Type Here to Get Search Results !

حسن صباح کی مصنوعی جنت قسط 4 انتہائی زبردست تحریر

 حســـن بـن صـــبـاح کی مصنوعی جنت


قسط نمبر۔4۔


فرحی نے دیکھا ان سے دس بارہ قدم دور ویسا ہی ایک کالا ناگ پھن پھیلائے ہوئے تھا جیسا حسن نے قبرستان میں دیکھا تھا، یہ گھوڑے کی نفسیات ہے کہ اس کی پیٹھ پر سوار موجود ہو اور وہ اپنے راستے میں سانپ دیکھ لے تو روک کر خوف سے کانپنے لگتا ہے، اگر سوار نہ ہو تو گھوڑا سرپٹ بھاگ اٹھتا ہے۔

ناگ تیزی سے گھوڑے کی طرف آیا، حسن نے دیکھا کہ اس کے پیچھے پیچھے ایسا ہی ایک ناگ اور ہے ،گھوڑوں نے جب ناگوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو فوراً پیچھے بھاگ اٹھے، حسن اور فرحی نے گھوڑوں کو قابو میں رکھنے کی بہت کوشش کی لیکن گھوڑے قابو میں نہیں آ رہے تھے ،حسن کا گھوڑا آگے تھا، اور اپنے آپ ہی دائیں بائیں مڑتا جا رہا تھا۔ حسن بار بار پیچھے دیکھتا تھا کہ فرحی کتنی دور ہے۔

گھوڑے دوڑتے ان بھول بھلیوں میں دائیں بائیں مڑتے رہے اور حسن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا گھوڑا اس جگہ جا نکلا جہاں سے وہ ان بھول بھلیوں میں داخل ہوئے تھے ،وہ میدان تھا چٹانیں پیچھے رہ گئی تھیں۔

حسن نے بڑی مشکل سے گھوڑے کو قابو میں کیا اور اسے روک لیا، اس نے ادھر ادھر دیکھا وہ فرحی کے گھوڑے کو ڈھونڈ رہا تھا اسے فرحی کا گھوڑا تو نظر آگیا لیکن فرحی اس کی پیٹھ پر نہیں تھی، حسن نے اس گھوڑے کی طرف اپنا گھوڑا دوڑا دیا اور اس کی لگام پکڑ لی، اس نے فرحی کو آواز دی بہت پکارا لیکن فرحی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا ،حسن آہستہ آہستہ ان چٹانی بھول بھلیوں کی طرف چل پڑا ،وہ فرحی کو ڈھونڈنے جا رہا تھا۔

حسن بن صباح کے ہوش اڑ گئے تھے، وہ دنیا کو ، اپنے عزائم اور اپنی منزل کو بھول گیا تھا ،وہ ایک بار پھر چٹانوں کی بھول بھلیوں میں داخل ہو گیا اور بڑی ہی بلند آواز سے فرحی کو پکار رہا تھا ،لیکن چٹانوں سے گزرتی ہوئی تیز ہوا کی سرسراہٹ کے سوا اسے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا، یہیں سے وہ باہر نکلا تھا مگر اب وہ وہیں سے اندر گیا تو اسے وہ جگہ ایسی اجنبی محسوس ہوئی جیسے پہلے کبھی دیکھی ہی نہ ہو، ایک چٹان اس کے سامنے تھی اس کے پہلو سے دو راستے جاتے تھے اور ایک راستہ دائیں کو جاتا تھا ،حسن بن صباح کو یاد ہی نہیں رہا تھا کہ وہ ان تینوں میں سے کون سے راستے سے باہر آیا تھا۔

سامنے والی چٹان کا یہ ادھر والا سرا تھا اور اس کی ڈھلان بڑی آسان تھی، حسن بن صباح گھوڑے کو ایڑ لگائی اور چٹان پر چڑھ گیا ،اس نے فرحی کے گھوڑے کی باگ اپنے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ لی تھی اوپر جا کے اس نے ہر طرف نظریں گھمائی دور دور تک اونچی نیچی چٹانوں کی چوٹیوں کے سوا کچھ اور نظر نہ آیا ،کچھ چٹانیں اوپر سے چپٹی تھیں، اور کچھ ایسی بھی تھیں جو چٹانیں لگتی ہی نہیں تھیں، وہ بہت ہی بڑے بڑے بتوں کی مانند تھیں، کوئی بت انسانوں جیسا اور کوئی کسی جانور جیسا تھا، ایک چٹان ایسی تھی جو اوپر چلی گئی تھی اس کی چوٹی پر ایک بہت بڑا گول پتھر یوں رکھا ہوا تھا جیسے کسی عورت نے سر پر گھڑا رکھا ہوا ہو۔

یہ سارا منظر اس دنیا کا خطہ لگتا ہی نہیں تھا، یہ تو خواب کا منظر تھا یہ خطہ تین میل لمبا چوڑا ہو سکتا تھا، اور چار میل بھی۔

 فرحی۔۔۔۔ حسن پھیپھڑوں کا سارا ہی زور لگا کر پکارنے لگا۔۔۔ کہاں ہو فرحی،،،،،فرحی!،،،، کوئی جواب نہیں۔۔۔ خاموشی۔

وہ دوڑتے گھوڑے سے گر کر بیہوش پڑی ہوگی ،اس نے اس طرح اونچی آواز میں کہا جیسے اپنے پاس کھڑے کسی آدمی کو بتا رہا ہو۔

اس کے پاس دو گھوڑوں کے سوا کوئی بھی نہیں تھا، اسے فرحی تک جلدی پہنچنا تھا۔ ہوسکتا تھا وہ گر کر مر گئی ہوئی، یا مر رہی ہو ،اور یہ بھی نا ممکن نہ تھا کہ وہ گری تو اسے ناگ نے ڈس لیا ہو گا ،حسن بن صباح کو اپنے استاد عبدالملک ابن عطاش کا ایک سبق یاد آگیا کہ راستہ یاد نہ رہے، ہمسفر کہیں کھو جائے، یا کوئی چیز گم ہو جائے تو کیا عمل کیا جائے۔

وہ گھوڑے سے اترا اور نیچے دیکھا، چٹان کی ایک سِل سلیٹ کی طرح ہموار تھی، حسن اکڑوں بیٹھ گیا اور چھوٹا سا ایک پتھر اٹھا لیا، ابن عطاش نے اسے مراقبے میں جانے کی بہت مشق کرائی تھی، اس نے آنکھیں بند کیں اور دو تین بار لمبے سانس لیا پھر اس نے آنکھیں کھولیں اور انگلیوں میں پکڑے ہوئے کنکری جیسے پتھر سل پر اوٹ پٹانگ سے خانے بنانے لگا۔

ان خانوں کو اس نے غور سے دیکھا اور کسی خانے میں ایک حرف اور کسی میں ایک ہندسہ لکھا ،اس پر کچھ دیر نظریں جمائے رکھیں اور اٹھ کھڑا ہوا ،گھوڑے پر سوار ہو کر وہ چٹان سے اترا آیا ،اور اس چٹان کے ساتھ ساتھ آگے کو چل پڑا۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی ، یہ راستہ کچھ آگے جا کر ایک طرف مڑ گیا تھوڑا آگے جا کر اس راستے کو ایک گول چٹان نے روک لیا تھا اور وہاں دو راہا بن گیا تھا ،حسن روک گیا اور دونوں راستوں کو دیکھا اس نے گھوڑا روک لیا، آنکھیں بند کرکے اس نے کچھ سوچا دائیں طرف سے ہلکی سی آہٹ یا آواز سنائی دی ،اس نے آنکھیں کھولیں اور ادھر دیکھا کچھ دور ایک نیولہ کھڑا اس کی طرف دیکھ رہا تھا ،حسن نیولے کو دیکھتا رہا، نیولہ ایک طرف دوڑ پڑا ،حسن گھوڑا اس طرف لے گیا اور وہاں تک چلا گیا جہاں نیولہ کھڑا تھا، اس طرف دیکھا جس طرف نیولہ گیا تھا۔

