حســـن بـن صـــبـاح کی مصنـــوعی جنــــت
قسط نمبر.2.
حسن بن صباح خواجہ طوسی نظام الملک کی سفارش سے سلجوقی سلطان ملک شاہ کا معتمد خاص بن جاتا ہے، حسن اور خواجہ طوسی امام موافق کے مدرسے سے فارغ التحصیل ہوکر نکلے تو ان کی ملاقات بیس اکیس سال بعد سلطان ملک شاہ کے محل میں ہوئی تھی، اگر اس بیس اکیس سال کے عرصے کی روئیداد نہ سنائی جائے تو تاریخ کی یہ ہولناک اور شرمناک داستان ادھوری رہ جائے گی، یہی وہ عرصہ ہے جس میں حسن بن صباح حسن بن ابلیس بنا تھا ،اسی عرصے میں اس نے علم نجوم اور علم سحر میں دسترس حاصل کی تھی۔
کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ آپ کو بیس اکیس سال پیچھے لے جائے جب حسن کے باپ علی بن احمد نے اسے امام موافق کے مدرسے میں داخل کرانے سے بہت پہلے ایک اسماعیلی عالم عبدالملک بن عطاش کی شاگردی میں بٹھایا تھا۔
کوئی انسان اپنے آپ ہی گناہ گار نہیں بن سکتا، اور کوئی انسان اپنے آپ ہی زاہد اور متقی نہیں بن سکتا، کچھ حالات اور چند انسان مل کر ایک انسان کو بگاڑتے یا بناتے ہیں۔
حسن بن صباح کا کردار اسی روز ایک خاص سانچے میں ڈالنا شروع ہو گیا تھا جس روز باپ اسے عبدالملک بن عطاش کے پاس لے گیا تھا۔ عبدالملک حسن کے باپ کو اچھی طرح جانتا تھا جس طرح ایک جسم کے دو ہاتھ ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے ہیں، عبدالملک علی ابن احمد کی عیاریوں سے بھی واقف تھا اور وہ علم جوتش اور نجوم کی بھی سوجھ بوجھ رکھتا تھا
اے ابن عطاش !،،،،،حسن کے باپ نے اسے عبدالملک بن عطاش کے سامنے بٹھا کر کہا ۔۔۔یہ میرا ایک ہی بیٹا ہے ،میں نہیں چاہتا کہ میرے مرنے کے بعد یہ گمنام ہو جائے، یہ اس سے زیادہ شہرت حاصل کرے جو میں نے حاصل کی تھی۔
ایک پہلو اپنی زندگی کا یہ بھی سامنے رکھ علی!،،،،،ابن عطاش نے کہا ۔۔۔تو نے شہرت تو اتنی حاصل کی ہے کہ اِس جگہ کے حکم کے ساتھ بھی تیرہ اٹھنا بیٹھنا ہے، لیکن یہ کوئی اچھی شہرت نہیں۔
شہرت تو ہے ابن عطاش!،،،،، علی بن احمد نے کہا۔۔۔ میں کہتا ہوں یہ نام پیدا کرے اچھا یا برا۔
بچے کو اندر لے آ۔
علی بن احمد اپنے بیٹے حسن بن صباح کو اندر لے گیا اور عبدالملک ابن عطاش کے سامنے بٹھا دیا ،عبدالملک نے حسن کے سر سے دستار اتار دی اور اس کے سر پر اس طرح ہاتھ رکھا کہ اس کی انگلیاں حسن کی پیشانی پر تھیں، عبدالملک نے انگلیاں اس کی پیشانی پر آہستہ آہستہ پھیری ، پھر اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر ذرا اوپر کیا اور حسن کی آنکھوں میں بڑی غور سے دیکھا، پھر اس کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں پھیلا کر دیکھیں، ہتھیلیوں کو غور سے دیکھتے دیکھتے عبدالملک نے اپنا چہرہ یوں تیزی سے پیچھے کر لیا جیسے اس بچے کی ہتھیلیوں سے اچانک سانپ نکل آیا ہو۔
عبدالملک بن عطاش نے کاغذ قلم لے کر کاغذ پر قلم سے خانے بنائے، اور ہر خانے میں کچھ لکھا وہ وقفے وقفے سے حسن کے چہرے کو دیکھتا تھا۔
بچے!،،،، ابن عطاش نے حسن سے کہا ۔۔۔تو باہر جا بیٹھ ۔
حسن بن صباح باہر نکل گیا تو ابن عطاش اس کے باپ کی طرف دیکھا اور دیکھتا ہی رہا۔
جو کہنا ہے کہہ دے ابن عطاش!،،،،، علی نے کہا ۔۔۔میں جانتا ہوں کہ جو تو کہے گا وہ تجھے تیرے علم اور ستاروں نے بتایا ہے۔
تیری بیوی کی کوکھ سے ایک نبی پیدا ہوا ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔
نبی !،،،،،علی بن احمد نے حیران سا ہو کے پوچھا؟،،،، نبوت کا سلسلہ تو ختم ہوچکا ہے۔
نبوت کا سلسلہ الله کی طرف سے ختم ہوا ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔۔۔۔ الله کے بندوں کی طرف سے یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا، نہ کبھی ختم ہوگا، اب تک کتنی ہی آدمی نبوت کا دعویٰ کرچکے ہیں، کیا تو نے صاف ابن صیاد مدنی کی نبوت کا قصہ نہیں سنا ،وہ یہودی تھا اس نے حضورﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کا دعوی کردیا تھا، اور نبی اکرمﷺ سے اس کی ملاقاتیں بھی ہوئیں تھیں، حضورﷺ نے ایک بار اس سے پوچھا ،،،کیا تجھ پر وحی نازل ہوتی ہے ؟،،،،
صاف ابن صیاد نے جواب دیا۔۔۔ میرے پاس ایک صادق اور ایک کاذب آتا ہے ۔
