حضور ضیاءالامت کون ہیں

 حضور ضیاءالامت رحمتہ اللہ علیہ کون ہیں اور کیسے بنے







#حضرت_ضیا_الامت_علیہ_الرحمہ_کون.......؟

1). جو پیرسیال لجپال کے روضہ کا بلندوبالامینار ہےانہیں حضور ضیاءالامت رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں.

2). جو شاہِ وقت کے نزدیک سونے کےساتھ تولنے کے قابل شخصیت ہے.انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.

3). جن کے موقف کو جنیوا میں قادیانیت کے مقابلے میں قادیانیوں کے خلاف پورے عالمِ کفر نے سراہا تھا.انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.

4). جن کی تفسیر #ضیاءالقرآن مقبولِ عرب وعجم ہے.اس شخصیت کوحضورضیاءالامت کہتے ہیں.

5). جن کی تحریر کردہ سیرۃ النبی پر کتاب سیرت




 #ضیاءالنبی چار دانگِ عالم میں پڑھی جاتی ہے.اس ہستی کو حضورضیاءالامت کہتے ہیں.

6). جن کی تحریر کردہ #سنتِ_خیرالانام منکرین سنت کی ہدایت کے لیئے قندیلِ راہبری ہے.انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.

7). جن کی طرف سے جاری کردہ جریدہ #ضیاء_حرم گھرگھر میں حرم پاک کی ضیائیں بکھیرتا ہے انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.

8). جن کے عدالتی فیصلوں کے جلوے عدالتوں کی زینت ہیں.وہ حضور ضیاءالامت ہیں.

9). ادارہ #ضیاءالقرآن پبلی کیشنز جنکی کاوشوں کا

Huzoor zia ul ummat Pir Muhammad Karam shah 


 نور زمانے میں برسا رہا ہے انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.

10). جنکی اولاد کے لنگرِفیض سے اک زمانہ مالامال ہورہا ہے.اور جنکے طلبہ و متوسلین سات براعظموں میں نورِدین وقرآں بانٹ رہے ہیں انہیں دنیا #حضورضیاءالامت_قبلہ، #پیر_محمد_کرم_شاہ_الازہری(رحمۃ اللہ علیہ) کے نام سے جانتی ہے.

پیر کرم شاہ الازہری ایک عظیم ہستی۔ مزید پڑھنے کے لئے کلک کریں

          🤲خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت🤲


از قلم علامہ محمد اکرم طاہر

فاضل دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف 




موبائل فون گم ہو جائے یا چوری ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے

 موبائل فون گم ہو جائے یا چوری ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے 



What's app group

السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ

اگر خدانخواستہ آپکا انڈرائیڈ فون گم یا چوری ہو جائے تو فون کو ٹریس کرنے یا واپس حاصل کرنے کے یہ پانچ ممکنہ طریقے ہو سکتے ہیں۔ کوشش لازمی کرنی چاہیے۔ 100 فیصد تو نہیں لیکن کافی حد تک چانس ہیں فون واپس ملنے کے۔ میں نے اپنے ایک دوست کا چوری ہوا فون 8 ماہ بعد واپس ملتے دیکھا۔ اور فیس بک فرینڈ نے بھی کنفرم کیا کہ اسے چوری ہوا فون واپس مل گیا تھا.


✅ Find my phone.

ہر انڈرائیڈ فون میں جی میل آئی ڈی لاگ ان ہوتی ہے۔ اگر آپکا فون گم ہو جائے تو اس کے آف یا ری سیٹ ہونے سے پہلے پہلے آپ کسی اور موبائل یا لیپ ٹاپ میں گم ہوئے فون والی جی میل آئی ڈی لاگ ان کر کہ گوگل میں Find my phone لکھیں گے تو پہلی ویب سائٹ پر کلک کرنے پر آپ کے سامنے فون کی لوکیشن شو ہو جائے گی فون کا Imei نمبر فون کی بیٹری پرسنٹیج اور موبائل کس انٹرنٹ سے کنیکٹ ہے شو ہو جائے گا۔ لیکن اگر فون چوری ہو جائے تو چور سب سے پہلے فون آف کرے گا تو چور فون آف نہ کر سکے اور آپ خود فون ٹریس کر سکیں اس کے لیے اگلے طریقے کی طرف بڑھتے ہیں۔

✅ Phone Tracking App.