یہ دو چٹانوں کے درمیان بہت ہی تنگ راستہ تھا جو کچھ دور تک چلا گیا تھا، لیکن سیدھا نہیں بلکہ کئی ایک گول گول اور کچھ سختی سے چٹانوں سے گھومتا مڑتا جاتا تھا۔

حسن بن صباح جو فرحی کے لئے پریشان ہو رہا تھا اسے پکارتا بھی رہا تھا، ابھی وہ اطمینان سے چلا جا رہا تھا جیسے اسے فرحی مل گئی ہو ،یا فرحی اس کے دل سے اتر گئی ہو۔ حقیقت یہ تھی کہ اس نے چٹان پر بیٹھ کر سحر (کالے جادو) کا ایک عمل کیا تھا، جس میں اسے واضح اشارہ ملا تھا کہ وہ پہنچ جائے گا، لیکن ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا تھا کہ فرحی جس جگہ ہے وہاں تک راستہ کون سا جاتا ہے، البتہ یہ پتہ چل گیا تھا کہ اسے اشارے ملتے رہیں گے جنہیں سمجھنے کے لیے وہ اپنی عقل استعمال کرے۔

تاریخ کی یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حسن بن صباح نے پراسرار علوم سیکھ لیے تھے۔

 ابن خلدون تاریخ ابن خلدون حصہ پنجم میں لکھتا ہے علم نجوم و سحر میں حسن بن صباح کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ ابن تاثیر اور دیگر مؤرخوں نے بھی لکھا ہے کہ حسن بن صباح انتہا درجے کا عیار اور مکار تو تھا ہی اس نے علم سحر میں بھی خصوصی مہارت حاصل کر لی تھی۔

اس نے ان پراسرار علوم میں اس سفر کے بعد مہارت حاصل کی تھی، اس سفر کے دوران اس کے پاس سحر کی اتنی ہی طاقت تھی جو اسے اپنے اتالیق ابن عطاش سے حاصل ہوئی تھی، وہ ان علوم کی تکمیل کے لیے ہی جا رہا تھا۔

وہ جا تو رہا تھا لیکن ایسے چٹانی خطے میں پھنس کے رہ گیا تھا جسے وہ کبھی کبھی خواب سمجھتا تھا، اس میں بھی شاید کوئی راز تھا کہ اسے بڑے دشوار گزار راستے پر ڈالا گیا تھا ،اسے اس راستے کا اشارہ خواب میں ملا تھا۔

حسن بن صباح ایک تنگ راستے پر عجیب و غریب سی شکلوں کی چٹانوں کی دنیا میں جارہا تھا کہ پھر ایک مقام آ گیا جو دو راھا تھا ،حسن نے رک کر دونوں راستوں کو دیکھا دونوں راستے تھوڑی تھوڑی دور جا کر مڑ جاتے تھے، حسن کبھی ادھر کبھی ادھر دیکھتا تھا اسے پوری امید تھی کہ غیب سے اسے کوئی اشارہ ملے گا لیکن کچھ بھی نہ ہوا سوائے اس کے کہ وہ جس گھوڑے پر سوار تھا وہ آہستہ سے ہنہنایا اور کھر مارنے لگا، دوسرے گھوڑے نے بھی یہی حرکت کی، اس انداز سے گھوڑے کا ہنہنانا اور گھوڑے کا کھر مارنا اس کی بے چینی کا اظہار ہوتا ہے۔

حسن نے قدرے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا کہ گھوڑوں نے پھر سانپ دیکھ لیا ہے لیکن اسے خیال آگیا کہ گھوڑا ڈر کا اظہار کسی اور انداز سے کرتا ہے ۔

وہ گھوڑوں کا زمانہ تھا لوگ گھوڑوں کی نفسیات سمجھتے تھے۔

 حسن سمجھ گیا کہ گھوڑے بھوکے ہیں شاید پیاسے بھی ہوں۔

گھوڑا اپنے آپ ہی ایک راستے پر چل پڑا، حسن نے لگام کھینچ لیں لیکن گھوڑا رکنے کی بجائے اور تیز ہوگیا، اس کی زین کے ساتھ بندھا ہوا گھوڑا اس سے آگے نکلنے کی کوشش کررہا تھا، حسن نے کچھ سوچ کر گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی، یہ اشاروں پر چلنے والا گھوڑا تھا اور حسن کو اس گھوڑے پر اعتماد تھا، گھوڑا سر نیچے کر کے دوڑ پڑا ،وہ سر کسی اور ہی طرح دائیں بائیں جھٹک رہا تھا۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

گھوڑا اگلا موڑ سوار کے اشارے کے بغیر ہی مڑ گیا ،حسن دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آگے چٹانوں میں گھری ہوئی کشادہ جگہ تھی جہاں ہری بھری گھاس تھی اور سر سبز درخت تھے یہ جگہ صحرا میں نخلستان جیسی تھی۔

گھوڑا اور تیز دوڑ اور وہاں تک پہنچ گیا، وہاں سبزے میں گھرا ہوا ایک چشمہ تھا، پانچ سات گز لمبائی چوڑائی میں بارش سے بھرے ہوئے آسمان جیسے شفاف اور نیلا پانی جمع تھا، شفاف بھی اتنا کہ اس کی تہہ میں کنکریاں بھی صاف دکھائی دے رہی تھیں، یہ پتہ نہیں چلتا تھا کے فالتو پانی کہاں غائب ہو رہا تھا۔

گھوڑا بے صبری سے پانی پینے لگا، حسن نے اتر کر دوسرے گھوڑے کی باگ اپنے گھوڑے کی زین سے کھول لی اس نے بھی بے تابی سے چشمے سے منہ لگا لیا، تب حسن کو خیال آیا کہ گھوڑے پیاسے تھے۔

جانور خصوصا گھوڑے اور خچر پانی کی مشک دور سے پا لیتے ہیں، گھوڑا بے لگام اور منہ زور ہو کر پانی تک پہنچ جاتا ہے، حسن                       بن صباح نے گھوڑوں کو پانی پیتے دیکھا تو اسے بھی پیاس محسوس ہونے لگی، چشمے کے کنارے گھٹنے ٹیک کر وہ پانی پر جھکا اور چلو بھر بھر کر پانی پینے لگا ،اس کا سر جھکا ہوا اور نظری پانی پر لگی ہوئی تھیں، اس کے ہاتھ رک گئے اور اس نے ذہن پر زور دیا۔

اسے اپنا خواب یاد آ گیا جس میں اس نے اس سفر کا راستہ دیکھا تھا، اسے یاد آیا کہ خواب میں اس نے چشمہ دیکھا تھا ،اسے یہ بھی یاد آیا کہ اس چشمے سے روشنی سی پھوٹی تھی، ذہن پر زور دینے کے باوجود اسے اس سے آگے یاد نہ آیا ،لیکن اسے اطمینان ہوگیا کہ وہ غلط راستے پر نہیں جا رہا۔

وہ ایک بار پھر چلو بھرنے کے لیے پانی میں ہاتھ ڈالنے لگا تو اس کے ہاتھ ایک بار پھر رک گئے اور نظر پانی پر جم گئیں، پانی کے سامنے والے کنارے کے نیچے پانی میں ایک آدمی کا عکس جھلملا رہا تھا، پانی ساکن نہیں تھا چھوٹی چھوٹی لہریں اس کنارے سے اس کنارے تک جا رہی تھیں اس آدمی کا عکس ان لہروں پر تیر رہا تھا۔