صادق اور کاذب کا کیا مطلب؟،،،، علی بن احمد نے پوچھا۔
مطلب سمجھنے کی کوشش کرو علی!،،،، ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ مطلب یہ کہ میرے پاس ایک فرشتہ آتاہے ،اور ایک ابلیس ۔
وہ کہنا یہ چاہتا تھا کہ فرشتہ بھی اور ابلیس بھی اس کے دماغ میں اپنے اپنے اشارے اور اپنے اپنے امور غیب ڈال جاتے ہیں، در اصل بات یہ تھی کہ صاف ابن صیاد علم سحر میں مہارت رکھتا تھا، ساحر ہم بھی ہیں ،اس علم کے اسرارورموز میرے پاس بھی ہیں، لیکن یہ علم یہودیوں کو اتنا مرغوب ہے کہ انہوں نے اسے بہت ہی طاقتور بنا دیا ہے، اور اس میں ابلیسیت بھر دی ہے، ان کے ساحر بالکل صحیح پیشین گوئی کر سکتے ہیں، صاف ابن صیاد بھی پیشن گوئی کرسکتا تھا ،اسے اس نے یوں بیان کیا کہ ایک فرشتہ اس کے پاس آتا ہے جو اسے خدا کا پیغام دیتا ہے، اور ابلیس بھی آتا ہے جو اسے آنے والے حالات بتا جاتا ہے۔
تم میرے بیٹے کی بات کر رہے تھے ۔۔۔ حسن بن صباح کے باپ نے کہا۔۔۔ یہ کس قسم کا نبی بنے گا؟
جیسے کئی اور جھوٹے نبی بنے۔۔۔ابن عطاش نے کہا۔۔۔ تم محمدﷺ کو آخری نبی مانو نہ مانو ،میں اس حدیث کا منکر نہیں ہوسکتا،،،،،،،،،جھوٹے نبی آتے رہیں گے اور تمہارے سامنے ایسی ایسی باتیں کریں گے جو تم نے ہی نہیں تمہارے باپ دادا نے بھی نہ سنی ہو گی، ان سے خبردار رہنا اور اپنے ایمان کو ان سے محفوظ رکھنا، یہ تم میں گمراہی اور فتنہ پھیلائیں گے،،،،،،، طلیحہ اسدی نے نبوت کا دعوی کیا تھا، تم نے مسلمہ بن کذاب کا نام سنا ہوگا ،پھر ایک عورت سجاح بنت حارث نے بھی نبوت کا دعوی کیا تھا،،،،، پھر ہوا کیا؟،،،،، صاف ابن صیاد نے اسلام قبول کر لیا تھا، طلیحہ مسلمان ہو گیا تھا ،اس نے نبی بن کر اتنی شہرت حاصل نہیں کی تھی جتنا مسلمان ہو کر میدان جنگ میں اسے ملی۔
اگر تو آنے والے وقت کے پردے اٹھا سکتا ہے تو بتا۔۔۔ علی بن احمد نے کہا ۔۔میرے بیٹے کا مستقبل کیا ہوگا ؟،،،یہ کس انجام کو پہنچے گا۔
انسان کو اپنی فطرت انجام کو پہنچایا کرتی ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔۔۔انجام اچھا بھی ہوسکتا ہے برا بھی، اس کا انحصار انسان کے اپنے اعمال پر ہے، اگر میں تیرے بیٹے کی آنکھوں میں عکس غلط نہیں دیکھ رہا تو یہ اتنی زیادہ طاقت کا مالک ہوگا کہ یہ جس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے گا وہ اس کے آگے سجدہ ریز ہو جائے گا ،اور یہ جس عورت پر نگاہ ڈالے گا وہ عورت اپنے آپ کو اس کی ملکیت میں دے دی گی ، لیکن یہ طاقت نبیوں والی نہیں ہوگی بلکہ یہ ابلیسی طاقت ہوگی۔
کیا یہ طاقت میرے بیٹے کے حق میں اچھی ہوں گی؟،،،،، علی بن احمد نے پوچھا ۔
کیا تیری فطرت تیرے حق میں اچھی نہیں ؟،،،،،،ابن عطاش نے کہا ۔۔۔حاکمِ وقت تک تیری رسائی ہے، تیرے جاننے والوں میں کون ایسا ہے جس کا دل تجھے پسند کرتا ہے، لیکن کون ہے جو تیرے آگے تعظیم سے جھک نہیں جاتا، کون ہے جو سانپ سے پیار کرتا ہے لیکن ہر کوئی سانپ سے ڈرتا ہے۔
کیا تو اس کا راستہ بدل سکتا ہے؟،،،، علی بن احمد نے پوچھا؟،،،، کیا تو اس کے دل میں خوف خدا پیدا کرسکتا ہے۔
دنیا کا بادشاہ خدا ہے ۔۔۔ابن عطاش نے کہا۔۔۔ سب مانتے ہیں کہ یہ دنیا خدا نے بنائی ہے اور ایک روز خدا اسے تباہ کر دے گا ،اور یہ قیامت ہوگی، لیکن خدا کے بندوں کے دلوں پر ابلیس کی حکمرانی ہے اسے کہتے ہیں ابلیسی قوت۔
میں کہتا ہوں میرا بیٹا نام پیدا کرے۔۔۔ علی بن احمد نے کہا ۔
نام پیدا کرے گا۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔۔نام بھی ایسا پیدا کرے گا کہ رہتی صدیوں تک دنیا اسے یاد کرے گی ،لیکن اس کی تاریخ خون سے لکھی جائے گی، اس پر گناہوں کی سیاہی کے حاشیے ہونگے۔
پارسائی میں کیا رکھا ہے ابن عطاش!،،،،،علی بن احمد نے ایسی مسکراہٹ سے کہا جو مسرت سے خالی تھی ۔۔۔میں بچہ تیری شاگردی میں بیٹھا رہا ہوں ،اسے ایسے راستے پر ڈال کہ تجھ جیسا عالم بن جائے۔
علی بن احمد نے اپنے بیٹے حسن کو عبدالملک بن عطاش کے حوالے کرکے چلا گیا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ عبدالملک علی بن احمد کے گھر گیا، ان دونوں کی ملاقاتیں تو ہوتی ہی رہتی تھیں، لیکن اس رات عبدالملک بن عطاش کسی خاص مقصد سے وہاں گیا تھا۔
