انڈیا کے مسلمان زبردست تحریر ضرور پڑھیں

 اسلام یہ ہے کہ ایشین ملک کا دوسرا سب سے بڑا عقیدہ ، [6] جس میں ملک کی چودہ اعشاریہ دو فیصد آبادی یا اس کی تقریبا. آبادی ہے۔  اسلام کے پیروکار (2011 کی مردم شماری) کے طور پر 172 ملین لوگ مخصوص ہیں۔ [7] [8]  یہ ایشین ملک کو مسلم اکثریتی ممالک سے باہر سب سے اہم مسلمان آبادی والا ملک بناتا ہے۔  ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق اسلام کے سنی فرقے سے ہے جبکہ مذہبی نظام ایک بڑی تعداد میں اقلیت کی طرح ہے۔

گجرات ، کیرالہ ، اور جغرافیائی علاقے میں عرب ساحلی تجارتی راستوں پر واقع ایشین ملک میں اسلام کا وجود اس لئے موجود تھا کہ جب سے یہ عقیدہ وجود پایا اور جزیرہ نما کے اندر ابتدائی طور پر قبولیت حاصل کرلی ، حالانکہ نئی مسلم جانشین ریاستوں کے ذریعہ بحر کے ذریعے پہلا حملہ  خلافت راشدین میں throughout 63 World دھات یا 3 643 AD کے قریب عرب دنیا واقع ہوئی ، اس سے بہت پہلے کہ کوئی بھی عرب فوج زمینی راستے سے ایشین ملک کے سرحدی علاقے تک پہنچ جاتی ہے۔  گجرات کے گھوگھا میں خدا کا بارواڈا گھر 623 دھات سے پہلے ڈیزائن کیا گیا تھا ، میٹھاالہ ، کیرالا میں خدا کا چیرامان جمعہ گھر (629 عیسوی) اور صوبہ مربع کیلوکرائی میں واقع حالیہ جمعہ کی عبادت گاہ - 628 - 630 عیسوی۔  ایشین ملک کی 3 بنیادی مساجد کی پیمائش کریں جو عربی مرچنٹ کی سمندری حدود سے تیار کی گئیں۔ [9] [10] [11] [12] [13]  ساتویں صدی کے اندر اسلام ایک بار عربوں نے سندھ پر فتح حاصل کیا اور بعد میں بارہویں صدی میں غوریوں کی فتح کے راستے شمالی ہندوستان پہنچا اور اس کے بعد سے ہندوستان ہندوستان کے غیر سیکولر اور ثقافتی ورثے کا ایک مقام بن گیا۔ [१ 14] [१ 15]  [16] [17] [18]


 شہر کی ریاست اور مغل سلطنت نے بھی جنوبی ایشیاء کے بیشتر حص dominے پر غلبہ حاصل کیا ہے اور جغرافیائی علاقہ ریاست ، دکن سلطنت بھی اور سور Emp سلطنت بھی بڑے معاشی اور سیاسی کرداروں کا مقابلہ کرتی ہے۔  فتویٰ عالمگیری کی تالیف اور ادارہ پر ، دنیا کی سب سے بڑی معیشت ، شہنشاہ اورنگزیب کے دور میں ، توحیدی فرمان کے ایشین ملک کے عروج کو [19] کے نیچے نشان زد کیا گیا تھا۔ [20] [21] [22]  میسور کنگ فخر بولیویا کے عظیم الشان ترک کے ذریعہ اضافی توحید پالیسیاں کے دوبارہ تعارف نے جنوبی ہندوستان کی ثقافت میں اہم کردار ادا کیا۔ [23] [24]  نظاموں کا غلبہ حیدرآباد ریاست نے اس لئے کام کیا کیوں کہ ہندوستان کی تسلط تک اس کی آخری خودمختار سلطنت {ہندوستان | بھارت | جمہوریہ ایشین ملک | بھارت | ایشین ملک | ایشین قوم} جب تک ہندوستان کے تسلط سے منسلک نہیں ہوا۔  صدیوں سے ، ہندوستان بھر میں ہندو اور مسلم ثقافتوں کا اہم انضمام رہا ہے [२]] [२]] اور مسلمان ایشیائی ملک کی معاشی سائنس ، سیاست اور ثقافت میں قابل ذکر کردار ادا کرتے ہیں۔ [२ 27]


New year

 نیوائیر منانااور اس کی مبارکباد دینا

سوال:کیانیو ایئر(New Year) منانااور اس کی مبارکباد دیناجائزہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

     م


روجہ  طرزِانداز یعنی رات کے12:00بجے ہوائی فائرنگ کرکے لوگوں کی نیندیں خراب کرکے؛ان کو  پریشان کرکے؛شراب پی کر؛موسیقی اور رقص وسُرور،اور نائٹ کلبوں میں رات گزار  کرنیوایئر منانا،تو ناجائز وحرام ،اور جہنم میں لے جانیوالا کام ہے۔البتہ نوافل ادا  کرکے ؛اللہ تعالیٰ سے اپنے اور اپنے وطنِ عزیز کے لئے دعائیں مانگ کرنیو ایئر منا  نا جائز، بلکہ مستحسن ہے۔

انگریزی سال  کی مارکباد دینے میں حرج نہیں۔لیکن اجنبیہ عورت کو مبارکباد دینا منع ہے۔

          واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم                           

Turkey


 ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ، ترک استغاثہ نے ترک معاملات کے معاملے کے سلسلے میں سیزگین باران کورکاز کے لئے حراست کا وارنٹ جاری کیا ہے ، اقوام متحدہ کی ایجنسی نے یوٹاہ کے کاروباری عہدیداروں سے تعلقات استوار کیے ہیں ، اقوام متحدہ کی ایجنسی نے حال ہی میں امریکہ میں 511 ملین ڈالر کے نیچے والے مرکزی خیال ، موضوع پر جرم ثابت کیا ہے۔ .


 اے پی کے مطابق ، ترکی کی سرکاری سطح پر چلنے والی ایجنسی اناڈولو ایجنسی کے مطابق ، ترکی میں منی جرائم کے تفتیش کاروں اور ٹیکس حکام کی مشترکہ تحقیقات کے بعد استغاثہ نے یہ وارنٹ جاری کیا۔


 اناڈولو کے مطابق ، اے پی کے مطابق ، کورکاز کی ملکیت والی انیس فرموں کے منتظمین کے لئے وارنٹ جاری کیے گئے ، ان میں سے دس کو شہر اور 3 متبادل شہروں میں پوچھ گچھ کے لئے حراست میں لیا گیا۔ کورکازز کے پاس ایس بی کے ہولڈنگ کی ملکیت تھی ، جو اب ناکارہ بوراجیٹ ایئر لائن اور متبادل کمپنیوں کی ملکیت ہے۔


 تاہم ، کورکازز نے مبینہ طور پر سفر پر پابندی کے باوجود اے پی کے ساتھ سات متبادل ملزمان کے ساتھ مبینہ طور پر ملک چھوڑ دیا ہے ، اور اس کے موجودہ مقام کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔ یوٹاہ میں ، کورکازز نے جیکب اور یسعیا کنگسٹن ، بھائیوں اور سالٹ لیک سٹی پر مبنی بایوڈیزل کمپنی کے عملداران کے ساتھ کام کیا۔


 کنگ اسٹونز نے ریاستہائے مت withinحدہ میں اسٹیپ ڈاون تھیم کے تحت مجرم قرار دیا ، جس کا تعلق واشاکا قابل تجدید توانائی کمپنی سے ہے۔ اے پی کے مطابق ، امریکی دعویٰ کیا گیا ہے کہ کارپوریٹ 2010 اور 2016 کے درمیان غلط پیداواری ریکارڈ بنا رہا تھا تاکہ قابل تجدید ایندھن ٹیکس کریڈٹ تک رسائی حاصل کی جاسکے ، اور اس کے بعد اس کی قدر ہوگی۔


 اے پی کے مطابق ، ترکی کی نجی ڈی ایچ اے ایجنسی کے مطابق ، کورکازز کے گھر پر چھاپہ مارا گیا ، اور تفتیش کاروں کو ایک جڑا ہوا فون ملا جس کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ سرورز کی خوشی SBK ہولڈنگ سے محروم تھی۔


 PYMNTS اس مہینے کے مطابق کہ کمپنی کی جعلسازی کی اسکیمیں اس وقت موجود ہیں۔ ان میں سے بہت سے کاروبار میں ای میل سمجھوتہ (بی ای سی) گھوٹالے میں شامل ہیں ، جبکہ کچھ امیونوجن ڈسٹری بیوشن چین کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان علاقوں میں جہاں بھی کمپنی کے اکاؤنٹنگ میں دھوکہ دہی ہوا ہے اس میں اضافی رقم کے جرم میں .3.٪ جوڑے شامل ہیں۔ اضافی طور پر کمپنی کی دھوکہ دہی اور ڈکیتیوں جیسے دیسی منی جرائم کے مابین ایک انجمن تشکیل پائی تھی۔


 اس مہینے میں بھی ، امریکی سینیٹ نے اینٹی منی واش (اے ایم ایل) کے نئے قوانین منظور کیے ، جس کی مدد سے یہ کمپنیاں اپنے مددگار گھر مالکان کو سرکاری حکام کو رپورٹ کرسکتی ہیں اور ریگولیٹرز کے مابین اضافی ڈیٹا شیئرنگ کو فروغ دیتی ہیں۔


 ----------


Cricket



 ہفتہ کے دن ، گریگوریئن کیلنڈر ماہ سترہ ، کو پاکستان کے سپیسٹر ماہر امت نے روزانہ کی بنیاد پر ہر روز بین الاقوامی کرکٹ کی تمام اقسام سے کاروبار کرتے ہوئے حیرت زدہ کر دیا۔ مہمت ایمر کی ریٹائرمنٹ کی خبر سب کے لئے حیرت کا باعث بنی کیونکہ حال ہی میں ختم ہونے والے ایل پی ایل 2020 میں ساؤتھ پاؤ سمجھدار قسم کا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ عامر نے جولائی 2019 میں چیک جوتے سے اپنے جوتے سجائے تھے۔


 بھی براؤز | کرس لِن نے شاہد آفریدی کی پوری ایل پی ایل 2020 اجرت کو برطانوی صلاحیت یونٹ دس پروٹوکول کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کیا


 دانش کنیریا نے پی سی بی اور پاکستان کے سابق کرکٹرز پر جزوی سلوک کا الزام عائد کیا

 عامر نے اپنی غیر متوقع ریٹائرمنٹ کی وضاحت دیتے ہوئے مذکورہ بالا کہا کہ وہ پاکستان کے اس انتظام سے نیچے کرکٹ نہیں کھیل سکتے۔ ساؤتھ پاو نے مذکورہ بالا یہ بیان بھی کیا کہ وہ اس ذہنی اذیت کو نہیں سنبھال سکتا جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ گولف کا شکار ہے۔ جیسے ہی مہوت عمر کے سبکدوشی کی خبریں انفیکشن ایجنٹ کی حیثیت سے تھیں ، بہت سارے شائقین اور سابقہ ​​پاکستانی کرکٹرز جیسے شاہد آفریدی اور انضمام الحق نے دیگر میں فاسٹ بولر کی حمایت کی اور ان سے ملک میں واپسی کیلیے آنے کی تاکید کی۔


 پاکستان کے سابق کرکٹرز نے عمیر کو اپنی حمایت پر قرض دینے والے دانش کنیریا کے ساتھ اچھا نہیں اٹھایا ، اقوام متحدہ کی ایجنسی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اور سابق کرکٹرز کی مساوی حمایت کی درخواست کرتی رہی ہے۔ انگلینڈ کے کاؤنٹی کرکٹ سیزن میں 2009 کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں ملوث ہونے پر اقوام متحدہ کی ایجنسی کینیرا ، آخری پہلو قومی پہلو ، 2010 میں اس کھیل سے ایک وقتی پابندی عائد تھی۔


 بھی براؤز | مہومیٹ امیر قومی دارالحکومت ٹی 10 کی پونے کی ٹیم کے لئے کھیلے گا ، ٹورنامنٹ جنوری 2021 میں شروع ہوگا


 اس کے بعد سے ، لیگ اسپنر نے پی سی بی کو خط لکھ کر اور اس پابندی کو ختم کرنے کے لئے کہہ کر واپسی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم ، عامر کی طرح ، اقوام متحدہ کی ایجنسی پی سی بی نے کھلے عام اسلحہ کے ساتھ استقبال کیا جب ایک بار جب جنوبی شاہ نے اس کی پانچ سالہ پابندی عائد کی تو ، کنیریا کو کسی بھی مدد کی تاکید کی جائے گی ، اسی وجہ سے وہ حمایت کرنے والے امیر کو ملنے پر برہم تھا۔


 کنیریا نے اپنی مایوسی کو واضح کرنے کے لئے ٹویٹر پر بات کی کیونکہ وہ پی سی بی اور سابق مذاق کے طور پر جانا جاتا ہے جس میں ایک مذمت کرنے والے کرکٹر کی حمایت کی جاتی ہے۔ پچھلے پاکستانی اسپنر نے اضافی طور پر اس کے بورڈ پر مستقل طور پر الزام لگایا تھا کہ وہ ایمان کارڈ سے لطف اندوز ہونے اور ان کو جزوی علاج کے لئے جانا جاتا ہے۔ کنیریا کے ٹویٹ پر ایک نظر یں؟ پیسر نے بولنگ کوچ وقار یونس کو کھود لیا


