گیارہویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی نے ہندوؤں کو شکست دیکر جنجوعہ خاندان کو حکمران بنادیا‘ مغلیہ دور میں نمک کی یہ کانیں شاہی حکومت کی تحویل میں آگئیں‘ شہنشاہ اکبر کے دور میں لکھی جانے والی تاریخ کی اہم کتاب ’’آئین اکبری‘‘ میں یہاں سے حاصل ہونے والے نمک کو بیرون ملک برآمد کرنے کا تذکرہ موجود ہے ۔
پاکستان کے بعد پولینڈ میں نمک کے ذخائر کو دوسرے نمبر پر شمار کیاگیا ہے‘کوہستان نمک جہلم کے قریب سے شروع ہوکر کالاباغ میانوالی اور کوہاٹ تک پھیلا ہوا ہے اور اس وقت کوہستان نمک میں چھ سات مقامات پرسے چھ سات مقامات پرسے نکالا جارہا ہے لیکن ان میں سب سے زیاہ مشہور مقام کھیوڑہ ہے جہاں سے نمک کی سب سے زیادہ مقدار نکالی جارہی ہے‘ پاکستان میں جتنا بھی نمک دیگر کانوں سے نکالا جاتا ہے مجموعی طور پراتنی مقدار میں نمک صرف کھیوڑہ کی کانوں سے نکالا جاتا ہے۔
نمک ہماری روز مرہ خوراک کاایک جزو اور ہماری زندگی کا ایک حصہ ہے کھانے کے ساتھ سالن میں تو نمک کی آمیزش روز ہی ہوتی ہے گو اس کی مقدار کم ہوتی ہے لیکن سالن کا ذائقہ اسی کا مرہون منت ہے۔ نمک کو اردو زبان میں تشبیہات اور محاوروں میں بھی استعمال کیا گیا ہے مثلاً نمکین نقش و نگاروالا چہرہ کسی شخص کی وفاداری مانپنے کیلئے نمک حلال یا نمک حرام کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
غرضیکہ نمک کا ہماری زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہے لیکن روزانہ استعمال کرنے والے بیشتر لوگ اس حقیقت سے شائد بے خبر ہیں کہ پاکستان میں نمک کے ذخائر دنیا کے سب بڑے نمکین ذخائر ہیں اور یہاں پہاڑوں کے اندر نمک کے اتنے بڑے ذخائر موجود ہیں اور ان میں نمک کی اتنی بڑی مقدار موجود ہے کہ تاحال نمک کی مقدار کا اندازہ نہیں کیا جاسکا‘تاہم نمک کی مقدار اور وسیع رقبے پر اس کے پھیلاؤ کو دیکھ کر عالمی سطح پر انہیں دنیا کے سب سے بڑے ذخائر تسلیم کیا گیا ہے اور نمک کے ان پہاڑوں کو کوہستان نمک ’’یا‘‘ سالٹ رینج‘‘ کہا جاتا ہے۔
پاکستان کے بعد پولینڈ میں نمک کے ذخائر کو دوسرے نمبر پر شمار کیاگیا ہے۔کوہستان نمک جہلم کے قریب سے شروع ہوکر کالاباغ میانوالی اور کوہاٹ تک پھیلا ہوا ہے اور اس وقت کوہستان نمک میں چھ سات مقامات پرسے نکالا جارہا ہے لیکن ان میں سب سے زیاہ مشہور مقام کھیوڑہ ہے جہاں سے نمک کی سب سے زیادہ مقدار نکالی جارہی ہے،بلکہ پاکستان میں جتنا بھی نمک دیگر کانوں سے نکالا جاتا ہے مجموعی طور پراتنی مقدار میں نمک صرف کھیوڑہ کی کانوں سے نکالا جاتا ہے……..)