فون میں پہلے سے ایک ایپ انسٹال کر کہ رکھیں جس کا نام Hammer Security ہے یہ ایپ فون کی لوکیشن کیمرہ کی تصویریں اور مائک کی ریکارڈنگ حاصل کر سکتی ہے اور چور موبائل آف نہ کر سکے اس کے لیے اس ایپ میں یہ سسٹم موجود ہے کہ یہ ایپ فون کو آف نہیں ہونے دیتی پاور آف بٹن دبانے پر ایک فیک پاور آف بٹن شو ہوگا اسے دبانے پر فون فیک آف ہوگا یعنی سکرین آف ہو جائے گی لیکن فون اصل میں آن ہی ہوگا اور آپ اس ایپ کی ویب سائٹ سے فون کی تمام معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور ٹریس کر سکتے 


Android phone lost?

lost mobile phone?

Check this post 


ہیں۔ 

✅ Sim Change SMS

اس سے پہلے جو دو طریقہ کار کا اوپر زکر کیا ان دونوں کے لیے موبائل میں انٹرنیٹ ہونا ضروری ہے لیکن اب جو طریقہ بتانے لگا ہوں اس میں انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں ہے اس طریقہ کار میں آپ نے موبائل میں ایک ایپ انسٹال کرنی ہے جس میں آپ نے کوئی بیک اپ نمبر یا گھر کا نمبر دے دینا ہے۔ جب آپ کے چوری شدہ موبائل میں جب کوئی سم ڈالی جائے گی تو اس سم سے آپ کے اس نمبر پر ایک SMS آجائے گا جس سے آپکو موبائل میں چلنے والے نمبر کا معلوم ہو جائے گا۔ لیکن اس کے شرط یہ ہے کہ سم میں ایک SMS کا بیلنس ہو اور موبائل کو ری سیٹ نہ کیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے LEO Security نامی ایپ پلے سٹور ہر موجود تھی جس میں یہ فنگشن موجود تھا لیکن اب پلے سٹور پر موجود نہیں ہے۔

Call diverte and forward

ایک نارمل انسان یہ اوپر بتائے گئے تین طریقے ہی استعمال کر سکتا ہے اور ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ یہ موبائل گم ہونے اور چوری ہونے کے فوراً بعد کیے جائے اور اگر موبائل کو ری سیٹ کر دیا جائے تو پھر اوپر بتایا کوئی بھی طریقہ کام نہیں کرے گا۔ موبائل کے IMEI نمبر سے ٹریکنگ ایک نارمل انسان کے لیے ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ایسی چیزیں عام عوام کے لیے موجود ہوتی ہیں.


✅ Police Report

اپنے چوری ہوے یا گم ہوے موبائل کی پولیس میں رپورٹ لازمی درج کروانی چاہیے ایک تو موبائل کے ملنے کے چانس ہوتے ہیں دوسرا اگر آپ کا موبائل کسی واردات میں استعمال ہوتا ہے تو اگر آپ نے رپورٹ کروائی ہو تو آپ کی بچت ہو جائے گی ورنہ آپ پھنس بھی سکتے ہیں۔ پولیس سے لازمی اپنے موبائل کا imei نمبر ان کے سسٹم میں ڈلوائیں۔ جتنے بھی دوکان دار ہیں ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ e gadtes نامی ایپ میں کوئی بھی موبائل خریدنے سے پہلے چیک کریں۔ اگر آپکا موبائل کسی دوکان پر بکنے کے لیے آتا ہے تو پولیس کو فورآ اطلاع کی جائے گی اور موبائل لانے والے کو پکڑ لیا جائے گا اور پولیس آپکو کال کرے گی کہ آپکا موبائل مل گیا ہے آ کر لے جائیں۔ موبائل ملنے میں ٹائم لگ سکتا ہے لیکن موبائل ملنے کے چانس ہیں میں خود اس طرح موبائل ملنے کا چشم دید گواہ ہوں۔

✅ Private Tracking

اس طریقہ کار میں پیسے دے کر اپنے موبائل کا imei نمبر ٹریس کروایا جاتا ہے۔ ٹریکنگ تو موبائل کمپنی اور کسی ادارے کے ذریعے ہی ہوتی ہے لیکن اس میں لوگ مڈل مین کا کردار ادا کرتے ہیں یعنی آپ سے پیسے لے کر آپکو ٹریس کروا کر دیتے ہیں۔ موبائل میں چلنے والی سم کا نمبر اور جس کے نام پر سم ہے اسکا نام ایڈریس شناختی کارڈ نمبر اور لوکیشن مل جاتی ہے۔