 محمد عامر کے اعدادوشمار

 اس کے مختصر بین الاقوامی کیریئر ایریا یونٹ میں مہومیٹ کے اعدادوشمار کافی شاندار ہیں۔ عامر نے 2009-109 سے اپنے 10 سالہ ٹیسٹ کیریئر میں جہاں بھی 119 اسکیلپس اٹھائے وہ چھتیس چیکوں میں پاکستان کی شکل ہے۔ بائیں ہاتھ کے اس تیز گیند باز نے ایک دن اکیاسی انٹرنیشنل اور اڑتالیس ٹی ٹوئنٹی میچوں میں ناتجربہ کار لڑکےوں کو بھی آراگرامٹک کیا ہے جہاں انہوں نے ایک ساتھ اڑسٹھ وکٹیں حاصل کیں۔


 محمد عامر ویب ویلیو

 ورلڈ بائیو گرافی نیوز ڈاٹ کام کے مطابق ، مہومیٹ ایمر کی ویب مالیت 3 ملین ڈالر (22 کروڑ ڈالر) ہے۔ اس کے مالی فائدہ کا ایک سنجیدہ حصہ اس کے مالی فائدہ سے ہوا ہے جو پاکستان کا جیک بننے اور دنیا بھر میں مختلف فرنچائز پر مبنی لیگز میں حصہ لینے سے حاصل ہوا ہے۔ ایل پی ایل 2020 کے اندر جو حال ہی میں عامر نے کل ٹورنامنٹ کا مقابلہ کیا اور گیل گلیڈی ایٹرز کے ساتھ لطف اندوز ہونے پر، 17،50،000 (،000 25،000) ادا کیا گیا۔


 بھی براؤز | مہومت عامر کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کے کھلاڑیوں کو 'خوفزدہ' کرتے ہیں ، اگر وہ آرام سے اکساتے ہیں تو پیدا ہوجائیں


 دستبرداری: مختلف ویب سائٹوں اور میڈیا رپورٹس سے ماہومت ایمر ویب ویلیو ڈیٹا سے زیادہ حاصل کیا جاتا ہے۔ ویب سائٹ اعداد و شمار کی 100 فیصد درستگی کی ضمانت نہیں دیتی ہے۔


 ذریعہ: دنیشکانیریہ 61 انسٹاگرام

 IND VS AUS کی تازہ ترین خبروں ، IND VS AUS کی تازہ کاریوں ، IND VS AUS شیڈول ، IND VS AUS میچوں اور بہت کچھ پر تازہ ترین رہیں۔ براہ راست تازہ ترین خبروں سے لیکر بریکنگ نیوز تک ، ریپبلک ورلڈ آپ کو آن لائن میں تمام زندہ تازہ ترین معلومات لاتا ہے تاکہ آپ IND VS AUS تفریح ​​سے محروم نہ ہوں۔

اسلام کا عائلی نظام

کیا مصطفیٰ کمال اتاترک بھی ارطغرل دیکھتے بہترین تحریر

 مصطفی کمال اتا ترک نے جس ترکی سے سلطنت عثمانیہ کے آخری بادشاہ کو بچوں اور خواتین سمیت صرف چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر نکل جانے کا حکم دیا تھا ، آج اسی ترکی سے سلطنت عثمانیہ کے پہلے نقش ارطغرل بے پر بنے ڈرامے نے دنیا بھر میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں ۔ کل ارطغرل کی موت کا منظر دیکھا اور اس پر دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہونے والے تبصرے دیکھے تو ایک خیال آیا کہ جناب مصطفی کمال اتا ترک زندہ ہوتے تو کیا وہ بھی اس ڈرامے کو شوق سے دیکھ رہے ہوتے یا ہمارے کچھ دوستوں کی طرح اضطراب سے پہلو بدل کر سگار سلگا کر رہنمائی فرما تے کہ کامریڈ یہ حقیقت تھوڑی ہے ، یہ تو محض ایک ڈرامہ ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آخری سلطان سے میں نے شہزادی صبیحہ کا ہاتھ مانگا تھا اور مجھے انکار کر دیا گیا تھا۔


مصطفی کمال سیکولر تھے ۔ مسلم دنیا میں یہ سیکولرزم کا ابتدائی نقش تھا اور اس میں رد عمل کی غیر معمولی شدت تھی  ۔ بادشاہوں اور بادشاہتوں پر دنیا میں زوال آتے رہے، روس میں بھی آئے اور یورپ میں بھی لیکن جس رویے کا مظاہرہ اتا ترک نے سلطنت عثمانیہ کے آخری بادشاہ کے ساتھ کیا وہ انتہائی افسوسناک تھا ۔ بادشاہ  ہی کو نہیں اس کی اہل خانہ اور بچوں اور عورتوں تک کو حکم دیا گیا کہ ترکی چھوڑ دیں ۔ یہی نہیں بلکہ انہیں کہا گیا ان کے پاس ترکی چھوڑنے کے لیے صرف چوبیس گھنٹے ہیں۔


  ۔ چند کپڑوں کے ساتھ خالی ہاتھ سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ کے گھرانے کو ترکی سے نکال دیا گیا ۔


سلطان نے آخری خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے ترکی سے نکال رہے ہو تو کم از کم یورپ تو نہ بھیجو جن کے ہاتھوں یہ سلطنت تباہ ہوئی ہے ۔ مجھے شام یا مصر کی طرف جلاوطن کر دو ۔ لیکن حکم ہوا کہ آپ کسی مسلمان ملک نہیں جا سکتے ۔ یورپ ہی جانا ہو گا ۔ یہی نہیں سلطان کو مزید اذیت دینے کے لیے یہ اہتمام بھی کیا گیا کہ اسے لے جانے والی ٹرین کا انچارج ایک یہودی تھا۔


شاہی خاندان کو جلاوطن کر دیا گیا ۔ ان کے پاس کوئی زاد راہ نہ تھا ۔ نہ سیکولرزم کی انسان دوستی کو خیال آیا کہ شاہی خاندان کیسے گزر بسر کرے گا ۔ نہ تر ک قوم پرستی کے جذبات جاگے کہ جیسے بھی ہے، خاندان تو ترک بادشاہوں کا ہے ۔ ایسے تو نہ بھیجا جائے۔ کچھ رقم ہی دے دی جائے  تا کہ یہ نئی زندگی شروع کر سکیں ۔ اتنا تو کیا جا سکتا تھا کہ شاہی خاندان کی اپنی جائیداد کے بدلے میں اتا ترک صاحب کی حکومت انہیں کچھ رقم دے دیتی ۔ ڈیڑھ سو کے قریب لوگ خالی ہاتھ یورپ روانہ کر دیے گئے ۔ نظام آف حیدر آباد نے شاہی خاندان کو کچھ رقم بھیجی جو شاہی خاندان تک نہ پہنچنے دی گئی۔


سلطنت عثمانیہ جس یورپ سے لڑتی رہی اور جس کے ہاتھوں تباہ ہوئی اس کا آخری بادشاہ سلطان مہمت خالی ہاتھ اسی یورپ میں جلا وطن کیا گیا ۔اٹلی میں جب اس بادشاہ کی وفات ہوئی تو اس کی بیٹی  صبیحہ سلطان شاہ بابا کی میت  دمشق لائی اور سلطان سلیم مسجد میں دفن کیا۔


یہ وہ صبیحہ سلطان ہے،کمال اتا ترک صاحب  جس سے شادی کرنا چاہتے تھے لیکن سلطان نے اس کی اجازت نہیں تھی۔ ہو سکتا ہے شاہی خاندان کی یوں تذلیل کے پیچھے اتا ترک صاحب کے یہ انتقامی جذبات بھی پوشیدہ ہوں۔


شیخ الاسلام سمیت کئی وزراء اور گورنرز بھی جلا وطن کر کے یورپ بھیج دیے گئے۔یہ گویا یورپ کے جذبات کی تسکین کے لیے اٹھایا گیا قدم تھا  یہ لو سلطنت عثمانیہ اب خالی ہاتھ تمہارے ہاں رسوا ہونے بھیج رہے ہیں ۔ سلطان کے وزراء نے یہاں نوکریوں کی تلاش کی تو انہیں نوکریاں نہ ملیں۔ The sept in Exile. میں لکھا ہے کہ جنہوں نے دنیا پر حکومت کی تھی وہ گورنر اور وہ پاشا حضرات اٹلی اور فرانس کی گلیوں میں بھیک مانگتے پائے گئے۔


عام حالات میں جسے سلطان اورہان دوم ہونا تھا، وہ شہزادہ  برازیل میں مزدوری کرتا رہا اور بعد میں دمشق میں ٹیکسی  چلاتا رہا۔شاہی خاندان کا پاسپورٹ یکطرفہ تھا، سلطنت عثمانیہ کا آخری تاجدار اب دنیا میں کہیں آ جا نہیں سکتا تھا۔اس کے لیے ضروری تھا وہ اسی یورپ سے پاسپورٹ کی بھیک مانگتا۔شہزادہ دندار کوایک رات نیویارک میں قتل کر دیا گیا۔


اتا ترک کا سیکولرزم، خلافت کا متبا دل تھا اور مسلم دنیا پہلی بار مشاہدہ کر رہی تھی کہ سیکولرزم کتنا روشن خیال اور کتنا انسان دوست ہوتا ہے اوررشتے سے انکار ہو جائے تو سیکولرزم کا مزاج کتنا برہم ہو جاتا ہے۔۔


لوگوں نے دیکھا کہ سیکولرزم کس طرح لوگوں کو مذہبی آزادی دیتا ہے اور عربی میں اذان اور قرآن کی تعلیم تک پر پابندی لگا دیتا ہے۔


ایک  اہتمام کیا گیا کہ عثمانی سلطنت لوگوں کے ذہن سے محو ہو جائے ۔ شاہی خاندان کی عورتوں تک کو یکطرفہ پاسپورٹ دے کر ملک سے نکال دیا گیا۔ادھر ہم جیسے بھی جنگ عظیم کی کہانیاں پڑھتے تو کہیں یہ ذکر نہ ہوتا کہ ایک سلطنت عثمانیہ بھی تھی جس کے زوال سے اسرائیل کا قیام ممکن ہوا۔ قانون سازی ہوئی اور ترکی کو آئینی طور پر سیکولر بنا کر اپنے تئیں کھیل ختم کر دیا گیا۔


سوچ رہا ہوں ان حالات میں اتا ترک حیات ہوتے تو کیا وہ بھی ارطغرل دیکھتے؟انہوں نے جس ترکی میں عربی میں اذان تک پر پابندی لگائی تھی اسی ترکی کے ڈرامے میں وہی اذان اسی  عربی میں دی جاتی ہے تو دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کے تار ہل جاتے ہیں۔


انہوں نے جس اسلامی تہذیب کو دیس نکالا دیا تھا انہی کے ملک کا ایک ڈرامہ اسی اسلامی تہذیب کے احیاء کا نقش بن چکا ہے۔


انہوں نے ترکی میں جس پگڑی پر پابندی لگائی تھی اسی ترکی کے ڈرامے نے اسی پگڑی کو عزت کی علامت بنا دیا ہے۔


یونس ایمرے عشق کا سفر

 یونس ایمرے عثمانی ترکی: یونس امرہ) (1238ء - 1320ء) ایک ترکی شاعر اور صوفی شخصیت تھے جنھوں نے اناطولیہ کے ادب و ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔[4] انھوں نے قدیم اناطولوی ترکی زبان میں تحاریر لکھیں جو جدید ترکی زبان کی ابتدائی شکل تھی۔ یونس ایمرے کی 750 ویں سالگرہ کے موقع پر، یونیسکو نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے 1991ء کو ’یونس ایمرے کے عالمی سال‘ کے طور پر منایا۔[5]

یونس ایمرے کی پیدائش صاری کوئے نامی گاؤں میں ہوئی۔ اس زمانے میں قونیہ پرسلجوق ترکوں کی حکومت تھی۔ یونس ایمرے نے چالیس سال اپنے استاد شیخ تاپدوک ایمرے کے قدموں میں گزار دیے۔ اُن کی زیر نگرانی انہوں نے قرآن و حدیث کے علم میں کمال حاصل کیا۔ طریقت کے اسرار و رموز سے شناسا ہوئے۔ اُن کے کلام میں رباعی، گیت، ن ظمیں، غزلیں سبھی نظر آتی ہیں۔[6]ترکی ادب پر یونس ایمرے کے اثرات ان کے زمانے سے لے کر دورِ حاضر تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ احمد یسوی اور سلطان ولد کے بعد یونس ایمرے پہلے شاعر تھے جنھوں نے فارسی یا عربی میں شاعری کرنے کی بجائے اپنے زمانے اور خطے میں بولی جانے والی ترکی زبان میں شاعری کی۔ ان کا طرزِ تحریر وسطی اور مغربی اناطولیہ کے معروف اور ہم عصر اندازِ بیان کے بے حد قریب تھا۔ ان کے کلام کی زبان وہی ہے جو اس خطے کے بڑی تعداد میں نامعلوم علاقائی شاعروں، علاقائی گیتوں، علاقائی قصے کہانیوں اور پہیلیوں کی زبان ہے۔


