شان امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام
منقبت امام حسین رضی اللہ عنہ
۔*꧁🌹🍥✰﷽✰🍥🌹꧂*
*📒 ا؏ــمــال ایسے کہ فـرشتـے نازل ہوں*
💫پوسٹ نمبـــر ❪⑩❫
🌍 دنیا میں کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہیں جن کے لیے اللّه تعالیٰ کے فرشتے اترتے اور ان کو خوشخبریاں دیتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ایسے اعمال اختیار کیے جائیں جو فرشتوں کے نزول کا باعث بنیں۔
*┄┄┅┅✪❂✵🔵✵❂✪┅┅┄┄*۔
*(10)•• ☜ اشــراق اور ظہــر کی نمازیں ادا کــرنے والوں پر فرشتــوں کا نــزول :*
*🕯اشــراق* کے پابند اور ظہر باجمــاعت ادا کرنے والوں کے لیــے بھی *فرشتــوں* کا نزول ہوتا ہے، ان سعــادت مند لوگوں پر *فرشتــوں* کے نزول کی دلیل :
💫سیدنا ابو امامہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ عمرو بن عبسہ رضی اللّٰه عنہ جو قبیلہ بنی سلم سے ہیں، کہتے ہیں کہ میں جاہلیت میں یقین کرتا تھا کہ لوگ گمراہی پر ہیں اور کسی راہ پر نہیں کیونکہ وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے - میں نے سنا کہ مکہ میں ایک شخص بہت سی خبریں دیتا ہے تو میں اپنی سواری پر بیٹھا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوا- رسول الله صلی اللّٰه علیہ وسلم ان دنوں چھُپے ہوئے تھے اور اُن کی قوم ان کے اوپر غالب اور مسلط تھی پھر میں نے کوئی حیلہ کیا اور مکہ میں داخل ہوا اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کی " محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم کون ہیں؟" آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا"میں نبی ہوں-" میں نے عرض کیا :" نبی کسے کہتے ہیں ؟"فرمایا مجھے الله نے پیغام دے کر بھیجا ہے-" میں نے کہا "آپ کو کیا پیغام دیا گیا ہے؟" فرمایا "مجھے پیغام دیا گیا ہے ناتے داروں سے نیکی کرنے کا اور بتوں کو توڑنے کا اکیلے الله تعالى کی عبادت کرنے اور ان کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کا -" میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کی " اس دین پر آپ (صلی اللّٰه علیہ وسلم) کے ساتھ کون ہے ؟" آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا" آزاد اور غلام-"
راوی نے کہا "ان دنوں آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم کے ساتھ ابو بکر رضی الله عنہ اور بلال رضی اللّٰه عنہ تھے،جو آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے-" پھر میں نے عرض کیا "میں آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم کا ساتھ دینا چاہتا ہوں-" آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا" ان دنوں یہ تم سے نہ ہوسکے گا،کیا تم میرا اور میرے اصحاب کا حال نہیں دیکھتے؟تم اپنے گھر لوٹ جاؤ ،پھر جب سنو کہ میں غالب آگیا ہوں تو میرے پاس آنا -" انہوں نے کہا کہ میں اپنے گھر چلا گیا اور رسول الله صلی اللّٰه علیہ وسلم مدینہ میں آئے،میں اپنے گھر میں لوگوں سے خبر لیتا رہتا تھا اور پوچھتا رہتا تھا ، جب آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم مدینہ میں آئے اور ایک قافلہ مدینے سے میرے پاس آیا تو میں نےاس سے پوچھا "اس صاحب نے کیا کِیا جو مدینہ میں آئے ہیں ؟"