حسن صباح کی مصنوعی جنت قسط 1 انتہائی بہترین تحریر

 حســـن بـن صـــبـاح کی مصنـــوعی جنـــــت

قسط نمبر.1.

تحریر کے بارے میں راے دینے کے لیے کومنٹ کے زریعے آگاہ فرمائیں۔اور گھنٹی کا بٹن دبا دیں تاکہ میری تمام تحاریر آپ سب تک بآسانی پہنچ سکیں

اولاد آدم کی داستان حیات اتنی ہی طویل ہے جتنی لمبی لمبی صدیاں گزر گئیں ہیں۔

انسان اتنے لمبے اور ایسے کٹھن سفر میں اکیلا نہیں تھا ابلیس اس کا ہمسفر رہا آخری منزل تک ہم سفر رہے گا،،،،،، اس کا نتیجہ یہ کہ اولاد آدم کی زندگی کی کہانی سزا و جزا کی داستان بن گئی ہے ،مگر عجوبہ یہ کہ انسان اپنی ہی آپ بیتی پر نگاہ ڈالتا ہے تو محو حیرت ہو جاتا ہے عبرت حاصل نہیں کرتا شرمسار نہیں ہوتا بلکہ خود فریبی سے اپنا دل پر جا لیتا ہے اور اس ابلیس کے آگے سجدہ ریز ہوجاتا ہے جس نے الله کے اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا تھا کہ آدم کے آگے سر بسجود ہو جا۔

کہانی کوئی بھی ہو کسی کی بھی ہو اسی صورت میں دلچسپ سنسنی خیز عبرتناک اور خیال افزا بنتی ہے جب اس کہانی کے کردار الله والے ہوں سوائے ایک دو کے جو ابلیس کے پجاری ہوں، اگر ابلیس الله کا حکم مان لیتا اور آدم کے آگے سجدہ میں گر پڑتا تو بات الله کی عظمت اور بندوں کی بندگی پر اور عابد و معبود تک ہی رہ جاتی۔

الله نے نیک اور پارسا بندوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے ۔

ابلیس نے بندوں کو بدی کے راستے پر ڈال کر انہیں دنیا میں جنت دکھا دی ہے۔

اور یہی ہے وہ ابلیس کی جنت جس نے اولاد آدم کی سوانح حیات میں قوس قزح جیسے رنگ بھرے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ابلیس نے اپنے پجاریوں کے لیے جو جنت بنائی اور اسے بڑی ہی دلنشین رنگ دیئے، وہ کچھ عرصے بعد صرف ایک رنگ میں روپوش ہوگئی،،،، یہ رنگ خون کا تھا۔

شداد عاد حضرت موسی علیہ السلام کے دور کے لگ بھگ ایک ملک کا حکمران تھا، مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ صحیح طور پر وہ کس دور کا بادشاہ تھا، جب بھی تھا جہاں بھی تھا اس میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس حقیقت پر سب متفق ہیں کہ شداد کے مزاج شاہی میں فرعونیت تھی، اس کا طرز حکومت فرعونوں جیسا تھا ،رعایا کو وہ اس کے بندے نہیں سمجھتا تھا جس نے انہیں پیدا کیا تھا بلکہ وہ انہیں اپنا غلام اور اپنی ملکیت سمجھتا تھا ،درندہ صفت بادشاہ تھا۔

مقہور مجبور رعایا نے جب اس کے آگے سجدے کرنے شروع کر دیئے تو اس نے خدائی کا دعوی کردیا ،اور بھوکی ننگی رعایا نے اسے خدا مان لیا، وہ معبود بن گیا۔

وہ خدا ہی کیا جس کے پاس جنت نہ ہو، شداد نے ایک جنت بنائی جو آج تک باغی ارم کے نام سے مشہور ہے، اس میں اس نے جنت کے تمام تر رنگینیاں اور رعنائیاں سمو ڈالیں، اس جنت میں اس نے حوروں کو بھی لا بسایا ،یہ حسین اور نوجوان لڑکیاں تھیں، شراب کے مٹکے رکھوا دیے، اور ابلیسیت کے تمام تر دلنشین دلفریب اور سحر انگیز اہتمام کیے۔

جنت مکمل ہوچکی تو شداد اپنی جنت دیکھنے کے لئے گیا، مگر جنت کے صدر دروازے میں قدم رکھا ہی تھا کہ گر گیا اور مر گیا ۔

خدا کو اپنی جنت میں قدم رکھنا بھی نصیب نہ ہوا۔

روایت ہے کہ الله ،سبحانہ وتعالی نے فرشتہ اجل سے پوچھا کیا کبھی تجھے کسی جسم سے روح نکالتے وقت افسوس بھی ہوا ہے؟ 

ہاں !،،،،،،،اے پروردگار عالم ۔۔۔۔فرشتہ اجل نے جواب دیا۔۔۔۔دو بار، ایک بار ایک جہاز سمندر میں ڈوب گیا تھا مسافروں میں سے صرف ایک ماں زندہ بچ نکلی تھی جس کی گود میں دو تین ماہ عمر کا بچہ تھا ،وہ بچے کو بھی زندہ نکال لائی تھی،،،،،، باری تعالی تو نے حکم دیا کے اس عورت کی روح نکال لاؤ، مجھے بہت دکھ ہوا کہ ماں زندہ نہ رہی تو بچے کا کیا بنے گا، لیکن خدائے بزرگ و برتر موت و حیات تیرے اختیار میں ہے میں نے تیرے حکم کی تعمیل کی۔

اور دوسری بار؟ 

اے پروردگار!،،،،،، عالم فرشتہ اجل نے کہا۔۔۔ شداد ایک بادشاہ تھا اس نے بڑی محنت سے جنت بنائی تھی اس پر خزانے لٹا دئیے تھے اس کی تکمیل میں اس کی عمر کا ایک حصہ گزر گیا تھا، اس نے اپنی جنت کی تعمیر اس وقت شروع کی تھی جب جوان تھا، تکمیل اس وقت ہوئی جب جوانی گزر گئی تھی، وہ اپنی جنت کو دیکھنے گیا تو تیرا حکم ہوا کہ یہ شخص اپنی بنائی ہوئی جنت میں داخل ہونے لگے تو اس کی روح نکال لاؤ،،،،،، 

میں نے تیرے حکم کی تعمیل کی، اپنا فرض ادا کیا، لیکن میرا دل رنج و ملال میں مبتلا ہو گیا کہ یہ شخص اپنی بنائی ہوئی جنت میں قدم بھی نہ رکھ سکا کہ اس کا بے روح جسم جنت کے دروازے میں گر پڑا ،لیکن اے خالق کائنات !،،،میں چوں و چرا نہیں کرسکتا۔

جانتے ہو یہ شداد کون تھا؟،،،،، باری تعالی نے پوچھا اور خود ہی جواب دیا ۔۔۔یہ وہی بچہ تھا جسے ماں سمندر میں سے زندہ نکال لائی تھی، اور میں نے تجھے کہا تھا کہ اس کی ماں کی روح نکال لاؤ۔

*یا حی و یا قیوم یا ممیت*  فرشتہ اجل نے رکوع میں جاکر کہا۔۔۔ بے شک تو ہمیشہ زندہ رہنے والا، زندگی اور موت دینے والا ہے۔

پھر تاریخ میں ایک اور جنت کا ذکر ملتا ہے، جو شداد کے باغ ارم جیسی پرانی بات نہیں بلکہ کل کی بات لگتی ہے، پانچویں صدی ہجری کو تاریخ پرانی بات نہیں کہتی، تاریخ میں سال لمحوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

یہ ابلیس کے حکم سے بنائی ہوئی دوسری ارضی جنت تھی جس کا خالق حسن بن صباح تھا ،اس نے خدائی کا دعویٰ تو نہیں کیا لیکن بلا خوف و تردید یہ دعویٰ کرتا تھا کہ خداوند تعالی اس پر وحی نازل کرتا ہے اور براہ راست احکام دیتا ہے۔

اس کے بنائے ہوئے فرقے کے پیروکار آج بھی موجود ہیں، حسن بن صباح نے ابلیس کی حکومت قائم کر دی تھی، اس نے جو فرقہ بنایا تھا وہ انتہائی خوفناک سازشیں، زعماء کے قتل اور بے حد شرمناک اور ہولناک گناہوں کی وجہ سے مشہور ہوا ،اس فرقے کی بنیاد بدی پر رکھی گئی تھی۔

جتنی بھیانک ورادتیں حسن بن صباح نے کروائیں وہ سن کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، حسین اور نوجوان لڑکیوں کا جو استعمال حسن بن صباح نے کیا وہ اس سے پہلے یا بعد کے ادوار میں کبھی نہیں ہوا ،اور اولاد آدم اور ابلیس کی جو پراسرار سنسنی خیز اور فکر انگیز کہانیاں اس دور میں ملتی ہے وہ کسی اور دور میں نہیں ملتی۔

بھنگ جسے حشیش کہتے ہیں اس فرقے کی روحانی غذا تھی، اس فرقے کی کامیابی کا راز بھنگ میں تھا ،حسن بن صباح کی جنت میں دو ہی تو چیزیں تھیں جو انسان کو ابلیس کا چیلا نہیں بلکہ مکمل ابلیس بنا دیتی تھی ۔

یہ چیزیں تھیں حشیش اور حوریں، اس جنت میں حیران کن حد تک خوبصورت اور نوخیز لڑکیاں رکھی جاتی تھیں، مؤرخ لکھتے ہیں کہ حوریں ان سے زیادہ کیا خوبصورت ہوں گی۔

نشہ شراب کا ہو خواہ حشیش کا،  یا چرس کا ہو خواہ ہیروئن کا، الله تبارک و تعالی نے اسے ام الخبائث کہا ہے، اس میں نسوانی حسن اور جنت کا نشہ شامل ہوجائے تو انسان خود خبائث کا چلتا پھرتا مجسمہ بن جاتا ہے۔

اولاد آدم جب راہ حیات کے اس موڑ پر آئے جہاں حسن بن صباح نے جنت بنائی تھی تو اسے ابلیس کے قہقہے سنائی دینے لگے ، یہاں سے ایسے قصوں اور کہانیوں نے جنم لیا جو آج بھی سنو تو دل پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے ،کبھی شک ہوتا ہے کہ یہ واقعہ صداقت پیمانے پر پورے نہیں اترتے، لیکن یہ چھوٹی سے چھوٹی تفصیل تک سچے ہیں۔

اعمال صالحہ کہانی نہیں بنا کرتے، کہانی اعمال بد کی کوکھ سے جنم لیا کرتے ہیں ۔ 

یہ کوئی کہانی نہیں ہوتی کہ انسان نے ایک پیاسے کو پانی پلایا ، کہانی اس سے بنتی ہے کہ ایک انسان نے ایک انسان کا خون پی لیا۔

پانی کا پیاسا کسی کہانی کا کردار نہیں بنا کرتا ،کہانی اس انسان سے بنتی ہے جو انسان کے خون کا پیاسا ہو۔

آج آپ کے لئے اس دور کی داستانیں لے کر آیا ہے جو سلجوقیوں کا دور حکومت تھا ،خلافت بغداد کی چولیں ڈھیلی ہو گئی تھیں، اسلام کا پرچم یوں پھڑپھڑا رہا تھا جیسے شمع بجھنے سے پہلے ٹمٹمایا کرتی ہے۔

طوائف الملوکی اسلام کے تار او پود بکھیر رہی تھی، اہل صلیب پرچم ستارہ و ہلال کو ہمیشہ کے لیے گرا دینے کو طوفان کی طرح بڑھے آرہے تھے۔

الله نے اپنے دین کو ہر دور میں سنبھالا اور سہارا دینے کا سبب پیدا کیا ،اس پرآشوب دور میں جب خلفاء ہوس اقتدار کے دیوانے ہو کر اپنے فرائض کو بھلا بیٹھے تھے اور مسلمانوں کی عسکری قوت خلفاء کی عدم توجہی اور شاہانہ طرز بودوباش کی وجہ سے کمزور ہوتی چلی جا رہی تھی، الله نے سلجوقیوں کو بھیجا، ان ترک جنگجوؤں نے آکر اسلام کے گرتے ہوئے پرچم کو تھاما ،دین کی بنیادیں مستحکم کی، طوائف الملوکی کا خاتمہ کیا۔ فوج میں عسکری روح پیدا کی ،اور اہل صلیب کے لشکروں کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کھڑی کر دی۔

اس دور میں فرقہ باطنیہ نے سر اٹھایا اور حسن بن صباح ابلیس کے روپ میں سامنے آیا اور جسد اسلام کا ناسور بن گیا ۔

حسن بن صباح آیا کہاں سے تھا؟ 

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*

تھوڑا سا ذکر سلجوقیوں کا بھی ہو جائے تاکہ بات سمجھنے میں آسان رہے۔

 ان کا دور حکومت اسلام کے عروج اور عظمت و اقبال کا زمانہ تھا ،سلجوقی ایک غیر مسلم جنگجو سلجوق بن یکاک نسل سے تھے، جو ترکستان کے خان اعظم کے یہاں ملازم تھا، یہ لوگ فطرتاً جنگجو تھے۔

الله نے اس غیر مسلم خاندان کو اسلام کی بقا سلطنت اسلامیہ کی سلامتی اور توسیع اور دین کی فروغ کی سعادت عطا کرنی تھی، اس کا سبب یوں بنا کے سلجوق بن یکاک نے خان ترکستان کی ملازمت چھوڑ دی اور اپنے خاندان کے ساتھ بخارا چلا گیا ،اس کا قبیلہ بھی اس کے ساتھ ہی ہجرت کر گیا ،کیونکہ اس میں کچھ ایسے اوصاف تھے کہ قبیلہ اسے اپنا پیر و مرشد مانتا تھا۔

سلجوق اپنے اوصاف اور صلاحیتوں کو کسی بہتر اور عظیم مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا، وہ یقیناً  کسی ایسے عقیدے اور ایسے مذہب کی تلاش میں تھا جو فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہو، بخارا میں وہ اسلام سے متعارف ہوا تو اس نے بلا پس و پیش اسلام قبول کرلیا اور اپنے خاندان اور قبیلے کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرا کے کہا کہ وہ سب مسلمان ہو جائیں، وہ تو حکم کے منتظر تھے پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔

یہ ایک معجزہ تھا *کن فیکون* کا مظاہرہ تھا، آل سلجوق تو ترکستان میں وحشی جنگلی اور تہذیب و تمدن سے بے بہرا مشہور تھے، جنگجو ایسے کے ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا، لیکن الله نے انھیں سے اپنے دین کا تحفظ کرانا تھا، سلجوق صرف مسلمان ہی نہ ہوئے بلکہ اسلام کو سربلند کرنے کی ذمہ داری بھی اپنے سر لے لی۔

یہ ایک اور داستان ہے کہ سلجوقیوں نے سلطنت اسلام کی عنان کس طرح اپنے ہاتھ میں لی ، مختصر یہ کہ غیر مہذب اور آوارہ گرد ترک تہذیب اور شائستگی کے پیکر بن گئے ،تعلیم سے بے بہرہ سلجوقیوں نے عالموں اور فاضلوں کو دربار میں اکٹھا کرکے ان کی پذیرائی کی، ان کی خانہ بدوش ذہنیت مدنیت کے رنگ میں رنگی گی۔

یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ دین اسلام کا نور توحید اور رسالت کا محافظ و ناصر خود الله تبارک وتعالی ہے، اس کی ذات باری نے جس طرح عرب کے بُریا نشینوں ،صحرانوردوں، گناہوں اور جاہلیت میں ڈوبے ہوئے بندوں کو اپنے دین سے نوازا تھا، اسی طرح پسماندہ ترکوں کو اعزاز بخشا کہ انہیں عسکری قوت اور کردار کی عظمت عطا کی، اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایران، عراق، شام، الجزیرہ ،اور ایشیائے کوچک پر چھا گئے، ان کے سامنے جو بھی اسلام دشمن طاقت آئی اسے کچل اور مسل کر ختم کردیا۔

بنیادی تبدیلی تو یہ آئی کہ خلافت عباسیہ کے کردار کی کمزوریوں نے سلطنت میں جو طوائف الملوکی پیدا کر دی تھی اس کا قلع قمع ہو گیا،سلجوقیوں نے اس کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ ایک بادشاہی قائم کردی، اور افغانستان سے بحیرہ روم تک کا علاقہ ایک سلطنت بن گیا ،اور یہ سلطنت اسلامیہ تھی، 