ترکی کے پہلے قومی ٹیلی ویژن اسٹیشن، ٹی آر ٹی 1 کی جانب سے یونس ایمرے کے حالاتِ زندگی پر انھی کے نام سے ایک ٹی وی سیریز تیار کی گئی، جو دو سیزن پر محیط تھی۔[7] سیریز کا پہلا سیزن 22 قسطوں پر مشتمل تھا جو 2015ء میں نشر ہوا، جبکہ 23 قسطوں پر مشتمل دوسرا سیزن 2016ء میں نشر کیا گیا۔


یوٹیوب چینل، ٹیلیوستان پر اس ترکی ٹی وی سیریز کو اردو متن (سب ٹائٹلز) کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔پی ٹی وی ہوم نے بھی اس کی نشریات اردو ڈبنگ میں شروع کردیں ہیں۔



https://link2fakhar.blogspot.com/2020/12/blog-post_27.html


ہمسایوں کے حقوق طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کے لیے بہترین تحریر

 عنوان: ہمسایوں کے حقوق


کتاب :حقوق وفرائض


مصنف: علامہ مولانا محمد اکرم طاہر

فاضل دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف


والئی کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط پر اپنے صحابہ کرام کی تربیت فرمائی ہے اس کے ثمرات ہمارے سامنے ہیں۔وہ لوگ جو اس قدر گنوار اور اجڈ تھے جن کو اونٹ چرانے کا سلیقہ نا تھا اور قتل و غارت اور ظلم و تعدی جن کا مشغلہ تھا۔ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے چند برسوں میں اپنی پیار بھری تربیت سے مالا مال کر کے باہم شیرو شکر بھائی بھائی بنا دیا کہ وہ اپنی موت تو گوارا کر لیتے ہیں مگر پڑوسی اسلامی بھائی کی پیاس کی شدت ان سے دیکھی نہیں جاتی۔

ایک جنگ کے موقع پر ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم زخموں سے چور چور العطش العطش ۔پیاس پیاس کی صدائیں لگا رہا ہے۔اس کا چچا زاد بھائی پانی کا پیالہ لے کر اس کے قریب آتا ہے تو قریب سے ایک اور اسلامی بھائی کے کراہنے کی آواز آتی ہے اور پانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

وہ جاں بلب کہتا ہے جا میرے پڑوسی کو پانی پلا، میری خیر ہے۔وہ اس کے پاس جاتا ہے تو ایک اور صحابی کے کراہنے کی آواز آتی ہے۔یہ صحابی بھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتا اور پاس والے بھائی کی طرف اشارہ کر کے پانی والے کو ادھر بھیج دیتا ہے۔

اسی طرح سات صحابیوں کے پاس پانی کا پیالہ جاتا ہے جب ساتویں کے پاس جاتا ہے تو وہ دم توڑ چکا ہوتا ہے۔وہ لوٹ کر واپس آتا ہے تو وہ بھی جان جان آفریں کے حوالے کر چکا ہوتا ہے۔اسی ساتوں صحابیوں نے ایک دوسرے کیلئے پانی قربان کر دیا۔

کسی نے پانی نہ پیا اور شہادت کے جام بارگاہ خداوندی سے جا کر نوش کیے۔پیالہ جاں کا توں لبالب رہا۔یہ سب جان اللہ کے حوالے کر گئے۔

یہ فیض تھا تیرے خدنگ ناز کا

ورنہ یہ کہاں تھے آشنائے درد دل

والئی کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تربیت ہی اس انداز سے فرمائی تھی کہ وہ لوگ محض رشتوں کو نہ دیکھتے تھے بلکہ رشتہ الفت میں جوڑنے والے کو دیکھتے تھے۔

ایک مرتبہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بکرے کی سری صحابی رضی اللہ عنہ کے گھر تحفہ بھیجی۔اس نے آگے بھیج دی۔اس نے آگے اپنے سے زیادہ مستحق کے گھر بھیج دی۔اس طرح یہ 9 گھروں سے چکر کاٹ کر پھر پہلے کے گھر آ پہنچی۔

خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے 

کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا

ایک دن تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرمانے لگے تو صحابہ کرام سرکار کے وضو کا پانی لے کر منہ پر ملنے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ایسے کیوں کر رہے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اللہ اور اس کے رسول سے محبت کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔

سرکار نے فرمایا جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرے یا اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اسے کہ وہ بات کرے تو سچی۔اگر اس کے پاس لوگ امانت رکھیں تو ان کو صحیح و سالم واپس کرے

اور اپنے پڑوسی سے بہت اچھا سلوک کرے۔

ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھا دوست وہ ہے جو دوستوں کیلئے اچھا دوست ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہے جو ہمسایوں کیلئے اچھا ہمسایہ ہے

(ترمذی شریف)


ماہنامہ ہمدرد نونہال کی زبوں حالی


شائستہ زبان، دلنشیں پیرایہ، عمدہ مضامین، منفرد کہانیاں، رنگین صفحات، دلچسپ سلسلے، سائنسی وتحقیقی تحریریں، جنگلی حیات کی معلومات اور بہت کچھ۔ ہر عمر کے افراد کےلیے دلچسپی کے حامل اس کے مستقل سلسلے، معلومات افزا، بلاعنوان کہانی، پھول پھول خوشبو، ہنسی گھر، بچوں کےلیے خاص طور پر نونہال خبرنامہ، ہنڈکلیا اور آدھی ملاقات جیسے عنوانات بچوں میں خوب مقبول رہے۔

اسی رسالے نے اردو ادب کو مستقبل میں کئی ادیب و دانشور فراہم کیے۔

یہ صحیح معنوں میں بچوں کا رسالہ ہے جس کے دیدہ زیب سرورق اور اکثر اشتہارات پر بھی بچوں ہی کی تصویر براجمان ہوتیں۔ ہمدرد نونہال کا ہر نیا شمارہ تحفے اور پرانا خزانے سے کم شمار نہ ہوتا۔ فی زمانہ اردو زبان کی خدمت، ترویج و اشاعت میں کردار ادا کرنے والوں کی خاصی تعداد اس سے وابستہ رہ چکی ہے۔

آپ کو تعجب ہوگا کہ یہاں ماضی کے الفاظ کیوں استعمال کیے جا رہے ہیں، حالاں کہ نونہال تو اب تک جاری ہے۔ یہی المیہ ہے کہ پرانا نونہال اب ’’مرحوم‘‘ ہوچکا ہے۔ گزرتے ایام کے ساتھ یہ رسالہ بھی حوادث زمانہ کا شکار ہوگیا۔

اب نونہال بچوں کے ہاتھوں سے نکل کر بڑوں کے ہاتھوں کھلونا بن چکا ہے۔ گزشتہ ماہِ اکتوبر سے اس کے آدھے حصے کو انگریزی زبان میں کردیا گیا ہے۔ انتہائی افسوس ناک ہے کہ اردو زبان کے قتل عام کا ایک اور راستہ کھل گیا ہے، وہ بھی اُس کے پاسبانوں کے ہاتھوں۔

پہلے پہل تو یقین نہ آیا کہ اردو کے جنازے کو مرحوم حکیم صاحب کا ہمدرد فاؤنڈیشن اپنا کندھا پیش کرے گا، مگر جب رسالہ ہاتھ آیا تو اعتبار کرنا ہی پڑا۔ شمارہ دیکھتے ہی قدرے اجنبیت کا احساس ہوا، وہ اپنائیت نہیں رہی۔ کچھ پرایا سا لگا۔

اگرچہ اردو کے 96 صفحات کی نسبت انگریزی زبان کےلیے صرف 64 صفحات رکھے گئے ہیں مگر ورق گردانی کے ساتھ ہی یہ تاثر نمایاں ہوجاتا ہے کہ اردو کے مقابلے میں انگریزی کو ترجیحی حیثیت دی گئی ہے۔ اس اختلاط سے اب رسالہ ’’آدھا تیتر، آدھا بٹیر‘‘ کا نمونہ بن گیا ہے۔

اللہ بہتر جانتا ہے کہ ادارے کو کن مسائل کا سامنا ہے اور کس چیز سے مجبور ہوکر، یا فائدہ دیکھ کر، یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔

نجانے اس طرح نصف حصے کو انگریزی کےلیے مختص کرکے ملغوبہ بنانے سے کیا مقصود ہے۔ اب تو یہ اپنے مقاصد سے ہی دور ہٹتا محسوس ہوتا ہے۔

چھان پھٹک کے بعد معلوم ہوا کہ رسالے کا ’’ٹھیکہ‘‘ ایک نجی ادارے کو دے دیا گیا ہے۔ (ہائے افسوس!)

اس گراں قدر رسالے کو شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید نے اپنے خون سے سینچا اور مسعود احمد برکاتی صاحب نے تاحیات خود کو اس کےلیے وقف کردیا۔

بچوں کے معروف ادیب اور علمی و ادبی شخصیت جناب سلیم مغل نے کچھ عرصہ ہوا اسے ابھی سنبھالا ہی تھا کہ ہمدرد کی پالیسی بدل گئی۔

راقم کے خیال میں اگر رسالہ بند ہوتا تو اتنا دکھ نہ ہوتا جتنا اس ناخوشگوار اور غیر مثبت تبدیلی سے ہوا ہے۔ شاید ایسے ہی اپنوں کے ہاتھوں فساد و بگاڑ دیکھ کر مرحوم رئیس امروہوی فرما گئے تھے:

کہہ دو نہ شکوہ لبِ مغموم سے نکلے

اُردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

بندہ سمجھتا ہے کہ اس موقع پر ہمدرد انتظامیہ کو حکیم صاحب کے سبق ’’جاگو جگاؤ‘‘ کو محض رسالے کا حصہ بنانے کے بجائے اسے عملی زندگی میں اپنانے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ کس رخ پر جا رہی ہے۔

وہ بھول رہے ہیں کہ حکیم صاحب کا مشن انگریزی نہیں، اردو زبان کی ترویج تھا۔ مانا کہ انہوں نے خود بھی انگریزی زبان میں تصنیفات کیں۔ ان کی سو سے زیادہ کتابیں اردو زبان میں ہیں جبکہ انگریزی میں کتب کی تعداد قلیل ہے، ان میں سے بھی کتنی ایسی ہیں جواردو سے ترجمہ کی گئی ہیں۔

وہ مشرقی روایات کے امین اور پاسدار تھے۔ برِصغیر میں ہمدرد کی گراں قدر کاوشیں اس امر پر شاہد ہیں۔

’’ہمدرد نونہال‘‘ اور ’’ہمدرد صحت‘‘ سے لے کر ’’نونہال ادب‘‘ اور ’’مدینۃ الحکمۃ‘‘ تک جابجا اس کی مثالیں موجود ہیں۔

یہ امر اس لحاظ سے بھی قابل تعجب ہے کہ جہاں ایک طرف لوگوں میں قومی زبان کی اہمیت کا شعور اجاگر ہونے لگا ہے، سماجی رابطوں کے ذرائع پر بھی اردو رسم الخط استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، ایسے میں نونہال کے ذمے داران کا یہ قدم نہایت غیر معقول اور غیر مستحسن ہے۔

اسے المیہ یا سانحہ نہ کہیں تو کیا نام دیں؟ اب جب کہ قوم اپنی زبان کو اہمیت دینے جا رہی ہے تو ہمارے ادارے اپنے مہمہ (مشن) سے منحرف ہورہے ہیں۔ انتظامیہ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ادارہ ہمدرد کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ حکیم صاحب کا عطیہ کردہ قومی ورثہ ہے۔

ہمدرد کی انتظامیہ اگر اس کی نگہبانی سے قاصر ہے تو اسے چاہیے کہ دستبرداری کا اعلان کرے۔ اگر انگریزی زبان کا اتنا ہی غم سوار ہے تو انگریزی زبان میں علیحدہ سے رسالے کا اجرا کرے۔

درحقیقت یہ حکیم صاحب کی مہم سے روگردانی ہے۔ اگر انگریزی اور اردو کا یہ اختلاط اتنا ہی ضروری ہوتا تو حکیم صاحب اپنی حیات میں ضرور کرتے جب کہ وہ عالمی سطح کے رہنما تھے۔ انگریزی کی اہمیت ان سے زیادہ کون جانتا تھا۔

انسانی فطرت ہے کہ وہ تبدیلی کو رفتہ رفتہ قبول کر ہی لیتا ہے۔ عین ممکن ہے گٹ پٹ کے ماحول میں پروان چڑھنے والی نئی نسل اس رنگا رنگ تبدیلی کو قبول کرلے، مگر اردو زبان کی دلدادہ نسلِ قدیم ہرگز نہیں کرے گی؛ اور پھر سوال یہ ہے کہ علمی وادبی حلقوں میں ہمدرد اپنا کھویا ہوا مقام اور وقار کیوں کر بحال کرسکے گا؟