انہوں نے کہا " لوگ ان کی طرف دوڑ رہے ہیں ،ان کی قوم نے انہیں مارڈالنا چاہا مگر وہ کچھ نہ کرسکے-" پھر میں مدینہ آیا اور آپ صل الله علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور میں نے کہا "اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم! آپ مجھے پہچانتے ہیں ؟آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا"ہاں تم وہی ہو جو مجھے مکہ میں ملے تھے-" میں نے کہا جی ہاں " پھر میں نے عرض کیا"اے الله کے بنی مجھے بتائیے جو الله نے آپ کو سکھایا ہےاور میں نہیں جانتا اور مجھے نماز کے بارے میں خبر دیجئے؟" تب آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا:
*"صبح (فجر)کی نماز پڑھو اور پھر نماز سے رک جاؤ یہاں تک کہ آفتاب طلوع ہو اور بلند ہو جائے، اس لئے کہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے اور اس وقت کافر لوگ اسے سجدہ کرتے ہیں، پھر جب آفتاب بلند ہو جائے تو نماز ( اشراق) پڑھو اس وقت کی نماز میں فرشتے گواہی دیں گے اور حاضر ہوں گے یہاں تک کہ نیزے کا سایہ اس کے برابر ہو جائے (سورج ڈھل جائے) پھر نماز (ظہر) پڑھو ،اس لیے کہ اس نماز میں فرشتے گواہی دیں گے اور حاضر ہوں گے یہاں تک کہ تم عصر پڑھو پھر رکے رہو یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوجائے، اس لے کہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے-"*
پھر میں نے عرض کیا "اے الله کے بنی صلی اللّٰه علیہ وسلم! اب وضو کا طریقہ بھی بیان فرمائیے؟" آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا" تم میں سے جو شخص وضو کا پانی لے کر کلی کرے اور ناک میں ڈالےاور ناک جھاڑے تو اس عمل سے چہرہ ،منہ اور نتھنوں کے سب گناہ جھڑ جاتے ہیں ،پھر جب وہ منہ دھوتا ہے جیسا الله تعالى نے حکم دیا ہے تو اس کے چہرے کے گناہ اس کی داڑھی کے کناروں سے پانی کے (قطروں کے) ساتھ گرتے جاتے ہیں ،پھر جب وہ اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھوتا ہے،تو دونوں ہاتھوں کے گناہ اس کی انگلیوں کے پوروں سے پانی کے ساتھ گر جاتے ہیں، پھر مسح کرتا ہے تو اس کے سر کے گناہ اس کے بالوں کی نوکوں سے پانی کے ساتھ گر جاتے ہیں،پھر دونوں پاؤں دھوتا ہے ٹخنوں تک،تو دونوں پیروں کے گناہ انگلیوں کی پوروں سے پانی کے ساتھ گر جاتے ہیں،پھر اگر وہ کھڑا ہوا اور اسنےنماز پڑھی اور تعریف کی الله تعالى کی اور خوبیاں بیان کیں اور بڑائی کی ان کی جو ان کی شان کے لائق ہے اور اپنے دل کو خاص انہیں کے لیے ان کے غیر سے خالی کیا تو وہ بے شک اپنے گناہوں سے ایسا صاف ہوگیا گویا اس کی ماں نے آج ہی اسے جنا ہے-" پھر یہ حدیث عمرو بن عبسہ رضی الله عنہ نے ابو امامہ سے بیان کی جو صحابی رسول صلی اللّٰه علیہ وسلم تھے،تو انہوں نے کہا اے عمرو بن عبسہ! دیکھو تم کیا کہتے ہو ،کہیں ایک جگہ( یعنی ایک عمل سے) آدمی کو اتنا ثواب مل سکتا ہے ( تمہارے بیان میں فرق ہے؟" تب عمرو بن عبسہ رضی الله عنہ نے کہا: اے ابو امامہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں ،میری ہڈیاں گل گئیں اور میں موت کے کنارے پہنچ چکا ہوں ،پھرجھے کیا ضرورت کہ الله تعالى اور ان کے رسول صلی اللّٰه علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں،اگر میں اس حدیث کو رسول الله صلی اللّٰه علیہ وسلم ایک ، دو یاتین یا سات بار بھی سنتا تو کبھی بیان نہ کرتا مگر میں نے اس سے بھی زیادہ بار (اس حدیث کو) سُنا ہے-"
📒 [ صحیح مسلم، کتاب المسافرین: ٨٣٢]