بادشاہت کا نظام حکومت اسلامی کے منافی ہے لیکن سلجوقیوں نے سلطنت کو ایک مرکز کی تحت لانے کے لئے بادشاہت کا نظام اپنایا تھا، اس کے نتیجے میں یہ فائدہ حاصل ہوا کہ سلطنت میں جو انتشار اور عدم اتحاد پیدا ہو گیا تھا وہ یکجہتی اور قومی اتحاد میں بدل گیا۔

پھر ان سلجوقیوں نے یورپ کے اہل صلیب کی یلغار کو یوں قہر و غضب سے روکا کے انہیں بار بار حملہ کرنے کے قابل نہ چھوڑا۔

سلجوق بن یکاک کی حکومت اس کے پوتوں طغرل بیگ سلجوقی، اور چغرا بیگ سلجوقی تک پہنچی، بادشاہوں کے خاندانوں میں یہ روایت لازمی طور پر چلتی رہی کہ سگے بھائی تخت نشین پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے تھے، اگر کوئی بہن ہوتی تو وہ الگ سازشیں کرتی تھی ، محلاتی سازشیں شاہی خاندانوں میں لازمی سمجھی جاتی تھی، لیکن سلاطین آل سلجوق آپس میں عناد رکھنے کو گناہ سمجھتے تھے۔

طغرل بیگ اور چغرا بیگ سگے بھائی تھے، تاریخ بتاتی ہے کہ ان کا آپس میں پیار تھا کہ تخت کا وارث بڑا بھائی تھا، لیکن بڑے نے چھوٹے بھائی کو اقتدار میں اپنے ساتھ رکھا اور دو دارالسلطنت بنا دیے، چغرا بیگ کے لئے ترکستان کا مَرو، اور خراسان کا شہر نیشاپور جو طغرل بیگ کا دارالسلطنت تھا ،اس طرح بھائیوں میں پیار اور اتحاد بھی قائم رہا اور سلطنت چونکہ وسیع تھی اس لئے دو دارالسلطنت بننے سے انتظام پہلے سے بہتر ہو گیا۔

آل سلجوق نے خلیفہ کو نہ چھوڑا اور اسے کچھ علاقہ دے کر اس کی حیثیت برقرار رکھی تھی۔

 یہاں ایک واقعے کا ذکر بے محل نہ ہوگا اس وقت خلیفہ قائم بامرالله تھا ، ہجری 450 کا ذکر ہے کہ بساسیری نام کے ایک غیر مسلم نے خلیفہ قائم کو کمزور اور تہنا سمجھ کر بغداد پر حملہ کردیا اور خلیفہ کو قید میں ڈال دیا۔

طغرل بیگ کو اطلاع ملی تو اس نے بساسیری پر حملہ کردیا اور اسے بہت بری شکست دے کر اسے گرفتار کر لایا ،حکم دیا کے اس کا سر کاٹ کر میرے حوالے کیا جائے، تھوڑی ہی دیر میں سر اس کے سامنے پڑا تھا، طغرل بیگ نے سر اٹھا لیا اور خلیفہ کے گھر کی طرف چل پڑا ،خلیفہ کو بساسیری کی قید سے رہا کرالیا گیا تھا ،۔

 طغرل بیگ نے بساسیری کا سر خلیفہ کے قدموں میں رکھ دیا۔

طغرل !،،،،،،خلیفہ قائم بامرالله نے کہا۔۔۔ کیا تم چار سال انتظار کر سکتے ہو ؟

کیسا انتظار ؟،،،،،طغرل بیگ نے پوچھا۔

میں اس احسان کا تمہیں صلہ دینا چاہتا ہوں جو تم نے مجھ پر کیا ہے۔۔۔ خلیفہ قائم نے کہا۔ پہلی بات یہ ہے محترم خلیفہ!،،،،، طغرل بیگ نے کہا ۔۔۔۔کہ میں نے آپ پر احسان نہیں کیا فرض ادا کیا ہے، دوسری بات یہ کہ میں چار سال انتظار کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔

میری ایک ہی بیٹی ہے۔۔۔ خلیفہ نے کہا ۔۔۔ابھی کمسن  ہے، بارہ تیرہ سال عمر ہے، چار سال بعد جوان ہو جائے گی تو اس کی شادی تمہارے ساتھ کروں گا، یہ ایسا انعام ہے یا تحفہ ہے جو میں کسی غیر عباسی کو نہیں دے سکتا، ہم اپنی لڑکیاں عباسیوں میں ہی بیہاتے  ہیں، تم سلجوقی ہو لیکن تمہارے احسان کا صلہ اس سے کم نہیں دوں گا ،میں نے اپنی بیٹی تمہیں دے دی ،چار سال بعد شادی ہو جائے گی، چار سال بعد خلیفہ نے اپنی بیٹی کی شادی طغرل بیگ سے کردی۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

بادشاہوں کے ہاں رواج یہ رہا ہے کہ انھیں وزیروں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، لیکن رسمی طور پر وہ ایک وزیراعظم اور برائے نام دو تین وزیر رکھ لیتے تھے، حکم تو  بادشاہ کا چلتا تھا، وزیر تائید اور خوشامد کرتے تھے، ان کے مشیر بھی حاشیہ بردار اور جی حضوری ہوتے تھے، بادشاہ ان سے رسماً کسی کام یا کسی مسئلے کا مشورہ لیتا تو وہ بادشاہ کی مرضی اور مزاج کے مطابق مشورہ دیا کرتے تھے، لیکن سلجوقیوں کے یہاں یہ رواج نہیں تھا۔

سلاطین آل سلجوق علم و فضل کے قدر دان تھے، ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ بادشاہوں جیسے دربار نہیں لگاتے تھے، اس لیے وہ خوشامدیوں اور درباریوں کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے، ان کے فیصلے دو ٹوک اور اٹل ہوتے تھے۔

چغرا بیگ اور طغرل بیگ کا دور حکومت تھا جنہوں نے دو دارالسلطنت بنا لیے تھے، چغرا بیگ مَرو میں تھا، ایک روز ایک جواں سال آدمی اس کی ملاقات کے لئے آیا، اس شخص کا لباس بتا رہا تھا کہ وہ معمولی سا کوئی سوالی نہیں، وہ کوئی عالم یا کسی اونچے درجے کے خاندان کا فرد لگتا تھا۔

سلطان کو کیا بتاؤں آپ کو نہیں؟،،،، دربان نے پوچھا ۔۔۔اور غرض ملاقات کیا ہے؟ 

میرا نام خواجہ حسن طوسی ہے۔۔۔ ملاقاتی نے بتایا۔۔۔ نیشا پور سے آیا ہوں، نیشاپور کے امام موافق کا شاگرد ہوں، ان کے مدرسے سے فارغ التحصیل ہو کر آیا ہوں، فقیہ اور محدث ہوں، غرض ملاقات سلطان کو بتاؤں گا۔

دربان کے لئے حکم تھا کہ کوئی عالم ملاقات کے لیے آ جائے تو اسے روکا نہ جائے ،چنانچہ دربان نے اندر جاکر سلطان چغرا بیگ کو اطلاع دی۔

کیا وہ فقیہ اور محدث لگتا ہے؟،،،، سلطان نے پوچھا ۔

ہاں سلطان محترم !،،،،دربان نے جواب دیا ۔۔۔زبان شائستہ اور لباس عالمانہ ہے ،چہرے سے مہذب لگتا ہے۔

تو اسے اتنی دیر باہر کھڑا رکھنا خلاف تہذیب ہے ۔۔۔سلطان نے کہا ۔۔۔اسے فوراً اندر بھیج دو۔

 چند لمحوں بعد خواجہ حسن طوسی سلطان چغرا بیگ کے سامنے کھڑا تھا ،سلطان نے اسے احترام سے بٹھایا ۔

اے نوجوان !،،،،،سلطان نے پوچھا۔۔۔ میں کیسے مان لوں کے تو امام موافق کا شاگرد ہے، ہم جانتے ہیں امام موافق کی شاگردی کتنا بڑا اعزاز ہے۔

میرے پاس سند ہے ۔۔۔خواجہ طوسی نے سند سلطان کے حوالے کرتے ہوئے کہا ۔۔۔میں نے فقہ اور حدیث کی اور دیگر دینی امور کی تعلیم پائی ہے۔

 کیا تو فارغ التحصیل ہو گیا ہے؟،،،، سلطان نے پوچھا۔

 نہیں سلطان عالی مقام !،،،،،،خواجہ طوسی نے جواب دیا۔۔۔ میں مدرسے سے فارغ ہوا ہوں تحصیل علم سے نہیں، علم ایک سمندر ہے موتی اسی کے ہاتھ آتا ہے جو اس سمندر میں غوطہ زن ہوکر تہہ سے سیپی اٹھا لانے کا عزم رکھتا ہے۔

سلطان چغرا بیگ کچھ متاثر ہوا ۔

ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ  تو کتنا کچھ دانشمند ہے ۔۔۔سلطان نے کہا ۔۔۔کتابیں علم دے سکتی ہے عقل نہیں، تو اپنے آپ کو کتنا دانشمند سمجھتا ہے؟ 

سلطان محترم!،،،،،، خواجہ حسن طوسی نے کہا ۔۔۔انسان اتنا ہی احمق ہے جتنا وہ اپنے آپ کو دانشمند سمجھتا ہے، اور انسان اتنا ہی چھوٹا ہے جتنا وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے، یہ فیصلے دوسرے کیا کرتے ہیں کہ فلاں احمق اور فلاں دانشمند ہے۔

ایک بات بتا طوسی !،،،،،سلطان نے پوچھا۔۔۔ حکمران میں کیا صفات اور کیسے اوصاف ہونے چاہیے کہ وہ رعایا میں ہر دل عزیز ہو ،اور مرنے کے بعد بھی لوگ اسے اچھے الفاظ سے یاد کریں۔

وہ اپنے دین اور سلطنت کے لئے آگ کا طوفان ہو۔۔۔۔خواجہ حسن طوسی نے جواب دیا ۔۔۔رعایا کے لئے پانی ہو ،زمین کی طرح فیاض اور آسمان کی طرح مرئی ہو، عقاب کی مانند تیز نگاہ، کوے کی طرح محتاط، اور کوئل کی طرح خوش گلو ہو ،شیر کی طرح بے خوف اور چاند ستاروں کے مانند راست گو ہو، یوں نہیں کہ آج ادھر کل ادھر بھٹکتا پھرے۔

کیا یہ صفات ہم میں ہے؟۔۔۔ سلطان نے پوچھا۔

اگر میں نے کہا ہاں تو یہ خوشامد ہوگی۔۔۔ خواجہ طوسی نے کہا۔۔۔ خوشامد منافقت ہے، میں منافق نہیں بننا چاہتا، اگر میں نے کہا سلطان میں کچھ صفات کی کمی ہے، تو میں معتوب ہونگا ،مجھ میں تابِ عتاب نہیں۔

اے نوجوان !،،،،،سلطان نے کہا ۔۔۔تیری صاف گوئی قابل داد ہے، لیکن ایک بات بتا،،،، اگر ان صفات اور اوصاف میں سے ایک یا دو ہم میں نہ ہو تو کیا فرق پڑتا ہے؟

سلطان عالی مقام !،،،،خواجہ حسن طوسی نے کہا ۔۔۔تسبیح میں ایک سو دانے اور گرہ صرف ایک ہوتی ہے، اگر یہ ایک گرہ کھل جائے تو تمام دانے بکھر جاتے ہیں، ہو سکتا ہے آپ کی اور وہ وصف کمزور ہو جو گرہ کی حیثیت رکھتا ہے، تو گرہ کسی بھی وقت صفات و اوصاف کے دانے بکھیر دے گی۔

خواجہ حسن طوسی !،،،،سلطان چغرا بیگ نے پرجوش لہجے میں کہا ۔۔۔ہم نے تجھے مشیر مقرر کیا، اگر تو نے راست گوئی اور صداقت پسندی کو قائم رکھا تو یہ ہماری پیشن گوئی ہے کہ ایک روز تو اس سلطنت کا وزیراعظم ہوگا۔

بیس بائیس سال بعد سلطان چغرا بیگ کی پیشن گوئی پوری ہوگئی، خواجہ حسن طوسی وزیراعظم بن گیا، اس وقت کا سلطان چغرا بیگ کا پوتا سلطان ملک شاہ حکمران تھا، مَرو یعنی دوسرے دارالسلطنت میں سلطان الپ ارسلان تھا ،خواجہ طوسی سلطان الپ ارسلان کا وزیر اعظم تھا۔

خواجہ حسن طوسی تاریخ اسلام کی مشہور و معروف شخصیت ہے، اسے سلجوقی سلطانوں نے نظام الملک کا خطاب دیا تھا ،تاریخوں میں اسے خواجہ حسن طوسی کم ،نظام الملک زیادہ لکھا گیا ہے، اس لئے وہ اسی نام سے جانا پہچانا جاتا ہے، وہ دینی امور کا اور فقہ و حدیث کا عالم تھا۔

نظام الملک نے بغداد میں مدرسہ نظامیہ بنایا تھا ۔سلطان صلاح الدین ایوبی اور اس کے ساتھ ہی بہاؤالدین شداد کو جو اس وقت کا مشہور تاریخ دان تھا اسی مدرسے میں اکٹھے پڑھے تھے۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

ایک روز نظام الملک طوسی اپنے کام کاج میں مصروف تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ نیشا پور سے ایک شخص اسے ملنے آیا ہے اور اپنا نام عمر خیام بتاتا ہے، نظام الملک نے ذہن پر زور دیا یہ نام اسے کچھ مانوس لگا اور ایک شک کی بنا پر کہا کہ اسے اندر بھیج دو۔

عمر خیام اندر آیا، نظام الملک نے اسے دیکھا تو اچھل کر اٹھا اس نے عمر خیام کو پہچان لیا تھا ،دونوں اس طرح بغلگیر ہو کر ملے جیسے لمبی مدت کے بچھڑے ہوئے دوست ملا کرتے ہیں۔

وہ تھے ہی پرانے اور بچھڑے ہوئے دوست، امام موافق کے مدرسے میں ہم جماعت تھے،اس مدرسے کے متعلق تاریخوں میں لکھا ہے کہ طلباء کم ہوا کرتے تھے اور جو بھی طالب علم امام موافق کی شاگردی سے فارغ ہوتا تھا وہ حکومت یا معاشرے میں اونچے درجے پر فائز ہوجاتا تھا، اس کی ایک مثال خواجہ حسن طوسی کی تھی جو سلطنت سلجوقی کا وزیر اعظم بنا ،نظام الملک کا خطاب پایا اور تاریخ میں آج تک اس کا نام زندہ ہے اور تاابد زندہ رہے گا۔

پھر ایک اور مثال عمر خیام کی ہے، عمر خیام کی رباعی آج بھی مشہور ہیں، اردو میں بھی ان رباعیوں کا ترجمہ ہوا ہے اور انگریزی میں بھی ،اس طرح عمر خیام اردو اور انگریزی ادب کا ایک مقبول شاعر بن گیا ہے۔

عمر خیام کوئی عام قسم کا شاعر نہ تھا ،وہ فلسفی شاعر تھا اس کی رباعیوں میں نسوانی حسن کی رعنائیاں تو بہت ہیں لیکن ان رباعیوں میں زندگی کا فلسفہ اور دانش ہوتی تھیں، اس کی رباعیاں خیال کی گہرائیوں کی بدولت آج بھی زندہ ہیں۔

یہی نہیں عمر خیام حکیم بھی تھا ،اس نے حکمت  ہی نہیں کی تھی بلکہ بعض لاعلاج امراض کی دوائیاں بھی ایجاد کی تھیں، ایک روایت یہ بھی ہے کہ عمر خیام نے آب حیات بھی تیار کر لیا تھا جو ہر مرض کی دوا اور لامحدود عمر کا ضامن تھا، لیکن یہ محض روایت ہے کسی بھی مؤرخ نے آب حیات کا ذکر نہیں کیا۔

یہ تھا عمر خیام جو اپنے پرانے ہم جماعت خواجہ حسن طوسی نظام الملک سے ملنے آیا تھا، یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ عمر خیام کسی امیر باپ کا بیٹا نہیں تھا ،اس کا باپ جس کا نام عثمان تھا موٹے کھدر کا کپڑا بنتا تھا ،یہ اس کا خاندانی پیشہ تھا ،اس کے بعد اس نے خیموں کی سلائی کا کام شروع کردیا تھا اسی وجہ سے وہ خیام کہلانے لگا ،عثمان خیام اس کے بیٹے عمر نے جب دیکھا کہ وہ شعر موزوں کرسکتا ہے تو اس نے باپ کے پیشے کی مناسبت سے اپنا تخلص خیام رکھ لیا، یہ تخلص اس کے نام کا حصہ بن گیا اور عمر خیام کے نام سے مشہور ہوا۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