انتظامیہ کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے۔ کچھ نہیں تو حکیم صاحب کو عطا کردہ خطاب ’’شہیدِ پاکستان‘‘ ہی کی لاج رکھ لے اور اس بے ڈھنگے اختلاط سے پاکستان کی فکری اکائی اور بنیاد اردو زبان کےلیے ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے ’’ہمدرد نونہال‘‘ کا تشخص خراب نہ کرے۔۔



کورولش عثمان میں ارطغرل کی وفات اور بامسی کا جملہ

  السلام علیکم

آج یہ تصویر اور بامسی کا یہ جملہ

میری بانہوں میں تو تیمر تھے(کورولش عثمان والے ارطغرل) لیکن میری آنکھوں میں اینگن آلتان)( دیرییلس والے ارطغرل) تھے۔

بہت کچھ بتا رہا ہے۔اتنا دکھ ہمیں اب ارطغرل کے فوت ہونے کا نہیں ہوا جتنا اینگن آلتان کے ڈرامہ میں فوت ہونے کا دکھ ہونا تھا۔

اور یہاں بامسی کا اینگن آلتان کے ساتھ 5 سیزن خوبصورت اور بہترین انداز سے سرانجام دینا یاد آ رہا ہے۔

اس سے ایک بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ ہماری طرح بامسی کو بھی پرانا انداز یاد آ رہا ہے۔

اور آپ سب کو یاد ہو گا کے وہ سین کتنا دکھی تھا جب ڈیریلیس ارطغرل میں ارطغرل کے فوت ہونے کا بتاتے ہیں۔

وہ سین اور اب کے سین میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

اور اب اگر بوزداغ صاحب تورگت کو اس ڈرامہ میں شامل کریں تو اس میں چار چاند لگ جائیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ وہی پرانا ایکٹر ہی تورگت کا کردار ادا کرے۔

اور مجھے تو لگتا ہے کہ اگر اس کو تبدیل کیا گیا تو نظام عالم یعنی سلجوقون کا عروج بلند ترین سطح پر پہنچ جاے گا۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی بامسی کے اس ٹویٹ کی 

اس کی گہرائی میں جایا جائے تو اینگن آلتان کا اپنے ساتھیوں سے اچھا رویہ اور بہترین کردار سامنے آتا ہے۔

کیونکہ کسی انسان کو پسند کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اس کا کردار اور اخلاق اچھا ہے۔

اور سننے میں آیا ہے کہ بامسی بھی رخصت ہو رہا ہے۔


کرسمس اور مسلمانوں کا رویہ بہترین تحریر

کرسمس





 حضورﷺ کے ذکر کو میلاد کا نام دیا گیا اور حضور ﷺ کا ذکر بدعت نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کیلئےHappy Christmas کہنا شرک نہیں ہے کیونکہ ہیپی کرسمس کا مطلب ہے حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے اکٹھا ہونا۔ کفار کو مبارک باد نہ دیں بلکہ مسلمانوں کو کہیں کہ آپس میں حضرت عیسی علیہ السلام کا ”تذکرہ“ اسطرح کرکے کفار اور مسلمانوں کو ہیپی کرسمس کہیں:




سبحان اللہ: اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بے شک اللہ تعالی نے تمہیں چُن لیا اور خوب سُتھرا کیا، اور آج سارے جہاں کی عورتوں سے تجھے پسند کیا۔ اے مریم اپنے رب کے حضور ادب سے کھڑی ہو اور اُس کے لئے سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (ال عمران 42 - 43)




بغیر باپ کے بچے کیلئے تیاری: جب فرشتوں نے کہا اے مریم! اللہ تعالی تمہیں خوشخبری دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی جس کا نام مسیح بن مریم، دنیا اور آخرت میں با عزت اور میرے مقرب بندوں میں سے ہو گا۔ اور لوگوں سے بات کرے گا گود میں اور ادھیڑ عمر میں اور میرے مقربین سے ہو گا (ال عمران 46) 




فکر و تجسس: اے میرے رب میرے بچہ کہاں سے ہو گا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ نہ لگایا، فرمایا اللہ یونہی پیدا کرتا ہے جو چاہے، جب کسی کام کا فیصلہ کرے تو یہی کہتا ہے ہو جا تو وہ فوراً ہو جاتی ہے (ال عمران 47) عیسی کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہو جا وہ فوراً ہو جاتا ہے (ال عمران 59)




تصرفات اور معجزات: اور رسول بنی اسرائیل کی طرف ہو گا، یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں، تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اُس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہو جاتی ہے اللہ کے حکم سے، اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور برص والے مریض کو، اور میں مُردے زندہ کرتا ہوں اللہ کے حُکم سے، اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔ (ال عمران 49) ثابت ہوا کہ اللہ کریم کی عطا سے یہ کام ہو سکتے ہیں جس کا انکار ممکن نہیں مگر یہ حال حال ہے ورنہ دھوکہ زیادہ ہے۔




مکالمہ: اور کتاب میں مریم کو یاد کرو جب اپنے گھر والوں سے مشرق کی طرف ایک جگہ الگ ہو گئی۔ اُن سے ادھر ایک پردہ کر لیا تو اُس کی طرف ہم نے اپنا روحانی (جبرائیل علیہ السلام) بھیجا، وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا۔ بولی میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں، اگر تجھے خدا کا ڈر ہے۔ بولا میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں کہ میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں۔ بولی میرے لڑکا کہاں سے ہو گا مجھے تو کسی آدمی نے ہاتھ نہ لگایا، نہ میں بدکار ہوں۔ کہا یونہی ہے تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ مجھے آسان ہے اور اسلئے کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ کام ٹھر چکا ہے۔(مریم 16 - 21) اس سے ثابت ہوا کہ اللہ کریم اسباب پیدا فرماتا ہے اور جس سے چاہے کام لیتا ہے کیونکہ بچہ پیدا کرنا اللہ کا کام ہے مگر یہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تجھے بچہ دوں گا اور اُن کو پھونک ماری تو حمل ہو گیا۔




زچگی اور پریشانی: اب مریم نے اسے پیٹ میں لیا، پھر اسے لئے ہوئے ایک دور جگہ چلی گئی، پھر اسے پیدا کرنے کا درد اُسے ایک کھجور کے تنے کے پاس لے آیا، بولی ہائے کسی طرح میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور بھولی بسری ہو جاتی (مریم 22 - 23)




استقامت: تو اسے اس کے نیچے سے (فرشتے) نے پکارا کہ غم نہ کھا، بے شک تیرے رب نے نیچے ایک نہر بہا دی ہے، اور کھجور کی جڑ پکڑ کر اپنی طرف ہلا، تجھ پر تازی پکی کھجوریں گریں گی تو کھا اور پی اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا رکھ، پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے تو کہہ دینا میں نے آج رحمن کے لئے روزے کی نذر مانی ہے تو آج کسی سے بات نہیں کروں گی۔ (مریم 24 - 26) اللہ کریم نے تکلیف میں ڈالا اور ساتھ ساتھ ہر قدم پر فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائی کیونکہ بڑے کام میں بڑی مدد ہوتی ہے۔




بچہ اور قوم: تو اُسے (حضرت عیسی علیہ السلام) کو گود میں لے کر اپنی قوم کے پاس آئی، بولے اے مریم بے شک تو نے بہت بُری بات کی۔ اے ہارون کی بہن! تیرا باپ برا آدمی نہ تھا اور نہ ہی تمہاری ماں بدکار۔ اس پر مریم نے (حکم خداوندی) سے بچے کی طرف اشارہ کیا، وہ بولے ہم کیسے بات کریں اس سے جو پالنے (پنگھوڑے) میں بچہ ہے۔ (مریم 27 - 29)




بچے کا جواب: بچے نے فرمایا میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا، اور اُس نے مجھے برکت دی، اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کی تاکید فرمائی جب تک جئیوں، اور مجھے اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا اور مجھے زبردست، بدبخت نہیں بنایا، اور مجھے پر اللہ تعالی کی سلامتی جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں اور جس دن دوبارہ اُٹھایا جاؤں (مریم 30 - 33)




تعلیم: اور ہم نبیوں کے پیچھے ان کے نشان قدم پر عیسی بن مریم کو لائے جو تصدیق کرتا تورات کی جو اس سے پہلے تھی اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور ہے اور تصدیق فرماتی ہے تورات کی کہ اس سے پہلے تھی، ہدایت اور نصحت پرہیزگاروں کو (المائدہ 46)




اختلاف: اور حضرت عیسی علیہ السلام کی یہی حقیقت ہے، اور یہی وہ حق بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں، اللہ تعالی کے لائق نہیں کہ وہ اپنے لئے کوئی اولاد بنائے، پاکی ہے اس کو، جب کسی کام کا حکم فرماتا ہے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ، ہو جا، تو فوراً ہو جاتا ہے۔ اور (حضرت عیسی علیہ السلام) نے کہا کہ بے شک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے، اس کی عبادت کرو اور یہی سیدھی راہ ہے، پھر جماعتوں نے آپس میں اختلاف کیا تو کافروں کے لئے روز قیامت بربادی ہے۔ (مریم 24 - 37)




بشارت محمد ﷺ: اور یاد کرو جب عیسی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سُناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے، ان کا نام احمد ہے، پھر جب ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تو کہنے لگے کہ یہ کھلا جادو ہے (الصف 6)




مدد کا سوال: پھر جب عیسی نے ان کا کفر محسوس کیا تو فرمایا کہ اللہ کی راہ میں کون میری مدد کرے گا؟ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کی راہ میں آپ کے مدد گار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہو جائیں کہ ہم مسلمان ہیں، اے ہمارے رب، ہم تیری نازل کی ہوئی وحی پر ایمان لائے اور تیرے رسول کی اتباع کی، پس تو ہمیں حق پر گواہی دینے والوں میں لکھ لے (ال عمران 52 - 53) ان کے ساتھ کے باوجود حکومت کو خطرہ ہوا، عوام کو دلچسپی نہیں تھی دین پر چلنے میں تو خوب تنگ کرتے۔




پھانسی کی سزا: اور انکے کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسی بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا ہے اور یہ کہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی چڑھایا بلکہ ان کے لئے ان کی شکل کا ایک بنا دیا گیا اور وہ جو اس کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شُبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ انہیں اس کی کچھ خبر نہیں مگر یہی گمان کی پیروی اور بے شک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اُٹھا لیا اور اللہ کریم غالب حکمت والا ہے (النساء 157 - 158)




مسلم بخاری میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ضرور ایک وقت آئے گا کہ تم میں ابن مریم حاکم و عادل بن کر نازل ہوں گے، وہ صلیب کو توڑیں گے، اور خنزیرکو قتل کریں گے، اور جزیہ لاگو کریں گے، اور مال کی اتنی بہتات ہو جائے گی کہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔




ایمان: (اسلئے فرمایا گیا کہ) کوئی کتابی ایسا نہیں جو عیسی (علیہ السلام) کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔ (النساء 159) 




فرمان: اس وقت کہ عیسائی حضرات کے لئے اللہ کا فرمان ہے کہ ”اے اہل کتاب اپنے دین میں زیادتی نہ کرو اور اللہ تعالی پر حق کے سوا کچھ نہ کہو، مسیح عیسی بن مریم تو صرف اللہ تعالی کے رسول اور اس کے کلمہ (کُن) ہیں جسے مریم کی طرف ڈال دیا گیا اور اس کے پاس کی روح ہیں، اسلئے تم اللہ تعالی اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ اللہ تین ہیں، اس سے باز آ جاؤ کہ تمہارے لئے بہتری ہے، اللہ تو صرف ایک ہے جو عبادت کے لائق ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، جو کچھ آسمان و زمین میں ہے اور اسی کے لئے ہے اور اللہ کریم کام بنانے کے لئے کافی ہے (النساء 171)




اللہ کریم کو گالی: اور کافر بولے کہ رحمان نے اولاد اختیار کی، بے شک تم بہت بری اور بھاری چیز لائے ہو، قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائے اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں، اس پر کہ رحمان کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ہیں، اور یہ رحمان کے لائق نہیں کہ اولاد رکھے۔آسمان اور زمین میں جتنے ہیں سب اُس کے حضور بندے ہو کر حاضر ہوں گے۔ (مریم 88 - 93) بے شک انہوں نے کفر کیا جنہوں نے یہ کہا کہ مسیح بن مریم ہی اللہ ہے (المائدہ 72)




کافر: بے شک کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تین خداؤں میں سے تیسرا ہے، اور خدا تو نہیں مگر ایک اللہ، اگر یہ لوگ اپنی اس بات سے باز نہ آئے تو ان میں سے جو کافر مریں گے انہیں ضرور دردناک عذاب ہو گا (المائدہ 73)




بشر: مسیح بن مریم نہیں مگر ایک رسول، اس سے پہلے بہت رسول ہو گذرے اور ان کی والدہ سچی عورت تھی، دونوں کھانا کھاتے تھے، دیکھو تو ہم کسطرح صاف دلیلیں ان کے لئے بیان کرتے ہیں، پھر دیکھو کہ وہ کیسے گمراہ ہو رہے ہیں (المائدہ 75)




