ کی طرف دوڑے اور گڑگڑا گڑگڑا کر مناجاتیں شروع کر دیں۔ پادریوں نے شہر کے متعدد چرچوں کی گھنٹیاں پوری طاقت سے بجانا شروع کر دیں جن کی ٹناٹن نے ان لوگوں کو بھی جگا دیا جو ابھی تک سو رہے تھے۔

ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے عیسائی اپنے صدیوں پرانے اختلاف بھلا کر ایک ہو گئے اور ان کی بڑی تعداد شہر کے سب سے بڑے اور مقدس کلیسا ہاجیہ صوفیہ میں اکٹھی ہو گئی۔

دفاعی فوج نے جانفشانی سے عثمانیوں کی یلغار روکنے کی کوشش کی۔ لیکن اطالوی طبیب نکولو باربیرو جو اس دن شہر میں موجود تھے، لکھتے ہیں کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جانثاری دستے ’بےجگر شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔'

روشنی پھیلنے تک ترک سپاہی فصیل کے اوپر پہنچ گئے۔ اس دوران اکثر دفاعی فوجی مارے جا چکے تھے اور ان کا سپہ سالار جیووانی جسٹینیانی شدید زخمی ہو کر میدانِ جنگ سے باہر ہو چکا تھا۔

جب مشرق سے سورج کی پہلی کرن نمودار ہوئی تو اس نے دیکھا کہ ایک ترک سپاہی کرکوپورتا دروازے کے اوپر نصب بازنطینی پرچم اتار کر اس کی جگہ عثمانی جھنڈا لہرا رہا ہے۔

سلطان محمد سفید گھوڑے پر اپنے وزرا اور عمائد کے ہمراہ ہاجیہ صوفیہ پہنچے۔ صدر دروازے کے قریب پہنچ کر وہ گھوڑے سے اترے اور گلی سے ایک مٹھی خاک لے کر اپنی پگڑی پر ڈال دی۔ ان کے ساتھیوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

مسلمان سات سو سال کی جدوجہد کے بعد بالآخر قسطنطنیہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔

ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر 1480 برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج چھو لیا اور وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے حصوں پر بڑی شان سے حکومت کرتی رہی۔

1453 ہی وہ سال ہے جسے قرونِ وسطیٰ (مڈل ایجز) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فتحِ قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد ثابت ہو گیا کہ اب بارود کے استعمال اور بڑی توپوں کی گولہ باری کے بعد فصیلیں کسی شہر کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔

شہر پر ترکوں کے قبضے کے بعد یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں یونانی بولنے والے شہری بھاگ کر یورپ اور خاص طور پر اٹلی کے مختلف شہروں میں جا بسے۔ اس وقت یورپ 'تاریک دور' سے گزر رہا تھا اور قدیم یونانی تہذیب سے کٹا ہوا تھا۔ لیکن اس تمام عرصے میں قسطنطنیہ میں یونانی زبان اور ثقافت بڑی حد تک برقرار رہی تھی۔ یہاں پہنچنے والے مہاجروں کے پاس ہیرے جواہرات سے بیش قیمت خزانہ تھا۔ ارسطو، افلاطون، بطلیموس، جالینوس اور دوسرے حکما و علما کے اصل یونانی زبان کے نسخے۔

ان سب نے یورپ میں قدیم یونانی علوم کے احیا میں زبردست کردار ادا کیا اور مورخین کے مطابق انھی کی وجہ سے یورپ میں نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوا جس نے آنے والی صدیوں میں یورپ کو باقی دنیا سے سبقت لینے میں مدد دی جو آج بھی برقرار ہے۔

تاہم نوجوان سلطان محمد کو، جسے آج دنیا سلطان محمد فاتح کے نام سے جانتی ہے، 29 مئی کی صبح جو شہر نظر آیا یہ وہ شہر نہیں تھا جس کی شان و شوکت کے افسانے اس نے بچپن سے سن رکھے تھے۔ طویل انحطاط کے بعد بازنطینی سلطنت آخری سانسیں لے رہی تھی اور قسطنطنیہ، جو صدیوں تک دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے مالدار شہر رہا تھا، اب اس کی آبادی سکڑ کر چند ہزار رہ گئی تھی اور شہر کے کئی حصے ویرانی کے سبب ایک دوسرے سے کٹ ہو کر الگ الگ دیہات میں تبدیل ہو گئے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ نوجوان سلطان نے شہر کی حالتِ زار دیکھ کر شیخ سعدی سے منسوب یہ شعر پڑھا:

