ٹیچر ڈے کے حوالے سے ڈاکٹر تبسم کی خاص تحریر
*استاد سے محبت کیجیے قوم تعمیر کیجیے*
The Builder of Nation.
*ڈاکٹرمحمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب : ابرش نور *گلوبل ہینڈز* پاکستان
*کامیابی کے لیے دو چیزوں سے محبت لازم ہے ایک منزل سے اور دوسرا منزل پر لے جانے والے رہبر و رہنما یعنی استاد سے* ۔ دنیا کے تمام کاریگروں کے ہنر کو سلام مگر وہ کاریگر عظیم ہے جو مزید ایسے کاریگر پیدا کرے جو فن اور ہنر کو زندہ رکھیں ۔ *ایسے کاریگر کو استاد کہتے ہیں اس کے شاہکار اس کے شاگرد ہی ہوا کرتے ہیں استاد بنیاد میں لگا ہوا پتھر ہوتا ہے* جس پر عمارت کھڑی ہوتی ہے ۔ ہم گنبد دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں مگر بنیاد کا پتھر ہمیں نظر نہیں آتا ۔ *منزل اور منزل پر لے جانے والے سے محبت جتنی خالص ہو گی کامیابی اتنی ہی کامل ہو گی ۔* یاد رکھیے محبت ہمیشہ پریکٹیکل ڈیمانڈ کرتی ہے ۔ محبت کامل ہو گی تو یقینا آپ اساتذہ کی سنہری باتوں پر عمل کریں گے اور یہ عمل ہی آپ کے مودب ہونے کی علامت ہے ۔ با *ادب با نصیب بے ادب بے نصیب* ۔ خلیفہ چہارم امیر المومنین حضرت سیدنا علی مولود کعبہ کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا!” *جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اسے اُستادکا درجہ دیتاہوں۔* ایک دوسرے موقعہ پر فرماتے ہیں کہ” *عالم کا حق یہ ہے کہ اس کے آگے نہ بیٹھو اور ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جاو۔* ”امام قاضی ابو یوسف رحمة اللہ علیہ *:امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے نماز پڑھی ہو اور اپنے استاد سیدنا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کیلئے دعا نہ مانگی ہو۔* ہارون الرشید :ہارون الرشید کے دربار میں کوئی عالم تشریف لاتے تو بادشاہ ان کی تعظیم کیلئے کھڑا ہوجاتا۔ *درباریوں نے کہا کہ اس سلطنت کا رْعب جاتا رہتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جائے* ۔
ایک دفعہ ہارون الرشید نے ایک نابینا عالم کی دعوت کی اور خود ان کے ہاتھ دھلانے لگا۔اس دوران میں عالم صاحب سے پوچھا۔آپ کو معلوم ہے کہ کون آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا ہے۔عالم نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر ہارون الرشید نے جواب دیا کہ میں نے یہ خدمت خود انجام دی ہے۔اس پر عالم دین نے کسی ممنونیت کا اظہار نہیں کیا۔بلکہ جواب دیا کہ *ہاں آپ نے علم کی عزت کیلئے ایسا کیا ہے۔* اس نے جواب دیا بے شک یہی بات ہے۔ *ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کو علم و ادب کی تعظیم کے لئے امام اصمعی کے سپرد کر دیا تھا ۔* ایک دن ہارون اتفاقاً انکے پاس جا پہنچا۔دیکھا کہ اصمعی اپنے پائوں دھو رہے ہیں اور شہزادہ پائوں پر پانی ڈال رہا ہے۔ہارون الرشید نے برہمی سے کہا۔ *میں نے تواسے آپکے پاس اسلئے بھیجا تھا کہ آپ اس کو ادب سکھائیں گے* ۔آپ نے شہزادے کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پائوں دھوئے۔ *انسان کی زندگی کا سب سے اہم
مقصد اور فرض سمجھ بوجھ حاصل کرنا ہے۔*
اس مقصد کے لئے ہم جو کوشش کرتے ہیں اسے تعلیم کہتے ہیں یہ تعلیم روحانی ، ذہنی اور جسمانی ہر طرح کی ہوتی ہے اور اس طرح ہم اشرف المخلوقات کے درجے تک پہنچتے ہیں ۔معاشرتی زندگی کے جن شعبوں پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے، ان میں حصول علم نہایت نمایاں ہے۔ امام ابو حنیفہ سے ان کے عزیز شاگرد امام ابو یوسف نے پوچھا استاد کیسا ہوتا ہے؟ فرمایا ” *استاد جب بچوں کو پڑھا رہا ہو تو غور سے دیکھو، اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاد ہے اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں ہے”۔