سیلف میڈ کتابیں: تو خرابی ہے ان کے لئے جو کتاب اپنے ہاتھ سے لکھیں، پھر کہہ دیں کہ یہ خدا کے پاس سے ہے کہ اس کے بدلے میں کمائی کریں تو خرابی ہے ان کے لئے ان کے ہاتھوں سے لکھے سے اور خرابی ہے ایسی کمائی میں (البقرہ 79) موجودہ انجیل مصنفین کے نام پر ہیں جس میں تحریف ہے۔




سزا: اور وہ جنہوں نے دعوی کیا کہ ہم نصاری (عیسائی) ہیں، ہم نے ان سے عہد لیا توانہوں نے وعدہ توڑ دیا، اور جو نصیحت کی گئی اس کو بُھلا دیا، تو ہم نے ان کی آپس میں قیامت کے دن تک بغض، عداوت اور دشمنی ڈال دی اور عنقریب اللہ کریم بتا دے گا جو کچھ کرتے تھے (المائدہ 14)




حشر کے روز: اور جب اللہ کریم فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسی، کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو الہ بنا لو اللہ کو چھوڑ کر۔ عرض کریں گے تو پاک ہے، مجھے جائز نہیں کہ وہ بات کہوں جو مجھے کہنی ہی نہیں چاہئے، اگر میں نے ایسے کہا ہو تو ضرور تجھے معلوم ہو گا، تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے لیکن میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے۔ بے شک تو ہی ہے سب غیبوں کا خوب جاننے والا۔ 


میں نے تو ان سے نہ کہا مگر وہی جو تو نے مجھے حکم دیا تاکہ اللہ کو پوجو جو میرا بھی رب اور تمہارا بھی رب۔اور میں ان پر مطلع تھا جب تک میں ان میں رہا اور پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگہبان تھا۔ اور ہر چیز تیرے سامنے حاضر ہے۔ اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے (المائدہ 116 - 118)


https://link2fakhar.blogspot.com/2020/12/1.html


عیسائیوں کی محبت: ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن یہودی اور مشرکوں کو پاؤ گے، اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جو کہتے تھے ہم نصاری ہیں۔ر



سامسا الپ/سامسا چاوش اصل کہانی

 #سامسا_الپ / سامسا چاوش – اصل کہانی


ایک بات تو ہمیں تسلیم کرنا ہی پڑے گی کہ ڈیرلیس ارطغرل اور کرولس عثمان بالآخر ایک ٹی وی سیریل اور فکشن ہے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عثمانیوں کے عروج کی تاریخ کو پیش کرنے کی ایک بہترین کوشش ہے، لیکن بعض اوقات اس کے پروڈیوسروں کو اس میں کچھ ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑتی ہیں۔

یہ ایڈجسٹمنٹ کیا ہوسکتی ہیں؟

ڈرامے کو طویل کرنا ، ڈرامے کے بارے میں ڈسکشن ریٹ بڑھانا ، ناظرین کی رغبت و دلچسپی کیلئے کچھ دلچسپ مصالحہ وغیرہ کی ملاوٹ کرنا، اور سب سے اہم یہ ہے کہ اداکاروں کی نجی ضروریات اور مجبوریوں کی پوری رعایت کرنا۔

لہذا ان کے پروڈیوسر اسی کے مطابق تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں۔ جب یہ تبدیلی تاریخ پر مبنی ڈرامے میں کی جائے تو یہ تاریخ کے قاری کو یقینی طور تشویش میں مبتلا کر دیتی ہے۔


آج میری تشویش اس عظیم کردار کی وضاحت ہے۔ جس نے سلطنت عثمانیہ کے قیام میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔

سامسا الپ/ سامسا چاوش


سب سے پہلے ، آپ کو یہ بات جان لیجئے کہ ڈیریلش ارطغرل والے سامسا الپ (جو سیزین 4 میں شہید ہوتا دکھایا گیا) کا کردار اور اب کرولش عثمان میں سامسا چاوش کا کردار در اصل تاریخ کے اعتبار سے ایک ہی شخص ہے۔ یہ تاریخ کا وہی اصلی ہیرو ہے جس نے سلطنت عثمانیہ کو قائم کرنے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن سامسا الپ ڈیریلس ارطغرل میں شہید ہوتے دکھائے گئے۔ اس کی وجہ؟ ...........

دراصل ، اس کی وجہ ڈیریلس ارطغرل کے پروڈیوسروں کی کچھ وجوہات ہیں ، کہ ڈیریلش میں سامسا کا کردار ادا کرنے والے اداکار کی کچھ نجی و ذاتی  معاملات تھے جس کی وجہ سے وہ آگے کام نہیں کرسکتے تھے۔ اسلئے سامسا الپ شہید ہوتے دکھانا پڑا۔  بالکل اسی طرح حلیمہ سلطان کے معاملے میں بھی پروڈیوسروں نے ایک ذاتی وجہ سے حلیمہ سلطان کی اداکارہ کو انہیں عثمان کی ولادت ہوتے ہی مرتا دکھانا پڑا۔

وگرنہ حقیقی تاریخ میں حلیمہ سلطان، ارطغرل غازی کی وفات کے ایک سال بعد انتقال کر گئیں اور انہیں "ترک قوم کی ماں" کا خطاب بھی دیا گیا۔


لیکن چونکہ سلطنت عثمانیہ کے قیام میں سامسا چاوش کا کلیدی کردار رہا ہے اس لئے سامسا (سامسا چاوش) کی اہمیت کی وجہ سے پروڈیوسر اس کے کردار کو نظر انداز اور فراموش نہیں کرسکتے تھے۔ لہذا کرولس عثمان میں سامسا چاوش کو دوبارہ متعارف کرایا گیا۔


کچھ افراد کہتے دیکھے گئے کہ سامسا الپ (ڈیریلس ارطغرل) ارطغرل کے دور میں نہیں تھا۔ ان کی اطلاح کے لیے عرض ہے کہ سامسا الپ/ سامسا چاوش ارطغرل غازی کے عظیم جنگجوؤں میں سے تھے اور انہی کے ساتھ سوگوت آنے والوں میں سے ایک تھے۔ ان کی تاریخ پیدائش اور مقام پیدائش ابھی تک معلوم نہیں ہے۔ البتہ سامسا الپ / سامسا چاوش ان الپ (ہیرو) میں سے ایک تھے جنہیں طویل زندگی نصیب ہوئی، ان کے ساتھ ترگت الپ ، عبد الرحمن الپ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد میں کلیدی کردار ادا کرکے اپنے نام نقش کئے۔ سامسا الپ/ سامسا چاوش بھی انہی لوگوں میں شامل تھا، جنہوں نے اپنی طویل زندگی ارطغرل غازی ، پھر عثمان غازی اور پھر "اورہان غازی" کی قیادت میں صرف کی۔


جب ارطغرل غازی سوگوت آئے تو سامسا الپ / سامسا چاوش بھی اپنے قبیلے کے ہمراہ ان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے قبیلے اور ریاست کے لئے بہت ساری لڑائیوں میں حصہ لیا۔ پھر عثمان غازی کے دور میں اسی ریاست کے قیام میں ان کی بھرپور مدد کی۔

آخر "اورہان غازی" کے دور میں انہوں نے عثمانی ریاست کے مجاز محافظ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اور اونچے عہدوں پر فائز رہے۔

سامسا الپ/ سامسا چاوش پہلے فرد تھے، جنہیں "چاوش" (یعنی سرجنٹ) کا خطاب دیا گیا۔ لیکن انکی ذمہ داریاں اور مراعات ایک عام سرجنٹ سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور مشکل تھیں۔

سامسا چاوش کا انتقال 1330 عیسوی کے بعد ہوا۔ انہیں مدورنو کے قریب گاؤں ہاکیمسالار میں سپرد خاک کیا گیا، جہاں آج بھی ان کی قبر موجود ہے۔


اس وقت کرولس عثمان میں سامسا چاوش کا کردار ادا کرنے والے اداکار  "اسماعیل ہاکی" ہے ۔۔ 

https://www.historypk.site/2021/01/blog-post_17.html

بامسی بیرک۔۔بابر خوبصورت تحریر

 اس کا بولنا، اس کا چلنا، اس کا ہنسنا ، اس کا بھوک میں کھانا، اس کا قہقہ لگانا، اس کا بھیڑ اٹھا کر دوڑنا، اس کا لڑنا، اس کا شرمانا، اس کا جوشیلے انداز میں قصے سنانا، اس کا محبت کا شرمیلا اظہار، اس کا سینے پر ہاتھ مار کر ادب سے سر جھکانا،وہ گوشت کھانے کا الگ اور خوبصورت انداز،وہ داڑھی اور اپنے سر پر ہاتھ پھیرنا،جارکوتاے کے ساتھ ہنسی مزاق اور،حق کی بات پر ڈٹ جا، اس کا دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھام کر پوری وحشت اور جنون سے دشمنوں کا سر قلم کرنا، اس کا اللہ اکبر کا فلک شگاف نعرہ لگا کر دشمنوں پر پل پڑنا، اس کا اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگا کر دشمن کی صفوں میں گھس جانا۔ وہ غراہٹ، وہ معصومیت، وہ آیا اور چھا گیا سب کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ اس کے بغیر کوئی قسط نہ سجتی تھی۔ اس کے بغیر اس کے ساتھی ادھورے ادھورے لگتے تھے۔ وہ جانباز جانثار جو اپنے بیم کے ایک اشارے پہ جان قربان کرنے کو تیار، اپنے قبیلے کی شان، حائمہ خاتون کا منہ بولا بہادر بیٹا، عبدالرحمن غازی، ترگت، صفدر، دووان کا پہاڑی ریچھ، حفصہ کا محبوب شوہر، آئیبرس کا باپ، عثمان کا ہمدرد اور خیر خواہ بہادر جنگجو، عقل کا تھوڑا کچا پر دل کا پورا سچا اور ہم سب کا #بامسے_بیرک ہم سے جدا ہونے والا ہے۔ 

وہ ایک اداکار ہے ۔ اپنی جان داو پر لگا کر بھی ہمارے بھروسے پر پورا اترنے والا ، شوٹنگ کے دوران اپنی ٹانگ تڑوا کر بھی ہمارے چہروں پر خوشیاں اور مسکراہٹیں لانے والا ، قہقہے بکھیرنے والے #نوریتن_سونمیز (نورالدین) کے لئے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے بہت سی نیک خواہشات۔ اسے آنے والی زندگی اور کیریئر میں اس سے بھی زیادہ محبتیں چاہتیں اور شہرت نصیب ہوں ۔ 

امید ہے کہ کورلس عثمان میں اسے کسی مہم پر بھیج دیا جائے  گا کیونکہ اس کے مرنے کا منظر ہم دیکھ نہیں پائیں گے، برداشت نہیں کر پائیں گے۔ 😢

مزید عادات اور اچھی چیزوں کے لیے اپنے مشورہ سے نوازنے کے لیے کومنٹ ضرور فرمائیں

حسن بن صباح کی مصنوعی جنت قسط 3

 حســـن بـن صـــبـاح کی مصنـــوعی جنـت


قسط نمبر۔3۔


اگلے دن حسن بن صباح شہر کے قریب سے گذرنے والی ندی کے کنارے ٹہل رہا تھا ،اس کے دماغ میں اپنے استاد کے سبق گھوم رہے تھے، گزشتہ رات کی طوفانی بارش سے ندی کی کیفیت میں طغیانی تھی ،اور ہر طرف کیچڑ تھا، حسن نے تنہائی میں شہر کے ہنگاموں سے دور کسی جگہ بیٹھ کر نجوم اور سحر کے سبق دہرانے تھے، کیچڑ میں وہ بیٹھنے کے لئے کوئی خشک جگہ ڈھونڈ رہا تھا۔

کچھ دور جا کر اسے اتنا بڑا پتھر نظر آگیا جس پر وہ آسانی سے بیٹھ سکتا تھا ،وہ افق سے ابھرتے ہوئے سورج کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا، آنکھیں بند کرلیں اور لمبے لمبے سانس لینے لگا۔

زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں اس کے سامنے سورج ہونا چاہیے تھا لیکن سورج نہیں تھا اس کی بجائے ایک رنگ دار کپڑا تھا جو اس کے اور سورج کے درمیان آ گیا ،حسن سُن سا ہو گیا، اس نے ڈرتے ڈرتے اور بہت ہی آہستہ آہستہ نظریں اوپر اٹھائیں اسے ایک بڑا ھی حسین نسوانی چہرہ نظر آیا،،،،،، یہ ایک نوخیز لڑکی کا چہرہ تھا ،ہونٹوں پر ادھ کھلی کلی سی مسکراہٹ تھی، لڑکی اس سے صرف ایک قدم دور کھڑی تھی ۔

حسن ذہن پر زور دے کر یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ یہ چہرہ پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ کہاں دیکھا ہے؟ 

اسے یہ خیال بھی آیا کہ یہ سحر کا کرشمہ ہوگا ۔

پہچاننے کی کوشش کر رہے ہو؟،،،، لڑکی کی آواز میں ترنم تھا۔

 حسن بن صباح نے سر کو ہلایا کہ ہاں وہ پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے۔

 اتنی دیر تمہارے سامنے برہنہ بیٹھی رہی تھی۔۔۔ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔

اوہ !،،،،،حسن کو یاد آ گیا ،،،،تم ہو،،،، ایک بات بتاؤ کیا تم حقیقت ہو یا میرے استاد کا تخلیق کیا ہوا تصور ہو جو اس نے حقیقی روپ میں میرے ذہن میں ڈال دیا ہے۔

لو دیکھ لو۔۔۔ لڑکی نے اپنے دونوں ہاتھ حسن کے آگے کر کے کہا۔۔۔ میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر محسوس کرو کہ میں تصور ہوں یا جیتی جاگتی ایک لڑکی ہوں۔

 حسن نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں پر لے کر دبائے، ان کی حرارت محسوس کی ،انکا گداز محسوس کیا۔

تم کون ہو ؟،،،،،حسن نے جھنجھلا کر پوچھا۔۔۔ کیا ہو تم ،اگر تم حقیقت میں لڑکی ہی ہو تو کس کی بیٹی ہو، تم آبرو باختہ لڑکی ہو، جو برہنہ ایک نوجوان مرد کے سامنے بند کمرے میں بیٹھی رہی ہو۔

میری آبرو محفوظ ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا ۔۔۔اگر میں ایسی ہوتی جیسی تم کہہ رہے ہو تو عبدالملک ابن عطاش جیسا درویش مجھے منہ نہ لگاتا ،میں کنواری ہوں حسن!،،، میری طرف بہت سے ہاتھ بڑھے ہیں، مجھ پر دو جاگیرداروں کے بھی ہاتھ لگے ، میں کسی کے ہاتھ نہیں آئی. 