کھیوڑہ پنڈدادنخان کے قریب ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے۔اس کے شمال میں کوہستان نمک کا سلسلہ ہے جبکہ جنوب میں پنجاب کا میدانی علاقہ ہے۔شہر کی بیشتر آبادی زیادہ تر نمک کے کاروبار یا کان کنی سے وابستہ ہے۔اسلام آباد سے کھیوڑہ کا فاصلہ 130کلومیٹر ہے اور اس سفر میں قریباً ساڑھے تین گھنٹے لگتے ہیں۔یہ راستہ مندہ‘کلرکہار‘چکوال اور چوآسیدن شاہ سے ہوتا ہوا کھیوڑہ آتاہے درمیان میں کلر کہار اور چوآسیدن شاہ بہترین تفریحی مقامات ہیں اسی راستے پر کٹاس کا تاریخی شہر بھی موجود ہے جہاں دسویں صدی عیسوی تک ہندوؤں کی حکومت قائم تھی اور اس کی باقیات یعنی موریہ سلطنت کے آثار قدیمہ اور مندر آج بھی یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اگر لاہور کی طرف سے آئیں تو کھاریاں اور رسول سے ہوتے ہوئے کھیوڑہ پہنچ سکتے ہیں اور یہ سفر آپ ٹرین سے بھی کرسکتے ہیں کہ کھیوڑہ کے لئے لاہور سے ٹرین بھی چلتی ہے۔لاہور سے کھیوڑہ کا فاصلہ240کلو میٹر ہے۔پاکستان میں نمک کی سبھی کانوں میں کان کنی کا کام نجی شعبے میں بھی ہورہا ہے اور سرکاری شعبے میں بھی ہوتا ہے تاہم کان کنی کے کاموں کی نگرانی پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کرتی ہے۔
انسان نے سب سے پہلے نمک کیسے دریافت کیا اور کیسے اس کا استعمال سیکھا اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ماہرین ارضیات نے نمک کے متعلق اب تک جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق یہ علاقہ جہاں آج کل نمک کے پہاڑ واقع ہیں۔آج سے کروڑوں سال پہلے سمندر کی تہہ میں ڈوبا ہوا تھا۔سمندر کے اس نمکین پانی کے ذخیرے‘پانی کے رساؤ اور بخارات کے عمل کے نتیجے میں تبدیل ہوجانے کے اس عمل کے نتیجے میں یہ چٹانیں معرض وجود میں آگئیں۔بعد میں سمندر کا وجود تو ختم ہوگیا لیکن نمک کا یہ ذخیرہ پہاڑوں کے اندر اور زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں محفوظ ہوگیا۔
تحقیقات کی رو سے نمک کے یہ پہاڑ ساڑھے تین ارب سے پانچ ارب سال تک پرانے ہیں۔نمک کے ان ذخائر کا تعلق پری کیمبرین دورسے ہے جو زمین کا قدیم ترین دور ہے بہرحال نمک کے استعمال کے بارے میں کئی کہانیاں اور روایتیں مشہور ہیں تاہم ایک روایت جس پر بڑی حد تک اتفاق پایا جاتا ہے یہ ہے کہ سکندر اعظم (322)قبل مسیح میں کوہستان نمک کے مشہور درے نندنہ سے گزر کر یہاں کھیوڑہ پہنچا تھا اور اس نے راجا پورس سے لڑنے کیلئے کھیوڑہ میں ہی پڑاؤ ڈال دیا اور کھیوڑہ کے پہاڑوں میں اپنی فوجیں چھپا دیں جبکہ راجہ پورس کی فوجیں پنڈدادنخان میں مقابلے کی تیاریوں میں مشغول تھیں سکندر اعظم کا گھوڑا اور کچھ دیگر مویشی بیمار پڑ گئے تھے اور انہو ں نے غار کی دیواروں کو چاٹنا شروع کیا تو ان کے معدے ٹھیک ہوگئے تب سکندر اور اس کی فوجوں کو کچھ کرید ہوئی اور انہوں نے بھی دیواروں کو چکھ کر دیکھا تو انکشاف ہوا کہ یہ نمک ہے۔