بوم نوبت میزند بر طارم افراسیاب ۔۔۔ پرده داری میکند در قصر قیصر عنکبوت

(اُلو افراسیاب کے میناروں پر نوبت بجائے جاتا ہے ۔۔۔ قیصر کے محل پر مکڑی نے جالے بن لیے ہیں)

قسطنطنیہ کا قدیم نام بازنطین تھا۔ لیکن جب 330 عیسوی میں رومن شہنشاہ کونسٹینٹائن اول نے اپنا دارالحکومت روم سے یہاں منتقل کیا تو شہر کا نام بدل کر اپنے نام کی مناسبت سے کونسٹینٹینوپل کر دیا، (جو عربوں کے ہاں پہنچ 'قسطنطنیہ' بن گیا)۔ مغرب میں رومن امپائر کے خاتمے کے بعد یہ سلطنت قسطنطنیہ میں برقرار رہی اور چوتھی تا 13ویں صدی تک اس شہر نے ترقی کی وہ منازل طے کیں کہ اس دوران دنیا کا کوئی اور شہر اس کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمان شروع ہی سے اس شہر کو فتح کرنے کے خواب دیکھتے آئے تھے۔

چنانچہ اس مقصد کے حصول کی خاطر چند ابتدائی کوششوں کی ناکامی کے بعد 674 میں ایک زبردست بحری بیڑا تیار کر کے قسطنطنیہ کی سمت روانہ کیا۔ اس بیڑے نے شہر کے باہر ڈیرے ڈال دیے اور اگلے چار سال تک متواتر فصیلیں عبور کرنے کی کوششیں کرتا رہا۔

آخر 678 میں بازنطینی بحری جہاز شہر سے باہر نکلے اور انھوں نے حملہ آور عربوں پر حملہ کر دیا۔ اس بار ان کے پاس ایک زبردست ہتھیار تھا، جسے ’آتشِ یونانی‘ یا گریک فائر کہا جاتا ہے۔ اس کا ٹھیک ٹھیک فارمولا آج تک معلوم نہیں ہو سکا، تاہم یہ ایک ایسا آتش گیر مادہ تھا جسے تیروں کی مدد سے پھینکا جاتا تھا اور یہ کشتیوں اور جہازوں سے چپک جاتا تھا۔ مزید یہ کہ پانی ڈالنے سے اس کی آگ مزید بھڑک جاتی تھی۔

عرب اس آفت کے مقابلے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے تمام بحری بیڑا آتش زار کا منظر پیش کرنے لگا۔ سپاہیوں نے پانی میں کود کر جان بچانے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی پناہ نہیں ملی کیوں کہ آتشِ یونانی پانی کی سطح پر گر کر بھی جلتی رہتی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے پورے بحرِ مرمرہ نے آگ پکڑ لی ہے۔

عربوں کے پاس پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ واپسی میں ایک ہولناک سمندری طوفان نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور سینکڑوں کشتیوں میں سے ایک آدھ ہی بچ کر لوٹنے میں کامیاب ہو سکی۔

اسی محاصرے کے دوران مشہور صحابی ابو ایوب انصاری نے بھی اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ ان کا مقبرہ آج بھی شہر کی فصیل کے باہر ہے۔ سلطان محمد فاتح نے یہاں ایک مسجد بنا دی تھی جسے ترک مقدس مقام مانتے ہیں۔

اس کے بعد 717 میں بنو امیہ کے امیر سلیمان بن عبدالملک نے زیادہ بہتر تیاری کے ساتھ ایک بار پھر قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا، لیکن اس کا بھی انجام اچھا نہیں ہوا، اور دو ہزار کے قریب جنگی کشتیوں میں سے صرف پانچ بچ کر واپس آنے میں کامیاب ہو سکیں۔

شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد چھ صدیوں تک مسلمانوں نے دوبارہ قسطنطنیہ کا رخ نہیں کیا، حتیٰ کہ سلطان محمد فاتح نے بالآخر شہر پر اپنا جھنڈا لہرا کر سارے پرانے بدلے چکا دیے۔

شہر پر قبضہ جمانے کے بعد سلطان نے اپنا دارالحکومت ادرنہ سے قسطنطنیہ منتقل کر دیا اور خود اپنے لیے قیصرِ روم کا لقب منتخب کیا۔ آنے والے عشروں میں اس شہر نے وہ عروج دیکھا جس نے ایک بار پھر ماضی کی عظمت کی یادیں تازہ کر دیں۔