حسن سُن ہو کے رہ گیا، وہ بزدل نوجوان نہیں تھا اس کے پاس تلوار تھی اور ایک خنجر بھی تھا ،لیکن اسے اپنی ذات سے یہ اشارہ مل رہا تھا کہ یہ آدمی کوئی مسافر نہیں جو پیاس بجھانے صحرا کے اس چشمے پر آ گیا ہو، 

حسن نے آہستہ آہستہ سر اٹھایا اس سے بیس بائیس قدم دور ایک ٹیکری پر ایک لمبا تڑنگا آدمی کھڑا تھا، لباس سے وہ اسی خطے کا آدمی معلوم ہوتا تھا ،اس کے سر پر اس خطے کی مخصوص بگڑی تھی اور پگڑی پر اتنا بڑا سیاہ رومال پڑا ہوا تھا جس نے اس کے کندھوں اور پیٹھ کے کچھ حصے کو بھی ڈھانپ رکھا تھا، سلیقے سے تراشی ہوئی اس کی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی۔

حسن نظریں اس پر جمائے ہوئے آہستہ آہستہ اٹھا اس آدمی نے اسی طرح اس پر نظریں جما رکھی تھیں، اس کے جسم پر ذرا سی بھی حرکت نہیں تھی، یہ شک غلط معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ بت ہے۔

*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

آخر اس آدمی میں حرکت ہوئی وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا۔

اس کے عقب میں منظر یہ تھا کہ ایک چٹان دائیں سے بائیں گئی ہوئی تھی ،قدرت نے درمیان سے اس طرح کاٹ دیا تھا کہ ایک گلی بن گئی تھی جس میں سے ایک گھوڑا آسانی سے گزر سکتا تھا ،گلی کی طرف چٹان کے دونوں حصے دیواروں کی طرح عمودی تھے۔

وہ آدمی الٹے قدم چلتا اس گلی میں داخل ہوگیا، حسن بن صباح نے فرحی کے گھوڑے کی باگ اپنے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھی اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور گلی میں داخل ہوگیا وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس پر کچھ اثر ہو گیا ہے اور وہ اب اس اثر کے قبضے میں ہے۔

وہ آدمی اس قدرتی گلی کے اگلے سرے پر کھڑا تھا اس کے پیچھے ایک اور چٹان تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہاں یہ گلی بند ہو گئی ہو ،اس آدمی نے اپنا بایاں بازو بائیں طرف لمبا کیا اور اس طرف غائب ہو گیا۔

حسن وہاں تک جا کر اسی طرف مڑ گیا جس طرف اس آدمی نے اشارہ کیا تھا، وہ آدمی آگے جا کر ایک اور موڑ مڑ رہا تھا، حسن اسی طرح اس کے پیچھے جاتا رہا جیسے اس کا پالتو جانور ہو یا جیسے اس شخص نے اس پر قبضہ کر لیا ہو۔

وہ جگہ کشادہ تھی، بے آب و گیاہ چٹانوں کی بجائے وہاں ہری بھری ٹیکریاں تھیں، یہ ہریالی اس چشمے کی بدولت تھی جو قریب ہی تھا، 

حسن آگے جا کر ایک سرسبز ٹیکری سے مڑا تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا ،یہ منظر اس کے لیے غیر متوقع تھا اس کے سامنے ایک اونچی ٹیکری تھی جو دائیں بائیں گئی ہوئی تھی، یہ سر سبز گھاس اور پھول دار جنگلی پودوں سے ڈھکی ہوئی تھی ،یوں لگتا تھا جیسے یہ انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی ہو ،لیکن اس کی چھت اور دیواریں بتا رہی تھیں کہ یہ قدرت کی تعمیر ہے اس کے اوپر سے خودرو بیلیں لٹک رہی تھیں۔

وہ آدمی جس کی رہنمائی میں حسن وہاں پہنچا تھا اس گُف کے باہر کھڑا تھا۔

حسن وہاں گیا تو اسے اندر کا منظر نظر آیا، کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی خاصی لمبی چوڑی چٹائی بچھی ہوئی تھی، سامنے ایک آدمی گاؤ تکیہ سے لگا بیٹھا تھا ،اس کی داڑھی لمبی اور خشخشی تھی، اس کے سر پر خرگوش کی کھال کی ٹوپی تھی اور ٹوپی پر کالے رنگ کا رومال تھا جو اس کے کندھوں سے بھی نیچے آیا ہوا تھا، اس نے سبز رنگ کا چغہ پہن رکھا تھا، اس کی وجاہت سے پتہ چلتا تھا کہ وہ مذہبی پیشوا ہے، یہ بتانا مشکل تھا کہ وہ کس فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔

تین آدمی اس کے ایک طرف اور تین دوسری طرف آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، ان سب کے سروں پر ایک مخصوص انداز کی پگڑیاں تھیں اور ان پر سیاہ رنگ کے رومال تھے جو ان کے کندھوں سے نیچے تک آئے ہوئے تھے، 

اس بزرگ نے جس کے چہرے پر جلال تھا اس آدمی کو ہاتھ سے اشارہ کیا جس کی رہنمائی میں حسن وہاں پہنچا تھا ،وہ آدمی اندر چلا گیا اس کشادہ گف میں ایک جوڑا ٹیلا سا تھا وہ آدمی اس کے پیچھے چلا گیا، وہاں سے باہر آیا تو اس کے ساتھ فرحی تھی، جو ذرا لنگڑا کر چل رہی تھی، فرحی کو دیکھ کر حسن بن صباح کو یقین و اطمینان ہوا ہوگا کہ وہ زندہ ہے ،لیکن یہ سوال اسے پریشان کر رہا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور فرحی ان کے پاس کیسے آ گئی ہے؟ 

یہ لوگ ڈاکو اور رہزن تو نہیں لگتے تھے، لیکن ڈاکو اور رہزنوں کے سروں پر سینگ تو نہیں ہوتے ،بزرگ کے اشارے پر فرحی کو اس کے سامنے بٹھا دیا گیا، سورج اپنا روز کا سفر پورا کرکے افق کے پیچھے جا سویا تھا  شام تاریک ہوگئی تھی، گُف میں مشعلیں رکھ دی گئی تھیں، عجیب عجیب سے سائے گُف کی دیواروں پر ناچ رہے تھے۔

*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*

اس بزرگ کو درویش کہے تو زیادہ موزوں ہوگا۔

 اے نوجوان !،،،،درویش نے حسن بن صباح سے کہا ۔۔۔کیا گھوڑے سے اتر کر ہمارے درمیان بیٹھنا تجھے گوارا نہیں؟ ہم سب تیرے انتظار میں بیٹھے ہیں۔

 میں ابھی چہرے پڑھنے کے قابل نہیں ہوا۔۔۔۔ حسن نے کہا ۔۔۔میں دل کی نیت کو آنکھوں کے آئینے میں نہیں دیکھ سکتا، اگر آپ کے دل میں بھی وہی جلال ہے جو آپ کے چہرے پر دیکھ رہا ہوں تو آپ میرے اس سوال کا جواب ضرور دیں گے کہ میری یہ ہمسفر آپ تک کس طرح پہنچی؟ 

گھوڑے سے اتر اے نوجوان!،،،، درویش نے کہا ۔۔۔تجھے ہر سوال کا جواب ملے گا اور تو ہمارے سوالوں کے بھی جواب دے گا، یہ لڑکی تیری ہم سفر ہے،ہماری نہیں، اس کے ساتھ بیٹھ اور اس کے ساتھ روانہ ہو۔

 حسن گھوڑے سے اترا اور جوتے اتار کر چٹائی پر گیا ،درویش نے اپنا دایاں ہاتھ حسن کی طرف بڑھایا تو حسن نے دونوں ہاتھوں سے اس کے ساتھ مصافحہ کیا، اشارے پر وہ فرحی کے پاس بیٹھ گیا۔