پنجاب میں سکھ دور حکومت میں حکومت نمک برآمد کرکے کثیر منافع حاصل کرتی رہی۔ کھیوڑہ میں سائنسی بنیادوں پر نمک کی کان کنی کا آغاز انگریزی دور حکومت میں 1849ء میں شروع ہوا 1872ء میں کان کے اندر سے نمک باہر لانے کیلئے کم گیج کی ریلوے لائن بچھائی گئی اور نمک سے بھرے ہوئے ڈبوں کے آگے گھوڑے جتے ہوئے ہوتے تھے 1925ء میں بجلی سے چلنے والے انجن سے نمک کے کنٹینر باہر لائے جانے لگے۔اس طرح نمک کو کان سے باہر لانا قدرے آسان ہوگیا۔
پہلے کھدائی خود ساختہ دستی اوزاروں سے کی جاتی تھی اب بجلی کی مشینوں کے ذریعے کھدائی اور کٹائی کا سلسلہ شروع کیا گیا اس دور میں نمک کی کانوں کا ہیڈ کوارٹر دہلی میں تھا اور وہاں سے انگریز افسر آکر دورے کیا کرتے تھے۔اس کان کے اندر جانے کیلئے ایک مرکزی دروازہ ہے جو پہاڑ کی بلندی کے مقابلے میں بہت چھوٹا لگتا ہے اور اس دروازے کو دیکھ کو قطعاً اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ ایک ایسی وسیع و عریض دنیا کا دروازہ ہے جو مکمل طور پر نمک سے بنی ہے۔
ان کانوں میں کام کرنے والے لوگ نسل در نسل ان کانوں میں کام کرتے چلے آرہے ہیں کان کے اندر مکمل اندھیراہوتا ہے اور بجلی کے بلب یہاں اندر کی دنیا کو منور کرتے ہیں کان کے مرکزی دروازوں کے دونوں طرف سخت پتھر جیسی دیوار ہے یہ دراصل جپسم پتھر ہے جو مرکزی دروازے سے اندر اڑھائی ہزار فٹ تک چلی جاتی ہے جس مقام سے نمک کے ذخائر کا سلسلہ شروع ہوتا ہے وہاں ایک چوک کی مانند کشادہ جگہ ہے جہاں سے مختلف راستے نکلتے ہیں۔اس چوک کے مغربی کنارے پر ایک چھوٹی سی مسجد بنی ہے جس کا فرش اور دیواریں بھی نمک ہی کے بلاکوں سے بنائی گئی ہیں۔
کھیوڑہ سے جو نمک برآمد ہوتا ہے اس کی تمام اقسام کے پتھر جو نمک کی شکل میں ہیں‘ان کو یکساں تراش کر بلاک بنائے گئے ہیں یہ نمک ٹرانسپیرنٹ یعنی شفاف ہے اور خوبصورتی پیدا کرنے کیلئے ان بلاکوں کو اندر سے کھوکھلا کرکے ان کے اندر بلب لگا دئیے گئے ہیں اور جب یہ بلب روشن ہوتے ہیں تو ان شفاف اینٹوں سے ان گنت شیڈوں کے رنگ جھلملانے لگتے ہیں اور رنگوں کی روشنیاں پھوٹ کر عجب بہار دکھائی دیتی ہے۔
یہ مسجد صرف پچیس سال پہلے تعمیر کی گئی ہے۔مسجد سے تھوڑا آگے چل کر ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں ہر وقت پانی رستا رہتا ہے یہ پانی پہاڑوں سے آتا اور مسلسل رستا رہتا ہے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد قطروں کی شکل میں ٹپکنے لگتا ہے اس کے سامنے کا حصہ خشک ہے۔یہ منظر بھی دیکھنے والا ہے اور لگتا ہے جیسے کسی ماہر سنگ تراش نے سنگ مرمر کو قطار در قطار تراش کر موتیوں کے ڈھیر کی شکل دیدی ہو، بعض جگہوں سے ٹپکتا ہوا پانی اسی حالت میں جم جاتا ہے اور چھت سے لڑیوں کی صورت میں لٹکتا ہوا نظر آتا ہے اس جگہ کو ’’اشک نمک‘‘ کہا جاتا ہے