کہو عمر !،،،،،نظام الملک نے پرمسرت لہجے میں کہا۔۔۔ اتنا عرصہ کہاں رہے، آج تم نے لڑکپن یاد دلا دیا ہے۔

پہلی بات یہ ہے خواجہ!،،،،،، عمر خیام نے کہا۔۔۔ میں اب عمر نہیں عمر خیام ہوں،شعر و شاعری میں مقام پیدا کر لیا ہے، حکمت میں قسمت آزمائی کر رہا ہوں ،علم و ادب کی کتابیں بھی پڑھ رہا ہوں اور حکمت کی بھی، لیکن ذریعہ معاش کوئی نہیں، باپ خیمہ بافی کرتا ہے میں نے اس پیشے کو اپنانے کی کوشش کی تھی لیکن میرے ذہنی روجحان نے اسے قبول نہیں کیا ،میری صلاحیتیں مجھے کسی اور طرف لے جارہی تھی، باپ کو بھی میں نے ناراض کردیا کہ میں روٹی کمانے کے لیے اس کا ساتھ نہیں دیتا۔

تمہیں کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش تو تلاش کرنا ہی ہوگا ۔۔۔نظام الملک نے کہا۔۔۔ بغیر کام کے زندگی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔

 میں تمہیں ایک عہد نامہ یاد دلانے آیا ہوں خواجہ!،،،،، عمر خیام نے کہا۔۔۔ عہد نامہ ہم نے لڑکپن میں کیا تھا ۔

عہد نامہ؟،،،،،، نظام الملک نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا۔۔۔بائیس تئیس سال گزر گئے ہیں، عمر ذرا سا اشارہ دے دو۔

نظام الملک اور عمر خیام کا ایک ہم جماعت اور بھی تھا، اس نے تو تاریخ میں ایسا نام پایا ہے کہ اسے تاقیامت بھلایا نہیں جا سکے گا ،یہ تھا جنت ارضی کا خالق حسن بن صباح، ان کے ہم جماعت تو اور بھی تھے، لیکن نظام الملک، عمر خیام، اور حسن بن صباح کی آپس میں دوستی اتنی گہری ہوگئی تھی کہ وہ ایک ہی کمرے میں رہتے اور جدھر ایک نے جانا ہوتا تو اُدھر تینوں جاتے تھے۔

ایک روز حسن بن صباح نے ایک عہد نامہ پیش کیا ،اور تینوں دوستوں نے آپس میں یہ عہد کیا، یہ ان کا ایک تاریخی عہد نامہ ہے جس کا ذکر تقریباً ہر مؤرخ نے کیا ہے، اتنی مدت بعد عمر خیام نظام الملک سے ملا تو نظام الملک عہد نامہ بھول چکا تھا۔

مدرسہ کی ایک رات یاد کرو خواجہ!،،،،، عمر خیام نے نظام الملک کو عہد نامہ یاد دلانے کے لئے کہا۔۔۔ ہم تینوں دوست اس روز کا پڑھا ہوا سبق دہرا کر فارغ ہوئے تو حسن بن صباح نے کہا کہ اس مدرسے کی یہ روایت ہے کہ جو یہاں سے پڑھ کر نکلا اور جسے امام موافق نے ذہین اور لائق کہا وہ کسی نہ کسی اونچے رتبے پر پہنچا،،،،، پھر حسن بن صباح نے کہا تھا کہ ضروری نہیں کہ ہم تینوں اونچے رتبے پر پہنچیں گے، ہو سکتا ہے ہم تینوں میں سے کوئی ایک کسی بلند مرتبے تک جا پہنچے اور باقی دو بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کما سکیں،،،،،،، 

پھر حسن بن صباح نے کہا تھا کہ آؤ آپس میں عہد کریں کہ ہم میں سے جو بھی کسی اونچے منصب یا رتبے پر پہنچا تو دونوں دوستوں کی مالی معاونت کرے گا ،اور انہیں اپنی خوش بختی میں برابر کا شریک بنائے گا، یا ان کے ذریعہ معاش کا بندوبست کرے گا، اور طوطا چشمی اور خود غرضی سے گریز کرے گا، ہم تینوں نے پوری سنجیدگی اور سچے دل سے عہد و پیمان کئے تھے کہ ایسا ہی ہوگا۔

ہاں عمر !،،،،نظام الملک نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔مجھے یاد آ گیا ہے ،جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے سب سے زیادہ پرجوش طریقے سے عہد کیا تھا کہ مجھے الله نے کوئی بڑا رتبہ دے دیا اور میرے دونوں دوستوں کو میری ضرورت محسوس ہوئی تو میں ان کی مالی اور ہر طرح کی معاونت کروں گا۔

تو پھر خواجہ !،،،،،عمر خیام نے کہا ۔۔۔میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ اتنا عرصہ میرا کوئی ذریعہ معاش نہیں بنا۔

میں اس کا کچھ بندوبست کر دوں گا۔۔۔ نظام الملک نے کہا ۔۔۔تم صاحب علم و فضل ہو، فلسفہ ،شاعری، اور حکمت میں دسترس رکھتے ہو، میں سلطان سے کہوں گا کہ تم سلطنت کے لیے معتمد اور سود مند ثابت ہو سکتے ہو ،اور میں سلطان سے یوں کہوں گا کہ تمہیں میرے ساتھ ملازمت دے دی جائے، اور تمہیں میرا معاون بنا دیا جائے، یہ سلاطین مجھے اچھا چاہتے ہیں ،اور مجھ سے بہت ہی متاثر ہیں۔

میں تمہارے کردار کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔۔۔ عمر خیام نے کہا ۔۔۔لیکن خواجہ تم تو مجھے اعلیٰ منصب پر اپنے ساتھ بٹھانا چاہتے ہو، لیکن میں اس منصب کے قابل نہیں، میں ساری عمر تمہارا مشکور و ممنون رہوں گا۔

نہیں عمر!،،،،، نظام الملک نے کہا ۔۔۔میرا خیال ہے کہ ذریعہ معاش کے بغیر تم نے جو اتنا عرصہ گزارا ہے اس کے زیر اثر تمہیں اپنے آپ پر اعتماد نہیں رہا، میں تمہارا اعتماد بحال کرنا چاہتا ہوں، اور مجھے پوری امید ہے کہ سلطان محترم میرے کہنے پر تمہیں اچھے منصب پر قبول کرلیں گے۔

نہیں خواجہ یہ بات نہیں ۔۔۔عمر خیام نے کہا۔۔۔ میں کام کرنے سے نہیں گھبراتا، اور بے روزگاری نے مجھ پر کوئی نقصان دہ اثر نہیں چھوڑا ،میری صلاحیتیں جس طرف چل نکلی ہیں میں چاہتا ہوں کہ میں اسی راستے کی منزل تک پہنچ جاؤں، میں اپنی تحریریں اشعار اور حکمت کے نسخے جو میں نے دریافت کیے ہیں اپنے ساتھ لایا ہوں، میں علم و ادب اور حکمت میں مزید تحقیقات کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، ایک نظر انہیں دیکھ لو، میرے پاس کوئی پیسہ نہیں جس سے میں اپنے اس تحقیقی مسلک کو آگے بڑھاؤں، اگر میں نے ملازمت قبول کرلی تو اس سے صرف یہ حاصل ہوگا کہ میں اور میرے اہل و عیال باعزت روٹی کھا لیں گے، اور مجھے عزت حاصل ہو جائے گی۔

میری اس بات پر غور کرو خواجہ!،،،،،، میں صرف اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے روٹی نہیں چاہتا ،میں بنی نوع انسان کے لئے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، میں نے نایاب اور انتہائی کارآمد جڑی بوٹیاں تلاش کرنی ہے، اور کچھ قیمتی سامان بھی درکار ہے، اس کے ساتھ ساتھ میرے پاس اتنی رقم ہونی چاہیے جس سے میں گھر والوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرسکوں۔

نظام الملک نے اس کے کاغذات کا پلندہ دیکھا تب اسے اندازہ ہوا کہ یہ شخص علم و ادب کے لیے اور حکمت کے لیے کتنا بڑا کام کر رہا ہے، اور اگر اسے مالی معاونت مل جائے تو بنی نوع انسان کے لئے اس کی یہ کاوش بہت ہی سود مند ثابت ہو گی، چنانچہ اس نے عمر خیام کو اپنے ہاں مہمان رکھا ،اور اس کا یہ تحقیقی کام سلطان الپ ارسلان کو دکھایا، اور اسے اس تحقیق کی افادیت اور اہمیت بتائی۔

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ سلاطین سلجوق علم و فضل اور عمر خیام جیسے تحقیقی کام کرنے والوں کی بہت قدر کرتے تھے، سلطان نے عمر خیام کے لیے بارہ سو مثقال سونا سالانہ وظیفہ مقرر کردیا ،آج کی رقم کے حساب سے بارہ سو مثقال پینتیس ہزار روپے کے برابر تھے، عمر خیام پہلا وظیفہ وصول کرکے نیشاپور چلا گیا۔

عمر خیام کو اتنی زیادہ مالی سہولت حاصل ہوگئی تو وہ علم و حکمت کے تحقیقی کاموں میں مصروف ہوگیا، اس نے اپنی پہلی جو کتاب لکھی وہ عقیدت مندی اور شکریہ کے طور پر خواجہ نظام الملک کے نام سے منسوب کی، پھر اس نے اپنی تحقیق اور تجربات کی ایک اور کتاب مرتب کی جس کا نام

*علم المسات والمکعبات*  تھا اور پھر اس نے اقلیدس کے اصول و مسائل پر ایک کتاب لکھی، عمر خیام علم قیافہ میں بھی دسترس رکھتا تھا، ان کی کتابوں کی بدولت عمر خیام ایران میں اس قدر مشہور و مقبول ہوگیا کہ اسے بو علی سینا کا ہم پلہ سمجھا جانے لگا، 

عمر خیام کا مستقل قیام نیشاپور میں تھا۔ نیشاپور خراسان کا دارالسلطنت تھا اور وہاں کا سلطان ملک شاہ تھا، ملک شاہ ارباب علم نور اہل نظر کا اتنا قدردان تھا کہ اس نے عمر خیام کی شہرت سنی تو اسے نیشاپور بلایا اور اسے اصلاح تقویم کی ذمہ داری  سونپ دی، عمر خیام علم الاعداد میں بھی دسترس رکھتا تھا ،اس علم میں اس نے خاصی اصلاح و ترمیم کی۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

 یہ تھا عمر خیام جیسے خواجہ حسن طوسی نظام الملک نے بام عروج پر پہنچایا ،ان کا ایک تیسرا دوست بھی تھا حسن بن صباح ،ہم ذرا پیچھے چلتے ہیں جہاں عمر خیام نظام الملک کے پاس مَرو گیا تھا ،عمر خیام نے نظام الملک کو مدرسے کے دور کا عہد نامہ یاد دلایا تو حسن بن صباح کا ذکر آیا ۔

کیا جانتے ہو عمر وہ کہاں ہے؟،،،،، نظام الملک نے پوچھا۔

میں اتنا ہی جانتا ہوں کہ وہ رے چلا گیا تھا۔۔۔ عمر خیام نے جواب دیا۔۔۔ وہ وہیں کا رہنے والا تھا، تمہیں یاد ہو گا وہ خاصا ہوشیار اور چالاک ہوا کرتا تھا ،تمہیں شاید یاد نہ ہو اُس نے مدرسے کے ایک لڑکے کے کچھ پیسے چرا لیے تھے، ہم دونوں نے اس کی وکالت کی تھی کہ حسن چور نہیں ہوسکتا، لیکن اس نے یہ چوری کی تھی پھر بھی ہم نے اسے دوست بنائے رکھا تھا۔

ہاں عمر!،،،،، نظام الملک نے کہا ۔۔۔مجھے یاد آگیا ،اس میں کوئی ایسی بات ضرور تھی جو ہمیں اتنی اچھی لگتی تھی کہ میں اس کے بغیر اپنے آپ کو ادھورا سمجھتا تھا۔

یہ اس کی زبان کا کمال تھا۔۔۔ عمر خیام نے کہا۔۔۔ بولتے تو ہم بھی ہیں لیکن جب وہ بولتا تھا تو کچھ اور ہی تاثر پیدا ہوتا تھا ،ویسے بھی وہ خوبرو تھا ،اس کی آنکھوں میں کوئی ایسی تاثیر تھی کہ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا تھا تو سننے والا بلا پس و پیش اس کی بات مان لیتا تھا۔

دونوں دوست حسن بن صباح کی باتیں کرتے رہے، دو تین دنوں بعد عمر خیام چلا گیا۔

 چار پانچ دن گزرے ہوں گے کہ نظام الملک کو اطلاع ملی کہ رے سے ایک آدمی اسے ملنے آیا ہے، اپنا نام حسن بن صباح بتاتا ہے۔

حسن بن صباح!،،،،،، نظام الملک نے بڑے اشتیاق سے کہا ۔۔۔اور اٹھتے ہوئے بولا اسے فوراً اندر بھیجو، حسن بن صبا اندر آیا تو نظام الملک کو اپنے استقبال کے لئے دروازے میں کھڑا پایا، دونوں ہم جماعت دوست تادیر بغل گیر رہے۔

میں نے سنا کہ میرا دوست وزیراعظم ہو گیا ہے، تو میں خوشی سے پھٹنے لگا ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میں اٹھ دوڑا کے اپنے لڑکپن کے جگری یار کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر بیٹھا دیکھو ۔

وہ تو تم نے دیکھ لیا ہے ۔۔۔نظام الملک نے کہا۔۔۔ یہ بتا یہ بائیس تئیس سال کہاں رہے، اور ذریعہ معاش کیا ہے؟ 

خاک ہے میرا ذریعہ معاش۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔بہت قسمت آزمائی کی، مصر تک گیا لیکن قسمت نے کہیں بھی ساتھ نہ دیا ،کچھ دنوں کے لئے روزگار ملا پھر وہی بے روزگاری، ایک جگہ گیا تو مجھے بہت اچھا جواب ملا، مجھے کہا گیا کہ تم نے تعلیم ایسی اور اتنی زیادہ پائی ہے کہ تم کوئی چھوٹی نوکری نہیں کر سکتے،اور اسی وجہ سے تمھارا دماغ تجارت کو بھی قبول نہیں کرتا۔ 

ہاں حسن !،،،،نظام الملک نے کہا۔۔۔ اس شخص نے دانش مندی کی بات کی ہے ،امام موافق کا شاگرد کوئی عام سی نوکری نہیں کر سکتا، اور وہ دکان داری بھی نہیں کر سکتا، ہمارا دوست عمر آیا تھا وہ اب عمر خیام ہے، اس نے فلسفہ علم و ادب اور حکمت میں بہت کام کیا ہے، لیکن ذریعہ معاش کوئی نہیں۔

ہاہا۔۔۔ عمر!،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ ہمارا پیارا دوست اسے فلسفی اور شاعر ہی بننا تھا۔

 اس نے مجھے عہدنامہ یاد دلایا تھا۔۔۔ نظام الملک نے کہا۔۔۔ میں تو اس عہد نامے کو بھول گیا تھا جو ہم تینوں دوستوں نے ایک رات مدرسے میں کیا تھا ۔

پھر تم نے اس کے لئے کچھ کیا ہے؟

ہاں حسن!،،،،،، نظام الملک نے کہا ۔۔۔میں نے اس کے لئے سالانہ وظیفہ منظور کرا لیا ہے۔

میں بھی تمہیں وہی عہد نامہ یاد دلانے آیا ہوں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔لیکن مجھے وظیفہ نہیں چاہیے ،مجھے اپنی تعلیم اور خاندانی حیثیت کے مطابق ملازمت چاہیے۔

میں دوستی کا حق ادا کروں گا حسن!،،،،، نظام الملک نے کہا ۔۔۔اور میں لڑکپن کے عہد نامے کا پورا پاس کروں گا ،تم سلطان سے ملنے کے لئے تیار ہو جاؤ میں اس کے ساتھ پہلے ہی بات کر لوں گا۔