فرحی نے اس کی طرف اور اس نے فرحی کی طرف دیکھا، فرحی کے چہرے پر خوف کی ذرا سی بھی جھلک نہیں ملتی تھی، وہ گھبرائی ہوئی بھی نہیں لگتی تھی، اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی ،حسن کے چہرے پر تذبذب کا جو تاثر تھا وہ اڑ گیا اور اس کے چہرے پر رونق آگئی۔

تمہارا نام ؟،،،،،درویش نے پوچھا۔

 حسن بن صباح۔

 تیرے اس کٹھن سفر کی منزل کیا ہے؟،،،،،، درویش نے پوچھا ۔۔۔کہاں ہے منزل تیری؟ 

خوابوں کے سفر کی منزل بیان نہیں کی جاسکتی۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ خوابوں کے سفر کی منزل ہوتی ہی نہیں۔

 اے نوجوان !،،،،،،درویش نے کہا۔۔۔ کیا تو نیند میں خواب دیکھا کرتا ہے، یا بیداری میں؟ نیند میں خواب جو دیکھا کرتا ہوں انہیں بیداری میں حقیقت بنانے کی کوشش کیا کرتا ہوں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔

 تو شاید نہیں جانتا اے نوجوان!،،،،، درویش نے کہا ۔۔۔نیند کے خواب خواہشوں اور آرزوؤں کے چلتے پھرتے عکس ہوتے ہیں، آنکھ کھلتے ہی بلبلوں کی طرح پھٹ جاتے ہیں،،،،،،،، اور بیداری کے خواب فرار کا ایک سفر ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔

اے درویش !،،،،،حسن نے کہا ۔۔۔میں خواہشوں اور آرزوؤں کا پجاری نہیں، نہ میں نے کبھی اپنی روح کو خواہشوں اور آرزوؤں کی غذا دی ہے ۔

پھر تو روح کو کیا غذا دیا کرتا ہے ؟

عزم !،،،،،،حسن نے جواب دیا ۔۔۔میں اپنی ہر آرزو کو عزم کے سانچے میں ڈھال لیا کرتا ہوں۔

 اپنے سفر کی بھی کچھ بات کر اے نوجوان!،،،،، درویش نے کہا۔

 یہ بھی ایک خواب ہے۔۔۔ حسن نے کہا ۔۔۔خواب میں جو دیکھا تھا وہ میرے سامنے آتا جا رہا ہے ۔

ہمیں بھی دیکھا تھا کیا؟،،،، درویش نے پوچھا۔۔۔ ہم بھی تو تیرے سامنے آئے ہیں۔ دیکھا تھا اے درویش !،،،،حسن نے جواب دیا۔۔۔ شفاف پانی کا ایک چشمہ دیکھا تھا اس میں سے ایک عکس نکلا جس نے انسان کا روپ دھار لیا ،اس نے خاموشی کی زبان میں میری رہنمائی کی، میں نے سات غزال دیکھے جو ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ۔

کہاں ہیں وہ غزال ؟

میرے سامنے بیٹھے ہیں۔۔۔ حسن نے جواب دیا۔۔۔ ساتواں کھڑا ہے ۔

اس سے تو کیا سمجھا؟ 

یہ کہ میں سیدھے راستے پر جا رہا ہوں ۔۔۔حسن نے جواب دیا ۔

حسن بن صباح نے دیکھا کہ صرف یہ درویش بولتا ہے اور باقی سب بالکل چپ بیٹھے ہیں، درویش کے ہونٹوں پر تبسم ہے اور باقی سب کے چہرے بے تاثر ہیں، درویش بولتا ہے تو سب اس کی طرف دیکھتے ہیں، اور حسن بولتا ہے تو سب اس کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔

 قابل احترام درویش !،،،،حسن نے پوچھا کیا میں اس لڑکی کو اپنے ساتھ لے جا سکتا ہوں؟ ہمارا اس لڑکی پر کوئی حق نہیں اے نوجوان!،،،،، درویش نے کہا۔۔۔ اس لڑکی کا ہم پر کچھ حق تھا جو ہم نے ادا کر دیا ہے۔

حسن کے چہرے پر حیرت کا تاثر آگیا ،وہ کبھی درویش اور کبھی فرحی کو دیکھتا تھا۔

ہم نے یہ پھول ان پتھروں سے اٹھایا ہے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔یہ تیری ہمسفر ہے اسے تیرے ساتھ ہی جانا ہے، لیکن ہم یہ ضرور دیکھنا چاہیں گے کہ تو اس لڑکی کے قابل ہے یا نہیں، حیران مت ہو لڑکے!،،، غصے کو بھی اپنے قابو میں رکھ ہم تجھے راز کی یہ بات بتاتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں تو کہاں جا رہا ہے، اتنے طویل اور کٹھن سفر میں اتنا حسین ہمسفر مل جائے تو مسافت آسان ہوجاتی ہے اور فاصلے سمٹ آتے ہیں، لیکن راہ حیات کے جو مسافر عورت کو صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ یہ ایک خوبصورت جسم ہے ان کی آسان مسافتیں بھی کٹھن ہو جایا کرتی ہیں، ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ تو عورت کو کیا سمجھتا ہے۔

 اس لڑکی کا آپ پر کیا حق تھا؟،،،،،،،،،حسن بن صباح نے پوچھا۔

تو ہی اسے بتا دے اے لڑکی!،،،، درویش نے فرحی سے کہا۔

 ہمارے گھوڑے ناگوں سے ڈر کر بھاگ اٹھے تھے ناں۔۔۔ فرحی نے حسن سے کہا ۔۔۔میرا گھوڑا بے قابو ہو کر ایک اور ہی طرف نکل گیا، میں سنبھل نہ سکی اور گرپڑی، گرنے تک یاد ہے ہوش میں آئی تو یہاں آ پڑی تھی، انہوں نے میری دیکھ بھال ایسی کی کہ خوف سے نجات مل گئی، صرف تمہارا غم تھا انہوں نے کہا تم آ جاؤ گے اور تم آگئے۔

 کیا تم نے انہیں بتایا ہے ہم کہاں جا رہے ہیں؟،،،، حسن نے فرحی سے پوچھا؟ 

نہیں !،،،،،،فرحی نے جواب دیا۔۔۔ یہ پوچھتے رہے، میں کہتی رہی کہ میرا ہمسفر بتانا چاہے گا تو بتادے میں نہیں بتاؤں گی، پھر انہوں نے کہا کہ یہ کہہ دو مجھے معلوم نہیں ،میں نے کہا مجھے معلوم ہے بتاؤں گی نہیں، انہوں نے کہا ہم تمہیں بے آبرو کر کے مار ڈالیں گے، میں نے کہا تب بھی نہیں بتاؤں گی، انھوں نے کہا ہم تمہاری آبرو کے محافظ ہیں تمہیں گھر چھوڑ آئیں گے، میں نے کہا پھر بھی نہیں بتاؤں گی ۔ اس بزرگ نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا "آفرین" ہم تمہاری پوجا کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تیرے ہمسفر کو یہاں لانے کے لیے آدمی چلا گیا ہے۔

 سن لیا اے نوجوان ؟،،،،،،درویش نے حسن سے پوچھا ۔۔۔اب ہم نے دیکھنا ہے کہ تو اس لڑکی کے جسم کو چاہتا ہے یا روح کو، درویش نے اس آدمی کو جو حسن کو یہاں لایا تھا اشارہ کیا وہ آدمی گف کے اندر ہی کہیں غائب ہو گیا۔

*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

وہ مشعلوں کی روشنی میں سامنے آیا تو اس کے ہاتھوں میں تین گڑیا تھی، یہ مٹی کے بنے ہوئے تین عورتوں کے بت تھے، خوبصورتی سے بنائے گئے تھے ہر بت تقریبا ڈیڑھ فٹ اونچا اور ہر بت برہنہ تھا ۔