ابن احمد !،،،،،ابن عطاش نے کہا۔۔۔ میں نے تیرے بیٹے کو دینی اور معاشرتی علوم میں رواں کرنے کا قصد کیا تھا لیکن لڑکے کو ذہن کسی اور طرف لے جا رہا ہے ،میں تیرے ساتھ یہ بات کرنے آیا ہوں کہ تیرا بیٹا اپنے فرقے کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے، اگر تو اجازت دے دے تو میں اسے اسی راستے پر ڈال دو اور ان علوم اور عملیات کا اسے ماہر بنا دوں جو اس کے لیے ضروری ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ حسن بن صباح کا باپ جیسا خود تھا ویسا ہی اپنے بیٹے کو بنانا چاہتا تھا۔ عبد الملک ابن عطاش اپنے فرقے کا صرف مذہبی پیشوا ہی نہ تھا ، بلکہ وہ اپنے عقیدے کی تبلیغ اور فرقے کی سربلندی کے لئے زمین دوز کارروائیوں میں بھی لگا رہتا تھا، اس کا اپنا ایک بیٹا احمد جوان ہو رہا تھا ،اس بیٹے کا نام محمد بن عبدالملک ہونا چاہیے تھا لیکن اس نے اپنے آپ کو احمد بن عطاش کہلانا زیادہ پسند کیا ،عبدالملک نے اسے اپنے فرقے کی تبلیغ اور دیگر کارروائیوں کے لئے بھیج دیا تھا، اس نے حسن بن صباح کو جو تربیت دینی شروع کی تو اس کے پیش نظر اپنا یہی مقصد تھا، اس نے اس کمسن لڑکے میں بڑے کام کے جوہر دیکھ لیے تھے۔
عبدالملک نے حسن کو علم نجوم اور سحر کے سبق دینے شروع کردیے تھے، اس نے دیکھا کہ یہ لڑکا بڑی تیزی اور پورے انہماک سے یہ علوم سیکھ رہا تھا ،یہ اس کی اضافی تعلیم تھی، اصل تعلیم تو دینی اور معاشرتی علوم کی تھی۔
اس شہر کے حاکم ابومسلم رازی کو پتہ چل گیا کہ علی بن احمد کا بیٹا عبد الملک ابن عطاش کی شاگردی میں بیٹھا ہے، رازی جانتا تھا کہ عبدالملک اسماعیلی ہے، علی بن احمد نے رازی کو حلفیہ طور پر یقین دلا رکھا تھا کہ وہ اہل سنت ہے ،ایک روز ابومسلم رازی نے اس سے پوچھا کہ وہ اہلسنت ہے تو اس نے اپنے بیٹے کو اسماعیلی اتالیق کی شاگردی میں کیوں بٹھایا ہے؟
علی بن احمد نے جواب دیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو نیشاپور امام مؤافق کی شاگردی میں بٹھانا چاہتا تھا، لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں، ابومسلم رازی نے اسے سرکاری خزانے سے اتنی رقم دلوا دی ،اس نے اپنے بیٹے کو نیشاپور امام مؤافق کے پاس بھیج دیا ۔
حسن بن صباح فارغ التحصیل ہو کر اپنے گھر چلا گیا۔
پھر وہ بیس اکیس برس بعد اپنے ہم جماعت اور دوست خواجہ حسن طوسی کے پاس مرو گیا تھا ،اس وقت خواجہ طوسی سلجوقی سلطنت کا وزیراعظم بن کر سلجوقی سلطان سے نظام الملک کا خطاب بھی حاصل کر چکا تھا، حسن نے نظام الملک سے کہا تھا کہ اس نے اپنی عمر کا یہ اتنا لمبا اور اتنا قیمتی عرصہ روزگار کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھاتے گزارا ہے، اور اب اسے پتہ چلا ہے کہ خواجہ طوسی وزیراعظم ہے۔
حسن بن صباح نے جھوٹ بولا تھا، یہی وہ عرصہ تھا جس عرصے میں وہ ایک طاقت اور ایک انتہائی خطرناک انسان بن گیا تھا، وہ آگ میں سے گزر کر کندن بن گیا تھا، اس نے ہزارہا پیروکار ہی نہیں بنا لیے تھے بلکہ ان پر اپنی عقیدت کا پاگل پن طاری کر دیا تھا ،اور اس کے یہ جنونی پیروکار کسی ایک شہر یا قصبے میں نہیں بلکہ بڑے وسیع علاقوں میں جنگلوں میں پھیل گئے تھے ۔
اس نے یہ مقبولیت اور یہ طاقت کس طرح حاصل کی تھی؟
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
نیشا پور سے رے پہنچتے ہی وہ اپنے پہلے اتالیق کے یہاں گیا ،اتالیق عبدالملک ابن عطاش اسے ایسے تپاک سے ملا کہ اسے گلے سے لگایا اور کچھ دیر گلے سے ہی لگائے رکھا۔
مجھے پوری امید تھی کہ تم ایسے ہی خوبصورت جوان نکلو گے۔۔۔ ابن عطاش نے اسے اپنے سامنے بٹھا کر کہا۔۔۔ اور اس کے بازوؤں پر کندھوں کو ہاتھوں سے دباتے ہوئے بولا۔۔۔۔ پٹھوں میں جوانی کی طاقت آ گئی ہے، پھر اس کے سر کے دائیں اور بائیں ہاتھ رکھ کر کہنے لگا۔۔۔ میں کیسے جان سکتا ہوں کہ تیرے دماغ میں ابھی کچھ گیا ہے یا نہیں۔
محترم اتالیق !،،،،،حسن نے کہا ۔۔۔دماغ میں تو بہت کچھ بھر لایا ہوں ، یہ علم ہے ، یوں کہہ لیں کہ علم کے الفاظ ہیں جو دماغ میں ٹھوس لایا ہوں، لیکن ایک تشنگی ہے جو بے قراری بن کر دماغ کو ایک سوچ پر قائم نہیں رہنے دیتی۔
کیا تو علم کی تشنگی محسوس کرتا ہے؟