معروف تاریخ نویس ابن اثیر نے چند ایک مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ عہد طفلی کا ایک عہد نامہ تھا ،جس کی حیثیت ایک مذاق سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تھ،ی نہ ہی یہ عہد نامہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ کیا گیا تھا ،لیکن نظام الملک صاحب کردار اور دیندار آدمی تھا، سلطان چغرا بیگ نے اس میں یہی اوصاف دیکھ کر اسے اعلیٰ منصب پر فائز کیا تھا، اور انہیں اوصاف کے بدولت وہ سلطنت کا وزیراعظم بن گیا تھا ،اس نے لڑکپن کے عہد نامے کا اتنا پاس کیا کہ سلطان کے آگے حسن بن صباح کے کردار تعلیم اور دانشمندی ایسے انداز سے بیان کی کہ سلطان متاثر ہو گیا۔

اس نے حسن بن صباح سے کہا ۔۔۔وہ اسے سلطان سے ملوائے گا اور وہ اپنی تعلیم اور دانشمندی کا پراثر مظاہرہ کرے۔

 حسن بن صباح فن گفتگو کا تو استاد تھا ،نظام الملک نے اسے سلطان کے سامنے پیش کیا تو اس نے زبان کا جادو چلا کر سلطان کو متاثر کر لیا ،اس کا راستہ تو نظام الملک نے پہلے ہی صاف کر دیا تھا۔

 یہ فیصلہ وزیراعظم کو کرنا چاہیے کہ اس دانشمند شخصیت کو کس منصب پر فائز کیا جائے۔۔۔ سلطان نے کہا۔

میں حسن بن صباح کو سلطان عالی مقام کے معتمد خاص کے رتبے سے کم درجے کا کوئی نہیں سمجھتا نظام الملک نے کہا سلطان عالی مقام کو ایک معتمد خاص کی ضرورت بھی ہے

ہمیں منظور ہے سلطان نے کہا آپ انہیں رکھ لیں اور انہیں اچھی طرح بتا دیں کہ ان کا کام کیا ہوگا انہیں تمام تر امور سلطنت سمجھا دیں کچھ دن اپنی نگرانی میں رکھیں

اس طرح حسن بن سبا کو وہ رتبہ مل گیا جو اختیارات کے لحاظ سے وزارات سے کم نہ تھا وہ اسی دن اپنا سامان اور بیوی بچوں کو لانے کے لئے روانہ ہو گیا 

نظام الملک محسوس نہ کرسکا کہ اس نے ابلیس کے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا ہے۔

*<==÷=÷۔=÷=÷=÷=÷>*

حسن بن صباح کون تھا ؟

اس کا باپ خراسان کے شہر طوس کا رہنے والا تھا ،اس کا نام علی بن احمد تھا اور وہ اسماعیلی مذہب کا پیروکار تھا ،حسن بن صباح طوس میں پیدا ہوا تھا ،اس کا باپ شہر رے میں جاکر رہائش پذیر ہوگیا تھا، رے کا حاکم ابومسلم رازی تھا، علی بن احمد نے ابو مسلم رازی تک رسائی حاصل کر لی تھی ، اس کا کام تھا ابو مسلم رازی کی خوشامد کرنا، اور لوگوں کے خلاف مخبری کرنا، وہ چاہتا تو کسی شریف آدمی کو ناکردہ گناہ میں گرفتار کرا دیتا اور کسی مجرم کو جھوٹ کے ذریعے بے گناہ ثابت کرا دیتا۔

رے تجارت کا مرکز تھا ،جہاں غیر ملکی تاجر آتے رہتے تھے، علی بن احمد منڈی میں چلا جاتا اور کسی نہ کسی غیر ملکی تاجر کو جھانسا دے کر اس کا مال اڑا لیتا، یا کچھ رقم بٹور لیتا تھا، یہ کام وہ ایسی مہارت اور ایسے معزز انداز سے کرتا تھا کہ نقصان اٹھانے والے اس پر ہاتھ ڈالنے سے جھجکتے تھے، اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ رے کے حاکم ابومسلم رازی کا خاص آدمی اور اس کا منظور نظر ہے۔

علی بن احمد کی عیاری کے قصے  اتنے کم نہیں کے داستان گو سارے سنا دے، وہ بردہ فروشی تک کرتا تھا، لیکن یوں نہیں کہ ایک لڑکی کو اغوا کیا اور اسے بیچ ڈالا ،وہ کسی حسین اور نوجوان لڑکی کو یا کسی جوا سال بیوہ کو نہایت باعزت طریقے سے ورغلاتا اور ایسے سبز باغ دکھاتا کہ لڑکی پر سحر طاری ہو جاتا تھا ،نوخیز لڑکی ہوتی یا جواں سال عورت نتائج سے بے خبر اس کے جال میں آ جاتی تھی، وہ چار دن اسے اپنے پاس رکھ کر عیش و عشرت کرتا تھا، اس فریب کاری میں لڑکی کو اسے بتائے بغیر کوئی نشہ بھی پلاتا تھا، اس دوران وہ گاہک کی تلاش میں رہتا اور ایک دن اسے کسی مالدار گاہک کے حوالے کر دیتا تھا۔

کسی گھر میں لڑائی جھگڑا ہوتا ،یا بازار میں دو دکانداروں کے درمیان جھگڑا ہوجاتا ،یا تاجروں کا آپس میں کوئی تنازع ہوتا تو وہ ثالث یا منصف بن کر اپنے آپ کو ان پر مسلط کرکے تصفیہ کراتا تھا۔

لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص عیار اور فریب کار ہے پھر بھی اس کی عزت کرتے اور اس سے مشورے اور مدد لیتے تھے ،لوگوں میں مقبول عام بننے کے لئے وہ ان کے چھوٹے موٹے مسئلے حل کر دیا کرتا تھا ،اس میں ڈھیٹ پن اتنا زیادہ تھا کہ کہیں سے دھتکار دیا جاتا تو وہاں سے ایک دروازے سے نکل کر دوسرے دروازے سے پھر اندر چلا جاتا اور عیاری کا کوئی اور حربہ استعمال کر کے دھتکارنے والوں کو شیشے میں اتار لیتا تھا۔

لوگوں میں یہ جو مشہور تھا کہ وہ حاکم ابومسلم رازی کا منظور نظر ہے غلط نہ تھا ،ابو مسلم جابر اور دانشمند حاکم تھا ،لیکن علی بن احمد کمال استادی سے اسے دوستانہ سطح پر لے آیا کرتا تھا۔

ابومسلم رازی اہلسنت وجماعت تھا ،علی بن احمد بلاشک و شبہ اسماعیلی تھا ،لیکن ابو مسلم کو اس نے یقین دلایا تھا کہ وہ اہل سنت ہے، ایک بار ابو مسلم کو مصدقہ اطلاع ملی کہ علی بن احمد سنی نہیں اسماعیلی ہے، ابو مسلم نے اس سے جواب طلبی کی، اس نے قرآن ہاتھوں پر اٹھا کر قسم کھائی اور کہا کہ وہ سنی مسلمان ہے۔

اس کا بیٹا حسن بن صباح کئی سالوں سے ایک اسماعیلی عالم اور اتالیق عبدالملک بن عطاش کے یہاں تعلیم حاصل کر رہا تھا، اس کا علم ابو مسلم کو ہو گیا، اس نے ایک روز علی بن احمد کو بلایا۔

اس کا بچہ کہاں پڑھتا ہے مجھے کیا ۔۔۔ابومسلم نے علی سے کہا ۔۔۔اپنی اولاد کے متعلق ماں باپ کے فیصلوں کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں، لیکن تمہارے بیٹے کے متعلق میں اس لئے بات کر رہا ہوں کہ تم اہل سنت و جماعت ہو، لیکن اپنے بیٹے کو تم نے اسماعیلی عالم کی شاگردی میں بٹھا رکھا ہے،،،،،کیوں؟،،، کیا یہ تمہارے اسماعیلی ہونے کا ثبوت نہیں۔

نہیں ابومسلم !،،،،،علی بن احمد نے کہا ۔۔۔یہ میری ایک مجبوری کا ثبوت ہے، میں اپنے بیٹے کو نیشاپور امام موافق کی شاگردی میں بھیجنا چاہتا ہوں، لیکن میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کرسکوں۔

پیسے میں دلواتا ہوں،،،،،، ابو مسلم رازی نے کہا۔۔۔ میں سرکاری خزانے سے پیسے دلواؤں گا۔

 علی بن احمد نے ایسے انداز سے خوشی کا اظہار کیا جیسے اس کا ایک لا یخل مسئلہ حل ہو گیا ہو، اس نے سرکاری خزانے سے رقم وصول کی اور حسن بن صباح کو نیشاپور امام مؤافق کے مکتب میں بھیج دیا، امام مؤافق کٹر اہلسنت تھا ،تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ابومسلم رازی علی بن احمد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا، لیکن اسے دھتکار بھی نہیں سکتا تھا۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*

حسن بن صباح اپنے باپ کی عیارانہ سرگرمیوں سے بڑی اچھی طرح واقف تھا، اس نے باپ سے متاثر ہوکر عیاری کو ہی اپنا اصول بنا لیا تھا ،اس نے باپ کے خاص کمرے میں بڑی حسین اور نوخیز لڑکیاں بھی دیکھی تھیں، اسے یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ اس کا باپ کبھی کبھار ایسی ایک لڑکی یا ایک جوان عورت لاتا ہے اور اسے ایک نشہ پلاتا ہے ،حسن بن صباح نے یہ نشہ دیکھ لیا اور اس کی تھوڑی مقدار شربت میں ملا کر پی تھی ،تھوڑی ہی دیر بعد اسے یوں نظر آنے لگا تھا جیسے یہ دنیا بہت ہی حسین ہوگئی ہو، مؤرخ لکھتے ہیں کہ اسے بوڑھی عورتیں بھی جوان نظر آنے لگی تھیں۔

اس نے چرب زبانی باپ سے سیکھی تھی، لڑکپن میں ہی وہ زبان کے جادو کا ماہر ہو گیا تھا، اپنے باپ کو وہ اپنا بہترین استاد سمجھتا تھا، اس کے باپ کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس کے بیٹے میں اسی کی ذہنی رجحانات پیدا ہو گئے ہیں ،اس نے بیٹے کو کبھی روکا ٹوکا نہیں تھا، بلکہ نیشاپور امام مؤافق کے مکتب میں بھیجتے وقت اس نے بیٹے کو کچھ ہدایات دی تھیں۔

یہ نہ بھولنا بیٹے!،،،،، اس نے حسن بن صباح سے کہا تھا۔۔۔ ہم اسماعیلی ہیں اہلسنت نہیں، تم نے اہلسنت کا درس لینا ہے اور رہنا اسماعیلی ہے، اس مدرسے سے جو طلباء اچھے درجے میں کامیاب ہو کر نکلتے ہیں وہ اونچے رتبے پر فائز ہو جاتے ہیں، تم ایسے ایک دو لائق لڑکوں کے ساتھ دوستی کر لینا، آگے چل کر یہ تمہارے کام آئیں گے۔

باپ کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ اس کا بیٹا اسی عمر میں اس سے کہیں زیادہ چالاک ہو گیا ہے جتنا وہ سمجھتا ہے، بیٹے نے مدرسے میں خواجہ حسن طوسی اور عمر خیام کو دوستی کے لئے منتخب کرلیا، اس کی دوربین نگاہوں نے بھانپ لیا تھا کہ یہ دونوں پڑھنے میں بہت تیز ہیں اور یہ بڑے ہوکر اونچے رتبے پر پہنچیں گے۔

ائمہ تلبیس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ تینوں دوستوں میں یہ جو معاہدہ ہوا تھا کہ جو دوست کسی اعلی منصب پر فائز ہو گیا وہ دونوں دوستوں کی مدد کرے گا، اور اپنے مال و دولت میں بھی انہیں شریک سمجھے گا ،یہ معاہدہ حسن بن صباح کے عیّار دماغ کی اختراع تھا۔

اس عہد نامے سے عمر خیام نے بھی فائدہ اٹھایا، لیکن وہ جائز فائدہ تھا، عمر خیام کے شاہکار آج تک زندہ ہیں، لیکن حسن بن صباح نے نظام الملک سے اس عہد نامے کا جو فائدہ اٹھایا وہ ایک ابلیس کا کارنامہ تھا، یہ حسن بن صباح کا پہلا قدم تھا، وہ جب نظام الملک کے پاس یہ سن کر گیا تھا کہ وہ وزیراعظم ہوگیا ہے تو اس نے جھوٹ بولا تھا کہ وہ اتنا عرصہ بےروزگار رہا ہے، وہ کچھ خفیہ سرگرمیوں میں مصروف رہا تھا، وہ اپنا ایک فرقہ بنانے کے لئے زمین ہموار کر رہا تھا۔

اس مقصد کے لئے وہ مصر تک چلا گیا تھا۔ مصر میں عبیدیوں کی حکومت تھی جو ظاہری طور پر اسماعیلی کہلاتے تھے لیکن وہ درپردہ باطنی تھے، وہاں بات چیت کرکے واپس رے آ گیا، کچھ دنوں بعد عبیدیوں کا ایک وفد اس کے پاس رے آیا، وفد چلا گیا تو ابومسلم رازی کو اطلاع ملی اور اسے حسن بن صباح کے عزائم معلوم ہوئے، ابومسلم نے حسن بن صباح کی گرفتاری کا حکم دے دیا، حسن بن صباح کو قبل از وقت پتہ چل گیا اور وہ بھاگ گیا۔

وہ اس وقت زمین دوز روپوشی سے ابھرا جب وہ نظام الملک کی مروت اور کوششوں سے سلطان ملک شاہ کے معتمد خاص کا منصب حاصل کر چکا تھا، اور رے اپنا سامان اور اپنی بیوی بچے لینے آیا تھا، ابومسلم خاموش ہو گیا۔

اس وقت اس کا باپ بستر مرگ پر پڑا تھا، حسن بن صباح نے آکر اسے خوش خبری سنائی کہ اسے یہ رتبہ مل گیا ہے۔

اب میں سکون سے مروں گا۔۔۔ باپ نے کہا۔۔۔ میں تمہیں اسی منصب پر دیکھنا چاہتا تھا،،،،،جانتے ہو اب تمہیں کیا کرنا ہے؟ 

جانتا ہوں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔سب سے پہلے نظام الملک کو اس کرسی سے اٹھانا محل سے نکلوانا اور خود وزیراعظم بننا ہے۔

شاباش !،،،،باپ نے کہا ۔۔۔تم دروازے میں داخل ہو گئے ہو، اہم کمروں پر قبضہ کرنا تمہارا کام ہے،،،،،، یاد رکھو بیٹے  بدی میں بڑی طاقت ہے اس سے زیادہ طاقت عورت اور نشے میں ہے، ان دو چیزوں کے ذریعے تم دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور بادشاہ کو اپنے قدموں میں بٹھا سکتے ہو۔

باپ کو ہچکی آئی اور اس کے ناپاک جسم سے روح نکل گئی، لیکن وہ اپنی ابلیسیت اپنے بیٹے میں منتقل کر گیا، یہاں سے عورت اور نشے کی عیاری اور بدی کی ایسی داستان نے جنم لیا جن سے زمین و آسمان کانپ اٹھے، آج بھی سنو تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

*<========۔=====>

جاری ہے

https://www.historypk.site/2021/01/blog-post_22.html

حسن صباح کی مصنوعی جنت قسط 4 انتہائی زبردست تحریر

 حســـن بـن صـــبـاح کی مصنوعی جنت


قسط نمبر۔4۔


فرحی نے دیکھا ان سے دس بارہ قدم دور ویسا ہی ایک کالا ناگ پھن پھیلائے ہوئے تھا جیسا حسن نے قبرستان میں دیکھا تھا، یہ گھوڑے کی نفسیات ہے کہ اس کی پیٹھ پر سوار موجود ہو اور وہ اپنے راستے میں سانپ دیکھ لے تو روک کر خوف سے کانپنے لگتا ہے، اگر سوار نہ ہو تو گھوڑا سرپٹ بھاگ اٹھتا ہے۔

ناگ تیزی سے گھوڑے کی طرف آیا، حسن نے دیکھا کہ اس کے پیچھے پیچھے ایسا ہی ایک ناگ اور ہے ،گھوڑوں نے جب ناگوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو فوراً پیچھے بھاگ اٹھے، حسن اور فرحی نے گھوڑوں کو قابو میں رکھنے کی بہت کوشش کی لیکن گھوڑے قابو میں نہیں آ رہے تھے ،حسن کا گھوڑا آگے تھا، اور اپنے آپ ہی دائیں بائیں مڑتا جا رہا تھا۔ حسن بار بار پیچھے دیکھتا تھا کہ فرحی کتنی دور ہے۔