تینوں بت اور گولی اس کے آگے رکھ دو۔۔۔۔درویش نے کہا۔

اس کے حکم کی تعمیل ہوئی۔

 کوئی ایک گڑیا اٹھا۔۔۔ درویش نے حسن سے کہا ۔۔۔اور اس کے دائیں کان میں گولی ڈال۔

یہ گولی بت کے منہ سے نکل کر زمین پر گر پڑی۔

اب دوسری گڑیا اٹھا لے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔ اور گولی اس کے کان میں ڈال۔

 حسن بن صباح نے بت اٹھایا اور گولی بھی اٹھائی، یہ گولی ایک گول کنکری تھی، یہ کانچ کی ان گولیوں جتنی تھی جن سے آج کل بچے کھیلا کرتے ہیں ،حسن نے پتھر کی یہ گولی بت کے کان میں ڈال دی، کان میں ایک سوراخ تھا گولی اس کان میں گئی اور دوسرے کان سے باہر آ گئی۔

اب ایک اور گڑیا اٹھا ۔۔۔درویش نے کہا۔۔۔ اور یہ گولی اس کے دائیں کان میں ڈال۔

حسن نے دوسرا بت الگ رکھ کر تیسرا بت اٹھایا ،گولی اٹھا کر اس کے کان میں ڈالی یہ گولی اندر ہی کہیں غائب ہو گئی۔

زور زور سے ہلا اسے،،،،، درویش نے کہا۔۔۔ گولی کو باہر آنا چاہیے۔

 حسن نے بت کو بہت ہلایا، جھنجھوڑا، الٹا کیا، دائیں اور بائیں پہلو پر کرکے ہلایا ،مگر گولی باہرنہ آئی ۔

یہ گڑیا بیکار ہے۔۔۔ درویش نے کہا ۔۔۔اسے الگ رکھ دے ،اس بدبخت نے ہماری گولی ہضم کر لی ہے ۔

حسن نے یہ بت رکھ دیا۔

کیا یہ بت خوبصورت نہیں؟،،،، درویش نے پوچھا ۔۔۔کیا یہ تجھے اچھے نہیں لگتے؟ 

خوبصورت ہیں ۔۔۔حسن نے جواب دیا۔۔۔ دل کو اچھے لگتے ہیں، بنانے والے نے عورت کی رعنائیاں ان بتوں میں سمو دی ہیں، ان میں صرف جان ڈالنی باقی رہ گئی ھے۔

 ہم تجھے انعام دینا چاہتے ہیں۔۔۔ درویش نے کہا ۔۔۔کوئی ایک گڑیا اٹھا لے،،،،،، تینوں ایک جیسی ہیں۔

حسن بن صباح نے سب سے آخری والا بت اٹھا لیا ،جس کے کان میں گولی ڈالی تو کسی طرف سے گولی باہر نہیں آئی تھی، درویش نے اسے بیکار کہہ کر نہ پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔

تو نے عقل سے کام نہیں لیا ہے نوجوان!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ یا تو نے سنا نہیں کہ میں نے اس گڑیا کے متعلق کہا تھا کہ اس نے ہماری گولی ہضم کر لی ہے، اسے پھینک دو۔ 

محترم درویش !،،،،حسن نے کہا۔۔۔ میں عقل اور توجہ سے کام نہ لیتا تو آپ کی اس گڑیا کو ہاتھ بھی نہ لگاتا ،دوسری دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیتا ،لیکن میری عقل نے مجھے بتایا کہ یہ گڑیا اٹھا لے۔

تیری عقل نے اس میں کیا خوبی دیکھی ہے؟،،،، درویش نے پوچھا۔

ایک کے کان میں گولی ڈالی تو وہ اس کے دوسرے کان سے نکل گئی۔۔۔ حسن نے کہا۔

اے درویش عالی مقام !،،،،آپ یقیناً ایسی بیٹی کو پسند نہیں کریں گے جو اپنے باپ کی پند و نصیحت ایک کان سے سنے اور دوسرے کان سے نکال دے،،،،،، ایسی بہن بھی بری، ایسی بیوی بھی بری۔

دوسری کے کان میں گولی ڈالی تو اس نے منہ کے راستے نکال دی، ایسی عورت تو اور زیادہ خطرناک ہوتی ہے، وہ گھر کا کوئی راز اپنے دل میں رکھ نہیں سکتی، بات سنی اور ہر کسی کے آگے اگلنا شروع کر دی ،ایسی عورت اپنے گھر کا اور اپنے ملک کا بھی بیڑا غرق کرا دیا کرتی ہے،،،،، 

اور جسے آپ نے بیکار کہا ہے یہ بڑی قیمتی عورت ہے، جو راز کی بات اپنے دل میں دفن کر دیا کرتی ہے، میں نے اس بت کو یا گڑیا کو بہت ہلایا الٹا کیا ہر پہلو پر کر کے زور زور سے جھنجھوڑا لیکن اس نے گولی نہیں اگلی، اسے آپ توڑ پھوڑ کر اس کا وجود ختم کر دیں تو ہی آپ اس کے اندر سے گولی نکال سکتے ہیں،،،، 

یہ وہ خوبی ہے جو آپ نے فرحی میں دیکھی ہے ،آپ آٹھ ہیں اور یہ اکیلی، کیا آٹھ آدمیوں سے ڈر کر اس نے آپ کو بتا دیا تھا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں؟،،، میں اسے اپنی عمر کی ہمسفر بناؤں گا۔

"آفرین" اے نوجوان!،،،،، درویش نے کہا۔۔۔ خدا نے تجھے وہ دانش اسی عمر میں دے دی ہے جو اوروں کو عمر بھر کا تجربہ حاصل کرکے بڑھاپے میں بھی نہیں ملتی، تو پیدائشی دانشمند ہے۔

 درویش نے اپنے آدمی سے کہا تینوں گڑیوں کو اٹھا کر سنبھال لو، ان کے امتحان میں شاید ہی کبھی کوئی کامیاب ہوا ہو۔

ایک آدمی نے تینوں بت اٹھائے اور مشعلوں کی روشنی سے نکل گیا ۔

کھانا گرم کرو۔۔۔ درویش نے حکم کے لہجے میں کہا۔۔۔ دسترخواں لگ جائے فوراً، یہ دونوں بھوکے ہیں۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

اس ویرانے میں اتنا پرتکلف کھانا حسن بن صباح کے لیے حیران کن تھا، حسن اور فرحی اس قدر بھوکے تھے کہ بے صبری سے کھانا نگلتے چلے گئے۔

کھانے کے بعد درویش نے حسن بن صباح کو اپنے پاس بٹھا لیا، باقی سب وہاں سے چلے گئے ۔

حسن اور فرحی کے سونے کا الگ انتظام کردیا گیا، فرحی جا کر سو گئی تھی۔

حسن !،،،،،درویش نے کہا ۔۔۔تیرا نام حسن بن علی ہونا چاہیے تھا؟،،، لیکن تو نے حسن بن صباح کہلانا زیادہ پسند کیا۔

میرے آباء و اجداد میں صباح حمیری ایک شخص ہو گزرا ہے۔۔۔ حسن  نے کہا۔۔۔ میرا باپ کچھ کم استاد نہیں، لیکن صباح کے متعلق سنا ہے کہ اس نے بہت ہی شہرت اور عزت پائی تھی، اور اس کا کمال یہ تھا کہ کسی کو شک تک نہ ہونے دیا کہ وہ عیاروں کا عیار ،اور فریب کاروں کا استاد ہے، بس یہ وجہ ہوئی کہ میں نے بن علی کی بجائے بن صباح حمیری کہلانا زیادہ پسند کیا،،،،، لیکن آپ کو میرا نام کس نے بتایا ہے؟ 