تم کس باپ کی بیٹی ہو؟،،،، حسن نے پوچھا۔

میرا باپ گڈریا ہے۔۔۔ اس نے ایک طرف اشارہ کر کے کہا۔۔۔ وہ دیکھو میری بکریاں ۔

حسن نے گردن گھما کر بکریاں دیکھ تو لیں لیکن اس کی دلچسپی لڑکی کے ساتھ تھی۔

 تم میرے سامنے برہنہ کس طرح بیٹھ گئی تھی ؟،،،،حسن بن صباح نے پوچھا ۔

اس برگزیدہ آدمی نے حکم دیا تھا جسے ہم پیر و مرشد مانتے ہیں۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔میں ان کے حکم کو ٹال نہیں سکتی تھی، انہوں نے مجھے بتا دیا تھا کہ یہ آدمی تجھ پر ہاتھ ڈالے تو مجھے آواز دینا، انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ کیواڑ کے چھوٹے سے سوراخ سے دیکھتے رہیں گے۔

 کیا اب بھی تم میرا امتحان لینے آئی ہو؟،،،، حسن نے پوچھا۔

نہیں!،،،، لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ اب اپنے دل کی کہنے پر آئی ہوں،،، تمہارے لئے آئی ہوں،،، اور میں تمہیں یہ بتا دوں کہ میں تمہارے ساتھ جسموں کا لین دین کرنے نہیں آئی ،اگر تم قبول کر لو تو اپنے دل میں جگہ دے دو پھر ہم ساری عمر کا ساتھ نبھائیں گے،تم تو بولتے ہی نہیں، کچھ کہو نا۔

لڑکی کا حُسن ایسا تھا کہ حسن بن صباح جیسے کردار کا نوجوان کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ اسے دل میں جگہ نہیں دے گا ،لیکن اس کے دل پر اسکے استاد کا  قبضہ تھا، وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کا دل اپنے اختیار میں نہیں، اس کے ساتھ ہی اسے یہ ڈر تھا کہ یہ بھی امتحان ہے، اس نے اس امتحان میں پورا اترنے کا تہیہ کر لیا۔

وہ پتھر پر بیٹھا تھا لڑکی زمین پر بیٹھ گئی اور ہاتھ اس کے زانو پر رکھ دیے ، پھر اس نے اپنی تھوڑی بھی اس کے ایک زانو پر رکھ دی، لڑکی کے سر پر سیاہ چادر تھی اس میں اسکا گورا چہرہ اور ایک گال پر لہراتے دو تین بال جو ریشم کے تاروں جیسے تھے حسن جیسے نوجوان کو اس لڑکی کے قدموں میں بٹھا سکتے تھے۔

 تمہارا نام؟،،،، حسن نے پوچھا۔

فرح !،،،،لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔نام تو  فرحت ہے، گھر والے فرح کہتے ہیں، سہیلیاں فرحی کہتی ہیں، تم بھی فرحی کہو تو مجھے اچھا لگے گا۔

ایک بات بتاؤ۔۔۔ حسن نے پوچھا ۔۔۔تمہیں مجھ میں کیا خوبی نظر آئی ہے کہ جاگیرداروں کو ٹھکرا کر تم میرے پاس چلی آئی ہو ؟

یہ میرے دل کا معاملہ ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ جاگیرداروں نے تو میرے باپ کو دولت پیش کی تھی، میرا باپ ہے تو گدڑیا لیکن عزت اور غیرت والا آدمی ہے، ایک بات اور بھی ہے میرے باپ نے امام سے بات کی تھی ۔

امام کون؟

وہ جو تمہارے استاد ہیں۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ عبدالملک ابن عطاش انہوں نے کہا تھا کہ اس لڑکی کو ضائع نہ کر دینا اور دولت کی چمک سے اندھے ہو کر اس کا ہاتھ کسی امیر کبیر کے ہاتھ میں نہ دے دینا، اس لڑکی کی زندگی کا راستہ کوئی اور ھے، میں امام کے گھر جاتی رہتی ہوں انہوں نے مجھے کہا ہے اپنی عصمت کو پاک رکھنا ،اور اپنا جسم صرف اپنے خاوند کو پیش کرنا، میں تمہیں اپنا خاوند بنانا چاہتی ہوں۔

 میں نے پوچھا تھا کہ تم نے مجھ میں کیا خوبی دیکھی ہے؟

 میں نے کہا تھا کہ یہ میرے دل کا معاملہ ہے۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔تم میں وہ مردانگی ہے جو مجھے اچھی لگی ہے، میں اتنی دیر تمہارے سامنے برہنہ بیٹھی رہی اور تم نے میری طرف دیکھا تک نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم بڑے مضبوط مرد ہو ، اور دلوں کی محبت کا مطلب سمجھتے ہو۔

فرحی شریف سی لڑکی تھی اور ایک گڈریے کی بیٹی تھی، وہ علم اور فلسفی نہیں تھی کہ تجزیہ کرکے بتا سکتی کہ وہ حسن کی محبت میں کیوں گرفتار ہوئی ہے، اس نے ایسے انداز سے حسن کو اپنی محبت اور وفا کا یقین دلایا کہ حسن نے اس کی محبت کو قبول کرلیا۔

 فرحی !،،،،حسن نے کہا ۔۔۔تم میرے دل پر غالب آ گئی ہو ، لیکن میں اپنے بزرگ استاد سے اجازت لے کر تمہیں جواب دوں گا ۔

کل یہاں آؤ گے۔۔۔ فرحی نے پوچھا ۔

آ جاؤں گا۔۔۔ حسن نے جواب دیا۔

 فرحی چلی گئی۔

*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

ابومسلم رازی رے کا حاکم تھا، رے ایران کا بہت بڑا شہر تھا، تجارتی مرکز تھا اور اتنا زیادہ پھیل گیا تھا کہ اس کی وسعت صوبے جیسی ہو گئی تھی، اتنی وسیع و عریض شہر کے لیے بڑے ہی دانشمند اور قابل حاکم کی ضرورت تھی، ابومسلم رازی میں یہ تمام صلاحیتیں موجود تھیں۔

بعض تاریخوں میں اسے رے کا سلطان لکھا گیا ہے، یہ صحیح نہیں، البتہ یہ صحیح ہے کہ اسے تقریباً سلطان کے اختیارات حاصل تھے ،یعنی وہ سلطان سے اجازت لیے بغیر انتہائی اہم فیصلے کر سکتا تھا، کٹر اہلسنت وجماعت تھا۔

حسن بن صباح کی زندگی بڑی ہی پراسرار تھی، جنت بنانے تک اس کی زیادہ تر سرگرمیاں زمین دوز رہی ہیں، وہ کس طرح ایسی شخصیت بنا کہ اس کے پیروکاروں کا حلقہ پھیلتا ہی چلا گیا ، یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب قلمبند کرنا آسان نہیں، یہ اس کی پس پردہ جدوجہد تھی جس میں مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، مثلا کسی واقعے میں بعض نے لکھا کہ اس وقت حسن کی عمر اتنی تھی، لیکن بعض نے کچھ اور ہی عمر لکھی، بعض شخصیات اور کرداروں کے ناموں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔

ہماری تاریخ کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ اسلام میں فرقہ بندی جڑ پکڑ چکی ہے، تاریخ ہر فرقہ کے تاریخ نویسوں نے لکھی، جس سے تاریخ کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی کہ لکھنے والوں نے اپنے اپنے فرقے کے نظریات مفادات اور تعصبات کو سامنے رکھا اور واقعات کو مسخ کر ڈالا۔

جب ایک ہی واقعہ مختلف تاریخوں میں مختلف شکلوں میں نظر آتا ہے تو ہمیں تمام تر پس منظر کو غور سے دیکھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا ، یہ امر کتنا افسوسناک ہے کہ مسلمانوں نے فرقوں میں تقسیم ہو کر اپنی تاریخ کو بھی فرقوں میں تقسیم کردیا۔ رات کا پہلا پہر تھا حسن بن صباح اپنے استاد عبد الملک ابن عطاش کے یہاں بیٹھا تھا ،اور اسے سنا رہا تھا کہ فرحی اسے ملی تھی، اور اس نے کیا کہا تھا۔

ایسی ہی ایک لڑکی نے تیری زندگی میں داخل ہونا تھا۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔۔۔لیکن ابھی تیری شادی نہیں ہوگی، اس نے کہہ دیا ہے کہ وہ تجھے چاہتی ہے تو وہ تجھے ہی چاہتی رہے گی ،کوئی اس کے آگے دولت کے ڈھیر لگا دے گا تو وہ قبول نہیں کرے گی، وہ ہمیشہ تیری رہے گی۔

لیکن محترم اتالیق!،،،، حسن نے کہا ۔۔۔کوئی شاہی جاگیر دار اسے اغوا نہ کرلے۔

 نہیں!،،،، ابن عطاش نے کہا۔۔۔ اسے کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا ،میں نے اس کے گرد حصار کھینچ دیا ہے، کوئی شخص کتنا ہی جابر اور کتنا ہی بڑا حاکم کیوں نہ ہو فرحی کو بری نیت سے پھانسنے کی کوشش کرے گا تو منہ کی کھائے گا۔

میں تو سمجھا تھا کہ آپ نے میرا امتحان لینے کے لئے اسے میرے پاس بھیجا ہے۔۔۔ حسن نے کہا۔

نہیں!،،،، ابن عطاش نے کہا ۔۔۔یہ کوئی امتحان نہ تھا، لیکن یہ بات دماغ میں رکھ لے حسن!،،، خوبصورت عورت مرد کے لیے بہت بڑا امتحان ہوتی ہے، میں تجھے یہ سبق دے چکا ہوں، فرحی جیسی حسین لڑکی تجھ پر اپنا نشہ طاری کرکے تیری کھال بھی اتار سکتی ہے، آگے چل کر میں تجھے بتاؤں گا کہ دوسروں کو پھانسنے کے لیے عورت کو جال میں دانے کے طور پر کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔

تو کیا میں فرحی سے مل سکتا ہوں۔

 ہاں !،،،،ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ تو اسے مل سکتا ہے، تو اس کے ساتھ پیار محبت کی باتیں کرسکتا ہے، اور تیرا امتحان ہوگا کہ تو گناہ سے دامن بچا کر رکھنے کے قابل ہوجائے۔

کیا آپ مجھے پارسہ بنائیں گے ؟

نہیں!،،،، ابن عطاش نے کہا۔۔۔ ابھی ایسے سوال مت پوچھو، میں ابھی تجھے اندر اور باہر سے مضبوط کر رہا ہوں،،،اب تو اپنے گھر چلا جا، میں تجھے پھر کہتا ہوں کہ کسی کو نہیں بتانا کہ میں تجھے کیسی تعلیم اور کیسی تربیت دے رہا ہوں،،،، میں آج تجھے کوئی اور سبق نہیں دوں گا، کچھ لوگ آرہے ہیں۔

 حسن بن صباح اپنے استاد کے گھر سے نکل رہا تھا کہ چار آدمی حویلی میں داخل ہوئے۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

عبدالملک ابن عطاش ان ہی آدمیوں کے انتظار میں تھا۔

 کیا یہی وہ لڑکا ہے جسے آپ تیار کر رہے ہیں ؟،،،،،،ایک آدمی نے پوچھا ۔۔۔ہم نے اسے باہر نکلتے دیکھا ہے۔

