درودِ پاک کی فضیلت
کل دعاءٍ محجوب حتى يصلى على محمدٍ ﷺ
(ہر دعا اس وقت تک حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور نبی اکرم ﷺ پر درود نہ بھیجا جائے)
(3)بخاری شریف میں فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : “ اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ یعنی بندہ جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ ہوگا۔ “ (بخاری ، 4 / 147 ، حدیث : 6168) تو دُرود شریف پڑھنے سے چونکہ دل میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت بیٹھ جاتی ہے تو اس محبتِ رسول کی وجہ سے اِنْ شَآءَ اللہ قبر و حشر میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ساتھ نصیب ہوگا۔
قول النبي ﷺ : تبلغني صلاتکم و سلامکم حيث کنتم
(فرمان نبوی ﷺ : تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا درود و
سلام مجھے پہنچ جاتا ہے
الصلاة على النبي ﷺ صدقة لمن لم يکن له مال
(حضور ﷺ پر درود بھیجنا اس شخض کا صدقہ ہے جس کے پاس مال نہ ہو
من نسي الصلاة عَلَيَّ خطئي طريق الجنة
(جو مجھ پر درود بھیجنا بھول گیا وہ جنت کا راستہ بھول گیا)
البخيل هو الذي إن ذکر عنده النبي ﷺ لم يصل عليه
(بخیل ہے وہ شخص کہ جس کے سامنے حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر ہو اور وہ آپ ﷺ پر درود نہ بھیجے)
امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو نعتیہ قصیدہ لکھنے پر بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چادر اور شفایابی کا تحفہ عطا ہوا صاحبِ ’’قصیدہ بردہ‘‘ امام شرف الدین بوصیری )
608۔ 696ھ( کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اپنے زمانے کے متبحر عالمِ دین، شاعر اور شہرۂ آفاق ادیب تھے۔ اللہ رب العزت نے آپ کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کی بناء پر اُمراء و سلاطینِ وقت آپ کی بہت قدر کرتے تھے۔ ایک روز جارہے تھے کہ سرِ راہ ایک نیک بندۂ خدا سے آپ کی ملاقات ہوگئی، انہوں نے آپ سے پوچھا : بوصیری! کیا تمہیں کبھی خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی ہے؟ آپ نے اس کا جواب نفی میں دیا لیکن اس بات نے ان کی کایا پلٹ دی اور دل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت کا جذبہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیال میں مستغرق رہنے لگے۔ اِسی دوران میں آپ نے چند نعتیہ اَشعار بھی کہے۔
پھر اچانک ان پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا آدھا جسم بیکار ہوگیا، وہ عرصہ دراز تک اس عارضہ میں مبتلا رہے اور کوئی علاج کارگر نہ ہوا۔ اس مصیبت و پریشانی کے عالم میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال گزرا کہ اس سے پہلے تو دنیاوی حاکموں اور بادشاہوں کی قصیدہ گوئی کرتا رہا ہوں کیوں نہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر اپنی اس مرضِ لادوا کے لیے شفاء طلب کروں؟ چنانچہ اس بیماری کی حالت میں قصیدہ لکھا۔ رات کو سوئے تو مقدر بیدار ہوگیا اور خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔ عالم خواب میں پورا قصیدہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سنایا۔ امام بوصیری کے اس کلام سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس درجہ خوش ہوئے کہ اپنی چادر مبارک ان پر ڈالی اور اپنا دستِ شفاء پھیرا جس سے دیرینہ بیماری کے اثرات جاتے رہے اور وہ فوراً تندرست ہوگئے۔ اگلی صبح جب آپ اپنے گھر سے نکلے تو سب سے پہلے جس شخص سے آپ کی ملاقات ہوئی وہ اس زمانے کے مشہور بزرگ حضرت شیخ ابو الرجاء تھے۔ انہوں نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو روکا اور درخواست کی کہ وہ قصیدہ جو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں لکھا ہے اُنہیں بھی سنائیں۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ کون سا قصیدہ؟ انہوں نے کہا : وہی قصیدہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے :
أمن تذکر جيران بذي سلم
مزجت دمعا جري من مقلة بدم
)کیا تو نے ذی سلم کے پڑوسیوں کو یاد کرنے کی وجہ سے گوشۂ چشم سے بہنے والے آنسو کو خون سے ملا دیا ہے؟
(
آپ کو تعجب ہوا اور پوچھا کہ اس کا تذکرہ تو میں نے ابھی تک کسی سے نہیں کیا، پھر آپ کو کیسے پتہ چلا؟ انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم جب آپ یہ قصیدہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کا اظہار فرما رہے تھے تو میں بھی اسی مجلس میں ہمہ تن گوش اسے سن رہا تھا۔ اس کے بعد یہ واقعہ مشہور ہوگیا اورا س قصیدہ کو وہ شہرتِ دوام ملی کہ آج تک اس کا تذکرہ زبان زدِ خاص و عام ہے اور اس سے حصولِ برکات کا سلسلہ جاری ہے۔
قصیدہ بردہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سے خوش ہو کر اپنی چادر مبارک ان کے بیمار جسم پر ڈالی اور اپنا دست شفاء پھیرا جس کی برکت سے وہ فوراً شفاء یاب ہوگئے۔ لہٰذا اس چادرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے اس قصیدہ کا نام ’’قصیدہ بردہ‘‘ مشہور ہوا۔
خرپوتي، عصيدة الشهدة شرح قصيدة البردة : 3 -5