صرف نام ہی نہیں حسن!،،،، درویش نے جواب دیا ۔۔۔تمہارے متعلق مجھے بہت کچھ بتایا گیا ہے، تم جس جگہ سے آرہے ہو اور جس جگہ جا رہے ہو میں ان کے درمیان ایک رابطہ ہوں، ایک رشتہ ہوں، پُل سمجھ لو اور،،،،،،، 

روک جائیں ۔۔۔حسن اچانک بول پڑا۔۔۔ مجھے یاد آگیا میرے استاد عبدالملک ابن عطاش نے مجھے بتایا تھا کہ خواب میں مجھے ایک غار نظر آئے گا اور اس غار میں میرا علم مکمل ہو جائے گا ،میں آپ کی ذات میں ایسا گم ہو گیا تھا کی یاد ہی نہ رہا کہ میں نے خواب میں ایک غار دیکھا تھا، اس غار پر دھند چھائی ہوئی تھی، اتنا ہی پتہ چلتا تھا کہ اس دھند میں کچھ ہے ،میں نے پہلے دن غزالوں کا ذکر کیا ہے کہ خواب میں دیکھے تھے، وہ اسی دھند میں غائب ہو گئے تھے،،،،،،، 

محترم درویش!،،،، کہ یہ میرا خواب والا غار تو نہیں؟ 

ہاں حسن!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ غار وہی ہے لیکن تیرا علم یہاں مکمل نہیں ہو گا، یہاں سے تجھے روشنی ملے گی جس میں تجھے اپنی منزل اپنا مستقبل اور اپنی شخصیت بہت ہی بڑی نظر آئے گی،،،،،اب تو یہ پوچھے گا کہ میں کون ہوں، اور میں یہاں کیا کررہا ہوں ؟

یہ تو میں نے پوچھنا ہی ہے۔۔۔ حسن نے کہا۔

اس سے پہلے کچھ ضروری باتیں سن لے حسن!،،،،، درویش نے کہا ۔۔۔مجھے معلوم تھا تو آئے گا، یہ ہمارا ایک زمین دوز نظام ہے اس نظام کو ہم زمین کے اوپر لانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہاں سے وہ علاقہ شروع ہوتا ہے جس پر ہم نے قبضہ کرنا ہے، آگے بہت سے قلعے ہیں ،جن میں کچھ چھوٹے اور بعض بہت ہی چھوٹے اور چند ایک ذرا بڑے ہیں، ان میں کئی ایک ایسے ہیں جو چند ایک امراء کی ذاتی ملکیت بنے ہوئے ہیں، ہم نے ان پر قبضہ کرنا ہے۔

قلعہ فتح کرنے کے لیے تو فوج کی ضرورت ہوتی ہے؟،،،، حسن نے کہا۔۔۔ ہم فوج کہاں سے لائیں گے؟ 

لوگوں کی فوج بنائیں گے۔۔۔ درویش نے کہا۔

 لیکن کس طرح ؟،،،،حسن نے پوچھا۔

 درویش نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔

*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

یہ ہے وہ سبق جو میں نے تجھے دینا ہے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔ تو نے عبدالملک ابن عطاش کی شاگردی بھی کر لی ہے، اب تو ایک اور شخص کی شاگردگی کرے گا، وہ ہے احمد بن عطاش، آگے ایک قلعہ ہے جس کا نام قلعہ اصفہان ہے ،احمد بن عطاش اس قلعے کا والی ہے، وہ تجھے علم سحر کا ماہر بنا دے گا،،،،،،

اب میں جو بات کہنے لگا ہوں اس کا ایک ایک لفظ غور سے سننا اور ہر لفظ کو سینے میں محفوظ رکھتے جانا ،بنی نوع انسان دو طاقتوں کے غلبے میں ہے، یوں کہ لو کے دنیا پر دو طاقتوں کی حکومت ہے ،ایک ہے خدا ،اور دوسرا ہے ابلیس، انسان خدا کو کئی روپ دے کر اس کی عبادت کرتا ہے، انسان نے سورج کو خدا بنایا، آگ کو، سانپ کو، اور آسمانی بجلی کو بھی انسان نے خدا بنایا، آخر اسلام نے آکر انسان کو بتایا کہ خدا کیا ہے، یہ بھی بتایا کہ یہ سورج ،چاند ،آسمانی بجلیاں، آگ، سانپ وغیرہ خدا نہیں ،بلکہ یہ خدا کی پیدا کی ہوئی ہیں، اس خدا کی وحدانیت کو لوگوں نے مان لیا،،،،،، 

ہم بھی خدا کو ماننے والے مسلمان ہیں، لیکن ہم نے اپنا الگ فرقہ بنا لیا ہے اور ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ صحیح اسلام ہمارے پاس ہے، لیکن اہل سنت نے لوگوں کے دلوں پر اپنے عقائد ایسے طریقے سے نقش کر دیے ہیں کہ اب ہم ان کے عقائد کو نہیں بدل سکتے، ہمیں کوئی اور طریقہ اختیار کرنا پڑے گا،،،، 

کیا آپ نے کوئی طریقہ سوچا ہے؟،،،، حسن نے پوچھا۔

ہاں !،،،،،درویش نے کہا۔۔۔ یہی بتانے لگا ہوں، لیکن یہ طریقہ ایسا نہیں کہ پتھر اٹھاؤ اور کسی کے سر پر مارو ،یہاں معاملہ نظریات کا ہے اور اس معاملے کو صرف تم سمجھ سکتے ہو۔

صرف میں کیوں؟،،،، حسن نے کہا ۔۔۔میرا علم ابھی خام ہے اور تجربہ کچھ نہیں۔

تمہارے پاس سب کچھ ہے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔ پہلے وہ سن لو جو ہم نے سوچا ہے، پھر تم خود محسوس کرو گے کہ یہ تو پہلے ہی تمہارے دل میں تھا، بات یہ ہے حسن!،،، اہلسنت نے لوگوں کا رشتہ خدا کے ساتھ براہ راست قائم کر دیا ہے، عسائیت نے بھی خدا کو ھی اول اور آخر قرار دیا ہے اور وہ عیسی کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں، یہودی ہیں، آتش پرست ہیں یہ بھی خدا کو مانتے ہیں، ہمارے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ حکومت اہلسنت کی ہے۔

شاید آپ کو معلوم ہو گا ۔۔۔حسن نے کہا ۔۔۔کہ ہمارا امیر ابو مسلم رازی اس قدر کٹر سنی ہے کہ اس نے میرے باپ سے کہا تھا کہ تم اپنے آپ کو اہلسنت ظاہر کرتے ہو تو اپنے بیٹے کو ایک اسماعیلی پیشوا عبد الملک ابن عطاش کی شاگردی میں کیوں بٹھا رکھا ہے؟،،،،،، میرے باپ نے ابو مسلم رازی کے عتاب سے بچنے کے لئے مجھے امام موافق کے مدرسے میں بھیج دیا تھا، مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ابومسلم نے اپنے جاسوس پھیلا رکھے ہیں جو گھر گھر کی خبر رکھتے ہیں کہ کہیں سنی عقیدہ کے خلاف کوئی بات تو نہیں ہو رہی۔

ہاں حسن!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ ابومسلم رازی نے اپنے جاسوس پھیلا رکھے ہیں، اسے معلوم نہیں کہ ہم نے اس کے جاسوسوں کے پیچھے جاسوس چھوڑے ہوئے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ سلجوقی سلاطین کی حکومت ہماری دشمن ہے، لیکن ہم ان کی جڑیں کھوکھلی کر دیں گے، ہمیں مصریوں پر بھروسہ ہے وہ عبیدی ہیں، اور ہمارے ہم عقیدہ بھی ہیں۔

محترم درویش!،،،، حسن نے کہا ۔۔۔معلوم نہیں کیوں مجھے خیال آتا ہے کہ میں مصر جاؤ اور وہاں سے سلجوقیوں کے خلاف طاقت حاصل کروں۔