 ہاں!،،،،، ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ یہی ہے۔

کیا یہ ہمارے محاذ اور مقصد کے لئے تیار ہوجائے گا؟،،،، اسی آدمی نے پوچھا۔

مجھے پوری امید ہے۔۔۔ ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ میں نے تمہیں پہلے بتایا ہے کہ اس نوجوان میں جس کا نام حسن بن صباح ہے میں نے ایسے جوہر دیکھے ہیں جو شاذ و نادر ہی کسی آدمی میں پائے جاتے ہیں، ایسی صلاحیتوں اور ایسے اوصاف والا انسان الله کا برگزیدہ اور لوگوں کا مرشد بنتا ہے، یا مجسم ابلیس بن جاتا ہے، دونوں صورتوں میں وہ لوگوں میں مقبولیت حاصل کرتا ہے، مقبولیت بھی ایسی کہ اس کے مرید اور معتقد اس کے اشاروں پر ناچتے بلکہ اس کے اشارے پر جان تک قربان کر دیتے ہیں۔

یہ لڑکا کس طرف جاتا نظر آتا ہے؟ 

 میں ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔۔ ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ مجھے شک ہے کہ اس میں ابلیسی اوصاف کچھ زیادہ ہیں، اگر یہ اس راستے پر چل نکلا تو بھی ہمارے لئے سود مند رہے گا ،میرے قبضے میں ہی میں اس کو روحانی تقویت دے رہا ہوں۔

کیا ہمیں تبلیغ کا کام تیز نہیں کر دینا چاہئے؟ 

 تبلیغ تو ہو رہی ہے۔۔۔ ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ لیکن ہم یہ کام آزادی سے نہیں کر سکتے کیوں کہ حکومت اہلسنت کی ہے اور آبادی کی اکثریت بھی سنی ہے ،میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ہماری تبلیغ دیہات میں زیادہ ہونی چاہیے، وہاں پکڑے جانے کا خطرہ کم ہے۔ 

ہم نے دیہاتی علاقوں میں اپنے عقیدے کی تبلیغ کے لئے مبلغ بھیجنے شروع کردیئے ہیں۔۔۔ ایک آدمی نے کہا۔

صرف تبلیغ کافی نہیں۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ حکومت اپنے ہاتھ میں آنی چاہیے، حکومت ہاتھ آجائے تو ہم سنی مسلک کو آسانی سے ختم کرکے لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ اصل اسلام ہمارے پاس ہے،،،،، لیکن حکومت آسانی سے ہاتھ نہیں آئے گی ہمیں مصر کے عبیدیوں کی مدد حاصل کرنی پڑے گی۔

میں ایک شک میں پڑ گیا ہوں۔۔۔ ایک اور بولا۔۔۔ مصر کے حکمران تو عبیدی ہی ہیں، لیکن سنا ہے وہ باطنی ہیں۔

نہیں !،،،،،،ابن عطاش نے کہا۔۔۔وہ پکے اسماعیلی ہیں، اور وہ ہماری مدد کو ضرور آئیں گے ،میں انہیں سلجوقی سلطنت پر حملے کے لئے اکساؤں گا ،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ادھر ہمارے لوگ تیار ہوں، لیکن یہ تیاری پوشیدہ رہے، مصری حملہ آور آئیں اور ہمارے لوگ ہتھیار بند ہوکر ان سے جا ملیں، اتنی تیاری کے لیے بہت وقت چاہیے۔


اسی شہر کے حاکم ابومسلم رازی کے پاس دو سپہ سالار 

بیٹھے تھے، دو آدمی اور بھی تھے جو فوجی نہیں لگتے تھے یہ دونوں جاسوسی اور مخبری کے محکمے کے حاکم تھے۔

،،،،، اپنے مخبروں کو اور تیز کرو۔۔۔ ابو مسلم رازی نے کہا ۔۔۔میں تمہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہ شہر سعد بن ابی وقاص رضی الله تعالی عنہ نے فتح کیا تھا، اور آتش پرست ایرانیوں کو اٹھنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا، سلطنت کسریٰ کے تابوت میں آخری کیل یہیں ٹھونکی گئی تھی، ان اولین مجاہدین نے یہاں اسلام کا نور پھیلایا تھا، ان کی قبروں کے کہیں نشان نہیں ملتے، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ یہیں دفن ہیں جنہوں نے الله کی راہ میں جانیں قربان کیں تھیں، ان کی روحیں یہی ہے ہمیں دیکھ رہی ہیں، اور یقینا بے چین ہوں گی کہ امت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کیا ہو گیا ہے کہ فرقوں میں بٹ گئی ہے۔

میرے رفیقو!،،،، میں کوئی نئی بات نہیں کر رہا اور یہ بات معمولی سے دماغ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ملت میں اتحاد تھا تو مجاہدین تھوڑی سی تعداد میں دنیا کی اس وقت کی دو سب سے بڑی جنگی طاقتوں قیصر روم اور کسریٰ فارس کو ریزہ ریزہ کردیا تھا ،مگر آج وہی ملت فرقوں میں بٹ کر خانہ جنگی کے خطرے میں آن پڑی ہے، اس کا فائدہ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کے دشمنوں کو پہنچے گا۔

ہمیں مصر کی طرف سے چوکنا رہنا چاہیے۔۔۔ جاسوسی نظام کے ایک حاکم نے کہا ۔۔۔وہاں کے حکمران اسماعیلی کہلاتے ہیں، لیکن ہماری اطلاع یہ ہے کہ وہ فرقہ باطنیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اسماعیلیوں کو بد نام کر رہے ہیں، خطرہ یہ ہے کہ وہ اسماعیلیوں کو دھوکے میں اپنے ساتھ ملا کر ہم پر حملہ کر سکتے ہیں۔

ابومسلم رازی نے کہا ۔۔۔آپ کے جاسوسوں کی تمام اطلاعات میرے سامنے ہیں، مصر میں اپنے جاسوسوں کا موجود رہنا بہت ضروری ہے، اور یہاں اس شہر کے ہر گھر اور ہر فرد پر نظر رکھیں، اسلام کی وحدت کو پیش نظر رکھیں، قران کے اس فرمان کو اپنی حکومت کا بنیادی اصول بنائیں کہ امت رسول الله صلی الله تعالی علیہ وسلم ایک جماعت ہے۔ محمد رسول الله صلی الله تعالی علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، یہ فرقے بعد میں پیدا ہوئے اور ہوتے چلے جا رہے ہیں، یہ نبیوں نے نہیں عام قسم کے انسانوں نے بنائے ہیں اور یہ اسلام کے منافی ہیں، جس کے ہم پیروکار ہیں اصل اسلام وہ ہے جو الله کے آخری رسول صلی الله تعالی علیہ وسلم چھوڑ گئے ہیں ،یہاں کسی کے متعلق پتہ چلے کہ وہ فرقہ بندی کو ہوا دے رہا ہے تو مجھے اطلاع دو میں اسے ساری عمر کے لیے قید خانے میں ڈال دوں گا۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

وقت گزرتا چلا گیا عبدالملک ابن عطاش نے حسن بن صباح کی تربیت جاری رکھی، حسن بھی بڑا خوبصورت جوان نکلا، عیاری اور فریب کارانہ اداکاری میں تو اس نے مہارت حاصل کر لی، فرحی کے ساتھ اس کی ملاقاتیں جاری رہیں، فرحی غیر معمولی طور پر دلیر لڑکی نکلی ،جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اسے ابن عطاش کی حوصلہ افزائی حاصل تھی، پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ ابن عطاش کی مرید تھی اور اس کی ہر بات کو فرحی آسمان سے اتری ہوئی بات سمجھتی تھی، ابن عطاش نے اسے کہہ دیا تھا کہ اس کی زندگی کا ساتھی حسن بن صباح ہے۔

حسن بن صباح پر پہلے جو خوف سا طاری رہتا تھا وہ اب ختم ہو چکا تھا ،اسے ابن عطاش نے کئی بار آدھی رات کے وقت قبرستان میں بھیجا تھا، ہر بار وہ حسن کو مردے کی کوئی نہ کوئی ہڈی لانے کو کہتا تھا، یا قبرستان میں بیٹھ کر کوئی عمل کرنا ہوتا تھا۔

ایک رات حسن قبرستان میں دو پرانی قبروں کے درمیان بیٹھا کوئی عمل کر رہا تھا ،اس رات بھی چاند پورا تھا وہ اپنے عمل میں محو تھا کہ اس کے قریب سی سی کی آوازیں اٹھیں، اس نے ذہن کو ایک مقام پر کرنے اور دنیا سے لاتعلق ہو جانے کی اس قدر مہارت حاصل کر لی تھی کہ اسے جیسے یہ آواز سنائی ہی نہ دی ہو، اس نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔

اس نے اپنے عمل کے مطابق آنکھیں کھولیں تو وہ چونک پڑا اس سے صرف دو قدم کے فاصلے پر اس کے سامنے سیاہ کالا ایک ناگ پھن پھیلائے ہوئے سی سی کر رہا تھا ، استاد نے اسے بتا رکھا تھا کہ قبرستان میں سانپ ہوتے ہیں، اگر کبھی سانپ سے آمنا سامنا ہو جائے تو وہ بے حس ہو جائے کوئی حرکت نہ کرے، اس سے سانپ کو یہ تاثر ملے گا کہ یہ کوئی بے جان چیز ہے جس سے اسے کوئی خطرہ نہیں، پھر سانپ چلا جائے گا۔

حسن بن صباح نے ناگ کو دیکھا تو پتھر مار کر اسے بھگانے کی بجائے بیٹھا رہا اور انگلی تک نہ ہلائی، ناگ اسے دیکھتا رہا اور اس کا پھن دائیں بائیں جھولتا رہا ،حسن نے ننگی تلوار زمین میں گاڑ رکھی تھی، اس نے تلوار کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا، اس کے دل میں خوف آنے لگا لیکن اس نے ہوش ٹھکانے رکھے۔

ناگ ذرا سا آگے آیا، حسن کے لیے اپنے آپ پر قابو پانا محال ہو گیا، اس کے لئے دو ہی صورتیں تھیں ایک یہ کہ اٹھ کر بھاگ جائے دوسری یہ کہ تیزی سے زمین سے تلوار اکھاڑے اور ناگ کو مارے، لیکن ناگ نے اپنا پھن لپیٹا اور پیچھے کو مڑ کر چلا گیا ، حسن نے اپنا عمل مکمل کیا اور گھر چلا گیا۔

*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

اگلی صبح عبدالملک ابن عطاش کے یہاں گیا، پہلے اسے بتایا کہ اس نے عمل مکمل کرلیا ہے، پھر بتایا کہ ایک ناگ اس کے سامنے آگیا تھا، اس نے تفصیل سے سنایا کہ ناگ کس طرح آیا اور کس طرح گیا۔

سانپ سانپ کو نہیں ڈسا کرتا ۔۔۔ابن عطاش نے کہا۔۔۔ میری بات سمجھو میں تجھے اسی مقام پر لانا چاہتا تھا، تو اپنی منزل کے آدھے راستے تک پہنچ گیا ہے، اب منزل تک تجھے کوئی اور پہنچائے گا ،میری استادی یہاں پر ختم ہو جاتی ہے۔ 

تو کیا مجھے کوئی اور استاد ڈھونڈنا پڑے گا؟،،،، حسن نے پوچھا ۔۔۔یا آپ مجھے کسی کے پاس بھیجیں گے۔

اس سوال کا جواب تجھے خواب میں ملے گا۔۔۔ ابن عطاش نے جواب دیا ۔۔۔گزشتہ رات کا عمل جو تجھ سے کروایا ہے وہ کوئی معمولی عمل نہیں، ناگ کا تمہارے پاس آنا اور تجھے ڈسے بغیر چلے جانا، اس عمل کی کامیابی کا ثبوت ہے، اگر تو بھاگ آتا یا ناگ تجھے ڈس لیتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ تو نے عمل صحیح نہیں کیا، یا عمل کسی اور وجہ سے ناکام ہو گیا ہے، پانچ سات دنوں کے اندر تو خواب میں کچھ دیکھے گا، وہ ایک راستہ ہوگا جو بہت ہی دشوار گزار ہو سکتا ہے اور بالکل آسان بھی۔

میری دعا ہے کہ تجھے راستہ دشوار نظر آئے، سکھ دکھوں میں سے گزر کر ہی ملتا ہے، دولت آسانی سے ہاتھ آجائے تو انسان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے خون پسینہ بہا کر اور محنت مشقت سے اپنی ہڈیاں تڑوا کر اکٹھا کیا جائے تو انسان اسکی قدر کرتا ہے، اگر گلاب کے پھول کے ساتھ کانٹے نہ ہوں تو اس پھول کی قدروقیمت ختم ہوجائے،،،،،، 

گزشتہ رات کے عمل نے تیرے دل و دماغ پر ایسا اثر چھوڑ دیا ہے کہ تو ایک خواب دیکھے گا کہ تو کہیں جا رہا ہوگا ، اس راستے کو ذہن میں محفوظ کرلینا، جونہی ہی آنکھ کھلے کاغذ قلم لے کر یہ راستہ اور اس کے اشارے کاغذ پر اتار لینا، ہو سکتا ہے خواب میں تمہیں دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی نظر آئے، ایک غار بھی نظر آئے گا اسے ذہن میں محفوظ کر لینا۔