گھوڑے دوڑتے ان بھول بھلیوں میں دائیں بائیں مڑتے رہے اور حسن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا گھوڑا اس جگہ جا نکلا جہاں سے وہ ان بھول بھلیوں میں داخل ہوئے تھے ،وہ میدان تھا چٹانیں پیچھے رہ گئی تھیں۔

حسن نے بڑی مشکل سے گھوڑے کو قابو میں کیا اور اسے روک لیا، اس نے ادھر ادھر دیکھا وہ فرحی کے گھوڑے کو ڈھونڈ رہا تھا اسے فرحی کا گھوڑا تو نظر آگیا لیکن فرحی اس کی پیٹھ پر نہیں تھی، حسن نے اس گھوڑے کی طرف اپنا گھوڑا دوڑا دیا اور اس کی لگام پکڑ لی، اس نے فرحی کو آواز دی بہت پکارا لیکن فرحی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا ،حسن آہستہ آہستہ ان چٹانی بھول بھلیوں کی طرف چل پڑا ،وہ فرحی کو ڈھونڈنے جا رہا تھا۔

حسن بن صباح کے ہوش اڑ گئے تھے، وہ دنیا کو ، اپنے عزائم اور اپنی منزل کو بھول گیا تھا ،وہ ایک بار پھر چٹانوں کی بھول بھلیوں میں داخل ہو گیا اور بڑی ہی بلند آواز سے فرحی کو پکار رہا تھا ،لیکن چٹانوں سے گزرتی ہوئی تیز ہوا کی سرسراہٹ کے سوا اسے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا، یہیں سے وہ باہر نکلا تھا مگر اب وہ وہیں سے اندر گیا تو اسے وہ جگہ ایسی اجنبی محسوس ہوئی جیسے پہلے کبھی دیکھی ہی نہ ہو، ایک چٹان اس کے سامنے تھی اس کے پہلو سے دو راستے جاتے تھے اور ایک راستہ دائیں کو جاتا تھا ،حسن بن صباح کو یاد ہی نہیں رہا تھا کہ وہ ان تینوں میں سے کون سے راستے سے باہر آیا تھا۔

سامنے والی چٹان کا یہ ادھر والا سرا تھا اور اس کی ڈھلان بڑی آسان تھی، حسن بن صباح گھوڑے کو ایڑ لگائی اور چٹان پر چڑھ گیا ،اس نے فرحی کے گھوڑے کی باگ اپنے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ لی تھی اوپر جا کے اس نے ہر طرف نظریں گھمائی دور دور تک اونچی نیچی چٹانوں کی چوٹیوں کے سوا کچھ اور نظر نہ آیا ،کچھ چٹانیں اوپر سے چپٹی تھیں، اور کچھ ایسی بھی تھیں جو چٹانیں لگتی ہی نہیں تھیں، وہ بہت ہی بڑے بڑے بتوں کی مانند تھیں، کوئی بت انسانوں جیسا اور کوئی کسی جانور جیسا تھا، ایک چٹان ایسی تھی جو اوپر چلی گئی تھی اس کی چوٹی پر ایک بہت بڑا گول پتھر یوں رکھا ہوا تھا جیسے کسی عورت نے سر پر گھڑا رکھا ہوا ہو۔

یہ سارا منظر اس دنیا کا خطہ لگتا ہی نہیں تھا، یہ تو خواب کا منظر تھا یہ خطہ تین میل لمبا چوڑا ہو سکتا تھا، اور چار میل بھی۔

 فرحی۔۔۔۔ حسن پھیپھڑوں کا سارا ہی زور لگا کر پکارنے لگا۔۔۔ کہاں ہو فرحی،،،،،فرحی!،،،، کوئی جواب نہیں۔۔۔ خاموشی۔

وہ دوڑتے گھوڑے سے گر کر بیہوش پڑی ہوگی ،اس نے اس طرح اونچی آواز میں کہا جیسے اپنے پاس کھڑے کسی آدمی کو بتا رہا ہو۔

اس کے پاس دو گھوڑوں کے سوا کوئی بھی نہیں تھا، اسے فرحی تک جلدی پہنچنا تھا۔ ہوسکتا تھا وہ گر کر مر گئی ہوئی، یا مر رہی ہو ،اور یہ بھی نا ممکن نہ تھا کہ وہ گری تو اسے ناگ نے ڈس لیا ہو گا ،حسن بن صباح کو اپنے استاد عبدالملک ابن عطاش کا ایک سبق یاد آگیا کہ راستہ یاد نہ رہے، ہمسفر کہیں کھو جائے، یا کوئی چیز گم ہو جائے تو کیا عمل کیا جائے۔

وہ گھوڑے سے اترا اور نیچے دیکھا، چٹان کی ایک سِل سلیٹ کی طرح ہموار تھی، حسن اکڑوں بیٹھ گیا اور چھوٹا سا ایک پتھر اٹھا لیا، ابن عطاش نے اسے مراقبے میں جانے کی بہت مشق کرائی تھی، اس نے آنکھیں بند کیں اور دو تین بار لمبے سانس لیا پھر اس نے آنکھیں کھولیں اور انگلیوں میں پکڑے ہوئے کنکری جیسے پتھر سل پر اوٹ پٹانگ سے خانے بنانے لگا۔

ان خانوں کو اس نے غور سے دیکھا اور کسی خانے میں ایک حرف اور کسی میں ایک ہندسہ لکھا ،اس پر کچھ دیر نظریں جمائے رکھیں اور اٹھ کھڑا ہوا ،گھوڑے پر سوار ہو کر وہ چٹان سے اترا آیا ،اور اس چٹان کے ساتھ ساتھ آگے کو چل پڑا۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی ، یہ راستہ کچھ آگے جا کر ایک طرف مڑ گیا تھوڑا آگے جا کر اس راستے کو ایک گول چٹان نے روک لیا تھا اور وہاں دو راہا بن گیا تھا ،حسن روک گیا اور دونوں راستوں کو دیکھا اس نے گھوڑا روک لیا، آنکھیں بند کرکے اس نے کچھ سوچا دائیں طرف سے ہلکی سی آہٹ یا آواز سنائی دی ،اس نے آنکھیں کھولیں اور ادھر دیکھا کچھ دور ایک نیولہ کھڑا اس کی طرف دیکھ رہا تھا ،حسن نیولے کو دیکھتا رہا، نیولہ ایک طرف دوڑ پڑا ،حسن گھوڑا اس طرف لے گیا اور وہاں تک چلا گیا جہاں نیولہ کھڑا تھا، اس طرف دیکھا جس طرف نیولہ گیا تھا۔

یہ دو چٹانوں کے درمیان بہت ہی تنگ راستہ تھا جو کچھ دور تک چلا گیا تھا، لیکن سیدھا نہیں بلکہ کئی ایک گول گول اور کچھ سختی سے چٹانوں سے گھومتا مڑتا جاتا تھا۔

حسن بن صباح جو فرحی کے لئے پریشان ہو رہا تھا اسے پکارتا بھی رہا تھا، ابھی وہ اطمینان سے چلا جا رہا تھا جیسے اسے فرحی مل گئی ہو ،یا فرحی اس کے دل سے اتر گئی ہو۔ حقیقت یہ تھی کہ اس نے چٹان پر بیٹھ کر سحر (کالے جادو) کا ایک عمل کیا تھا، جس میں اسے واضح اشارہ ملا تھا کہ وہ پہنچ جائے گا، لیکن ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا تھا کہ فرحی جس جگہ ہے وہاں تک راستہ کون سا جاتا ہے، البتہ یہ پتہ چل گیا تھا کہ اسے اشارے ملتے رہیں گے جنہیں سمجھنے کے لیے وہ اپنی عقل استعمال کرے۔

تاریخ کی یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حسن بن صباح نے پراسرار علوم سیکھ لیے تھے۔

 ابن خلدون تاریخ ابن خلدون حصہ پنجم میں لکھتا ہے علم نجوم و سحر میں حسن بن صباح کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ ابن تاثیر اور دیگر مؤرخوں نے بھی لکھا ہے کہ حسن بن صباح انتہا درجے کا عیار اور مکار تو تھا ہی اس نے علم سحر میں بھی خصوصی مہارت حاصل کر لی تھی۔

اس نے ان پراسرار علوم میں اس سفر کے بعد مہارت حاصل کی تھی، اس سفر کے دوران اس کے پاس سحر کی اتنی ہی طاقت تھی جو اسے اپنے اتالیق ابن عطاش سے حاصل ہوئی تھی، وہ ان علوم کی تکمیل کے لیے ہی جا رہا تھا۔

وہ جا تو رہا تھا لیکن ایسے چٹانی خطے میں پھنس کے رہ گیا تھا جسے وہ کبھی کبھی خواب سمجھتا تھا، اس میں بھی شاید کوئی راز تھا کہ اسے بڑے دشوار گزار راستے پر ڈالا گیا تھا ،اسے اس راستے کا اشارہ خواب میں ملا تھا۔

حسن بن صباح ایک تنگ راستے پر عجیب و غریب سی شکلوں کی چٹانوں کی دنیا میں جارہا تھا کہ پھر ایک مقام آ گیا جو دو راھا تھا ،حسن نے رک کر دونوں راستوں کو دیکھا دونوں راستے تھوڑی تھوڑی دور جا کر مڑ جاتے تھے، حسن کبھی ادھر کبھی ادھر دیکھتا تھا اسے پوری امید تھی کہ غیب سے اسے کوئی اشارہ ملے گا لیکن کچھ بھی نہ ہوا سوائے اس کے کہ وہ جس گھوڑے پر سوار تھا وہ آہستہ سے ہنہنایا اور کھر مارنے لگا، دوسرے گھوڑے نے بھی یہی حرکت کی، اس انداز سے گھوڑے کا ہنہنانا اور گھوڑے کا کھر مارنا اس کی بے چینی کا اظہار ہوتا ہے۔

حسن نے قدرے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا کہ گھوڑوں نے پھر سانپ دیکھ لیا ہے لیکن اسے خیال آگیا کہ گھوڑا ڈر کا اظہار کسی اور انداز سے کرتا ہے ۔

وہ گھوڑوں کا زمانہ تھا لوگ گھوڑوں کی نفسیات سمجھتے تھے۔

 حسن سمجھ گیا کہ گھوڑے بھوکے ہیں شاید پیاسے بھی ہوں۔

گھوڑا اپنے آپ ہی ایک راستے پر چل پڑا، حسن نے لگام کھینچ لیں لیکن گھوڑا رکنے کی بجائے اور تیز ہوگیا، اس کی زین کے ساتھ بندھا ہوا گھوڑا اس سے آگے نکلنے کی کوشش کررہا تھا، حسن نے کچھ سوچ کر گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی، یہ اشاروں پر چلنے والا گھوڑا تھا اور حسن کو اس گھوڑے پر اعتماد تھا، گھوڑا سر نیچے کر کے دوڑ پڑا ،وہ سر کسی اور ہی طرح دائیں بائیں جھٹک رہا تھا۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

گھوڑا اگلا موڑ سوار کے اشارے کے بغیر ہی مڑ گیا ،حسن دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آگے چٹانوں میں گھری ہوئی کشادہ جگہ تھی جہاں ہری بھری گھاس تھی اور سر سبز درخت تھے یہ جگہ صحرا میں نخلستان جیسی تھی۔

گھوڑا اور تیز دوڑ اور وہاں تک پہنچ گیا، وہاں سبزے میں گھرا ہوا ایک چشمہ تھا، پانچ سات گز لمبائی چوڑائی میں بارش سے بھرے ہوئے آسمان جیسے شفاف اور نیلا پانی جمع تھا، شفاف بھی اتنا کہ اس کی تہہ میں کنکریاں بھی صاف دکھائی دے رہی تھیں، یہ پتہ نہیں چلتا تھا کے فالتو پانی کہاں غائب ہو رہا تھا۔

گھوڑا بے صبری سے پانی پینے لگا، حسن نے اتر کر دوسرے گھوڑے کی باگ اپنے گھوڑے کی زین سے کھول لی اس نے بھی بے تابی سے چشمے سے منہ لگا لیا، تب حسن کو خیال آیا کہ گھوڑے پیاسے تھے۔

جانور خصوصا گھوڑے اور خچر پانی کی مشک دور سے پا لیتے ہیں، گھوڑا بے لگام اور منہ زور ہو کر پانی تک پہنچ جاتا ہے، حسن                       بن صباح نے گھوڑوں کو پانی پیتے دیکھا تو اسے بھی پیاس محسوس ہونے لگی، چشمے کے کنارے گھٹنے ٹیک کر وہ پانی پر جھکا اور چلو بھر بھر کر پانی پینے لگا ،اس کا سر جھکا ہوا اور نظری پانی پر لگی ہوئی تھیں، اس کے ہاتھ رک گئے اور اس نے ذہن پر زور دیا۔

اسے اپنا خواب یاد آ گیا جس میں اس نے اس سفر کا راستہ دیکھا تھا، اسے یاد آیا کہ خواب میں اس نے چشمہ دیکھا تھا ،اسے یہ بھی یاد آیا کہ اس چشمے سے روشنی سی پھوٹی تھی، ذہن پر زور دینے کے باوجود اسے اس سے آگے یاد نہ آیا ،لیکن اسے اطمینان ہوگیا کہ وہ غلط راستے پر نہیں جا رہا۔

وہ ایک بار پھر چلو بھرنے کے لیے پانی میں ہاتھ ڈالنے لگا تو اس کے ہاتھ ایک بار پھر رک گئے اور نظر پانی پر جم گئیں، پانی کے سامنے والے کنارے کے نیچے پانی میں ایک آدمی کا عکس جھلملا رہا تھا، پانی ساکن نہیں تھا چھوٹی چھوٹی لہریں اس کنارے سے اس کنارے تک جا رہی تھیں اس آدمی کا عکس ان لہروں پر تیر رہا تھا۔

حسن سُن ہو کے رہ گیا، وہ بزدل نوجوان نہیں تھا اس کے پاس تلوار تھی اور ایک خنجر بھی تھا ،لیکن اسے اپنی ذات سے یہ اشارہ مل رہا تھا کہ یہ آدمی کوئی مسافر نہیں جو پیاس بجھانے صحرا کے اس چشمے پر آ گیا ہو، 

حسن نے آہستہ آہستہ سر اٹھایا اس سے بیس بائیس قدم دور ایک ٹیکری پر ایک لمبا تڑنگا آدمی کھڑا تھا، لباس سے وہ اسی خطے کا آدمی معلوم ہوتا تھا ،اس کے سر پر اس خطے کی مخصوص بگڑی تھی اور پگڑی پر اتنا بڑا سیاہ رومال پڑا ہوا تھا جس نے اس کے کندھوں اور پیٹھ کے کچھ حصے کو بھی ڈھانپ رکھا تھا، سلیقے سے تراشی ہوئی اس کی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی۔

حسن نظریں اس پر جمائے ہوئے آہستہ آہستہ اٹھا اس آدمی نے اسی طرح اس پر نظریں جما رکھی تھیں، اس کے جسم پر ذرا سی بھی حرکت نہیں تھی، یہ شک غلط معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ بت ہے۔

*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

آخر اس آدمی میں حرکت ہوئی وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا۔

اس کے عقب میں منظر یہ تھا کہ ایک چٹان دائیں سے بائیں گئی ہوئی تھی ،قدرت نے درمیان سے اس طرح کاٹ دیا تھا کہ ایک گلی بن گئی تھی جس میں سے ایک گھوڑا آسانی سے گزر سکتا تھا ،گلی کی طرف چٹان کے دونوں حصے دیواروں کی طرح عمودی تھے۔

وہ آدمی الٹے قدم چلتا اس گلی میں داخل ہوگیا، حسن بن صباح نے فرحی کے گھوڑے کی باگ اپنے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھی اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور گلی میں داخل ہوگیا وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس پر کچھ اثر ہو گیا ہے اور وہ اب اس اثر کے قبضے میں ہے۔

وہ آدمی اس قدرتی گلی کے اگلے سرے پر کھڑا تھا اس کے پیچھے ایک اور چٹان تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہاں یہ گلی بند ہو گئی ہو ،اس آدمی نے اپنا بایاں بازو بائیں طرف لمبا کیا اور اس طرف غائب ہو گیا۔

حسن وہاں تک جا کر اسی طرف مڑ گیا جس طرف اس آدمی نے اشارہ کیا تھا، وہ آدمی آگے جا کر ایک اور موڑ مڑ رہا تھا، حسن اسی طرح اس کے پیچھے جاتا رہا جیسے اس کا پالتو جانور ہو یا جیسے اس شخص نے اس پر قبضہ کر لیا ہو۔