پیر محمد کرم شاہ الازہری ایک عظیم شخصیت

پیر محمد کرم شاہ


 




‎حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ اور  ایک عالم ربانی ہمارے استاذ گرامی قبلہ رضوی صاحب علیہ الرحمۃ 

‎محمد رمضان سیالوی 

‎خطیب جامع مسجد دربار حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ لاہور

‎فاضل جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور

فاضل جامعہ نعیمیہ 

فاضل جامعہ ابو النور دمشق شام 

‎برادر عزیز محمد طاہر عزیز باروی(ناروے) نے آج ایک بہت دلکش تحریر بعنوان’’دین وملت کی ضیاء۔۔۔ پیرمحمد کرم شاہ ‘‘لکھی ،خاص کر رضویت پر اور باہم جوڑنے پر جو ان کے نکات تھے،میں سمجھتا ہوں حسب موقع انہی چیزوں کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کو جوڑنے والوں میں شامل کریں ۔خیر وہ تحریر پڑھی تو مجھے بھی استاذ گرامی اور حضرت ضیاء الامت (علیھما الرحمہ ) سے متعلق ایک بہت اہم بات یاد آئی۔ یہ اہم اور تاریخی بات محفوظ ہوجائے اسی چیز کے پیش نظر اسے لکھ کے آپ کے پیش خدمت کر دی۔

( واضح ہو کہ بے حد مصروفیات کے باوجود میں جن چند حضرات کی تحریرات پورے انہماک سے پڑھتا ہوں ان میں فاضل عزیز حضرت علامہ مفتی محمد طاہر عزیز باروی بھی ہیں ، زاد اللہ شرفہ )

‎  اس تاریخی  بات  کو تحریر کرنے سے قبل میں یہ عرض کر تا چلوں کہ جامعہ نظامیہ میرا مادر علمی اور  دارالعلوم محمد یہ غوثیہ  بھیرہ شریف میرے اہل خانہ کے دیگر افراد یعنی میرے بہن بھائیوں کا مادر علمی ہےعزیزم مولانا نصیر احمد ضیاء سیالوی صاحب اور  میری خواہر عزیزہ  بھیرہ شریف سے باقاعدہ فاضل ہیں ،اسی لیے مذکورہ ہر دو جامعات کے ساتھ اور ان بانیان ادارہ کے ساتھ ہمارا قلبی اور روحانی تعلق ہے،ازیں سبب جانبین کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔الحمد للہ ایک دوسرے کے معاملے میں باہم شیر و شکر 



حضرت عثمانِ غنی کا قبولِ اسلام

ہی پایا۔ 

‎خیر آمدم برسرمطلب ،

‎علامہ رضوی صاحب نوراللہ مرقدہ کے پاس 1996 میں  صرف کلاس میں پڑھتے تھے اس سال استاذ گرامی نے حج کی سعادت حاصل کی،اس وقت حاجی کیمپ بادشاہی مسجد لاہور میں ہوا کر تاتھا ، ہماری کلاس نے بہت پرتپاک اور بہت شاندار طریقے سے حاجی کیمپ تک رخصت کیا۔ اتفاق یہ کہ جس سال استاذ گرامی حج پر گئے اسی سال دس ذی الحج کو حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ کا وصال ہوا۔ 

‎میں اس وقت آبائی گھر (کھیوڑہ) میں تھا،  چھوٹے بھائی اور بہن کے مادر علمی کی وجہ سے اور حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ کے ساتھ وابستہ قلبی تعلق کی بنا پر یہ خبر کسی آسمانی بجلی سے کم نہ تھی اسی لیے بعد فجر ہی جنازہ میں شرکت کی سعادت پانے نکل پڑے اور یوں عید کی نماز بھی ادا نہ کر پائے ۔اس دن ہمارے علاقے میں شدید بارش تھی ،موسم بھی خراب تھا لیکن ہم روانہ ہوگئے اس وقت موٹر وے کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا موٹر وے کے غیر معروف سٹاپ سے کچی سڑک سے ہم نے بھیرہ شریف کا سفر ہلکی بوندا باندی اور کیچڑ میں پیدل طے کیا اور نماز جنازہ میں حاضری کی سعادت حاصل  کرنے میں کامیاب ہوئے ، بالکل درست لکھا برادر عزیز  جناب طاہر عزیز زیدشرفہ نے میں نے خود استاذ گرامی مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی، اور شرف ملت علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادی  نوراللہ مرقدھما کو وہاں دیکھا اور دست بوسی کی سعادت حاصل کی۔