عمل کی ۔۔۔حسن نے کہا۔۔۔ میں کچھ کرنا چاہتا ہوں، پیٹ بھرنے کے لئے نہیں، میں کیا چاہتا ہوں میں اپنے آپ کو اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا ،آپ کی شاگردی میں بیٹھا تو آپ نے بتایا کہ مذہب اور فرائض کیا ہیں، پھر آپ نے مجھے ستاروں سے روشناس کرایا ،اور مجھ پر سحر کے بھید کھولے، وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا اور اس طرح دائیں بائیں دیکھنے لگا جیسے بے چینی اور اضطراب پر اس کا قابو نہ رہا ہو، کچھ دیر بعد بولا ،،،آپ بتائیں محترم اتالیق!،،،،، میں کیا چاہتا ہوں، میری منزل کیا ہے، کہاں ہے میری منزل۔
تیری منزل تیرے اپنے دماغ میں ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ دماغ کو کھوج۔
یہ کام آپ کریں ۔۔۔حسن نے کہا۔۔۔۔ ہاں دو تین بار خیال آیا جیسے میں فرعون بننا چاہتا ہوں۔
عبدالملک ابن عطاش نے زور دار قہقہہ لگایا، حسن حیرت سے اس کے منہ کو دیکھنے لگا۔ تو نے اپنی منزل کا سراغ پا لیا ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ اب تیری بے قراری کو ختم کرنا میرا کام ہے ،کچھ وقت لگے گا حسن!،،،، محنت مشقت اور ریاض کی ضرورت ہے، وہ میں کراؤں گا ، تیرے اندر ایک ایسی طاقت ہے جو ہر کسی میں نہیں ہوتی ،یہی طاقت ہے جو تجھے بے قرار اور بے چین رکھتی ہے، تو اس کا تابع ہے لیکن تو اس سے نہ آشنا ہے، اگر تو نےاسے نہ ابھارا تو ایک دن تو اپنے ہاتھوں اپنا گلا گھونٹ لے گا، یا تو اپنے ماں باپ کو قتل کردے گا، اور تیری گردن جلاد کے ہاتھوں کٹے گی۔
ہاں اتالیق!،،،،، حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔آپ کے اس انکشاف نے میرے دل میں شمع روشن کر دی ہے، میں کچھ ایسا ہی محسوس کیا کرتا ہوں کہ میں قتل کروں گا یا قتل ہو جاؤں گا ،،،،،،کیا آپ میری رہنمائی کر سکتے ہیں؟
صرف میں ہوں۔۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔۔۔میرے سوا اور کوئی نہیں جو تیری رہنمائی کر سکے، لیکن حسن تجھے اپنے باپ سے اجازت لینی پڑے گی۔
مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں میرے بزرگ اتالیق !،،،،،حسن نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔۔ میں یہ جانتا ہوں کے میں وہ سیلابی دریا ہوں کہ میرے سامنے جو رکاوٹ آئی وہ تنکوں کی طرح بہہ جائے گی،،،،، یہ بھی سوچئے کہ میرا باپ کہاں کا زاہد اور پارسا ہے، اس نے عیاری اور مکاری میں شہرت پائی ہے، میری فطرت اسی کے سانچے میں ڈھلی ہے ،مجھے بھروسہ ہے تو صرف آپ کی ذات پر ہے۔
*=÷=÷=÷=۔=÷=÷=÷=÷*
مورخ لکھتے ہیں کہ عبدالملک ابن عطاش کو حسن بن صباح کے مستقبل کے ساتھ کوئی ایسی دلچسپی نہیں تھی کہ اپنی توجہ اور کاوشیں اسی پر مرکوز کر لیتا، اس کی دلچسپی اپنے فرقے کی تبلیغ اور فروغ کے ساتھ تھی، اسلام نے اولین مسلمانوں کے حسن اخلاق سے مقبولیت حاصل کی تھی ،وہ دور دُور پیچھے رہ گیا تھا، پانچویں صدی گزر رہی تھی فرقہ بندی نے اسلام کی بنیادیں ہلا ڈالی تھیں۔
اسلام اگر کھانے پینے والی کوئی چیز تھا تو اس میں زہریلی ملاوٹی گھولی لیں گئیں، اسلام اگر پیرہن تھا تو اس کا گریبان بھی اس کا دامن بھی تار تار ہوا جا رہا تھا ،اس کی صرف آستینیں محفوظ تھیں اور ان آستینوں میں سانپ پرورش پا رہے تھے۔
عبد الملک ابن عطاش انہیں سانپوں میں سے تھا ،حسن بن صباح کے باپ کی بات تو حاکم شہر ابومسلم رازی کی دوستی قائم رکھنے کی خاطر قسم کھا کر کہتا تھا کہ وہ اہل سنت و جماعت ہے ،لیکن وہ اسماعیلی تھا بلکہ وہ اسماعیلی فرقے کے لیے بھی سراپا توہین تھا، اس کا اگر کوئی مذہب تھا تو وہ فریب کاری تھی، اس کا عقیدہ اگر تھا تو وہاں عیاری تھی۔
تاریخ ایک دلچسپ بات بتاتی ہے حسن بن صباح علی بن احمد کا بیٹا تھا اس لئے اس کا نام حسن بن علی ہونا چاہیے تھا ،لیکن حسن نے حسن بن صباح کہلانا زیادہ پسند کیا ،اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس کے پردادا کا نام صباح تھا، اس کے کردار کے متعلق جو روایت سینہ بسینہ حسن تک پہنچی تھی وہ عیاری اور فریب کاری کی ورادتیں تھیں، اس وقت کے معاشرے میں اس کا کوئی مقام اور کوئی رتبہ نہیں تھا، لیکن بادشاہ اور بڑے بڑے حاکموں تک اس کی رسائی تھی، اور لوگ اس کی فطرت سے آگاہ ہوتے ہوئے اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