س کان کے اندر مختلف رنگوں اور شیڈوں والا نمک ہے۔کہیں یہ نمک صاف اور شفاف ہے کہیں سفید اور کہیں مٹیالا اور کہیں یہ نمک سرخی مائل ہے تاہم کھانے اور معیار کے لحاظ سے سرخی مائل نمک کو سرفہرست سمجھا جاتا ہے کھیوڑہ کی نمک کی کانوں سے روزانہ قریباً بیس ہزار من نمک نکالا جاتا ہے اور تین شفٹوں میں قریباً اڑھائی ہزار مزدور کام کرتے ہیں لیکن یہ بات قارئین کے لئے شائد حیرت کا باعث ہوگی کہ ان مزدوروں کو یہ نمک استعمال کرنے یا گھر لے جانے کی اجازت نہیں اور انہیں بھی عام لوگوں کی طرح نمک بازار سے ہی خریدنا پڑتا ہے ،یہ قانون دراصل انگریزوں نے بنایا تھا جو آج تک رائج ہے۔
بات نمک کی کانوں کی ہورہی تھی تو کانوں میں ہر وقت کھدائی ہوتی رہتی ہے اور کچھ عرصہ پہلے ان سرنگوں کی پیمائش کی گئی جو نوے میل کے قریب تھی ان کانوں کے اندر کان کے سب سے بڑے کمرے کو اسمبلی ہال کہا جاتا ہے۔اس کی اونچائی 350فٹ ہے اور یہاں سے پانچ سو سے زائد سیڑھیاں چڑھ کر اس کمرے کی چھت پر چڑھ کر کان سے باہر جایا جاسکتا ہے تاہم یہ طویل اور خطرناک زینہ ہے اور سیڑھیوں کو ریلنگ نہ ہونے اور اندھیرا ہونے کے سبب یہ سیڑھیاں چڑھنے والا کسی بھی لمحے گر سکتا ہے
اسمبلی ہال کے ساتھ تھوڑا آگے ایک پتلا سا راستہ ہے جس کے دونوں طرف لکڑی کا حفاظی جنگلہ بنایا گیا ہے اور یہاں بڑے بڑے تالاب ہیں اور ان حصوں میں اندھیرا بھی گہرا ہوتا ہے۔پانی کے یہ تالاب کافی گہرے ہیں تاہم پانی نمکین ہونے کے سبب یہاں کوئی ڈوبتا نہیں اور یہاں چلو بھر پانی لیکر ڈوب مرنے والا محاورہ فیل ہوجاتا ہے تاہم اگر کوئی آدمی گر جائے تو مزدور رسہ پھینک دیتے ہیں جسے ڈوبتا ہوا آدمی جو دراصل تیر رہا ہوتا ہے پکڑ لیتا ہے تو مزدور اسے کھینچ کر باہر نکال لیتے ہیں۔
کھیوڑہ کی کانوں سے حاصل ہونے والا نمک کا ساٹھ فی صد حصہ صنعتی مقاصد میں استعمال کیا جاتا ہے۔بھارت میں کھیوڑہ کے اس نمک کو بڑا متبرک سمجھا جاتا ہے اور کھیوڑہ کے قریب کٹاس کے مندر میں آنے والے زائرین خاص طور پر کھیوڑہ کا نمک تبرک کے طور پر اپنے ساتھ ضرور لے جاتے ہیں۔ان کانوں میں مختلف حصوں کو مختلف نام دئیے گئے ہیں مثلاً شیش محل‘بانوبازار‘بھاٹی گیٹ‘پل صراط وغیرہ اور یہ نام ان حصوں کی کسی نہ کسی خصوصیت کی بناپر دئیے گئے ہیں مثلاً شیش محل اس حصے کو کہا جاتا ہے جہاں نمک کی چھت اور دیوار پر روشنی پڑتی ہے تو نمک کے ننھے ننھے زرات شیشے کی طرح روشنی کو منعکس کردیتے ہیں جبکہ پل صراط کا نام اس جگہ کو دیا گیا ہے جو کان کے دوایسے حصوں کو ملاتا ہے جہاں نیچے گہری جھیل ہے۔