‎جب استاذ گرامی علیہ الرحمۃ حج سے واپس تشریف لائے تو حسب سابق شاندار استقبال ہوا وہ کلاس میں تشریف فرما ہوئے تو ان کا رعب دبدبہ کلاس تو کجا پورے جامعہ پر ایسا تھا کہ چڑیا پر نہ مارتی۔ مگر اس دن حج سے واپسی کا دن تھا اور طبیعت پر جمال غالب تھا انہوں نے کلاس سے بات کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ 

‎’’حضرت پیر کرم شاہ علیہ الرحمہ کے  وصال کی خبر مجھے دسویں ذی الحجہ کی رات  کو ہی مل گئی تھی مگر میرےدل میں کوئی ایسی خلش موجود تھی جس کے سبب میں نے اس خبر کو قطعا در خور اعتنا نہ جانا بلکہ اس عظیم شخصیت کے وصال کی خبر کی کوئی پروا نہ کی ، فاتحہ نہ ایصال ثواب ، نہ کوئی دعا لیکن رات کو جب میں سویا تو مجھے حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ کی زیارت ہوئی پیر صاحب اس انداز میں میرے سامنے آئے کہ اپنی قمیص کے بازو کے کف  لپیٹے ہوئے تھے اور جلال میں بھی نظر آئے اور  اپنے ہاتھوں کو کھول کر فرمانے لگے مولانا!! میں نے بڑے اخلاص کے ساتھ حضور کے دین کی خدمت کی ہے۔ 

‎ہماری پوری کلاس اس بات کی گواہ ہے استاذ گرامی علیہ الرحمۃ نے بہت واضح انداز میں فرمایا کہ  اس خواب کے بعد آنکھ کھلی تو تہجد کاوقت تھا میں سیدھا حرم مکہ میں گیا  اور باباجی یعنی حضور ضیاء الامت کے نام پر طواف کیا ان کو ایصال ثواب کیا اور اس کے بعد پورا ایک عمرہ ان کے نام پر کیا۔ ‘‘

‎اللہ کریم ہمیں اپنے ان مشترکہ اثاثوں کی قدر اور ان اکابرین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

‎جہاں قدرت کسی سے پھیر لیتی ہے نظر اپنی 

‎وہیں انسان کی بے مائیگی معلوم ہوتی ہے

محمد رمضان سیالوی 

حضرت عثمان غنی کا قبولِ اسلام

 حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا اسلام قبول کرنا 

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اسلام قبول


کرنے سے قبل ملک عرب میں ایک معتبر شخصیت کہلاتے تھے۔سب سے زیادہ مالدار تھے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر مبارک جب 34 سال کی ہوئی تو خلیفہ فصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپ سے فرمایا عثمان تم نے بہت کچھ دیکھا ہے بڑے بڑے بادشاہوں کے درباروں کے تم نے نظارے کیے ہیں فرمایا آئیے اج تمہیں اللہ کے محبوب کے دربار کا دیدار کراتا ہوں عثمان حضور کی بارگاہ میں تشریف لے گئے جب حضور کی نگاہ عثمان پر پڑی نا تو عثمان کی پیشانی حضور کے سامنے جھک گئی کلمہ پڑھ کر عثمان مسلمان ہوگئے۔جب مکہ کے کافروں کو پتہ چلا کہ عثمان نے تو اسلام کو قبول کر لیا ہے تو کفر کی دنیا میں اگ بھڑک اٹھی ایوان کفر میں زلزلہ اگیا۔جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے چچا کو یہ خبر ملی تواس نے کہا کہ عثمان تو بڑا بے ایمان ہو گیا ہے تو نے اپنے اباواجداد کا مذہب چھوڑ دیا ہے آپ کے چچا حکم بن عاص نے بہت ڈرایا دھمکایا کافی دھمکیاں دی کہا کہ عثمان میں تجھے سخت سے سخت سزا دوں گا۔تمہاری جائیدادیں مال سب کچھ میں ضبط کر لوں گا اور میں ان سب چیزوں پر اپنا قبضہ کر لوں گا بہت ڈرایا اپ نے فرمایا چچا مال و دولت تمہیں مبارک ہو یہ تم لے لو جائیدادیں تمہیں مبارک ہوں فرمایا جن کی نظروں میں جمال مصطفی ا جائے ان کو دنیا کی کسی چیز کی طلب نہیں ہوتی اپ نے پرواہ ہی نہیں کی۔حضور مل جائیں پھر کثر باقی رہ جائے یہ ہو سکتا ہے؟حضور کا دامن ہاتھ میں رہے روٹی نہ ملے فرمایا یہ منظور ہے جس دل میں حضور کی محبت ا جائے دھمکیوں کا اثر کیسے ہو سکتا ہے۔یاد رکھیں کہ اگر بندہ حضور کا غلام بن گیا ہے تو پھر سب کچھ اس کا ہو گیا ہے اگر ایمان کامل نہیں اگر ایمان مکمل نہیں تو قدم قدم پر

