السلام علیکمدوستو!
اگر آپ مجھے تھوڑی سی جسارت کی اجازت دیں تو ایک معصوم صورت ' خوبصورت روشن آنکھوں ' گھنگھریالے بالوں والے کم عمر نوجوان جس نے جوانی کی دہلیز پر ابھی نیا نیا قدم رکھا ھے کا زکر کرنا چاھوں گی ۔بائیوجا جس کی روشن اور کشادہ پیشانی پر بہت کچھ کر گزرنے کا جذبہ کندہ ھے۔جو اپنے اجداد کے چھوڑے ھوئے قدموں کے روشن نقوش پر قدم جما کر اپنے قبیلے اپنی قوم کے لئے اور ایمان کے راستے پر انمٹ نقوش چھوڑنے والوں کی تقلید کرتے ھوئے چلنے اور جذبہ شوق شھادت سے معمور ایک جوشیلا اور جذباتی انداز رکھنے والا نوجوان ھے۔
غازیوں مجاھدوں اور شہیدوں کے خاندان کا چشم و چراغ 'ارتغل غازی کا پوتا ' عثمان اور گوندوز کا بھتیجا اور عالم و فاضل ساوچی اور علینا کا نور نظر اور دل کا ٹکڑا۔اپنے چچا عثمان کی شخصیت سے متاثر غازی یا شہید کہلانے کی خواھش کی چنگاریاں اسے چین سے بیٹھنے نہیں دے رہیں اور پھر اپنی ضد اور جوش کے اندھے جنون میں دشمن کی اسیری میں اسے دلیری کے ساتھ بہادروں کی طرح سر اٹھائے سینہ تانے دشمن کے بے پناہ ظلم و تشدد کا نشانہ بنتے دیکھنا کسی بھی ممتا سے بھرے دل کو تڑپانے کے لئے کافی ھے۔نہ جانے اللہ نے یہ شوق شھادت رکھنے والے لوگ کس مٹی سے بنائے ھوتے ہیں۔ان کا دل کس مستی کی لے پر دھڑکتا ھے۔ وہ کونسی مائیں ھوتی ھیں جو ایسے سپوت پیدا کرتی ہیں کہ جو اپنے لہو سے اپنے گلشن کی آبیاری کرتے ھیں۔ یی بےشک جو قومیں آج آزادی اور بے فکری کی پر سکون فضاوں میں سانس لے رہی ہیں ان کی آزادی کی رگوں میں ایسے ہی جوانوں کا نایاب لہو زندگی بن کر دوڑ رھا ھے۔
آج نہیں تو کل بائیوجا اپنے اور اپنے آباء کے نظرئیے پر قربان ھو جائے گا۔سلطنت عثمانیہ کے پہلے اور کم عمر شہید ھونے کے اعزاز کا جھومر اپنے ماتھے پر سجا کرھمیشہ ھمیشہ کے لئے جاوداں ھو جائے گا۔ کاش ھر ماں کو اللہ ایک ایسا بائیوجا ضرور عطا کردے جو ماوں کے سینوں کو شھید کی ماں ھونے کے غرور سے روشن کردے۔آمین