حسن بن صباح کو اپنے پر دادا کی یہ فطرت اور اس کی یہ شہرت اتنی اچھی لگی کہ اس نے اپنا نام حسن بن علی کے بجائے حسن بن صباح رکھ لیا، تاریخوں میں اس کا نام حسن بن صباح دمیری لکھا گیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسن بن صباح کس فطرت کا انسان تھا۔
اس نے ایک بار پھر عبدالملک ابن عطاش کی شاگردگی کر لی، لیکن اب یہ شاگردی درپردہ تھی کیونکہ ابن عطاش اسے بڑے ہی پراسرار راستے پر ڈال رہا تھا، ابن عطاش اسے کہا کرتا تھا کہ اس کا کام شہروں اور قصبوں میں نہیں ہو گا بلکہ اس کی زیادہ تر زندگی جنگل و بیابانوں اور غاروں میں گزرے گی۔
اگر حسن بن صباح کے ماں باپ دیکھ لیتے کے عبدالملک ابن عطاش ان کے نوجوان بیٹے کو کس قسم کی تربیت دے رہا ہے تو وہ اسے اس استاد کی شاگردی سے فوراً اٹھا لیتے، ابن عطاش اسے کئی کئی گھنٹے مسلسل ایک ٹانگ پر کھڑا رکھتا تھا ،وہ گرنے لگتا تو اسے ایک دو کوڑے لگا دیتا تھا۔
دو دو تین تین دنوں سے بھوکا رکھتا اور اس کے بعد اسے کھانے کو جو کہ کچھ دانے دیتا تھا ،اپنے آپ کو پوری طرح قابو میں رکھنے کے لئے ابن عطاش نے اسے اس امتحان میں بھی ڈالا کے ایک کمرے میں ایک انتہائی خوبصورت اور نوخیز لڑکی کو برہنہ کرکے اس کے سامنے بٹھا دیا ،اس کے سامنے دیوار پر ایک چھوٹا سا سیاہ دائرہ بنا کر کہا کہ وہ اپنی نظریں اس دائرے پر مرکوز رکھے اور ایک لمحے کے لیے بھی لڑکی کی طرف نہ دیکھے۔
علم سحر کے عامل لکھتے ہیں کہ تربیت کے اس مرحلے سے کامیاب نکلنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے، خصوصا نوجوانی کی عمر میں یہ مرحلہ اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے، حسن بن صباح جیسے کردار کا نوجوان اس مرحلے کو برداشت ہی نہیں کرسکتا ،استاد اس مشق کو اس طرح اور زیادہ مشکل بنا دیا کرتا تھا کہ حسن دیوار کے دائرے پر نظریں مرکوز رکھتا تو لڑکی کبھی اس کا ایک ہاتھ پکڑ لیتی، کبھی اس کے قریب ہو جاتی اور کبھی اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگتی، کمرہ بند ہوتا تھا اور کمرے میں ایک حَسن ہوتا اور یہ حسین لڑکی۔
اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کی یہ مشق حسن سے بار بار کروائی گئی اور حسن سوئی کے اس ناکے میں سے بھی گزر گیا۔ حسن کو معلوم نہیں تھا کہ اس کمرے کے دروازے کے ایک کیواڑ میں چھوٹا سا ایک سوراخ تھا جس میں سے اس کا استاد اسے دیکھتا رہتا تھا۔
تو ساری دنیا کو فتح کرنے کی طاقت اور صلاحیت رکھتا ہے۔۔۔ ایک روز عبدالملک بن عطاش نے اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا۔۔۔ عورت میں اتنی طاقت ہے کہ وہ جابر بادشاہ کو تخت سے اٹھا کر اپنے قدموں میں بٹھا سکتی ہے ،معلوم نہیں امام مؤافق نے تجھے ایسی کوئی کہانی سنائی ہے یا نہیں، جولیس سیزر روم کا بڑا ہی زبردست طاقتور اور جنگجو بادشاہ تھا، اس زمانے میں روم ایک جنگی طاقت تھی جس کے خوف سے دنیا لرزتی تھی، جولیس سیزر نے مصر پر فوج کشی کی، اس وقت قلوپطرہ مصر کی ملکہ تھی، اسے اطلاع ملی کہ روم کی فوج شہر کے باہر پہنچ گئی ہے، قلوپطرہ نے جولیس سیزر کی طرف اپنا ایلچی اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ اس سے ملنا چاہتی ہے۔
جولیس سیزر نے سن رکھا تھا کہ قلوپطرہ کے ہاتھ میں کوئی ایسا جادو ہے جو ہر حملہ آور بادشاہ کو اس کا غلام بنا دیتا ہے، جولیس سیزر کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ قلوپطرہ کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے یا نہیں وہ اپنی پر شباب نسوانیت کا ایسا جادو چلاتی ہے کہ حملہ آور بادشاہ کتنا ہی پتھر دل کیوں نہ ہو اس کے آگے موم ہوجاتا ہے، ان حکایات و روایات کے پیش نظر جولیس سیزر نے قلوپطرہ سے ملنے سے انکار کر دیا، اس نے تہیہ کرلیا تھا کہ ملکہ مصر کو اس وقت دیکھے گا جب رومی فوج شہر میں داخل ہوکر مصری فوج سے ہتھیار ڈلوا چکی ہوگی۔