 ٹھوکریں ہی ہیں اگر تمہارے ہاتھ میں حضور کا دامن ہے تو دنیا کی تمام طاقتوں کو شکست ہوگی۔چچا اب حضور کی غلامی اگئی ہے اب سب کچھ تمہیں مبارک ہو مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے چچا کو غصہ اگیا اگ بگولا ہو گیا تشدد کرنا شروع کر دیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو مارنا شروع ہو گیا۔چچا کہنے لگا کہ اتنا خوبصورت ہمارا شہزادہ گمراہ ہو گیا ہے اب تو میں اسے نہیں چھوڑوں گا اب میں اسے سزا دوں گا تشدد کر کر کے تنگ و تاریک کوٹھڑی میں حضرت عثمان کو بند کر دیا اور کھانا پینا بھی چچا نے حضرت عثمان کا بند کر دیا حکم بن عاص نے فرمایا کہا اب تو دامن مصطفی چھوڑ دے لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا! فرمایا جان جا سکتی ہے جان تو دے سکتا ہوں لیکن دامن مصطفی کو نہیں چھوڑ سکتا۔حضرت عثمان غنی یہی جملے بار بار وہ اپنی زبان سے دہراتے تھے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے تھے مجھے یہ ساری باتیں منظور ہیں میں ہر بات کو اپ کی مان لوں گا مگر حضور کی غلامی چھوڑنا یہ میرے بس کی بات نہیں یہ مجھے نامنظور ہے۔تو لوگو یاد رکھو اگر اسلام کی شان پوچھنی ہے تو جناب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھو حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھو نتیجہ یہ نکلا اس کا خلاصہ یہ نکلا کہ حکم بن عاص اپنے تمام حربے اپنے تمام تر معاملات استعمال کر کے اپنے مقصد میں پھر بھی ناکام رہا ہے۔ چچا نے اپنی شکست کو دل سے تسلیم کر لیا چچا نے کہا کہ عثمان تیرا جذبہ میرے ظلم پر غالب اگیا ہے جاؤ میں تمہیں ازاد کر کے چھوڑ دیتا ہوں۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ مجسمہ شرم و حیا تھے 

مومنوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپ فرماتی ہیں کہ ایک روز میرے کریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں اس حالت کے اندر لیٹے ہوئے تھے کہ اپ کی ران مبارک یا پنڈلیاں مبارک ننگی تھیں راوی کو شک ہے اگر ران تھی تو ران سے صرف کرتا مبارک ہٹا ہوا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر انے کی اجازت مانگی تو میرے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپ کو اجازت دے دی اور حضور اسی حالت میں رہے تھوڑی دیر گزرنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور سے اندر انے کی اجازت طلب کی تو حضور نے انہیں بھی اندر انے کی اجازت دے دی اور اپ پھر بھی اسی حالت میں رہے پھر جناب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے میرے کریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر انے کی اجازت مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست فرما لیے برنا پنڈلی پر چادر مبارک دے دی جب یہ تینوں حضرات چلے گئے تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا باپ ابوبکر صدیق ایا تو اپ اسی حالت میں رہے حضرت عمر ائے تو اپ اسی حالت میں رہے لیکن جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے تو اپ نے کپڑوں کو درست کر لیا کپڑے ٹھیک کر لیے اور اٹھ کر بھی بیٹھ گئے تو میرے حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کیا میں اس ادمی سے حیانہ کروں جس  سے اللہ کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔اب یہاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شرم و حیا کو واضح کرنا مقصد تھا حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں عثمان غنی بہت ہی شرمیلے ہیں اور مجھے ڈر لگتا تھا کہ اگر میں نے اسے اسی حالت میں اندر انے کی اجازت دے دی تو اپنی حاجت روائی کے لیے حضرت عثمان میرے پاس نہیں ائے گا

حج بہترین عبادت

حج - ایک روحانی سفر حج - ایک روحانی سفر حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔ ہر مسل...