پیر محمد کرم شاہ
حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ اور ایک عالم ربانی ہمارے استاذ گرامی قبلہ رضوی صاحب علیہ الرحمۃ
محمد رمضان سیالوی
خطیب جامع مسجد دربار حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ لاہور
فاضل جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور
فاضل جامعہ نعیمیہ
فاضل جامعہ ابو النور دمشق شام
برادر عزیز محمد طاہر عزیز باروی(ناروے) نے آج ایک بہت دلکش تحریر بعنوان’’دین وملت کی ضیاء۔۔۔ پیرمحمد کرم شاہ ‘‘لکھی ،خاص کر رضویت پر اور باہم جوڑنے پر جو ان کے نکات تھے،میں سمجھتا ہوں حسب موقع انہی چیزوں کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کو جوڑنے والوں میں شامل کریں ۔خیر وہ تحریر پڑھی تو مجھے بھی استاذ گرامی اور حضرت ضیاء الامت (علیھما الرحمہ ) سے متعلق ایک بہت اہم بات یاد آئی۔ یہ اہم اور تاریخی بات محفوظ ہوجائے اسی چیز کے پیش نظر اسے لکھ کے آپ کے پیش خدمت کر دی۔
( واضح ہو کہ بے حد مصروفیات کے باوجود میں جن چند حضرات کی تحریرات پورے انہماک سے پڑھتا ہوں ان میں فاضل عزیز حضرت علامہ مفتی محمد طاہر عزیز باروی بھی ہیں ، زاد اللہ شرفہ )
اس تاریخی بات کو تحریر کرنے سے قبل میں یہ عرض کر تا چلوں کہ جامعہ نظامیہ میرا مادر علمی اور دارالعلوم محمد یہ غوثیہ بھیرہ شریف میرے اہل خانہ کے دیگر افراد یعنی میرے بہن بھائیوں کا مادر علمی ہےعزیزم مولانا نصیر احمد ضیاء سیالوی صاحب اور میری خواہر عزیزہ بھیرہ شریف سے باقاعدہ فاضل ہیں ،اسی لیے مذکورہ ہر دو جامعات کے ساتھ اور ان بانیان ادارہ کے ساتھ ہمارا قلبی اور روحانی تعلق ہے،ازیں سبب جانبین کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔الحمد للہ ایک دوسرے کے معاملے میں باہم شیر و شکر
حضرت عثمانِ غنی کا قبولِ اسلام
ہی پایا۔
خیر آمدم برسرمطلب ،
علامہ رضوی صاحب نوراللہ مرقدہ کے پاس 1996 میں صرف کلاس میں پڑھتے تھے اس سال استاذ گرامی نے حج کی سعادت حاصل کی،اس وقت حاجی کیمپ بادشاہی مسجد لاہور میں ہوا کر تاتھا ، ہماری کلاس نے بہت پرتپاک اور بہت شاندار طریقے سے حاجی کیمپ تک رخصت کیا۔ اتفاق یہ کہ جس سال استاذ گرامی حج پر گئے اسی سال دس ذی الحج کو حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ کا وصال ہوا۔
میں اس وقت آبائی گھر (کھیوڑہ) میں تھا، چھوٹے بھائی اور بہن کے مادر علمی کی وجہ سے اور حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ کے ساتھ وابستہ قلبی تعلق کی بنا پر یہ خبر کسی آسمانی بجلی سے کم نہ تھی اسی لیے بعد فجر ہی جنازہ میں شرکت کی سعادت پانے نکل پڑے اور یوں عید کی نماز بھی ادا نہ کر پائے ۔اس دن ہمارے علاقے میں شدید بارش تھی ،موسم بھی خراب تھا لیکن ہم روانہ ہوگئے اس وقت موٹر وے کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا موٹر وے کے غیر معروف سٹاپ سے کچی سڑک سے ہم نے بھیرہ شریف کا سفر ہلکی بوندا باندی اور کیچڑ میں پیدل طے کیا اور نماز جنازہ میں حاضری کی سعادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ، بالکل درست لکھا برادر عزیز جناب طاہر عزیز زیدشرفہ نے میں نے خود استاذ گرامی مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی، اور شرف ملت علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادی نوراللہ مرقدھما کو وہاں دیکھا اور دست بوسی کی سعادت حاصل کی۔
جب استاذ گرامی علیہ الرحمۃ حج سے واپس تشریف لائے تو حسب سابق شاندار استقبال ہوا وہ کلاس میں تشریف فرما ہوئے تو ان کا رعب دبدبہ کلاس تو کجا پورے جامعہ پر ایسا تھا کہ چڑیا پر نہ مارتی۔ مگر اس دن حج سے واپسی کا دن تھا اور طبیعت پر جمال غالب تھا انہوں نے کلاس سے بات کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
’’حضرت پیر کرم شاہ علیہ الرحمہ کے وصال کی خبر مجھے دسویں ذی الحجہ کی رات کو ہی مل گئی تھی مگر میرےدل میں کوئی ایسی خلش موجود تھی جس کے سبب میں نے اس خبر کو قطعا در خور اعتنا نہ جانا بلکہ اس عظیم شخصیت کے وصال کی خبر کی کوئی پروا نہ کی ، فاتحہ نہ ایصال ثواب ، نہ کوئی دعا لیکن رات کو جب میں سویا تو مجھے حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ کی زیارت ہوئی پیر صاحب اس انداز میں میرے سامنے آئے کہ اپنی قمیص کے بازو کے کف لپیٹے ہوئے تھے اور جلال میں بھی نظر آئے اور اپنے ہاتھوں کو کھول کر فرمانے لگے مولانا!! میں نے بڑے اخلاص کے ساتھ حضور کے دین کی خدمت کی ہے۔
ہماری پوری کلاس اس بات کی گواہ ہے استاذ گرامی علیہ الرحمۃ نے بہت واضح انداز میں فرمایا کہ اس خواب کے بعد آنکھ کھلی تو تہجد کاوقت تھا میں سیدھا حرم مکہ میں گیا اور باباجی یعنی حضور ضیاء الامت کے نام پر طواف کیا ان کو ایصال ثواب کیا اور اس کے بعد پورا ایک عمرہ ان کے نام پر کیا۔ ‘‘
اللہ کریم ہمیں اپنے ان مشترکہ اثاثوں کی قدر اور ان اکابرین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جہاں قدرت کسی سے پھیر لیتی ہے نظر اپنی
وہیں انسان کی بے مائیگی معلوم ہوتی ہے
محمد رمضان سیالوی