جولیس سیزر نے شہر کو محاصرے میں لینے کا حکم دے دیا، وہ بادشاہ تھا اس کا خیمہ ایک سفری محل تھا، محاصرہ مکمل ہونے کے ایک دو روز بعد ایک ادھیڑ عمر آدمی جو مصری تھا اپنے کندھے پر ایک قالین اٹھائے جولیس سیزر کے خیمے کے سامنے آ رکا ، قالین گولائی میں رول کیا ہوا تھا جو اس مصری نے کندھے پر اٹھا رکھا تھا، اس نے جولیس سیزر کے محافظوں سے کہا وہ قالین باف ہے اور یہ قالین جو بہت ہی قیمتی اور بہت ہی خوبصورت ہے بادشاہ کو دکھانا چاہتا ہے ہوسکتا ہے بادشاہ کو قالین پسند آجائے اور وہ اسے خرید لے، اس سے غریب آدمی کا بھلا ہو جائے گا۔
رومی محافظ اسے دھکے دے کر پیچھے ہٹانے لگے کہ بادشاہ کے آرام میں مخل نہ ہو۔ مصری قالین باف نے بڑی اونچی آواز میں بولنا شروع کر دیا ،وہ کہہ رہا تھا کہ میں یہ قالین تمہارے بادشاہ کو دے کر ہی جاؤں گا، یہ شور شرابہ خیمے میں جولیس سیزر کے کانوں میں پڑا تو اس نے وہیں سے حکم دیا کہ جو کوئی بھی ہے اسے اندر بھیج دو۔ محافظوں نے اسے خیمے میں بھیج دیا۔
خیمے میں جا کر مصری نے جولیس سیزر سے کہا کہ وہ ایک بار قالین دیکھ لے، یہ قالین روم کے بادشاہ کے لیے ہی موزوں ہے ،جولیس سیزر نے کہا کہ قالین کھول کر دکھاؤ، اس آدمی نے کندھے سے قالین زمین پر رکھا یہ چوڑائی میں رول کیا ہوا تھا جب اسے کھولا تو اس میں سے قلوپطرہ نکلی ،جولیس سیزر کا چہرہ عتاب شاہی سے سرخ ہوگیا، لیکن قلوپطرہ نے جب اپنی پرکشش نسوانیت کا جادو چلایا تو کچھ ہی دیر بعد روم کا اتنا زبردست اور طاقتور بادشاہ جیسے بھول ہی گیا ہو کہ وہ بحیرہ روم کی لہروں کو چیرتا مصر میں کیوں آیا تھا؟،،،،،،،
پھر جانتے ہو حسن کیا ہوا ؟،،،،جولیس سیزر جو حملہ آور تھا ایک شاہی مہمان کی حیثیت سے قلوپطرہ کے ساتھ شہر میں داخل ہوا ،بہت دنوں بعد جولیس سیزر اپنی فوج کو ساتھ لے کر واپس چلا گیا، اس کے جرنیلوں نے روم میں اپنے ساتھی جرنیلوں کو بتایا کہ مصر میں ان کے بادشاہ نے کیا کیا تھا ،ایک روز جولیس سیزر محل میں بیٹھا تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ فلاں جگہ فوراً پہنچے، وہ اٹھ کر چل دیا ،محل کے قریب ہی ایک اور عمارت تھی جس میں اسے جانا تھا ،وہ جونہی اس عمارت میں داخل ہوا دس بارہ آدمیوں نے اسے گھیر لیا اور خنجروں سے اسے بڑی ہی بے دردی سے قتل کردیا ۔
ہاں محترم اتالیق!،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں ،اس سبق کو نہیں بھولوں گا۔
لیکن حسن !،،،،،ابن عطاش نے کہا ۔۔۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ تجھے عورت سے دور رہنا پڑے گا ،عورت انتہائی حسین اور نوجوان لڑکیوں کی صورت میں تیرے ساتھ رہے گی، یہ تیرا ایک ہتھیار ہوگا، لیکن ابھی نہیں ابھی تو میں نے تجھے کہیں اور بھیجنا ہے، اگر تو اس مرحلے سے بھی زندہ و سلامت نکل آیا تو پھر تجھ میں ایسی طاقت آجائے گی کہ آسمان کی طرف دیکھ کر تو جس ستارے کی طرف اشارہ کرے گا وہ تیری جھولی میں آ گرے گا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ابن عطاش نے حسن بن صباح کو تربیت کے اگلے مرحلے میں ڈال دیا ،جس میں اسے قبروں میں مدفون انسانوں کے مختلف ہڈیوں کا استعمال سکھایا جاتا تھا ،ابن عطاش نے اسے پہلی بار آدھی رات کے وقت کہا کہ وہ قبرستان میں جائے اور کوئی ایسی قبر تلاش کرے جو بہت ہی پرانی ہو۔
پرانی قبر کی نشانی کیا ہو گی؟،،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
کوئی ایسی قبر دیکھ جو نیچے کو دھنس گئی ہو ۔۔۔ابن عطاش نے کہا۔۔۔ تجھے کچھ قبر ایسی بھی نظر آ جائیں گی جو پوری طرح نیچے کو دھنسی ہوئی ہوں گی، اور ان میں مُردوں کی ہڈیاں نظر آتی ہونگی، ایسی کسی قبر میں سے ایک کھوپڑی اور کندھے سے کہنی تک دائیں اور بائیں بازو کی دو ہڈیاں بھی لانی ہے۔
حسن بن صباح قبرستان میں چلا گیا ،وہ جنگ و جدل کا زمانہ تھا لڑائیاں ہوتی ہی رہتی تھیں، اس لیے قبرستان بہت ہی وسیع وعریض تھے۔ آدھی رات کے وقت چاند پورا تھا حسن بن صباح قبرستان میں دھنسی ہوئی قبر تلاش کرنے لگا ،استاد نے اسے تلوار ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی تھی۔