* صرف اس فرمان کو سامنے رکھ کر اگر آج کے اساتذہ کرام کی اکثریت کو پرکھ لیا جائے تو ہمیں مادیت پرستی کا غلبہ واضح نظر آئے گا۔ بلاشبہ *دور جدید میں مادیت پرستی ہر معاشرے اور شعبہ میں گھر کر چکی ہے، لیکن کچھ شعبہ اور ان کے ذمہ داران کے لئے مادہ پرستی جیسی اصطلاح کبھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی* ۔ استاد معاشرہ کا وہ حصہ ہے جہاں اخلاقی اقدار کو بام عروج نصیب ہوتا ہے۔آج ایک پولیس مین کے آنے سے پورا محلہ کانپ اٹھتا ہے۔مجسٹریٹ کا رعب و دبدبہ افراد پر کپکپی طاری کر دیتا ہے۔لوگ پولیس والے ،مجسٹریٹ،جج اور دیگر افسران کے برابر بیٹھنا اْس کی بے ادبی تصور کرتے ہیں۔لیکن استاد جس کی محنت ،کوشش اور شفقت سے یہ افراد ان بالا عہدوں پر فائز ہیں اْن کی قدر معاشرہ کرنے سے قاصر ہے۔ *حکومت اساتذہ کو ”سر” کا خطاب دینا چاہتی ہے ،سلام ٹیچر ڈے منایا جاتا ہے* ۔مگر افراد کے دل میں حرمت اساتذہ ناپائید ہے۔ *استاد ایک انمول تحفہ ہے، جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔* اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور کو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریمۖ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ” *مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے”* امیر المومنین حضرت عمر فاروق سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے، تو آپ نے فرمایا کہ ” *کاش میں ایک معلم ہوتا’۔* استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کہتے ہیں کہ ” *استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے”۔* علامہ محمداقبال رحمة اللہ علیہ کے یہ الفاظ معلم کی عظمت و اہمیت کے عکاس ہیں۔” *استاد در اصل قوم کے محافظ ہیں۔*
حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ میں حضرت امام مالکؒ کے سامنے ورق بہت آہستہ سے الٹتا تھا کہ اس کی آواز ان کو نہ سنائی دے، حضرت امام ربیع ؒ فرماتے ہیں کہ *امام شافعیؒ کی نظر کے سامنے مجھے کبھی پانی پینے کی جرأت نہیں ہوئی، ایک مجلس میں امام مالکؒ کسی مرض کی وجہ سے ٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے تھے، اثنائے گفتگو ابراہیم بن اطہمان کا ذکر نکل آیا ان کا نام سنتے ہی امام مالکؒ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ یہ نازیبا بات ہوگی کہ نیک لوگوں کا ذکر ہو اور ہم ٹیک لگائے بیٹھے رہیں،* تعلیم المتعلم میں ہے کہ اس کی اولاد اور متعلقین کی بھی توقیر کرے نیز یہ کہ علم کے زوال کا سبب معلم کے حقوق کی رعایت نہ کرنا بھی ہے۔ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ بخارا کے ایک بہت بڑے امام وقت اپنے حلقہ درس میں مصروف درس تھے مگر اثنائے درس کبھی کبھی کھڑے ہوجاتے تھے جب اس کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے اور کھیلتے کھیلتے وہ کبھی کبھی مسجد کے دروازے کے پاس آجا رہا ہے تو میں اس کے لیے بمقصد تعظیم کھڑا ہوجاتا ہوں، ایک بار عبداﷲ المبارک سفر کررہے تھے لوگوں نے پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے فرمایا بصرہ جارہاہوں، لوگوں نے دریافت کیا کہ اب وہاں کون رہ گیا ہے جس سے آپ حدیث نہ سن چکے ہوں، فرمایا *’’ابن عون کی خدمت میں حاضری کا ارادہ ہے ان سے اخلاق و آداب سیکھوں گا۔*
*ایک عام استاد تمہیں چیزوں کے بارے میں صرف بتاتا ہے، ایک اچھا استاد اس کی وضاحت کرتا ہے، ایک اعلیٰ درجہ کا استاد عملی طور پر کرکے دکھاتا ہے، جبکہ ایک بہترین استاد طالب علموں میں تحریک پیدا کرتا ہے"۔* اللہ پاک میرے اور آپ کے اساتذہ کو صحت سلامتی ایمان والی لمبی عمر عطا کرے .. ہمارے پیج کا لنک دستیاب ہے ..
No comments:
Post a Comment