آپ نے عثمانی اور دوسرے مسلمان سلطانوں کے بارے میں کافی کچھ پڑھا اور سنا ہے. آج آپ کے سامنے ایک ایسی شخصیت کو بیان کرتا ہوں جس نے منہ زور منگولوں کو لگام دی اور کئی سالوں تک برصغیر /متحدہ ہندوستان کو منگولوں سے محفوط رکھا.
یہ شخصیت ہندوستان کی خلجی سلطنت کے دوسرے فرمانروا سلطان علاؤالدین خلجی شاہ اول ہے.
آپ 1266 میں پیدا ہوئے اور بہادر ذہین کمانڈر تھے. اس وقت اقتدار ان کے چچا جلال الدین خلجی کے ہاتھ میں تھا. جوانی کے دور میں ہی علاؤالدین نے جنگی جوہر دیکھا کر امراء اور سلطان کی توجہ حاصل کر لی. مگر سلطان جلال الدین خلجی کے بے جا نرم دلی اور حد سے ذیادہ شفیق ہونے کی وجہ سے رعایا سر کش ہوگئی اور ہر طرف بغاوتیں پھوٹ پڑیں ان حالات میں علاؤالدین نے اپنے چچا کو قتل کر کے خود اقتدار سنبھالا اور بغاوتوں کو سختی سے کچل دیا. شاہی وقار بحال کیا. ہندوستان میں علاؤالدین خلجی پہلا حکمران تھا جس کے پاس ہندوستان کے ایک ایک ٹکڑے کی معلومات تھی. عوام سے ٹیکس مستعدی سے حاصل کیا جاتا اور ہر چیز کا معقول ریٹ مہیا کیا اور کسی کی جرآت نہ تھی کہ سلطان کے مقرر کردہ ریٹ سے اوپر نیچے کرے.
سلطان نے سلطنت کو چلانے کیلئے ضروری سمجھا کے کچھ قابل بھروسہ اور دیانتداری ساتھی ضروری ہیں. وہ خیال کرتا کے حضور اکرم ص کے بھی 4 قریبی دوست تھے (خلفائے راشدین) اس سے متاثر ہو کر اس نے بھی 4 قابل اور بھروسہ مند ساتھی چنے جن میں درج ذیل شامل تھے.
1) ظفر خان
2) قطب الدین مبارک شاہ
3)نصرت خان
4)ملک کافور
سلطان کے دور حکومت میں ہندوستان پر قبضہ کرنا منگولوں کا خواب ہی رہا. سلطان نے پہلے ہندوستان محفوظ کیا اور پھر آگے بڑھ کر خود منگولوں پر حملے کیے اور وہ منگول جنہوں کے چین سے لے کر اناطولیہ تک ہر سلطنت کو برباد کر دیا وہ مجبور ہوگئے کے سلطان علاؤالدین خلجی سے صلح کی جائے. جب منگول سفیر آئے تو سلطان نے انھیں اپنی فوجی قوت اور درباری جاہ و جلال سے اس قدر متاثر کیا کہ انھوں نے وپس جا کر بتایا کے ہندوستان پر حملہ کرنے کی غلطی کبھی مت کرنا.
کچھ عرصہ پہلے بھارت میں ایک "پدماوتی" فلم رلیز ہوئی جس میں سلطان کو ایک ظالم اور وحشی قسم کا انسان دیکھایا گیا ہے اور مزید علاؤالدین کو ایک ہم جنس پرست انسان دیکھایا جس کے اپنے غلام ملک کافور سے جنسی تعلقات ہوتے ہیں. اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی سروکا نہیں ہے. ملک کافور ایک مضبوط خلجی جرنیل تھا جس نے 1306 میں منگولوں کو شکست دی، 1308 میں دیوگری کی ریاست فتح کی، 1310 میں ورناگل( جہاں سے اسے عالمی شہرت ےیافتہ ہیرا کوہ نور ملا) پر قبضہ کیا اور 1311 میں دوارس مندرا اور پانڈیا ریاست کو خلجی سلطنت میں شامل کیا گیا.
فلم میں مزید دکھایا گیا ہے کے سلطان نے "رانی پدمنی" کو حاصل کرنے کیلئے “چیتوڑ “ پر حملہ کیا. اس کا بھی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں. سلطان نے 1306 میں باقی علاقوں کی طرح چیتوڑ کو بھی فتح کیا اور "رانی پدمنی" کا ایک افسانوی کردار 1540 میں ملک محمد جایاسی نے اپنی ایک نظم میں پیش کیا جب سلطان کو گزرے 200 سال بیت چکے تھے.
اگر تاریخ میں ایسا کوئی واقع ہوتا تو ضیاء الدین برنی ضرور لکھتے جو خلجی سلطنت کے سخت ناقد تھے. مزید امیر خسرو لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے لوگ خلجی سلطنت کے خاتمے کے بعد بھی سلطان علاؤالدین خلجی کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں تھے.
ان کا ایسا کردار کرنے کا مقصد اس سلطان کی شخصیت پر دھبہ لگانا جس نے ہندوستان کے ہر ہندو راجہ کو شکست دی اور واحد حکمران بنا جس نے بیک وقت شمالی اور جنوبی ہندوستان پر حکومت کی جو کسی کو نصیب نہ ہوئی. ان کا ایسا کردار پیش کر کے ایک قوم اپنا غم و غصہ نکالنا چاہتی جس پر ہزار سال مسلمانوں نے حکمرانی کی.
سلطان کا شمار دنیا کے نا قابل شکست حکمرانوں میں ہوتا ہے وہ جہاں بھی گیا فتح کا جھنڈا گاڑ دیا. بلا شبہ وہ اس وقت کے بہترین حکمرانوں میں سے ایک تھا.
#نوٹ: اگلی تحریر میں سلطان علاؤالدین خلجی کے جرنیل "ظفر خان" کے بارے میں بتایا جائے گا. جن کی منگولوں پر اس قدر دہشت تھی کہ اگر ان کے گھوڑے پانی نہ پیتے تو کہتے"کیا تم نے ظفر خان کو دیکھ لیا ہے.. جس وجہ سے پانی نہیں پی رہے"✌️❤️