قبرستان کو شہر خاموشہ کہا جاتا ہے، لیکن وہاں یہ عالم تھا کہ زندہ انسانوں کا شہر خاموش تھا، اور مرے ہوئے انسانوں کی اس بستی میں کئی ایک آوازیں سنائی دے رہی تھیں، علاقہ سرسبز تھا پیڑ پودے بہت زیادہ تھے ،دو تین الو باری باری بولتے تھے ،جھینگروں اور مینڈکوں کی آوازیں بھی مسلسل آ رہی تھیں، اسے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی اس نے ڈر کے ادھر دیکھا ایک بلی بہت تیز بھاگتی آرہی تھی، دو بھیڑیے اس کے تعاقب میں تھے، وہ اس کے قریب سے گزر گئے اور آگے جا کر غائب ہو گئے۔
وہ اپنا دل مضبوط کر کے چل پڑا ،وہ ہر قبر کو دیکھ رہا تھا اسے دھنسی ہوئی کوئی قبر نظر نہیں آرہی تھی، کچھ دور جا کر اسے ایک گڑھا نظر آیا جو قبر کی طرح لمبوترا تھا، یہ قبر ہی ہو سکتی تھی، اس کے ہر طرف قبریں تھیں یہ قبر اس کے مطلب کی تھی، قبر کے کنارے پہنچ کر اس نے نیچے دیکھا تو پہلے اس نے ایسی آوازیں سنیں جیسے کتے غرّایا کرتے ہیں، پھر یکلخت قبر میں سے دو کتے اچھل کر اوپر آئے، تب اس نے دیکھا کہ یہ بھیڑیے ہیں۔
اس نے فوراً تلوار نکالی اور زور زور سے گھمانے لگا، بھیڑیے سمتیں بدل بدل کر اس پر جھپٹنے کی کوشش کرتے تھے، لیکن اس کی گھومتی ہوئی تلوار بھیڑیوں کو قریب نہیں آنے دے رہی تھی، ایک بار وہ اس دھنسی ہوئی قبر کے کنارے پر اس طرح چلا گیا کہ اس کی پیٹھ قبر کی طرف تھی، بھیڑیوں سے بچنے کے لئے وہ ذرا سا پیچھے ہٹا تو قبر میں جا پڑا اس کی ایک ٹانگ گھٹنے تک مٹی میں دھنس گئی، اسے مری ہوئی ایک بلی نظر آئی جو قبر میں پڑھی تھی، وہ سمجھ گیا کہ یہ وہی بلی ہے جس کے پیچھے بھیڑیے دوڑ رہے تھے ،بلی شاید اس قبر میں گر پڑی یا چھپنے کے لئے اس میں اتر گئی تھی، بھیڑیوں نے اسے وہیں دبوچ لیا، بھیڑیے اس وقت بلی کو کھا رہے تھے جب حسن وہاں پہنچا۔
بھیڑیے یہ سمجھے کہ یہ شخص ان سے ان کا شکار چھیننے آیا ہے، حسن نے فوراً چیری پھاڑی ہوئی بلی کو ٹانگ سے پکڑا اور اٹھا کر باہر پھینک دیا، اگر وہ ایک لمحہ اور بھیڑیوں کا شکار باہر نہ پھینکتا تو وہ اوپر سے اس پر حملہ کر کے اسے چیر پھاڑ دیتے، بھیڑیے اپنا شکار اٹھا کر چلے گئے، لیکن حسن بن صباح پر ایسا خوف طاری ہوگیا کہ وہ اپنے جسم میں لرزاں محسوس کر رہا تھا، اس نے تو یہ بھی سوچ لیا تھا کہ وہاں سے بھاگ آئے لیکن استاد کے ڈر سے اس نے بھاگنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔
اس نے کچھ اس قسم کی کہانیاں سن رکھی تھیں کہ بعض لوگ الله کو اتنا عزیز ہوتے ہیں کہ وہ مر جائیں اور کوئی ان کی قبروں کی توہین کرے تو الله اس پر اسی وقت عذاب نازل کرتا ہے، اس خیال نے اس کے خوف میں اضافہ کردیا، لیکن ابن عطاش نے اسے کہا تھا کہ مطلوبہ ہڈیاں ہر حالت میں لانی ہے اور خوف پر قابو پانا ہے ،حسن نے اپنی دھنسی ہوئی ٹانگ باہر کھینچی، یہ لحد تھی جس میں ہڈیاں ہونی چاہیے تھیں۔
اس نے دیکھا کہ وہاں سے ایک سل نیچے کو گری ہوئی تھی، اس نے ہاتھوں سے مٹی باہر پھینکی پھر سل اٹھا کر الگ رکھ دی، چاندنی میں مردے کی ہڈیاں صاف نظر آرہی تھیں یہ مردے کا اوپر والا حصہ تھا ،اس نے کھوپڑی اٹھائی اور دونوں بازوؤں کی ہڈیاں بھی اٹھا لی، عین وقت اس نے دیکھا کہ چاندنی بجھ گئی ہے اور ایک سایہ اس کے اوپر سے گزر رہا ہے، اس نے گھبرا کر اوپر دیکھا کالی گھٹا آگے کو بڑھ رہی تھی اور رات تاریک ہوتی چلی جا رہی تھی، حسن کھوپڑی اور ہڈیاں اٹھا کر تیزی سے قبر سے نکلا اچانک بجلی بڑی زور سے چمکی، دو تین لمحوں بعد بجلی کی کڑک سنائی دی، جو اتنی خوفناک تھی کہ حسن بن صباح جیسا دلیر نوجوان بھی سُن ہو کے رہ گیا اور اسے اپنے دل کی دھڑکن صاف سنائی دینے لگی۔
اس علاقے میں بارش کا اچانک آ جانا کوئی عجیب چیز نہیں تھی لیکن حسن کے دل پر یہ خوف سوار ہوا کہ یہ کسی برگزیدہ بزرگ کی قبر ہے جس کی توہین پر آسمان اپنی بجلیاں گرانے پر اُتر آیا ہے۔
حسن کو پھر وہی خیال آیا کہ یہ کھوپڑی اور دونوں ہڈیاں لحد میں واپس رکھ دے، لیکن اسے اپنے استاد کی یہ بات بھی یاد آ گئی کہ اگر تو ڈر گیا یا ویسے ہی ناکام لوٹا تو پھر یہ علم سیکھنے کے لیے نہ جانے کتنے سال درکار ہوں گے، اس نے بڑی مشکل سے اپنا حوصلہ مضبوط کیا اور وہاں سے چل پڑا۔