وہ جگہ کشادہ تھی، بے آب و گیاہ چٹانوں کی بجائے وہاں ہری بھری ٹیکریاں تھیں، یہ ہریالی اس چشمے کی بدولت تھی جو قریب ہی تھا، 

حسن آگے جا کر ایک سرسبز ٹیکری سے مڑا تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا ،یہ منظر اس کے لیے غیر متوقع تھا اس کے سامنے ایک اونچی ٹیکری تھی جو دائیں بائیں گئی ہوئی تھی، یہ سر سبز گھاس اور پھول دار جنگلی پودوں سے ڈھکی ہوئی تھی ،یوں لگتا تھا جیسے یہ انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی ہو ،لیکن اس کی چھت اور دیواریں بتا رہی تھیں کہ یہ قدرت کی تعمیر ہے اس کے اوپر سے خودرو بیلیں لٹک رہی تھیں۔

وہ آدمی جس کی رہنمائی میں حسن وہاں پہنچا تھا اس گُف کے باہر کھڑا تھا۔

حسن وہاں گیا تو اسے اندر کا منظر نظر آیا، کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی خاصی لمبی چوڑی چٹائی بچھی ہوئی تھی، سامنے ایک آدمی گاؤ تکیہ سے لگا بیٹھا تھا ،اس کی داڑھی لمبی اور خشخشی تھی، اس کے سر پر خرگوش کی کھال کی ٹوپی تھی اور ٹوپی پر کالے رنگ کا رومال تھا جو اس کے کندھوں سے بھی نیچے آیا ہوا تھا، اس نے سبز رنگ کا چغہ پہن رکھا تھا، اس کی وجاہت سے پتہ چلتا تھا کہ وہ مذہبی پیشوا ہے، یہ بتانا مشکل تھا کہ وہ کس فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔

تین آدمی اس کے ایک طرف اور تین دوسری طرف آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، ان سب کے سروں پر ایک مخصوص انداز کی پگڑیاں تھیں اور ان پر سیاہ رنگ کے رومال تھے جو ان کے کندھوں سے نیچے تک آئے ہوئے تھے، 

اس بزرگ نے جس کے چہرے پر جلال تھا اس آدمی کو ہاتھ سے اشارہ کیا جس کی رہنمائی میں حسن وہاں پہنچا تھا ،وہ آدمی اندر چلا گیا اس کشادہ گف میں ایک جوڑا ٹیلا سا تھا وہ آدمی اس کے پیچھے چلا گیا، وہاں سے باہر آیا تو اس کے ساتھ فرحی تھی، جو ذرا لنگڑا کر چل رہی تھی، فرحی کو دیکھ کر حسن بن صباح کو یقین و اطمینان ہوا ہوگا کہ وہ زندہ ہے ،لیکن یہ سوال اسے پریشان کر رہا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور فرحی ان کے پاس کیسے آ گئی ہے؟ 

یہ لوگ ڈاکو اور رہزن تو نہیں لگتے تھے، لیکن ڈاکو اور رہزنوں کے سروں پر سینگ تو نہیں ہوتے ،بزرگ کے اشارے پر فرحی کو اس کے سامنے بٹھا دیا گیا، سورج اپنا روز کا سفر پورا کرکے افق کے پیچھے جا سویا تھا  شام تاریک ہوگئی تھی، گُف میں مشعلیں رکھ دی گئی تھیں، عجیب عجیب سے سائے گُف کی دیواروں پر ناچ رہے تھے۔

*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*

اس بزرگ کو درویش کہے تو زیادہ موزوں ہوگا۔

 اے نوجوان !،،،،درویش نے حسن بن صباح سے کہا ۔۔۔کیا گھوڑے سے اتر کر ہمارے درمیان بیٹھنا تجھے گوارا نہیں؟ ہم سب تیرے انتظار میں بیٹھے ہیں۔

 میں ابھی چہرے پڑھنے کے قابل نہیں ہوا۔۔۔۔ حسن نے کہا ۔۔۔میں دل کی نیت کو آنکھوں کے آئینے میں نہیں دیکھ سکتا، اگر آپ کے دل میں بھی وہی جلال ہے جو آپ کے چہرے پر دیکھ رہا ہوں تو آپ میرے اس سوال کا جواب ضرور دیں گے کہ میری یہ ہمسفر آپ تک کس طرح پہنچی؟ 

گھوڑے سے اتر اے نوجوان!،،،، درویش نے کہا ۔۔۔تجھے ہر سوال کا جواب ملے گا اور تو ہمارے سوالوں کے بھی جواب دے گا، یہ لڑکی تیری ہم سفر ہے،ہماری نہیں، اس کے ساتھ بیٹھ اور اس کے ساتھ روانہ ہو۔

 حسن گھوڑے سے اترا اور جوتے اتار کر چٹائی پر گیا ،درویش نے اپنا دایاں ہاتھ حسن کی طرف بڑھایا تو حسن نے دونوں ہاتھوں سے اس کے ساتھ مصافحہ کیا، اشارے پر وہ فرحی کے پاس بیٹھ گیا۔

فرحی نے اس کی طرف اور اس نے فرحی کی طرف دیکھا، فرحی کے چہرے پر خوف کی ذرا سی بھی جھلک نہیں ملتی تھی، وہ گھبرائی ہوئی بھی نہیں لگتی تھی، اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی ،حسن کے چہرے پر تذبذب کا جو تاثر تھا وہ اڑ گیا اور اس کے چہرے پر رونق آگئی۔

تمہارا نام ؟،،،،،درویش نے پوچھا۔

 حسن بن صباح۔

 تیرے اس کٹھن سفر کی منزل کیا ہے؟،،،،،، درویش نے پوچھا ۔۔۔کہاں ہے منزل تیری؟ 

خوابوں کے سفر کی منزل بیان نہیں کی جاسکتی۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ خوابوں کے سفر کی منزل ہوتی ہی نہیں۔

 اے نوجوان !،،،،،،درویش نے کہا۔۔۔ کیا تو نیند میں خواب دیکھا کرتا ہے، یا بیداری میں؟ نیند میں خواب جو دیکھا کرتا ہوں انہیں بیداری میں حقیقت بنانے کی کوشش کیا کرتا ہوں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔

 تو شاید نہیں جانتا اے نوجوان!،،،،، درویش نے کہا ۔۔۔نیند کے خواب خواہشوں اور آرزوؤں کے چلتے پھرتے عکس ہوتے ہیں، آنکھ کھلتے ہی بلبلوں کی طرح پھٹ جاتے ہیں،،،،،،،، اور بیداری کے خواب فرار کا ایک سفر ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔

اے درویش !،،،،،حسن نے کہا ۔۔۔میں خواہشوں اور آرزوؤں کا پجاری نہیں، نہ میں نے کبھی اپنی روح کو خواہشوں اور آرزوؤں کی غذا دی ہے ۔

پھر تو روح کو کیا غذا دیا کرتا ہے ؟

عزم !،،،،،،حسن نے جواب دیا ۔۔۔میں اپنی ہر آرزو کو عزم کے سانچے میں ڈھال لیا کرتا ہوں۔

 اپنے سفر کی بھی کچھ بات کر اے نوجوان!،،،،، درویش نے کہا۔

 یہ بھی ایک خواب ہے۔۔۔ حسن نے کہا ۔۔۔خواب میں جو دیکھا تھا وہ میرے سامنے آتا جا رہا ہے ۔

ہمیں بھی دیکھا تھا کیا؟،،،، درویش نے پوچھا۔۔۔ ہم بھی تو تیرے سامنے آئے ہیں۔ دیکھا تھا اے درویش !،،،،حسن نے جواب دیا۔۔۔ شفاف پانی کا ایک چشمہ دیکھا تھا اس میں سے ایک عکس نکلا جس نے انسان کا روپ دھار لیا ،اس نے خاموشی کی زبان میں میری رہنمائی کی، میں نے سات غزال دیکھے جو ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ۔

کہاں ہیں وہ غزال ؟

میرے سامنے بیٹھے ہیں۔۔۔ حسن نے جواب دیا۔۔۔ ساتواں کھڑا ہے ۔

اس سے تو کیا سمجھا؟ 

یہ کہ میں سیدھے راستے پر جا رہا ہوں ۔۔۔حسن نے جواب دیا ۔

حسن بن صباح نے دیکھا کہ صرف یہ درویش بولتا ہے اور باقی سب بالکل چپ بیٹھے ہیں، درویش کے ہونٹوں پر تبسم ہے اور باقی سب کے چہرے بے تاثر ہیں، درویش بولتا ہے تو سب اس کی طرف دیکھتے ہیں، اور حسن بولتا ہے تو سب اس کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔

 قابل احترام درویش !،،،،حسن نے پوچھا کیا میں اس لڑکی کو اپنے ساتھ لے جا سکتا ہوں؟ ہمارا اس لڑکی پر کوئی حق نہیں اے نوجوان!،،،،، درویش نے کہا۔۔۔ اس لڑکی کا ہم پر کچھ حق تھا جو ہم نے ادا کر دیا ہے۔

حسن کے چہرے پر حیرت کا تاثر آگیا ،وہ کبھی درویش اور کبھی فرحی کو دیکھتا تھا۔

ہم نے یہ پھول ان پتھروں سے اٹھایا ہے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔یہ تیری ہمسفر ہے اسے تیرے ساتھ ہی جانا ہے، لیکن ہم یہ ضرور دیکھنا چاہیں گے کہ تو اس لڑکی کے قابل ہے یا نہیں، حیران مت ہو لڑکے!،،، غصے کو بھی اپنے قابو میں رکھ ہم تجھے راز کی یہ بات بتاتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں تو کہاں جا رہا ہے، اتنے طویل اور کٹھن سفر میں اتنا حسین ہمسفر مل جائے تو مسافت آسان ہوجاتی ہے اور فاصلے سمٹ آتے ہیں، لیکن راہ حیات کے جو مسافر عورت کو صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ یہ ایک خوبصورت جسم ہے ان کی آسان مسافتیں بھی کٹھن ہو جایا کرتی ہیں، ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ تو عورت کو کیا سمجھتا ہے۔

 اس لڑکی کا آپ پر کیا حق تھا؟،،،،،،،،،حسن بن صباح نے پوچھا۔

تو ہی اسے بتا دے اے لڑکی!،،،، درویش نے فرحی سے کہا۔

 ہمارے گھوڑے ناگوں سے ڈر کر بھاگ اٹھے تھے ناں۔۔۔ فرحی نے حسن سے کہا ۔۔۔میرا گھوڑا بے قابو ہو کر ایک اور ہی طرف نکل گیا، میں سنبھل نہ سکی اور گرپڑی، گرنے تک یاد ہے ہوش میں آئی تو یہاں آ پڑی تھی، انہوں نے میری دیکھ بھال ایسی کی کہ خوف سے نجات مل گئی، صرف تمہارا غم تھا انہوں نے کہا تم آ جاؤ گے اور تم آگئے۔

 کیا تم نے انہیں بتایا ہے ہم کہاں جا رہے ہیں؟،،،، حسن نے فرحی سے پوچھا؟ 

نہیں !،،،،،،فرحی نے جواب دیا۔۔۔ یہ پوچھتے رہے، میں کہتی رہی کہ میرا ہمسفر بتانا چاہے گا تو بتادے میں نہیں بتاؤں گی، پھر انہوں نے کہا کہ یہ کہہ دو مجھے معلوم نہیں ،میں نے کہا مجھے معلوم ہے بتاؤں گی نہیں، انہوں نے کہا ہم تمہیں بے آبرو کر کے مار ڈالیں گے، میں نے کہا تب بھی نہیں بتاؤں گی، انھوں نے کہا ہم تمہاری آبرو کے محافظ ہیں تمہیں گھر چھوڑ آئیں گے، میں نے کہا پھر بھی نہیں بتاؤں گی ۔ اس بزرگ نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا "آفرین" ہم تمہاری پوجا کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تیرے ہمسفر کو یہاں لانے کے لیے آدمی چلا گیا ہے۔

 سن لیا اے نوجوان ؟،،،،،،درویش نے حسن سے پوچھا ۔۔۔اب ہم نے دیکھنا ہے کہ تو اس لڑکی کے جسم کو چاہتا ہے یا روح کو، درویش نے اس آدمی کو جو حسن کو یہاں لایا تھا اشارہ کیا وہ آدمی گف کے اندر ہی کہیں غائب ہو گیا۔

*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

وہ مشعلوں کی روشنی میں سامنے آیا تو اس کے ہاتھوں میں تین گڑیا تھی، یہ مٹی کے بنے ہوئے تین عورتوں کے بت تھے، خوبصورتی سے بنائے گئے تھے ہر بت تقریبا ڈیڑھ فٹ اونچا اور ہر بت برہنہ تھا ۔

تینوں بت اور گولی اس کے آگے رکھ دو۔۔۔۔درویش نے کہا۔

اس کے حکم کی تعمیل ہوئی۔

 کوئی ایک گڑیا اٹھا۔۔۔ درویش نے حسن سے کہا ۔۔۔اور اس کے دائیں کان میں گولی ڈال۔

یہ گولی بت کے منہ سے نکل کر زمین پر گر پڑی۔

اب دوسری گڑیا اٹھا لے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔ اور گولی اس کے کان میں ڈال۔

 حسن بن صباح نے بت اٹھایا اور گولی بھی اٹھائی، یہ گولی ایک گول کنکری تھی، یہ کانچ کی ان گولیوں جتنی تھی جن سے آج کل بچے کھیلا کرتے ہیں ،حسن نے پتھر کی یہ گولی بت کے کان میں ڈال دی، کان میں ایک سوراخ تھا گولی اس کان میں گئی اور دوسرے کان سے باہر آ گئی۔

اب ایک اور گڑیا اٹھا ۔۔۔درویش نے کہا۔۔۔ اور یہ گولی اس کے دائیں کان میں ڈال۔

حسن نے دوسرا بت الگ رکھ کر تیسرا بت اٹھایا ،گولی اٹھا کر اس کے کان میں ڈالی یہ گولی اندر ہی کہیں غائب ہو گئی۔

زور زور سے ہلا اسے،،،،، درویش نے کہا۔۔۔ گولی کو باہر آنا چاہیے۔

 حسن نے بت کو بہت ہلایا، جھنجھوڑا، الٹا کیا، دائیں اور بائیں پہلو پر کرکے ہلایا ،مگر گولی باہرنہ آئی ۔

یہ گڑیا بیکار ہے۔۔۔ درویش نے کہا ۔۔۔اسے الگ رکھ دے ،اس بدبخت نے ہماری گولی ہضم کر لی ہے ۔

حسن نے یہ بت رکھ دیا۔

کیا یہ بت خوبصورت نہیں؟،،،، درویش نے پوچھا ۔۔۔کیا یہ تجھے اچھے نہیں لگتے؟ 

خوبصورت ہیں ۔۔۔حسن نے جواب دیا۔۔۔ دل کو اچھے لگتے ہیں، بنانے والے نے عورت کی رعنائیاں ان بتوں میں سمو دی ہیں، ان میں صرف جان ڈالنی باقی رہ گئی ھے۔

 ہم تجھے انعام دینا چاہتے ہیں۔۔۔ درویش نے کہا ۔۔۔کوئی ایک گڑیا اٹھا لے،،،،،، تینوں ایک جیسی ہیں۔

حسن بن صباح نے سب سے آخری والا بت اٹھا لیا ،جس کے کان میں گولی ڈالی تو کسی طرف سے گولی باہر نہیں آئی تھی، درویش نے اسے بیکار کہہ کر نہ پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔

تو نے عقل سے کام نہیں لیا ہے نوجوان!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ یا تو نے سنا نہیں کہ میں نے اس گڑیا کے متعلق کہا تھا کہ اس نے ہماری گولی ہضم کر لی ہے، اسے پھینک دو۔ 

محترم درویش !،،،،حسن نے کہا۔۔۔ میں عقل اور توجہ سے کام نہ لیتا تو آپ کی اس گڑیا کو ہاتھ بھی نہ لگاتا ،دوسری دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیتا ،لیکن میری عقل نے مجھے بتایا کہ یہ گڑیا اٹھا لے۔