نمک کی کان دیکھنے کیلئے لوگ دور دور سے آتے ہیں منتظمین نے جب دیکھا کہ لوگوں کی تعداد روز بڑھ رہی ہے تو انہوں نے ٹکٹ لگا کر آمدن حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور ٹکٹ حاصل کرکے اب ان سرنگوں کی سیر کرنا ممکن ہے روزانہ قریباً پانچ چھ سو افراد ٹکٹ لیکر ان جگہوں کی سیر کو آتے ہیں اور ان لوگوں میں غیر ملکی بھی شامل ہوتے ہیں۔کان کے اندر مختلف قریبات کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور کبھی گانے کی محفل ہوتی ہے اور کبھی مشاعرہ ہوتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ کھیوڑہ کی نمک کی کانوں میں سیاحوں کیلئے بڑی کشش ہے اور حکومت اسے مزید ترقی دیکر اس علاقے کی سیاحت کو فروغ دے سکتی ہے۔
نمک کیسے نکالا جاتا ہے؟ کان سے نمک نکالنا ایک فن ہے اور پلاننگ نہ کی جائے تو کان بیٹھ سکتی ہے جس سے متعدد جانوں کا نقصان ہوسکتا ہے۔اس سے محفوظ رہنے کیلئے یہ طریقہ اپنایا گیا ہے کہ چالیس پچاس فٹ کے رقبے سے نمک نکال کر قریباً اتنی ہی جگہ خالی رکھی جاتی ہے جو ایک پلر یا ستون کی شکل میں اوپر کے بھاری پہاڑ کو سرکنے اور گرنے سے محفوظ رکھتا ہے اور اس پلر سے نہ صرف چھت بلکہ دیواروں کوبھی سہارا ملارہتا ہے۔ علاوہ ازیں کان میں ہوا کی آمدورفت کیلئے روشندان بھی بنائے جاتے ہیں بعض کانیں اتنی گہری کھودی گئی ہیں کہ زمین سے پانی نکل آیا ہے۔جس کی وجہ سے متعدد جھلیں بن گئی ہیں۔کان کنوں کو زمین کی سطح سے لیکر 275فٹ تک زیر زمین جاکر بھی گہرائی کرنا پڑتی ہے اور آمد و روفت کیلئے نمک کو ہی کاٹ کر سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔
سرنگ میں نمک کیسے توڑتے ہیں؟ نمک کی کانوں میں ہتھوڑے‘کدال یا کلہاڑیوں سے نمک نہیں توڑا جاسکتا کیونکہ نمک انتہائی سخت قسم کا پتھر ہوتا ہے۔اس لئے نمک توڑنے کیلئے بارود کا سہارا لیا جاتا ہے اور چھت کے جس حصے کو توڑنا مقصود ہو اس حصے کو برمے کی شکل کے بنے ایک خاص آلے سے برمے کی شکل کا ہوتا ہے‘کانکن سوراخ کرتے ہیں سوراخ کم از کم چار فٹ گہرائی تک کیا جاتا ہے اورتین چارگھنٹے صرف ہوتے ہیں سوراخ مکمل کرنے کے بعد ماہرین سوراخ میں بارود بھرتے ہیں اور بارود بھرنے کے بعد سیکورٹی کا عملہ مستعد ہوجاتا ہے اور سب لوگوں کو خبردار کرتے ہیں جس سے سبھی کانکن اس جگہ سے دور ہٹ جاتے ہیں تو اس جگہ دھماکا کردیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں نمک کے بڑے بڑے پتھر تودوں کی شکل میں چھت سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرجاتے ہیں جب یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ اب مزید کوئی تودا نہیں گرے گا تو ان ٹکڑوں کو چھکڑوں پر لاد کر مزدور دھکیلتے ہوئے باہر لے آتے ہیں اور ہر چھکڑے میں پندرہ سو کلو نمک ہوتا ہ