اچانک موسلا دھار بارش شروع ہو گئی، بارش کے قطرے کنکریوں کی طرح جسم کو لگتے تھے، وہ دوڑ پڑا ایک جگہ اس نے سامنے دیکھا تو اسے تین چار قدم دور ایک آدمی کھڑا نظر آیا ،جس کے خدوخال صاف نظر نہیں آتے تھے، وہ دھندلا سا سایہ تھا جو سیدھا کھڑا تھا اس کا قد اتنا لمبا تھا کہ عام انسان سے زیادہ تھا، اس نے دونوں بازو کندھوں کے سیدھ میں دائیں بائیں پھیلا رکھے تھے جیسے حسن کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہو، اس کا سر گول نہیں بلکہ لمبوترا تھا وہ بالکل خاموش تھا۔
حسن رک گیا، دل پر خوف کی گرفت ایسی جیسے ایک مضبوط ہاتھ اس کے دل سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑنے کے لئے شکنجے کی طرح دباتا جا رہا ہو، اس نے فیصلہ کر لیا کہ کھوپڑی اس خوفناک آدمی کے قدموں میں رکھ دے گا ،بجلی بار بار چمکتی اور کڑکتی تھی، اس چمک سے حسن کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی تھیں، بارش بڑی ہی تیز تھی، یوں پتہ چلتا تھا جیسے یہ غیرمعمولی طور پر لمبا تڑنگا انسان اوپر نیچے اور دائیں بائیں حرکت کررہا ہو، پھر ایک بار اسے یوں لگا جیسے یہ آدمی آگے بڑھ رہا ہو۔
اچانک حسن کی مردانگی بیدار ہو گئی یہ شاید موت سے بچنے کی آخری کوشش تھی، اس نے تلوار نکالی اور بڑی ہی تیزی سے آگے بڑھ کر تلوار اس آدمی کے پیٹ میں گھوپی، اسے امید تھی کہ جس طاقت سے اس نے یہ وار کیا ہے تلوار اس پراسرار آدمی کے پیٹ میں سے گزر کر پیٹھ کی طرف سے نکل جائے گی، لیکن تلوار کی نوک بھی پیٹ میں نہ گئی ،حسن نے بجلی کی سی تیزی سے تلوار پیچھے کھینچی اور اس طرح تلوار پہلو کی طرف چلائی جس طرح تلوار کا وار کیا جاتا ہے لیکن اس کے اپنے ہاتھ کو بڑی زور سے جھٹکا لگا اور تلوار پیچھے کو آ گئی ،اس آدمی کے بازو پھیلے رہے حسن اس سے ایک دو قدم ہی دور تھا ،اب جو بجلی چمکی تو حسن نے آگے بڑھ کر اس کو ہاتھ لگایا تب اسے پتہ چلا کہ یہ ایک ٹنڈ منڈ درخت ہے جو خشک ہو چکا ہے اور اس کے ٹوٹے ہوئے دو ٹہن دائیں اور بائیں پھیلے ہوئے ہیں۔
حسن کھوپڑی اور بازوؤں کی ہڈیوں کو مضبوطی سے پکڑے دوڑ پڑا ،قبرستان سے نکلتے نکلتے وہ دو تین بار پھیسل کر گرا ،اور جب قبرستان سے نکل آیا تو ذرا آرام سے چلنے لگا ،عبدالملک ابن عطاش نے اسے کہا تھا کہ وہ گھر میں اس کا منتظر ہو گا خواہ ساری رات گزر جائے۔
حسن اس کے گھر پہنچا تو وہ جاگ رہا تھا حسن کے کپڑوں سے پانی بہ رہا تھا، گھٹنوں تک کیچڑ تھا کچھ تو وہ بارش کی وجہ سے کانپ رہا تھا اور کچھ خوف سے، اس نے کھوپڑی اور ہڈیاں ابن عطاش کے آگے رکھ دی، اس نے اسے شاباش دی پھر اس کے کپڑے تبدیل کرائے اور پوچھا کہ وہ ڈرا تو نہیں۔
میں بتا نہیں سکتا کہ میں کتنا زیادہ ڈر گیا تھا۔۔۔ حسن بن صباح نے جواب دیا چند لمحے سوچ کر کہنے لگا ۔۔۔محترم اتالیق!،،، کیا یہ بھی میری تربیت کے لئے ضروری ہے۔
اتنا ہی ضروری جتنا جسم کیلئے پانی اور ہوا کی ضرورت ہے۔۔۔ اب عطاش نے کہا ۔۔۔اب بتا یہ ہڈیاں قبر سے تو کیسے نکال لایا ؟
حسن نے تفصیل سے سنایا کہ اس پر کیا گزری ہے۔
محترم اتالیق!،،،، حسن نے کہا ۔۔۔میں نے آج رات سچ مان لیا ہے کہ کسی برگزیدہ شخصیت کی قبر اور اس کی ہڈیوں کے ساتھ یہ سلوک کرو جو میں نے کیا ہے تو اسی وقت عذاب نازل ہوتا ہے، اس نے ڈری ہوئی آواز میں پوچھا کیا مجھ پر مزید عتاب نازل ہوگا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
نہیں !،،،،،ابن عطاش نے جواب دیا ۔۔۔جو ہونا تھا ہو چکا ہے، راز کی ایک بات ہے اسے دل اور دماغ میں محفوظ کر لے، تو مردے کی قبر میں اترا، تجھ پر بھیڑیے ٹوٹ پڑے، ہڈیوں کو ہاتھ لگایا تو بجلیاں چمکنے لگیں، کیا اس سے تو یہ نہیں سمجھا کہ مرے ہوئے انسان میں بھی طاقت ہوتی ہے؟،،، کیا تو نے کبھی روح یا بد روح نہیں سنی؟،،، میں نے تجھے کس علم میں ڈال دیا ہے، یہ علم تجھے روحوں اور بدروحوں سے ملاقات کرآئے گا، اور یہ علم تجھے یہ بھی سکھائے گا کہ مرے ہوئے انسانوں میں جو طاقت ہوتی ہے وہ تیرے قابو میں آ جائے اور اسے تو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے، لیکن ابھی نہیں یہ طاقت تجھے کہیں سے حاصل ہوگی اور تو اپنی ہڈیاں تڑوا کر تو یہ طاقت حاصل کرے گا، جہنم کی آگ میں سے گزر کر تو جنت میں داخل ہو گا ،عبد الملک ابن عطاش نے اسے کھوپڑی اور ہڈیوں کے متعلق ایک سبق دیا اور اسے گھر بھیج دیا.
جاری ہے