*لکھنے والوں کے لیے۔۔۔۔۔۔۔چند اہم اور قابلِ توجہ گذارشات*
ہر موضوع پرطبع آزمائی ضروری ہے نہ ہر ایک کی نگارشات پر اپنی رائے دینا ضروری ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ آپ کی دلچسپی کا موضوع کیا ہے؟
ہمیشہ اسی موضوع کا انتخاب کرنا چاہیے جس پر آپ کا مطالعہ ہو، جس پر مواد آسانی سے دستیاب ہو سکے یا کم ازکم جس پر تلاش کر نے سے مواد مل سکے۔
جس موضوع میں آپ کی دلچسپی ہی نہیں، جس پر آپ کا مطالعہ ہی نہیں جس کے متعلق آپ آگاہ ہی نہیں اس پر خوامخواہ طبع آزمائی کرنے کی ضرورت نہیں اور اگر ایسا ناگزیر ہو تو پہلے اس پر مطالعہ کرنا چاہیے
اس کے متعلق معلومات حاصل کرنی چاہئیں اس کے پس منظر سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے اور مواد کی دستیابی کے بعد پھر اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا جائے۔
موضوع کے انتخاب میں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ وہ چیز بیان کی جائے جس کی لوگوں کو ضرورت ہے، اس کے متعلق انہیں رہنمائی درکا ہے اور اس پر بہت کم مواد موجود ہے۔
اور اگر اس پر پہلے سے کچھ لکھا گیا ہے وہ ناکافی ہے یا درست نہیں ہے تو اس کے متعلق خلوصِ نیت کے ساتھ قارئین کو آگاہ کر دیا جائے لیکن اندازِ بیان شستہ اورمہذبانہ ہونا چاہیے۔
مخالف رائے کی خوب تردید کریں، اپنے موقف کی بھرپور وضاحت کریں، اسے ثابت کرنے کے لیے دلائل کے انبار لگا دیں لیکن یہ سب کچھ موضوعاتی (موضوع کے مطابق)ہونا چاہیے نہ کہ ذاتی اور جذباتی۔
ایسا انداز ہر گزنہ اپنایا جائے جس میں مخالف کی تردید کی بجائے تحقیر ہو اور اصلاح کی بجائے نفرت کا جذبہ نظر آ رہا ہو۔ ایسا لکھیے کہ اگر آپ کا مخالف بھی آپ کی تحریر کو پڑھے تو اسے کہیں لفظوں میں کاٹ اور لہجے میں درشتی محسوس نہ ہو بلکہ آپ کے لفظ لفط سے جذبہِ اخلاص و اصلاح کی مہک آتی ہو۔
تردید کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مخالف کی بات کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ اس نے کہا کیا ہے اور کہاں اس نے غلطی کی ہے؟
ایسا نہ ہو کہ آپ اس بات کا رد کرتے چلے جائیں جو مخالف کا خیال ہی نہیں اور اس کے جملوں اور بیان سے وہ مطلب نکلتا ہی نہ ہو جس کا آپ رد کرتے چلے جا رہے ہیں۔ گویا یوں نہیں ہونا چاہیے:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے
مخالف کی کمزورترین بات پر گرفت کی جائے۔ جہاں کہیں تاویل یا وضاحت کی گنجائش ہو اس کو بیان کر دیا جائے کہ اگر اس سے یہ مراد ہے تو پھر اس کا یہ حکم ہے۔ اگر تاویل کمزور ہو تو اس کو بھی بیان کر دیا جائے۔
مخالف کی دلیل کا رد بھی بڑے سلیقے سے کیا جائے۔ مثلا: فلاں صاحب نے جو لکھا ہے مجھ سا طالب بہر حال اس کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
مدِ مقابل کوئی بھی ہو، اس کے نظریات کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں، اس کی باتیں کتنی ہی گمراہ کن کیوں نہ ہوں، اس کا لہجہ کتنا ہی بے باکانہ کیوں نہ ہو، اس کے دلائل بے ربط اور کمزورہی کیوں نہ ہوں
اسکا اندازِ بیان و تحریر بغض و عناد اور نفرت پر ہی مبنی کیوں نہ ہو اس کی علمی حالت قابلِ رحم ہی کیوں نہ ہو کبھی بھی اس کے لیے غیر اخلاقی اور غیر مہذب الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیں۔
اسے جاہل، فاسق، گمراہ، بدعتی، گستاخ، بد بخت، خبیث وغیر ہ کے الفاظ سے قطعا یاد نہیں کر نا چاہیے بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس کا نام لیے بغیر کوئی مناسب سا لفظ استعمال کیا جائے
مثلا ایک مشہور خطیب، سوشل میڈیا سے شہرت پانے والے ایک مصلح، ایک مبلغ نے یو ں کہا ہے یا ہمارے بعض دوست، کچھ کرم فرما، ہمارے کچھ مہربان یوں کہتے ہیں۔