تیری عقل نے اس میں کیا خوبی دیکھی ہے؟،،،، درویش نے پوچھا۔

ایک کے کان میں گولی ڈالی تو وہ اس کے دوسرے کان سے نکل گئی۔۔۔ حسن نے کہا۔

اے درویش عالی مقام !،،،،آپ یقیناً ایسی بیٹی کو پسند نہیں کریں گے جو اپنے باپ کی پند و نصیحت ایک کان سے سنے اور دوسرے کان سے نکال دے،،،،،، ایسی بہن بھی بری، ایسی بیوی بھی بری۔

دوسری کے کان میں گولی ڈالی تو اس نے منہ کے راستے نکال دی، ایسی عورت تو اور زیادہ خطرناک ہوتی ہے، وہ گھر کا کوئی راز اپنے دل میں رکھ نہیں سکتی، بات سنی اور ہر کسی کے آگے اگلنا شروع کر دی ،ایسی عورت اپنے گھر کا اور اپنے ملک کا بھی بیڑا غرق کرا دیا کرتی ہے،،،،، 

اور جسے آپ نے بیکار کہا ہے یہ بڑی قیمتی عورت ہے، جو راز کی بات اپنے دل میں دفن کر دیا کرتی ہے، میں نے اس بت کو یا گڑیا کو بہت ہلایا الٹا کیا ہر پہلو پر کر کے زور زور سے جھنجھوڑا لیکن اس نے گولی نہیں اگلی، اسے آپ توڑ پھوڑ کر اس کا وجود ختم کر دیں تو ہی آپ اس کے اندر سے گولی نکال سکتے ہیں،،،، 

یہ وہ خوبی ہے جو آپ نے فرحی میں دیکھی ہے ،آپ آٹھ ہیں اور یہ اکیلی، کیا آٹھ آدمیوں سے ڈر کر اس نے آپ کو بتا دیا تھا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں؟،،، میں اسے اپنی عمر کی ہمسفر بناؤں گا۔

"آفرین" اے نوجوان!،،،،، درویش نے کہا۔۔۔ خدا نے تجھے وہ دانش اسی عمر میں دے دی ہے جو اوروں کو عمر بھر کا تجربہ حاصل کرکے بڑھاپے میں بھی نہیں ملتی، تو پیدائشی دانشمند ہے۔

 درویش نے اپنے آدمی سے کہا تینوں گڑیوں کو اٹھا کر سنبھال لو، ان کے امتحان میں شاید ہی کبھی کوئی کامیاب ہوا ہو۔

ایک آدمی نے تینوں بت اٹھائے اور مشعلوں کی روشنی سے نکل گیا ۔

کھانا گرم کرو۔۔۔ درویش نے حکم کے لہجے میں کہا۔۔۔ دسترخواں لگ جائے فوراً، یہ دونوں بھوکے ہیں۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

اس ویرانے میں اتنا پرتکلف کھانا حسن بن صباح کے لیے حیران کن تھا، حسن اور فرحی اس قدر بھوکے تھے کہ بے صبری سے کھانا نگلتے چلے گئے۔

کھانے کے بعد درویش نے حسن بن صباح کو اپنے پاس بٹھا لیا، باقی سب وہاں سے چلے گئے ۔

حسن اور فرحی کے سونے کا الگ انتظام کردیا گیا، فرحی جا کر سو گئی تھی۔

حسن !،،،،،درویش نے کہا ۔۔۔تیرا نام حسن بن علی ہونا چاہیے تھا؟،،، لیکن تو نے حسن بن صباح کہلانا زیادہ پسند کیا۔

میرے آباء و اجداد میں صباح حمیری ایک شخص ہو گزرا ہے۔۔۔ حسن  نے کہا۔۔۔ میرا باپ کچھ کم استاد نہیں، لیکن صباح کے متعلق سنا ہے کہ اس نے بہت ہی شہرت اور عزت پائی تھی، اور اس کا کمال یہ تھا کہ کسی کو شک تک نہ ہونے دیا کہ وہ عیاروں کا عیار ،اور فریب کاروں کا استاد ہے، بس یہ وجہ ہوئی کہ میں نے بن علی کی بجائے بن صباح حمیری کہلانا زیادہ پسند کیا،،،،، لیکن آپ کو میرا نام کس نے بتایا ہے؟ 

صرف نام ہی نہیں حسن!،،،، درویش نے جواب دیا ۔۔۔تمہارے متعلق مجھے بہت کچھ بتایا گیا ہے، تم جس جگہ سے آرہے ہو اور جس جگہ جا رہے ہو میں ان کے درمیان ایک رابطہ ہوں، ایک رشتہ ہوں، پُل سمجھ لو اور،،،،،،، 

روک جائیں ۔۔۔حسن اچانک بول پڑا۔۔۔ مجھے یاد آگیا میرے استاد عبدالملک ابن عطاش نے مجھے بتایا تھا کہ خواب میں مجھے ایک غار نظر آئے گا اور اس غار میں میرا علم مکمل ہو جائے گا ،میں آپ کی ذات میں ایسا گم ہو گیا تھا کی یاد ہی نہ رہا کہ میں نے خواب میں ایک غار دیکھا تھا، اس غار پر دھند چھائی ہوئی تھی، اتنا ہی پتہ چلتا تھا کہ اس دھند میں کچھ ہے ،میں نے پہلے دن غزالوں کا ذکر کیا ہے کہ خواب میں دیکھے تھے، وہ اسی دھند میں غائب ہو گئے تھے،،،،،،، 

محترم درویش!،،،، کہ یہ میرا خواب والا غار تو نہیں؟ 

ہاں حسن!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ غار وہی ہے لیکن تیرا علم یہاں مکمل نہیں ہو گا، یہاں سے تجھے روشنی ملے گی جس میں تجھے اپنی منزل اپنا مستقبل اور اپنی شخصیت بہت ہی بڑی نظر آئے گی،،،،،اب تو یہ پوچھے گا کہ میں کون ہوں، اور میں یہاں کیا کررہا ہوں ؟

یہ تو میں نے پوچھنا ہی ہے۔۔۔ حسن نے کہا۔

اس سے پہلے کچھ ضروری باتیں سن لے حسن!،،،،، درویش نے کہا ۔۔۔مجھے معلوم تھا تو آئے گا، یہ ہمارا ایک زمین دوز نظام ہے اس نظام کو ہم زمین کے اوپر لانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہاں سے وہ علاقہ شروع ہوتا ہے جس پر ہم نے قبضہ کرنا ہے، آگے بہت سے قلعے ہیں ،جن میں کچھ چھوٹے اور بعض بہت ہی چھوٹے اور چند ایک ذرا بڑے ہیں، ان میں کئی ایک ایسے ہیں جو چند ایک امراء کی ذاتی ملکیت بنے ہوئے ہیں، ہم نے ان پر قبضہ کرنا ہے۔

قلعہ فتح کرنے کے لیے تو فوج کی ضرورت ہوتی ہے؟،،،، حسن نے کہا۔۔۔ ہم فوج کہاں سے لائیں گے؟ 

لوگوں کی فوج بنائیں گے۔۔۔ درویش نے کہا۔

 لیکن کس طرح ؟،،،،حسن نے پوچھا۔

 درویش نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔

*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

یہ ہے وہ سبق جو میں نے تجھے دینا ہے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔ تو نے عبدالملک ابن عطاش کی شاگردی بھی کر لی ہے، اب تو ایک اور شخص کی شاگردگی کرے گا، وہ ہے احمد بن عطاش، آگے ایک قلعہ ہے جس کا نام قلعہ اصفہان ہے ،احمد بن عطاش اس قلعے کا والی ہے، وہ تجھے علم سحر کا ماہر بنا دے گا،،،،،،

اب میں جو بات کہنے لگا ہوں اس کا ایک ایک لفظ غور سے سننا اور ہر لفظ کو سینے میں محفوظ رکھتے جانا ،بنی نوع انسان دو طاقتوں کے غلبے میں ہے، یوں کہ لو کے دنیا پر دو طاقتوں کی حکومت ہے ،ایک ہے خدا ،اور دوسرا ہے ابلیس، انسان خدا کو کئی روپ دے کر اس کی عبادت کرتا ہے، انسان نے سورج کو خدا بنایا، آگ کو، سانپ کو، اور آسمانی بجلی کو بھی انسان نے خدا بنایا، آخر اسلام نے آکر انسان کو بتایا کہ خدا کیا ہے، یہ بھی بتایا کہ یہ سورج ،چاند ،آسمانی بجلیاں، آگ، سانپ وغیرہ خدا نہیں ،بلکہ یہ خدا کی پیدا کی ہوئی ہیں، اس خدا کی وحدانیت کو لوگوں نے مان لیا،،،،،، 

ہم بھی خدا کو ماننے والے مسلمان ہیں، لیکن ہم نے اپنا الگ فرقہ بنا لیا ہے اور ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ صحیح اسلام ہمارے پاس ہے، لیکن اہل سنت نے لوگوں کے دلوں پر اپنے عقائد ایسے طریقے سے نقش کر دیے ہیں کہ اب ہم ان کے عقائد کو نہیں بدل سکتے، ہمیں کوئی اور طریقہ اختیار کرنا پڑے گا،،،، 

کیا آپ نے کوئی طریقہ سوچا ہے؟،،،، حسن نے پوچھا۔

ہاں !،،،،،درویش نے کہا۔۔۔ یہی بتانے لگا ہوں، لیکن یہ طریقہ ایسا نہیں کہ پتھر اٹھاؤ اور کسی کے سر پر مارو ،یہاں معاملہ نظریات کا ہے اور اس معاملے کو صرف تم سمجھ سکتے ہو۔

صرف میں کیوں؟،،،، حسن نے کہا ۔۔۔میرا علم ابھی خام ہے اور تجربہ کچھ نہیں۔

تمہارے پاس سب کچھ ہے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔ پہلے وہ سن لو جو ہم نے سوچا ہے، پھر تم خود محسوس کرو گے کہ یہ تو پہلے ہی تمہارے دل میں تھا، بات یہ ہے حسن!،،، اہلسنت نے لوگوں کا رشتہ خدا کے ساتھ براہ راست قائم کر دیا ہے، عسائیت نے بھی خدا کو ھی اول اور آخر قرار دیا ہے اور وہ عیسی کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں، یہودی ہیں، آتش پرست ہیں یہ بھی خدا کو مانتے ہیں، ہمارے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ حکومت اہلسنت کی ہے۔

شاید آپ کو معلوم ہو گا ۔۔۔حسن نے کہا ۔۔۔کہ ہمارا امیر ابو مسلم رازی اس قدر کٹر سنی ہے کہ اس نے میرے باپ سے کہا تھا کہ تم اپنے آپ کو اہلسنت ظاہر کرتے ہو تو اپنے بیٹے کو ایک اسماعیلی پیشوا عبد الملک ابن عطاش کی شاگردی میں کیوں بٹھا رکھا ہے؟،،،،،، میرے باپ نے ابو مسلم رازی کے عتاب سے بچنے کے لئے مجھے امام موافق کے مدرسے میں بھیج دیا تھا، مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ابومسلم نے اپنے جاسوس پھیلا رکھے ہیں جو گھر گھر کی خبر رکھتے ہیں کہ کہیں سنی عقیدہ کے خلاف کوئی بات تو نہیں ہو رہی۔

ہاں حسن!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ ابومسلم رازی نے اپنے جاسوس پھیلا رکھے ہیں، اسے معلوم نہیں کہ ہم نے اس کے جاسوسوں کے پیچھے جاسوس چھوڑے ہوئے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ سلجوقی سلاطین کی حکومت ہماری دشمن ہے، لیکن ہم ان کی جڑیں کھوکھلی کر دیں گے، ہمیں مصریوں پر بھروسہ ہے وہ عبیدی ہیں، اور ہمارے ہم عقیدہ بھی ہیں۔

محترم درویش!،،،، حسن نے کہا ۔۔۔معلوم نہیں کیوں مجھے خیال آتا ہے کہ میں مصر جاؤ اور وہاں سے سلجوقیوں کے خلاف طاقت حاصل کروں۔

 درویش عجیب سی طرح ہنسا اور کچھ دیر حسن بن صباح کے منہ کو دیکھتا رہا ۔

کیوں محترم درویش ؟،،،،،حسن نے ذرا کھسیانا سا ہو کر پوچھا۔۔۔ کیا میں نے غلط بات کہہ دی ہے۔

نہیں حسن!،،،، درویش نے کہا ۔۔۔میں تمہاری اس بات سے خوش اور مطمئن ہوا ہوں کہ تمھیں مصر کا خیال آیا ہے، میں خوش اس لئے ہوں کہ یہ خیال ویسے ہی نہیں آیا بلکہ تم میں ایک پراسرار طاقت ہے جو تمہیں اشارہ دیتی ہے ،میں پورے وثوق کے ساتھ پیشن گوئی کرتا ہوں کہ تم میں نبوت کے نمایاں آثار پائے جاتے ہیں، تم نبی بنو یا نہ بنو  تمہیں اتنی ہی شہرت ملے گی جو صرف نبیوں کو ملا کرتی ہے ،آنے والی نسلیں اور انکی نسلیں ہمیشہ تمہارا نام لیتی رہیں گی، لیکن ضروری نہیں کہ تمہیں اچھے نام سے ہی یاد کیا جائے گا، لوگ تمہیں یاد ضرور رکھیں گے۔

پہلےدرویش کی ہنسی نکلی تھی اب حسن ہنس پڑا۔

 آپ کو میری بات سے خوشی حاصل ہوئی تھی۔۔۔ حسن نے کہا ۔۔۔اور مجھے آپ کی بات سے خوشی حاصل ہوئی ہے، معلوم نہیں کیوں مجھے برائی سے مسرت حاصل ہوتی ہے۔

 میں تمہیں اسی بات پر لا رہا تھا ۔۔۔درویش نے کہا ۔۔۔میں خدا کا جو ذکر کر رہا تھا، وہ یہ تھا کہ ایک قوت خدا کی ہے اور دوسری ابلیس کی، خدا کا نام لے کر لوگوں کو ان کے عقیدوں سے ہٹانا کوئی آسان کام نہیں، اس کام کو ہم اس طرح آسان کریں گے کہ ہم دوسری قوت کو استعمال کریں گے یعنی ابلیس کی قوت،،،،،، 

بدی میں بڑی طاقت ہے حسن!،،، بدی میں کشش ہے، بدی میں لذت ہے، اور بدی میں نشہ ہے، یہ قوت تمہارے دل و دماغ میں موجود ہے، ہم لوگوں پر بدی کا نشہ طاری کریں گے، تمہارے ساتھ یہ جو لڑکی ہے یہ تمہارا کام آسان کرے گی ،اس کے ساتھ ہی ہم علم سحر کو کام میں لائیں گے، یہ علم سحر کا ہی کرشمہ ہے کہ تم مجھ تک پہنچے ہو ،اب ہم نے تمہارے اس علم کی تکمیل کرنی ہے۔

انسان میں خدا نے یہ کمزوری شروع سے ہی رکھ دی تھی کہ وہ بدی کی طرف جلدی آ جاتا ہے ،وہ ابلیس ہی تھا جس نے انسان کو بہکا کر جنت سے نکالا تھا ،ہم لوگوں کو دنیا میں ہی جنت دیں گے، اور یہ تم دو گے۔

محترم درویش !،،،حسن نے کہا۔۔۔ میرا خیال ہے کہ مزید باتوں کی ضرورت نہیں ،آپ جو کچھ بھی کہے جارہے ہیں یہ پہلے ہی میرے ذہن میں موجود ہے، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ مجھے میری اس منزل تک پہنچا دیں جہاں سے میں اپنا محاذ کھول سکوں۔

 کل صبح تم یہاں سے روانہ ہو جاؤ گے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔ اس لڑکی کو بھی تعلیم و تربیت دی جائے گی۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

حسن بن صباح کا اس درویش کے پاس اس انداز سے پہنچنا جس انداز سے اسے پہنچایا گیا پراسرار افسانہ لگتا ہے، لیکن فرقہ باطنیہ اسی طرح زمین دوز اور پراسرار طریقوں سے پھلا پھولا تھا ،سلجوقی سلاطین اہلسنت وجماعت تھے اس لیے وہ کسی اور فرقے کا وجود برداشت نہیں کرتے تھے، تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے جاسوسوں اور مخبروں کے ذریعے اپنی سلطنت کے ہر گوشے میں نظر رکھی ہوئی تھی، یہی وجہ تھی کہ فرقہ باطنیہ زمین دوز ہو گیا اور اس کے پیشواؤں نے اپنی کاروائیوں کو اتنا خفیہ کردیا کہ جاسوسوں اور مخبروں کو بھی ان کی کارروائیوں کا علم نہیں ہوتا تھا۔