 درویش عجیب سی طرح ہنسا اور کچھ دیر حسن بن صباح کے منہ کو دیکھتا رہا ۔

کیوں محترم درویش ؟،،،،،حسن نے ذرا کھسیانا سا ہو کر پوچھا۔۔۔ کیا میں نے غلط بات کہہ دی ہے۔

نہیں حسن!،،،، درویش نے کہا ۔۔۔میں تمہاری اس بات سے خوش اور مطمئن ہوا ہوں کہ تمھیں مصر کا خیال آیا ہے، میں خوش اس لئے ہوں کہ یہ خیال ویسے ہی نہیں آیا بلکہ تم میں ایک پراسرار طاقت ہے جو تمہیں اشارہ دیتی ہے ،میں پورے وثوق کے ساتھ پیشن گوئی کرتا ہوں کہ تم میں نبوت کے نمایاں آثار پائے جاتے ہیں، تم نبی بنو یا نہ بنو  تمہیں اتنی ہی شہرت ملے گی جو صرف نبیوں کو ملا کرتی ہے ،آنے والی نسلیں اور انکی نسلیں ہمیشہ تمہارا نام لیتی رہیں گی، لیکن ضروری نہیں کہ تمہیں اچھے نام سے ہی یاد کیا جائے گا، لوگ تمہیں یاد ضرور رکھیں گے۔

پہلےدرویش کی ہنسی نکلی تھی اب حسن ہنس پڑا۔

 آپ کو میری بات سے خوشی حاصل ہوئی تھی۔۔۔ حسن نے کہا ۔۔۔اور مجھے آپ کی بات سے خوشی حاصل ہوئی ہے، معلوم نہیں کیوں مجھے برائی سے مسرت حاصل ہوتی ہے۔

 میں تمہیں اسی بات پر لا رہا تھا ۔۔۔درویش نے کہا ۔۔۔میں خدا کا جو ذکر کر رہا تھا، وہ یہ تھا کہ ایک قوت خدا کی ہے اور دوسری ابلیس کی، خدا کا نام لے کر لوگوں کو ان کے عقیدوں سے ہٹانا کوئی آسان کام نہیں، اس کام کو ہم اس طرح آسان کریں گے کہ ہم دوسری قوت کو استعمال کریں گے یعنی ابلیس کی قوت،،،،،، 

بدی میں بڑی طاقت ہے حسن!،،، بدی میں کشش ہے، بدی میں لذت ہے، اور بدی میں نشہ ہے، یہ قوت تمہارے دل و دماغ میں موجود ہے، ہم لوگوں پر بدی کا نشہ طاری کریں گے، تمہارے ساتھ یہ جو لڑکی ہے یہ تمہارا کام آسان کرے گی ،اس کے ساتھ ہی ہم علم سحر کو کام میں لائیں گے، یہ علم سحر کا ہی کرشمہ ہے کہ تم مجھ تک پہنچے ہو ،اب ہم نے تمہارے اس علم کی تکمیل کرنی ہے۔

انسان میں خدا نے یہ کمزوری شروع سے ہی رکھ دی تھی کہ وہ بدی کی طرف جلدی آ جاتا ہے ،وہ ابلیس ہی تھا جس نے انسان کو بہکا کر جنت سے نکالا تھا ،ہم لوگوں کو دنیا میں ہی جنت دیں گے، اور یہ تم دو گے۔

محترم درویش !،،،حسن نے کہا۔۔۔ میرا خیال ہے کہ مزید باتوں کی ضرورت نہیں ،آپ جو کچھ بھی کہے جارہے ہیں یہ پہلے ہی میرے ذہن میں موجود ہے، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ مجھے میری اس منزل تک پہنچا دیں جہاں سے میں اپنا محاذ کھول سکوں۔

 کل صبح تم یہاں سے روانہ ہو جاؤ گے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔ اس لڑکی کو بھی تعلیم و تربیت دی جائے گی۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

حسن بن صباح کا اس درویش کے پاس اس انداز سے پہنچنا جس انداز سے اسے پہنچایا گیا پراسرار افسانہ لگتا ہے، لیکن فرقہ باطنیہ اسی طرح زمین دوز اور پراسرار طریقوں سے پھلا پھولا تھا ،سلجوقی سلاطین اہلسنت وجماعت تھے اس لیے وہ کسی اور فرقے کا وجود برداشت نہیں کرتے تھے، تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے جاسوسوں اور مخبروں کے ذریعے اپنی سلطنت کے ہر گوشے میں نظر رکھی ہوئی تھی، یہی وجہ تھی کہ فرقہ باطنیہ زمین دوز ہو گیا اور اس کے پیشواؤں نے اپنی کاروائیوں کو اتنا خفیہ کردیا کہ جاسوسوں اور مخبروں کو بھی ان کی کارروائیوں کا علم نہیں ہوتا تھا۔

حسن بن صباح کا استاد عبدالملک ابن عطاش کوئی معمولی شخصیت نہیں تھا ،وہ فرقہ باطنیہ کا صف اول کا پیشوا تھا، بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ ایک قلعے کا مالک بھی تھا۔

اگلی صبح سورج ابھی افق سے نہیں ابھرا تھا جب چار گھوڑے ان چٹانی بھول بھلیوں سے نکلے، ان کا رخ خراسان کی طرف تھا ،ایک گھوڑے پر حسن بن صباح سوار تھا، دوسرے پر فرحی، تیسرے پر درویش اور چوتھے پر درویش کا ایک آدمی سوار تھا۔

جب سورج افق سے اٹھ آیا اس وقت یہ چاروں گھوڑے ایک سرسبز پہاڑی کی ڈھلان پر چڑھتے جارہے تھے، یہ باقاعدہ راستہ تھا جس پر بیل گاڑیاں اور گھوڑا گاڑیاں بھی چلا کرتی تھیں، درویش نے گھوڑا روک لیا، باقی تین گھوڑے بھی رک گئے، درویش میں اپنے گھوڑے کا منہ اس طرف پھیر دیا جس طرف سے وہ آئے تھے۔

 پیچھے دیکھو حسن!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ اور تم بھی فرحی۔

حسن اور فرحی نے پیچھے دیکھا ان کے چہروں کے تاثر بدل گئے ،اس بلندی سے انہیں دور دور تک پھیلا ہوا جو منظر نظر آرہا تھا وہ کچھ عجیب سا تھا ،جس پہاڑی کی بلندی پر وہ کھڑے تھے وہ بڑی خوبصورت گھاس، پھول اور پودوں اور خوشنما درختوں سے ڈھکی ہوئی تھی، پہاڑی کے دامن میں کچھ دور تک روح افزا سبزہ زار تھا، دور ایک ندی ابھرتے سورج کی کرنوں میں چمک رہی تھی۔

اس سحر انگیز خطے میں میلوں رقبے میں پھیلا ہوا ایک بے آب و گیاہ چٹانی سلسلہ تھا، جو گولائی میں تھا، چٹانے نوکیلی بھی تھیں، بعض کی چوٹیاں مخروطی تھیں، کچھ بہت بڑے بڑے انسانی بوتوں جیسی تھیں، اور زیادہ تر اس طرح گول تھی جیسے قدرت کے ہاتھوں نے انہیں بڑی محنت سے بنایا ہو، ان کے وسط میں کچھ جگہ ہری بھری نظر آرہی تھی جہاں چند ایک درخت بھی کھڑے تھے یہ وہ جگہ تھی جہاں درویش کا ڈیرہ تھا ،ان چٹانوں کا رنگ سلیٹی بھی تھا اور سیاہ بھی، اور یہ خطہ ڈراؤنا سا لگتا تھا۔