سلیمان عالیشان نے قسطنطنیہ کو نئی بلندیوں سے روشناس کروایا
سلطان نے اپنی سلطنت میں حکم نامہ بھیجا: 'جو کوئی چاہے، وہ آ جائے، اسے شہر میں گھر اور باغ ملیں گے۔' صرف یہی نہیں، اس نے یورپ سے بھی لوگوں کو قسطنطنیہ آنے کی دعوت دی تاکہ شہر پھر سے آباد ہو جائے۔

اس کے علاوہ اس نے شہر کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی ازسرِ نو تعمیر کی، پرانی نہروں کی مرمت کی اور نکاسی کا نظام قائم کیا۔ اس نے بڑے پیمانے پر نئی تعمیرات کا سلسلہ بھی شروع کیا جس کی سب سے بڑی مثال توپ کاپی محل اور گرینڈ بازار ہے۔ جلد ہی طرح طرح کے دست کار، کاریگر، تاجر، خطاط، مصور، سنار، اور دوسرے ہنرمند شہر کا رخ کرنے لگے۔

سلطان فاتح نے ہاجیہ صوفیہ کو چرچ سے مسجد بنا دیا، لیکن انھوں نے شہر کے دوسرے بڑے گرجا ’کلیسائے حواریان‘ کو یونانی آرتھوڈاکس فرقے کے پاس ہی رہنے دیا اور یہ فرقہ ایک ادارے کی صورت میں آج بھی قائم و دائم ہے۔

سلطان فاتح کے بیٹے سلیم کے دور میں عثمانی سلطنت نے خلافت کا درجہ اختیار کر لیا اور قسطنطنیہ اس کا دارالخلافہ، اور تمام سنی مسلمانوں کا مرکزی شہر قرار پایا۔

سلطان فاتح کے پوتے سلیمان عالیشان کے دور میں قسطنطنیہ نے نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ یہ وہی سلیمان ہیں جنھیں مشہور ترکی ڈرامے 'میرا سلطان' میں دکھایا گیا ہے۔ سلیمان عالیشان کی ملکہ خرم سلطان نے مشہور معمار سنان کی خدمات حاصل کیں جس نے ملکہ کے لیے ایک عظیم الشان محل تعمیر کیا۔ سنان کی دوسری مشہور تعمیرات میں سلیمانیہ مسجد، خرم سلطان حمام، خسرو پاشا مسجد، شہزادہ مسجد اور دوسری عمارتیں شامل ہیں۔

یورپ پر سقوطِ قسطنطنیہ کا بڑا گہرا اثر ہوا اور وہاں اس سلسلے میں کتابیں اور نظمیں لکھی گئیں اور متعدد پینٹنگز بنائی گئیں اور یہ واقعہ ان کے اجتماعی شعور کا حصہ بن گیا۔

یہی وجہ ہے کہ یورپ کبھی اسے بھول نہیں سکا۔ نیٹو کا اہم حصہ ہونے کے باوجود یورپی یونین ترکی کو قبول کرنے لیت و لعل سے کام لیتی ہے جس کی وجوہات صدیوں پرانی ہیں۔

یونان میں آج بھی جمعرات کو منحوس دن سمجھا جاتا ہے۔  29 مئی 1453 کو جمعرات ہی کا دن تھا۔

ننگے بدن والا ایک صحابی کا لقب

#_ننگے_بدن_والا 🌋


ایک انسان تھا جسے دنیا "ضرار بن ازور ؓ " کے نام سے جانتی تھی!


۔ ۔ ۔

یہ ایک ایسے انسان تھے کہ اس دور میں دشمن ان کے نام سے کانپ اٹھتے تھے اور انکی راہ میں آنے سے کتراتے تھے۔ جنگ ہوتی تھی تو سارے دشمن اور فوجیں زرہ اور جنگی لباس پہن کر جنگ لڑتے تھے۔

لیکن آفریں حضرت ضرار ؓ پر, زرہ تو درکنار اپنا کرتا بھی اتار دیتے تھے۔


لمبے بال لہراتے چمکتے بدن کے ساتھ جب میدان میں اترتے تھے تو ان کے پیچھے دھول نظر آتی تھی اور انکے آگے لاشیں۔ اتنی پھرتی، تیزی اور بہادری سے لڑتے تھے کہ دشمن کے صفیں چیر کر نکل جاتے تھے۔ ان کی بہادری نے بےشمار مرتبہ حضرت خالد بن ولید ؓ کو تعریف کرنے اور انعام و کرام دینے پر مجبور کیا۔


