حضرت عثمان غنی کا قبولِ اسلام

 حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا اسلام قبول کرنا 

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اسلام قبول


کرنے سے قبل ملک عرب میں ایک معتبر شخصیت کہلاتے تھے۔سب سے زیادہ مالدار تھے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر مبارک جب 34 سال کی ہوئی تو خلیفہ فصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپ سے فرمایا عثمان تم نے بہت کچھ دیکھا ہے بڑے بڑے بادشاہوں کے درباروں کے تم نے نظارے کیے ہیں فرمایا آئیے اج تمہیں اللہ کے محبوب کے دربار کا دیدار کراتا ہوں عثمان حضور کی بارگاہ میں تشریف لے گئے جب حضور کی نگاہ عثمان پر پڑی نا تو عثمان کی پیشانی حضور کے سامنے جھک گئی کلمہ پڑھ کر عثمان مسلمان ہوگئے۔جب مکہ کے کافروں کو پتہ چلا کہ عثمان نے تو اسلام کو قبول کر لیا ہے تو کفر کی دنیا میں اگ بھڑک اٹھی ایوان کفر میں زلزلہ اگیا۔جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے چچا کو یہ خبر ملی تواس نے کہا کہ عثمان تو بڑا بے ایمان ہو گیا ہے تو نے اپنے اباواجداد کا مذہب چھوڑ دیا ہے آپ کے چچا حکم بن عاص نے بہت ڈرایا دھمکایا کافی دھمکیاں دی کہا کہ عثمان میں تجھے سخت سے سخت سزا دوں گا۔تمہاری جائیدادیں مال سب کچھ میں ضبط کر لوں گا اور میں ان سب چیزوں پر اپنا قبضہ کر لوں گا بہت ڈرایا اپ نے فرمایا چچا مال و دولت تمہیں مبارک ہو یہ تم لے لو جائیدادیں تمہیں مبارک ہوں فرمایا جن کی نظروں میں جمال مصطفی ا جائے ان کو دنیا کی کسی چیز کی طلب نہیں ہوتی اپ نے پرواہ ہی نہیں کی۔حضور مل جائیں پھر کثر باقی رہ جائے یہ ہو سکتا ہے؟حضور کا دامن ہاتھ میں رہے روٹی نہ ملے فرمایا یہ منظور ہے جس دل میں حضور کی محبت ا جائے دھمکیوں کا اثر کیسے ہو سکتا ہے۔یاد رکھیں کہ اگر بندہ حضور کا غلام بن گیا ہے تو پھر سب کچھ اس کا ہو گیا ہے اگر ایمان کامل نہیں اگر ایمان مکمل نہیں تو قدم قدم پر

 ٹھوکریں ہی ہیں اگر تمہارے ہاتھ میں حضور کا دامن ہے تو دنیا کی تمام طاقتوں کو شکست ہوگی۔چچا اب حضور کی غلامی اگئی ہے اب سب کچھ تمہیں مبارک ہو مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے چچا کو غصہ اگیا اگ بگولا ہو گیا تشدد کرنا شروع کر دیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو مارنا شروع ہو گیا۔چچا کہنے لگا کہ اتنا خوبصورت ہمارا شہزادہ گمراہ ہو گیا ہے اب تو میں اسے نہیں چھوڑوں گا اب میں اسے سزا دوں گا تشدد کر کر کے تنگ و تاریک کوٹھڑی میں حضرت عثمان کو بند کر دیا اور کھانا پینا بھی چچا نے حضرت عثمان کا بند کر دیا حکم بن عاص نے فرمایا کہا اب تو دامن مصطفی چھوڑ دے لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا! فرمایا جان جا سکتی ہے جان تو دے سکتا ہوں لیکن دامن مصطفی کو نہیں چھوڑ سکتا۔حضرت عثمان غنی یہی جملے بار بار وہ اپنی زبان سے دہراتے تھے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے تھے مجھے یہ ساری باتیں منظور ہیں میں ہر بات کو اپ کی مان لوں گا مگر حضور کی غلامی چھوڑنا یہ میرے بس کی بات نہیں یہ مجھے نامنظور ہے۔تو لوگو یاد رکھو اگر اسلام کی شان پوچھنی ہے تو جناب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھو حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھو نتیجہ یہ نکلا اس کا خلاصہ یہ نکلا کہ حکم بن عاص اپنے تمام حربے اپنے تمام تر معاملات استعمال کر کے اپنے مقصد میں پھر بھی ناکام رہا ہے۔ چچا نے اپنی شکست کو دل سے تسلیم کر لیا چچا نے کہا کہ عثمان تیرا جذبہ میرے ظلم پر غالب اگیا ہے جاؤ میں تمہیں ازاد کر کے چھوڑ دیتا ہوں۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ مجسمہ شرم و حیا تھے 

مومنوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپ فرماتی ہیں کہ ایک روز میرے کریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں اس حالت کے اندر لیٹے ہوئے تھے کہ اپ کی ران مبارک یا پنڈلیاں مبارک ننگی تھیں راوی کو شک ہے اگر ران تھی تو ران سے صرف کرتا مبارک ہٹا ہوا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر انے کی اجازت مانگی تو میرے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپ کو اجازت دے دی اور حضور اسی حالت میں رہے تھوڑی دیر گزرنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور سے اندر انے کی اجازت طلب کی تو حضور نے انہیں بھی اندر انے کی اجازت دے دی اور اپ پھر بھی اسی حالت میں رہے پھر جناب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے میرے کریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر انے کی اجازت مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست فرما لیے برنا پنڈلی پر چادر مبارک دے دی جب یہ تینوں حضرات چلے گئے تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا باپ ابوبکر صدیق ایا تو اپ اسی حالت میں رہے حضرت عمر ائے تو اپ اسی حالت میں رہے لیکن جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے تو اپ نے کپڑوں کو درست کر لیا کپڑے ٹھیک کر لیے اور اٹھ کر بھی بیٹھ گئے تو میرے حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کیا میں اس ادمی سے حیانہ کروں جس  سے اللہ کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔اب یہاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شرم و حیا کو واضح کرنا مقصد تھا حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں عثمان غنی بہت ہی شرمیلے ہیں اور مجھے ڈر لگتا تھا کہ اگر میں نے اسے اسی حالت میں اندر انے کی اجازت دے دی تو اپنی حاجت روائی کے لیے حضرت عثمان میرے پاس نہیں ائے گا

Post a Comment

0 Comments