حسن بن صباح کا استاد عبدالملک ابن عطاش کوئی معمولی شخصیت نہیں تھا ،وہ فرقہ باطنیہ کا صف اول کا پیشوا تھا، بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ ایک قلعے کا مالک بھی تھا۔

اگلی صبح سورج ابھی افق سے نہیں ابھرا تھا جب چار گھوڑے ان چٹانی بھول بھلیوں سے نکلے، ان کا رخ خراسان کی طرف تھا ،ایک گھوڑے پر حسن بن صباح سوار تھا، دوسرے پر فرحی، تیسرے پر درویش اور چوتھے پر درویش کا ایک آدمی سوار تھا۔

جب سورج افق سے اٹھ آیا اس وقت یہ چاروں گھوڑے ایک سرسبز پہاڑی کی ڈھلان پر چڑھتے جارہے تھے، یہ باقاعدہ راستہ تھا جس پر بیل گاڑیاں اور گھوڑا گاڑیاں بھی چلا کرتی تھیں، درویش نے گھوڑا روک لیا، باقی تین گھوڑے بھی رک گئے، درویش میں اپنے گھوڑے کا منہ اس طرف پھیر دیا جس طرف سے وہ آئے تھے۔

 پیچھے دیکھو حسن!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ اور تم بھی فرحی۔

حسن اور فرحی نے پیچھے دیکھا ان کے چہروں کے تاثر بدل گئے ،اس بلندی سے انہیں دور دور تک پھیلا ہوا جو منظر نظر آرہا تھا وہ کچھ عجیب سا تھا ،جس پہاڑی کی بلندی پر وہ کھڑے تھے وہ بڑی خوبصورت گھاس، پھول اور پودوں اور خوشنما درختوں سے ڈھکی ہوئی تھی، پہاڑی کے دامن میں کچھ دور تک روح افزا سبزہ زار تھا، دور ایک ندی ابھرتے سورج کی کرنوں میں چمک رہی تھی۔

اس سحر انگیز خطے میں میلوں رقبے میں پھیلا ہوا ایک بے آب و گیاہ چٹانی سلسلہ تھا، جو گولائی میں تھا، چٹانے نوکیلی بھی تھیں، بعض کی چوٹیاں مخروطی تھیں، کچھ بہت بڑے بڑے انسانی بوتوں جیسی تھیں، اور زیادہ تر اس طرح گول تھی جیسے قدرت کے ہاتھوں نے انہیں بڑی محنت سے بنایا ہو، ان کے وسط میں کچھ جگہ ہری بھری نظر آرہی تھی جہاں چند ایک درخت بھی کھڑے تھے یہ وہ جگہ تھی جہاں درویش کا ڈیرہ تھا ،ان چٹانوں کا رنگ سلیٹی بھی تھا اور سیاہ بھی، اور یہ خطہ ڈراؤنا سا لگتا تھا۔

دیکھ رہے ہو حسن!،،،، درویش نے کہا ۔۔۔تم بھی دیکھو فرحی !،،،میں یہاں سے آگے نہیں جاؤں گا، یہاں تک تمہارے ساتھ اس لئے آیا ہوں کہ ایک آخری بات کرنی تھی جو یہاں آکر ہی کہی جاسکتی تھی،،،،،، زندگی ہری بھری گھاس اور پھولوں کی سیج ہی نہیں، اس میں ایسی ایسی دشواریاں بھی ہیں کہ انسان ہمت ہارنے کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ان دشواریوں میں سے گزر جاتے ہیں،،،، 

تمہارا استاد عبدالملک  ابن عطاش تمہیں سیدھے راستے پر بھی ڈال سکتا تھا، لیکن اس نے تمہیں اپنے علم سحر کے ذریعے ایسا خواب دکھایا جس میں تم کو یہ راستہ نظر آیا، تم ان چٹانوں کے اندر آگئے ،تمہیں راستہ نہیں مل رہا تھا، دو ناگوں نے تمہیں بھگا کر پھر وہی پہنچا دیا جہاں سے تم اس سلسلہ کوہ میں داخل ہوئے تھے، انسان کی زندگی میں ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ اسے سمجھ نہیں آتی کہ نجات کا راستہ کون سا ھے ،وہ حالات اور کئی طرح کی دشواریوں میں اس طرح بھٹک جاتا ہے جیسے بھول بھلیوں میں آ گیا ہو،،،،، 

ان چٹانوں کے اندر زندگی کا ایک سبق ہے، دیکھو قدرت نے کیسی خوفناک جگہ کے اندر کتنا شفاف چشمہ بنا رکھا ہے، اور اس کے ساتھ ہی کتنی اچھی پناہ گاہ ہے، ایسے چشموں تک وہی پہنچ سکتے ہیں جو ان چٹانوں سے ڈرتے نہیں، بھٹک بھٹک کر راستہ تلاش کر لیتے ہیں اور میٹھے چشمے تک پہنچ جاتے ہیں،،،،،ہم یہاں موجود تھے ،ہمیں معلوم تھا کہ تم آرہے ہو، ہمارے آدمی تمہیں دیکھ رہے تھے، ہمیں پہلے بتا دیا گیا تھا کہ تم آرہے ہو، یہ تو تم جان ہی چکے ہو کہ اس لڑکی کو ہمارے آدمی اٹھا کر لے آئے تھے، ہمارا کوئی آدمی ان بھول بھلیوں میں بھٹک نہیں سکتا،،،،،، میں اس وقت تم سے بہت چھوٹا تھا جب میرا استاد مجھے یہاں لایا تھا ،وہ باہر بیٹھ گیا تھا اس نے میری کلائی کے ساتھ ایک دھاگا باندھ دیا تھا، یہ بڑا ہی لمبا دھاگا تھا جو گولے کی شکل میں استاد نے اپنے ہاتھ میں رکھا تھا، اس نے مجھے کہا تھا کہ میں باہر بیٹھوں گا تم اندر چلے جاؤ ،اندر ایک چشمہ ہے، ایک کوزہ اس چشمے کے پانی کا بھر کر لاؤ۔

استاد نے مجھے بتایا کہ یہ دھاگا راستے میں چھوڑتے جانا اور میں باہر بیٹھا گولے سے دھاگا ڈھیلا کرتا جاؤں گا، اگر تم تھک ہار گئے اور چشمے کو نہ پا سکے تو اس دھاگے کو دیکھ دیکھ کر واپس آ جانا ،خیال رکھنا کہ دھاگہ ٹوٹ نہ جائے ورنہ اندر جا کر باہر نہیں نکل سکو گے،،،،،، میں اندر چلا گیا استاد دھاگا ڈھیلا چھوڑتا گیا،،،،، یہ ذرا لمبی بات ہے کہ میں چشمے تک کس طرح پہنچا ،میں اتنا زیادہ بھٹکا تھا کہ ٹانگیں اکڑ گئیں اور میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا تھا، لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور چلتا گیا،،،،،، 

پھر میرے ہوش و حواس اندھیرے میں ہی گم ہو گئے، معلوم نہیں میں کتنی دیر بعد ہوش میں آیا، میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میں چشمے کے کنارے پڑا ہوا تھا، میں اچھل کر اٹھا مٹی کا کوزہ جو میرے ہاتھ میں تھا وہ ٹوٹا پڑا تھا ،میں بے ہوش ہوکر گرا تو کوزہ پتھر پر گر کر ٹوٹ گیا تھا،،،،، 

اپنے استاد کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ میں چشمے تک پہنچ گیا تھا میں کپڑوں سمیت چشمے میں اتر گیا اور باہر آ کر چل پڑا ،میری رہنمائی کے لئے دھاگا موجود تھا جو میں راستے میں پھینکتا آیا تھا، سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا کہ میں باہر اپنے استاد کے سامنے کھڑا تھا، میں نے اسے بتایا کہ کوزہ ٹوٹ گیا ہے اور میں چشمے میں اتر کر اپنے کپڑے بھیگو لایا ہوں،،،،،،، 

میں تمہیں وہ سبق دینا چاہتا ہوں جو استاد نے مجھے دیا تھا۔۔۔ اس نے کہا تھا کہ زندگی کے چشمے خود چل کر کسی کے پاس نہیں آ جایا کرتے انسان کو چل کر ان کے پاس جانا پڑتا ہے،  اور پھر زندگی کے چشمے ان کا استقبال کیا کرتے ہیں جو ان کی تلاش میں سنگلاخ وادیوں سوکھی سڑی چٹانوں کی بھول بھلیوں میں اور پرخار راستوں پر چلتے ہی جاتے ہیں اور پائے استقلال میں لغزش نہیں آنے دیتے،،،، 

اور استاد نے کہا تھا کہ یہ دھاگا جو میں نے تمہاری کلائی سے باندھا تھا اسے صرف ایک دھاگا ہی نہ سمجھنا، یہ دھاگہ انسانی رشتوں کی علامت ہے، انسانی رشتے ٹوٹنے نہیں چاہیے، تم اکیلے کچھ بھی نہیں، تم تنہا رہ گئے تو سمجھو تمھاری ذات ہی ختم ہو گئی، ہمیشہ یاد رکھنا کے رشتوں کا یہ دھاگا نہ ٹوٹنے دینا، ذرا سوچو اگر یہ دھاگہ ٹوٹ جاتا تو میرا اور تمہارا رشتہ ٹوٹ جاتا اور تم ان بھول بھلیوں سے نکل نہ سکتے۔

تو یہ ہے وہ آخری سبق جو میں نے تم تک پہنچانا تھا حسن!،،،،، ثابت قدم رہنا۔۔۔ تم نے فوج کے بغیر قلعہ سر کرنے ہیں، انسانی فطرت کی کمزوریوں کو اپنے مقاصد اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے،  انسانوں پر نشہ طاری کر دو ،نشہ دولت کا بھی ہوتا ہے، عورت بھی آدمی کے لیے نشہ بن جایا کرتی ہے، نشوں کی کمی نہیں حسن!،،،، ابلیسی اوصاف میں بڑی طاقت ہے، میں تمہیں راز کی ایک بات بتاتا ہوں، بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نماز اپنا فرض اور خدا کی عبادت سمجھ کر پڑھتے ہیں، عام لوگ نماز صرف اس لیے پڑھتے ہیں کہ اگلے جہان جنت میں جائیں گے جہاں حوریں اور شراب ملے گی، اور سوائے عیش و عشرت کے کوئی کام نہیں ہوگا۔

میں ان لوگوں کو دنیا میں جنت دکھا دوں گا۔۔۔ حسن نے پرعزم لہجے میں کہا ۔

زندہ باد حسن بن صباح!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ اب جاؤ میں یہاں سے واپس جا رہا ہوں،،، 

 الودا!،،،  

الوداع!،،،

جاری ہے

https://link2fakhar.blogspot.com/2020/12/blog-post_14.html


باطنی کون تھے۔انتہائی دلچسپ تحریر

 السلام علیکم

باطنی کون تھے...؟ 

اسماعیلی فرقہ کے باطنی سلجوقیوں کے اقتدار سے بہت پہلے ہی مملکت اسلامی میں خفیہ ریشہ دوانیوں کے جال بچھاتے چلے آ رہے تھے. 1072ء بمطابق 464ھ میں جب ملک شاہ سلجوقی بادشاہ بنا. سلسلہ باطنیہ کے داعی شیخ احمد بن مالک نے حسن بن صباح کو اپنا خلیفہ بنا کر اسے قاہرہ جانے کا حکم دیا. حسن بن صباح نے سلجوقیوں کے اقتدر میں خوب پروپوگینڈے کیے اور سلجوق سلطنت کے لیے مستقل دردِ سر بنا رہا حسن بن صباح نے قزوین پہنچ کر اپنے پیروؤں کی مدد سے 1090ء میں الہاموت قلعے پر قبضہ جما لیا اور باطنیوں کی مذہبی امارت کا ایک مرکز قائم کرلیا.

فدائی:

یہ لوگ حسن بن صباح کے دماغ کی پیداوار تھے جن سے سلسلہ باطنیہ کے مخالفین اور مسلمانوں کے اعاظم رجال کو قتل کرانے کا کام لیا گیا. یہ فدائی حکم کی تعمیل میں بڑی سے بڑی ہستی کو قتل کرنے میں زرا سا بھی توقف و تامل سے کام. نہ لیتے تھے. یہ لوگ سلسلہ باطنیہ کا انتقام لینے والے تباہی کے شیطان تھے. جن کے کارناموں نے مملکت اسلام کے اندر عجیب دہشت کا عالم طاری کردیا. فدائیوں کو داعی بڑی احتیاط کے ساتھ چنتے تھے. اور انہیں حشیش (بھنگ کی قسم کی نشہ آور بوٹی جس کو حسن بن صباح نے فدائی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا) کھلا کر بیہوش کرلیا جاتا اور قلعہ الموت کے باغ میں پہنچا دیا جاتا تھا. حسن بن صباح نے دنیا پر ہی جنت بنانے کا دعویٰ کر رکھا تھا جس میں نو عمر خوبصورت لڑکیاں حوران بہشتی بن کر مصروف گلگشت رہتی تھیں فدائیوں کو حشاشین بھی کہا جاتا تھا جو بعد میں انگریزی میں بگڑ کر assassin بنا جس کے معنی قاتل کے قرار پائے یہ لوگ سرکردہ لوگوں کو پر اسرار طریقے سے غائب کرتے تھے اور بے رحمانہ قتل کردیتے تھے جن. کی لاشیں کبھی سر ہڈیاں اور اعضاء ہی بعد میں ملتے. ملک شاہ سلجوق کے وزیر نظام الملک کو حسن بن صباح نے شہید کروایا تھا(قتل ہونے کی تاریخ 1092ء) اس زمانے میں بہت سے سنی علماء اور شیوخ بھی فدائیوں باطنیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے. سلجوق حکمران اور ان کے والیوں نے باطنیوں کی سرکوبی کے لیے پورا زور لگایا 1090ء میں سنجر شاہ خراسان نے نیشاپور میں باطنی ماحدہ کا قتل عام کروایا. حسن بن صباح یمن کے حمیری شاہی خاندان سے تھا اس کا باپ کٹر شیعہ تھا اس لعنتی کی موت 1142 میں قلعہ الموت میں ہوئی

احباب باطنیوں پر ایک قسط میں بات نہیں کی جاسکتی یہاں سرسری سے حالات بیان کیے ہیں مکمل کے لیے تو کم از کم 5 اقساط لگ جائیں گی

https://link2fakhar.blogspot.com/2020/11/blog-post_16.html

Best Islamic Quotes In English

Inspirational Islamic Quotes On Allah, Life, Success, & The Hereafter


The Holy Quran Quotes


“Do not lose hope, nor be sad.” Quran 3:139

 

Best Islamic Quotes In English
Best Islamic Quotes In English

 “Worldly life is short, so turn to Allah  before you return to Allah.” Anonymous 


 “Allah does not intend to make difficulty for you, but He intends to purify you and complete His favor upon that you may be grateful.” Quran 5:6

 

Allah tests us with what we love.” Anonymous 

“Indeed, Allah will not change the condition of a people until they change what is in themselves.” Qur’an 13:11

 

 Be like a diamond, precious and rare, not like a stone, found everywhere.” Anonymous

Allama Khadim Hussain Rizvi Aqwal / Quotes

 Allama Khadim Hussain Rizvi Qoutes In Hindi Urdu

Aseq Apny Fasle Karne Me Khod Barha Daleer Hota Hai.

Allama Khadim Hussain Rizvi Qoute

Pata Nhi Ktni Sadyan Qabar Me Rahna Hai Kuch To Wafa Kar k Jao Hozoor Se K Jab Qabar Me Faristhy Pochy K In K Bare Me Dunya Me Kia Kahta Tha To Hazoor Khod Farmae Jane Do Ye Apna Hi Ha.

Allama Khadim Hussain Rizvi
Allama Khadim Hussain Rizvi


Islamic Qoutes By Allama Khadim Rizvi

Agr Hazoor Ki Etaz O Namoos Py Pahra Dena Dahsat Garde Hai To Ye Dahsat Garde Har Lamhy Ho Ge Har Mint Ho Ge Sare Bazar Ho ge Aur Agr Wakt Aya To Sare Dar B Hoge.

Tehreek Labbaik Pakistan Qoutes

Agr Dunya Aman Cahte Ha To Hamare Aaqa O Mola Ke Tazeem Krna Sekhy.

  عید میلاد النبی ﷺ – رحمتِ دو جہاں کی آمد کا دن 🌸 عید میلاد النبی ﷺ – رحمتِ دو جہاں کی آمد کا دن 🌸 عید...