دشمنوں میں وہ "ننگے بدن والا" کے نام سے مشہور تھے۔


رومیوں کے لاکھوں کی تعداد پر مشتمل لشکر سے جنگِ اجنادین جاری تھی۔ حضرت ضرارؓ حسب معمول میدان میں اترے اور صف آراء دشمن فوج پر طوفان کی طرح ٹوٹ پڑے, اتنی تیزی اور بہادری سے لڑے کہ لڑتے لڑتے دشمن فوج کی صفیں چیرتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر سے بچھڑ کر دشمن فوج کے درمیان تک پہنچ گئے۔ دشمن نے انہیں اپنے درمیاں دیکھا تو ان کو نرغے میں لے کر بڑی مشکل سے قید کر لیا۔

مسلمانوں تک بھی خبر پہنچ گئی کہ حضرت ضرار ؓ کو قید کر لیا گیا ہے۔


حضرت خالد بن ولید ؓ نے اپنی فوج کے بہادر نوجوانوں کا دستہ تیار کیا اور حضرت ضرارؓ کو آزاد کروانے کے لیے ہدایات وغیرہ دینے لگے۔

اتنے میں انہوں نے ایک نقاب پوش سوار کو دیکھا جو گرد اڑاتا دشمن کی فوج پر حملہ آور ہونے جا رہا ہے۔ اس سوار نے اتنی تند خوہی اور غضب ناکی سے حملہ کیا کہ اس کے سامنے سے دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا۔ 

حضرت خالد ؓ اس کے وار دیکھ کر اور شجاعت دیکھ کر عش عش کر اٹھے اور ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ سوار کون ہے؟ لیکن سب نے لاعلمی ظاہر کی کہ وہ نہیں جانتے۔ حضرت خالد ؓ نے جوانوں کو اس سوار کی مدد کرنے کو کہا اور خود بھی مدد کرنے اس سوار کی جانب لپکے۔

 

گھمسان کی جنگ جاری تھی کبھی حضرت خالد بن ولید ؓ اس سوار کو نرغے سے نکلنے میں مدد کرتے اور کبھی وہ سوار حضرت خالد ؓ کی مدد کرتا۔

حضرت خالد ؓ اس سوار کی بہادری سے متاثر ہو کر اس کے پاس گئے اور پوچھا کون ہو تم؟ اس سوار نے بجائے جواب دینے کے اپنا رخ موڑا اور دشمنوں پر جارحانہ حملے اور وار کرنے لگا موقع ملنے پر دوسری بار پھر حضرت خالد ؓ نے پوچھا: اے سوار تو کون ہے؟ اس سوار نے پھر جواب دینے کی بجائے رخ بدل کر دشمن پر حملہ آور ہوا, تیسری بار حضرت خالد ؓ نے اس سوار سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ اے بہادر تو کون ہے؟ 


تو نقاب کے پیچھے سے نسوانی آواز آئی کہ میں ضرار ؓ کی بہن "خولہ بنت ازور ؓ" ہوں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک اپنے بھائی کو آزاد نہیں کروا لیتی۔ حضرت خالد ؓ نے کہا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا تو کہنے لگی آپ نے منع کر دینا تھا۔ حضرت خالد ؓ نے کہا آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی ہم تھے آزاد کروانے کے لیے تو حضرت خولہ ؓ نے جواب دیا کہ جب بھائیوں پر مصیبت آتی ہے تو بہنیں ہی آگے آیا کرتیں ہیں۔


پھر مسلمانوں اور حضرت خولہ ؓ نے مل کر حضرت ضرار ؓ کو آزاد کروا کر ہی دم لیا۔


ایک گزارش ::

اسلام خون اور قربانیوں کے دریا میں تیر کر پہنچا ہے اس کی قدر کریں جذبہ جہاد کو زندہ رکھیں کہ جب تک جہاد تھا مسلمان ہمیشہ غالب رہے جب جہاد چھوٹا تو مسلمانوں پر زوال آیا۔ 

کم از کم اپنے بچوں کے نام ان اسلام کے ہیروز کے نام پر رکھیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ان کا نام کس کے نام پر ہے اور نام کا اثر شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔اور ان کی تربیت ایسے کریں کہ اسلام کا مستقبل روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

  عید میلاد النبی ﷺ – رحمتِ دو جہاں کی آمد کا دن 🌸 عید میلاد النبی ﷺ – رحمتِ دو جہاں کی آمد کا دن 🌸 عید...