دیکھ رہے ہو حسن!،،،، درویش نے کہا ۔۔۔تم بھی دیکھو فرحی !،،،میں یہاں سے آگے نہیں جاؤں گا، یہاں تک تمہارے ساتھ اس لئے آیا ہوں کہ ایک آخری بات کرنی تھی جو یہاں آکر ہی کہی جاسکتی تھی،،،،،، زندگی ہری بھری گھاس اور پھولوں کی سیج ہی نہیں، اس میں ایسی ایسی دشواریاں بھی ہیں کہ انسان ہمت ہارنے کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ان دشواریوں میں سے گزر جاتے ہیں،،،، 

تمہارا استاد عبدالملک  ابن عطاش تمہیں سیدھے راستے پر بھی ڈال سکتا تھا، لیکن اس نے تمہیں اپنے علم سحر کے ذریعے ایسا خواب دکھایا جس میں تم کو یہ راستہ نظر آیا، تم ان چٹانوں کے اندر آگئے ،تمہیں راستہ نہیں مل رہا تھا، دو ناگوں نے تمہیں بھگا کر پھر وہی پہنچا دیا جہاں سے تم اس سلسلہ کوہ میں داخل ہوئے تھے، انسان کی زندگی میں ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ اسے سمجھ نہیں آتی کہ نجات کا راستہ کون سا ھے ،وہ حالات اور کئی طرح کی دشواریوں میں اس طرح بھٹک جاتا ہے جیسے بھول بھلیوں میں آ گیا ہو،،،،، 

ان چٹانوں کے اندر زندگی کا ایک سبق ہے، دیکھو قدرت نے کیسی خوفناک جگہ کے اندر کتنا شفاف چشمہ بنا رکھا ہے، اور اس کے ساتھ ہی کتنی اچھی پناہ گاہ ہے، ایسے چشموں تک وہی پہنچ سکتے ہیں جو ان چٹانوں سے ڈرتے نہیں، بھٹک بھٹک کر راستہ تلاش کر لیتے ہیں اور میٹھے چشمے تک پہنچ جاتے ہیں،،،،،ہم یہاں موجود تھے ،ہمیں معلوم تھا کہ تم آرہے ہو، ہمارے آدمی تمہیں دیکھ رہے تھے، ہمیں پہلے بتا دیا گیا تھا کہ تم آرہے ہو، یہ تو تم جان ہی چکے ہو کہ اس لڑکی کو ہمارے آدمی اٹھا کر لے آئے تھے، ہمارا کوئی آدمی ان بھول بھلیوں میں بھٹک نہیں سکتا،،،،،، میں اس وقت تم سے بہت چھوٹا تھا جب میرا استاد مجھے یہاں لایا تھا ،وہ باہر بیٹھ گیا تھا اس نے میری کلائی کے ساتھ ایک دھاگا باندھ دیا تھا، یہ بڑا ہی لمبا دھاگا تھا جو گولے کی شکل میں استاد نے اپنے ہاتھ میں رکھا تھا، اس نے مجھے کہا تھا کہ میں باہر بیٹھوں گا تم اندر چلے جاؤ ،اندر ایک چشمہ ہے، ایک کوزہ اس چشمے کے پانی کا بھر کر لاؤ۔

استاد نے مجھے بتایا کہ یہ دھاگا راستے میں چھوڑتے جانا اور میں باہر بیٹھا گولے سے دھاگا ڈھیلا کرتا جاؤں گا، اگر تم تھک ہار گئے اور چشمے کو نہ پا سکے تو اس دھاگے کو دیکھ دیکھ کر واپس آ جانا ،خیال رکھنا کہ دھاگہ ٹوٹ نہ جائے ورنہ اندر جا کر باہر نہیں نکل سکو گے،،،،،، میں اندر چلا گیا استاد دھاگا ڈھیلا چھوڑتا گیا،،،،، یہ ذرا لمبی بات ہے کہ میں چشمے تک کس طرح پہنچا ،میں اتنا زیادہ بھٹکا تھا کہ ٹانگیں اکڑ گئیں اور میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا تھا، لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور چلتا گیا،،،،،، 

پھر میرے ہوش و حواس اندھیرے میں ہی گم ہو گئے، معلوم نہیں میں کتنی دیر بعد ہوش میں آیا، میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میں چشمے کے کنارے پڑا ہوا تھا، میں اچھل کر اٹھا مٹی کا کوزہ جو میرے ہاتھ میں تھا وہ ٹوٹا پڑا تھا ،میں بے ہوش ہوکر گرا تو کوزہ پتھر پر گر کر ٹوٹ گیا تھا،،،،، 

اپنے استاد کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ میں چشمے تک پہنچ گیا تھا میں کپڑوں سمیت چشمے میں اتر گیا اور باہر آ کر چل پڑا ،میری رہنمائی کے لئے دھاگا موجود تھا جو میں راستے میں پھینکتا آیا تھا، سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا کہ میں باہر اپنے استاد کے سامنے کھڑا تھا، میں نے اسے بتایا کہ کوزہ ٹوٹ گیا ہے اور میں چشمے میں اتر کر اپنے کپڑے بھیگو لایا ہوں،،،،،،، 

میں تمہیں وہ سبق دینا چاہتا ہوں جو استاد نے مجھے دیا تھا۔۔۔ اس نے کہا تھا کہ زندگی کے چشمے خود چل کر کسی کے پاس نہیں آ جایا کرتے انسان کو چل کر ان کے پاس جانا پڑتا ہے،  اور پھر زندگی کے چشمے ان کا استقبال کیا کرتے ہیں جو ان کی تلاش میں سنگلاخ وادیوں سوکھی سڑی چٹانوں کی بھول بھلیوں میں اور پرخار راستوں پر چلتے ہی جاتے ہیں اور پائے استقلال میں لغزش نہیں آنے دیتے،،،، 

اور استاد نے کہا تھا کہ یہ دھاگا جو میں نے تمہاری کلائی سے باندھا تھا اسے صرف ایک دھاگا ہی نہ سمجھنا، یہ دھاگہ انسانی رشتوں کی علامت ہے، انسانی رشتے ٹوٹنے نہیں چاہیے، تم اکیلے کچھ بھی نہیں، تم تنہا رہ گئے تو سمجھو تمھاری ذات ہی ختم ہو گئی، ہمیشہ یاد رکھنا کے رشتوں کا یہ دھاگا نہ ٹوٹنے دینا، ذرا سوچو اگر یہ دھاگہ ٹوٹ جاتا تو میرا اور تمہارا رشتہ ٹوٹ جاتا اور تم ان بھول بھلیوں سے نکل نہ سکتے۔

تو یہ ہے وہ آخری سبق جو میں نے تم تک پہنچانا تھا حسن!،،،،، ثابت قدم رہنا۔۔۔ تم نے فوج کے بغیر قلعہ سر کرنے ہیں، انسانی فطرت کی کمزوریوں کو اپنے مقاصد اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے،  انسانوں پر نشہ طاری کر دو ،نشہ دولت کا بھی ہوتا ہے، عورت بھی آدمی کے لیے نشہ بن جایا کرتی ہے، نشوں کی کمی نہیں حسن!،،،، ابلیسی اوصاف میں بڑی طاقت ہے، میں تمہیں راز کی ایک بات بتاتا ہوں، بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نماز اپنا فرض اور خدا کی عبادت سمجھ کر پڑھتے ہیں، عام لوگ نماز صرف اس لیے پڑھتے ہیں کہ اگلے جہان جنت میں جائیں گے جہاں حوریں اور شراب ملے گی، اور سوائے عیش و عشرت کے کوئی کام نہیں ہوگا۔

میں ان لوگوں کو دنیا میں جنت دکھا دوں گا۔۔۔ حسن نے پرعزم لہجے میں کہا ۔

زندہ باد حسن بن صباح!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ اب جاؤ میں یہاں سے واپس جا رہا ہوں،،، 

 الودا!،،،  

الوداع!،،،

جاری ہے

https://link2fakhar.blogspot.com/2020/12/blog-post_14.html


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area