چونکہ آپ حق کے داعی ہیں، آپ نے حق کی طرف دعوت دینی ہے آپ مبلغ ہیں آپ نے درست بات کا ابلاغ کرنا ہے، آپ مصلح ہیں آپ نے غلط بات کی اصلاح کرنی ہے اس لیے آپ کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے۔
آپ کو ہر حال میں نرمی اور شفقت کا مظاہر ہ کرنا ہے۔ تلخی، سختی، دشنام طرازی، بد اخلاقی اور بد تمیزی کو خندہ پیشانی سے بر داشت کرنا ہے
سخت اور تلخ الفاظ استعمال کرنے والے، اور بد تہذیبی و بد اخلاقی کا مظاہرہ کرنے والے کا جواب دیتے ہوئے کبھی اس کی سطح پر نہیں آنا نہیں چاہئیے بلکہ ہمیشہ یہی پیشِ نظر رہنا چاہیے:
جذبات کا طوفان تو اٹھتا ہے کئی بار
الفاظ مگر رہتے ہیں ہر بار مناسب
آپ کا کام فقط پیغام پہنچانا ہے کسی بھی صورت میں اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے او ر الفاظ کا استعمال ہمیشہ مناسب رہنا چاہیے۔
آپ نے کوئی تحریر لکھی کوئی پیغام دیا وہ لوگوں تک پہنچ گیا۔ اگر کوئی اس پر اعتراض کرے، بے جا سوال اٹھائے تو اس کی بات کی طرف قطعا توجہ نہ کریں اس کا جواب نہ دیں -
اگر جواب دیں گے تو لوگوں کی توجہ آپ کے بنیادی پیغام سے ہٹ جائے گی۔اگر بہت زیادہ ناگزیر ہو تو ایک مرتبہ بڑی نرمی اور اختصار کے ساتھ وضاحت کر دی جائے لیکن بحث کو طول نہ دیا جائے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ آپ اپنے تمام تر اخلاص، علم، مطالعہ اور تحریر و بیان کی صلاحیتوں کے باوجود ایک رائے ہی دے سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کی ہر بات سے دوسرے اتفاق ہی کریں-
اس لیے مخالف رائے سے پریشان نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی بغیر سوچے سمجھے اس کی تردیدشروع کردینی چاہیے بلکہ اس پر خلوصِ دل سے غور کرنا چاہیے اور اگر مناسب معلوم ہو تو اپنی رائے بھی بدلی جا سکتی ہے۔
لکھتے ہوئے تما م تر توجہ اپنے پیغام کے موثر ابلاغ کی طرف ہونی چاہیے۔ تحریر کو ادبی چاشنی دینے کے خیال میں ثقیل الفاظ کے استعمال اور غیر مانوس تراکیب کی ایجاد سے تحریر بے مزہ ہو جاتی ہے۔
اور تکلف کی وجہ سے وہ تحریر سماعتوں پر گراں گذرتی ہے۔ ذہن میں اترنے والے خیالات کا ہاتھ میں چلنے والے قلم کے ساتھ براہِ راست تعلق ہوتا ہے۔ کبھی بھی اس روانی میں مخل نہیں ہوناچاہیے۔
ان الفاظ کو روانی کے ساتھ لکھتے جائیں تاکہ خیالات ترتیب پاتے رہیں۔ تحریرمکمل کرنے کے بعد اسے بغور پڑھ لیں اور جہاں مناسب سمجھیں تھوڑی بہت تبدیلی کر لیں۔
تمہید کو زیادہ طول نہ دیجیے۔ بلکہ اسے مختصر رکھیے اورفورا اپنے مقصد پر آئیں اوراختتام تک موضوع کو نبھائیں۔ آپ کے عنوان اور تحریر کے مواد میں زبردست ربط ہونا چاہیے
ایسا نہ ہو کہ قارئین پوری تحریر میں یہی تلاش کرتے رہیں کہ جو عنوان آپ نے باندھا ہے اس کے متعلق کہاں لکھا ہے؟ بقول شاعر:
اگرچہ وہ سبھی کچھ رہ گیا ہے
مگر جو دل میں تھا وہ رہ گیا ہے
لکھنے کا اولین مقصد حق بات کا ابلاغ ہے جس کے لیے اخلاص اور حصولِ رضائے خداوندی کا جذبہ نہایت ضروری ہے۔ اس لیے اس بات سے قطعا پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کی تحریر پر لوگوں نے مثبت جواب دیا ہے یا نہیں دیا؟ پسندیدگی کا اظہار کیا ہے یانہیں کیا؟
یہ جو کچھ لکھا گیا وہ محض چند آرا ہیں یہ موضوع انہی آرا میں منحصر نہیں ہے۔ بلکہ اہلِ علم و دانش حضرات اس پر مزید رہنمائی فرما سکتے ہیں۔
*السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*ڈئیر سٹوڈینٹس ہمارا تھری ڈی گرافکس کورس پرسوں سے شروع ہو رہا ہے*
*12 دن کا کورس ہے ود آؤٹ سرٹیفکیٹ 350 اور ود سرٹیفکیٹ 550 فیس ہے*
*اگر آپ کا ارادہ ہے تو آج اپنی ایڈمیشن کنفرم کروالیں جزاک اللہ خیرا کثیرا*
*مزید معلومات کے لیے مجھے انباکس میسج کرلیں
03044065561✨❤️*