 محترم اتالیق!،،،، حسن نے پوچھا ۔۔۔کیا یہ خدائی اشارہ ہوگا؟ 

عبد الملک ابن عطاش نے سر جھکا لیا اور کچھ دیر کچھ بھی نہ بولا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنے شاگرد کے اس سوال کا جواب نہ دینا چاہتا ہو، اس نے آخر سر اٹھایا اور نظریں اپنے شاگرد کے چہرے پر مرکوز کردیں۔

اگر یہ کوئی راز کی بات ہے تو نہ بتائیں محترم اتالیق !،،،،حسن نے کہا۔

ہاں حسن!،،،،، نا بتاتا اس نے کہا ۔۔۔بات راز کی ہے لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ یہ راز بھی تجھے دے دوں، تو اس قابل ہو گیا ہے کہ ہر راز کو اپنے سینے میں محفوظ رکھ سکتا ہے،،،، 

میں نے آج تک تجھے جو سبق دیا ہے، اور جو عمل کروائے ہیں اور گزشتہ رات کا جو عمل تھا یہ خدائی عمل نہیں یہ ابلیسی عمل ہے، اس سے تجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے،،،،،،،،کیا تو اپنے آپ میں روحانی سکون محسوس نہیں کر رہا؟

ہاں محترم اتالیق !،،،،،حسن نے جواب دیا ۔۔۔میں آپ کو بتانا یہ چاہتا تھا کہ میں اپنے آپ میں ایسا سکون محسوس کرتا ہوں جیسے میں فضاء میں اڑ رہا ہوں، اور اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ میرے وجود میں ایک طاقت آگئی ہے جو چٹانوں کے بھی جگر چاک کر سکتی ہے۔

میں تجھے بتاتا ہوں۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ تیرے اندر ایسے اوصاف غالب تھے جو ایسے ہی عملیات سے تجھے سکون اور طاقت دے سکتے تھے، یہ سب ابلیسی عملیات ہیں جنہیں اسلام نے گناہ قرار دیا ہے، یہ علم فرعونوں کے زمانے میں بھی تھا اور پھر اس علم کو یہودیوں نے اپنا لیا اور اس میں شہرت حاصل کی،،،،،، تو نے ایک بار کہا تھا کہ تو فرعون بننا چاہتا ہے، میں نے تیرے اندر اتنی طاقت پیدا کر دی ہے کہ تو اس غار تک پہنچے گا جو تجھے خواب میں نظر آئے گا ، وہاں تیرا یہ علم مکمل ہوجائے گا، اب یہ مت سوچ کے یہ علم خدائی ہے یا ابلیسی۔

یہ سحر کا علم تھا جسے آجکل کالا جادو کہا جاتا ہے، ابن عطاش اس علم میں جتنی دسترس رکھتا تھا وہ اس نے حسن کے دماغ میں ڈال دیا تھا، اس دوران وہ حسن کو علم نجوم بھی پڑھاتا رہا تھا، تیسرے چوتھے دن حسن بن صباح ایک کاغذ اٹھائے اپنے استاد کے یہاں دوڑا گیا اور کاغذ اس کے آگے رکھ کر کہا کہ میں نے خواب میں یہ راستہ دیکھا ہے، اس نے یہ بھی کہا کہ یہ راستہ اگر خواب جیسا ہی ہے تو بہت ہی خوفناک ہے، وہاں تک زندہ پہنچنا مشکوک نظر آتا ہے۔

میں جانتا ہوں۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ اگر تو نے یہ سفر بخیر و خوبی کرلیا تو سمجھ لے کے تو نے ساری دنیا فتح کر لی ہے، کل اس وقت نکل جا جب تجھے فجر کی اذان سنائی دے۔

اگلے روز جب سورج افق سے ابھرا تو شہر سے کوسوں دور دو گھوڑے جارہے تھے، ایک پر حسن بن صباح سوار تھا اور دوسرے گھوڑے پر فرحی سوار تھی ،گذشتہ رات جب وہ فرحی سے ملا تو اس نے فرحی کو بتایا کہ وہ کس سفر پر روانہ ہو رہا ہے، فرحی نے کہا کہ وہ بھی ساتھ جائے گی، حسن نے اسے روکنے کے لیے بہت کچھ کہا لیکن فرحی نہ مانی، وہ تو اس کے پیچھے پاگل ہوئی جا رہی تھی۔

میری زندگی تمہارے ساتھ ہے حسن!،،،، فرحی نے کہا تھا میں پیچھے رہ گئی تو کسی جاگیردار یا کسی امیر وزیر کے ہاتھ چڑھ جاؤں گی، امام عبدالملک کب تک میری حفاظت کریں گے ،تم جس سفر پر جا رہے ہو یہ بڑا خطرناک ہے، معلوم نہیں زندہ لوٹ سکو گے یا نہیں، میں تمہارے ساتھ جینا اور تمہارے ساتھ مرنا چاہتی ہوں، اگر تم ساتھ نہیں لے چلو گے تو میں تمہارے پیچھے پیچھے آ جاؤں گی، اس شہر میں نہیں رہوں گی۔

حسن بن صباح اتنا مجبور ہو گیا کہ وہ فرحی کو روک نہ سکا، حسن تو اپنے گھر والوں کو بتا کر گھر سے نکلا تھا اسے اس کے باپ نے خود ہی عبدالملک ابن عطاش کی شاگردی میں بٹھایا تھا، لیکن فرحی گھر والوں کو بتائے بغیر نکلی تھی، وہ اس وقت جاگ اٹھی تھی جب گھر والے گہری نیند سوئے ہوئے تھے، گھوڑا اس کے ایک بھائی کا تھا ،وہ اندھیرے میں ہی گھر سے نکل آئی تھی، وہ جس قدر خوبصورت تھی اس سے کہیں زیادہ مضبوط حوصلے والی تھی، حسن ابھی شہر سے تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ فرحی اس سے جا ملی۔

حسن کے ذہن میں خواب کی باریک سے باریک تفصیل بھی محفوظ تھی اور اس کے پاس کاغذ بھی تھا جس پر اس نے اشارے لکھے تھے ،اگر یہ کوئی سیدھا راستہ ہوتا تو وہ بہت ہی دور نکل گئے ہوتے، لیکن یہ کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا، جنگل تھا کہیں بنجر علاقہ تھا، اور پھر پتھریلا علاقہ شروع ہوگیا ، پہلے ایک ندی آئی جو اتنی گہری نہیں تھی ان کے گھوڑے اس میں سے گزر گئے، لیکن آگے جو ندی آئی وہ خاصی گہری تھی اور پانی کا بہاؤ بھی خاصا تیز تھا، حسن نے راستے والا کاغذ ایک ہاتھ میں لے کر ہاتھ اونچا کر لیا تھا کہ یہ بھیگ نا جائے اور انہوں نے گھوڑے ندی میں ڈال دیئے ،چونکہ بہاؤ تیز تھا اس لیے گھوڑے سیدھے جانے کی بجائے بہاؤ کے ساتھ بہتے گئے اور خاصی دور جا کر کنارے پر چڑھے۔

 حسن نے ذہن پر زور دیا اور دیکھنے لگا کے وہ نشانیاں کہاں ہیں جو اسے خواب میں نظر آئی تھیں، اس نے کاغذ سے بھی مدد لی اور آگے بڑھنے لگا، آگے علاقہ چٹانی تھا اونچی نیچی چٹانیں بے آب و گیاہ تھیں، ان میں بعض نوکیلی اور بعض اوپر سے چپٹی تھیں، بعض کا رنگ سلیٹی اور بعض کوئلے کی طرح سیاہ تھیں، حسن دو چٹانوں کے درمیان چلا گیا، تھوڑی ہی دور جا کر یہ راستہ ایک طرف کو جاتا تھا ،وہ ادھر موڑا تو اسے بائیں کو مڑنا پڑا، اس طرح اسے چٹانوں نے کبھی دائیں کبھی بائیں اتنا زیادہ موڑا کہ وہ بھول ہی گیا کہ اسے کس سمت جانا ہے اور وہ ان بھول بھلیوں میں کس طرف سے داخل ہوا تھا۔

 اس نے سورج سے سمت معلوم کرلی لیکن یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ آگے بڑھ رہا ہے یا ایک ہی جگہ پر گھوم رہا ہے یا پیچھے کو جارہا ہے، سورج اپنے روزمرہ سفر پر چلا جا رہا تھا، اور افق سے تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا۔ حسن پریشان ہو گیا اسے شام گہری ہونے سے پہلے وہاں سے نکلنا تھا ،اس نے گھوڑے کی رفتار اور تیز کرلی۔

معلوم ہوتا ہے تم خواب والا راستہ بھول گئے ہو۔۔۔ فرحی نے کہا۔

 میں خواب میں بھی اسی طرح ان بھول بھلیوں میں گھومتا رہا تھا۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ راستہ مل جائے گا۔

 ان چٹانی بھول بھلیوں میں گھومتے پھرتے اسے ایک ایسی چٹان نظر آئی جو اوپر سے آگے کو جھکی ہوئی تھی ،یہ قدرت کا ایک شاہکار تھا، یہ بغیر ستونوں کے برآمدے جیسی تھی، وہاں پہنچ کر حسن نے گھوڑا روک لیا اور فرحی سے کہا کہ کچھ دیر آرام کر لیا جائے۔

 دونوں گھوڑوں سے اتر آئے اور برآمدے کی چھت جیسی چٹان کے نیچے بیٹھ گئے، یہ کوئی غار تو نہیں تھا لیکن چٹان اندر سے ایک وسیع کھوہ جیسی ہو گئی تھی، اس کا فرش زمین کی سطح سے ڈیڑھ گز نیچے تھا، حسن تو بیٹھ گیا لیکن فرحی کھوہ میں دیکھنے لگی، اس نے یہ بھی کہا کہ رات گزارنی پڑی تو یہی گزاریں گے، اس کے ساتھ ہی اس کی ہلکی سی چیخ سنائی دی ۔

حسن تیزی سے اٹھا اور فرحی تک پہنچا۔

 نیچے دیکھو حسن ۔۔۔فرحی نے کہا۔

 حسن نے نیچے دیکھا انسانی ہڈیوں کے دو پنجر پڑے تھے، ان کے کپڑوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے، ہڈیاں بالکل خشک ہو چکی تھیں، ایک پنجر مرد کا تھا اور دوسرا عورت کا، عورت کی نشانی بڑی صاف تھی اس کے لمبے لمبے بال کھوپڑی کے قریب ہی پڑے تھے، دونوں اس حالت میں نہیں تھے جس طرح لاش کو قبر میں سیدھا رکھا جاتا ہے۔

 حسن کود کر نیچے چلا گیا ،اس نے مرد کی پسلیوں میں دیکھا وہاں ایک خنجر پڑا ہوا تھا، جن دو پسلیوں کے درمیان یہ خنجر پھنسا ہوا تھا وہاں سے دونوں پسلیاں تھوڑی تھوڑی کٹی ہوئی تھیں، ایک تلوار دونوں ڈھانچوں کے قریب پڑی تھی۔

 معلوم نہیں یہ کون تھے۔۔۔ فرحی نے کہا۔

 کوئی ہم جیسے ہی ہونگے۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ لیکن یہ کچھ اور معاملہ معلوم ہوتا ہے، اس آدمی کو سینے میں خنجر مار کر مارا گیا تھا، ہو سکتا ہے عورت کو اس تلوار سے مارا گیا ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ہماری طرح ان بھول بھلیوں میں پھنس گئے ہوں اور یہاں رات گزارنے کے لیے رک گئے ہوں ، میرا خیال ہے کہ یہ بھوک اور پیاس سے مرے تھے، ان کے پاس پانی نہیں تھا، ہوتا تو یہاں مشکیزہ پڑا ہوتا۔

 حسن !،،،،،فرحی نے کہا ۔۔۔میں کبھی ڈری نہیں، لیکن میں دل پر خوف کی گرفت محسوس کر رہی ہوں، ہم یہاں نہیں رکیں گے۔

 پھر ہمیں یہاں سے جلدی چل پڑنا چاہیے۔۔۔ حسن نے کہا۔

 دونوں گھوڑوں پر سوار ہوئے اور دو چٹانوں کے درمیان چلنے لگے، یہ تنگ سا راستہ انہیں ایسی جگہ لے گیا جہاں چٹانیں پیچھے رہ گئی تھیں اور ذرا کھلا میدان تھا ،تین اطراف چٹانیں تھیں چوتھی طرف کی چٹان کے درمیان تھوڑا سا راستہ تھا، حسن اس طرف ہو لیا ۔

 دونوں گھوڑے پہلو بہ پہلو چلے جا رہے تھے، جب دونوں اس تنگ سے راستے کے قریب گئے تو دونوں گھوڑے اپنے آپ ہی رک گئے، پہلے وہ کچھ بے چینی سے ادھر ادھر ہونے لگے، پھر دونوں گھوڑے کانپنے لگے انہوں نے گھوڑوں کو ایڑ لگائی باگیں جھٹکیں لیکن گھوڑے کانپتے رہے اور آگے بڑھنے کی بجائے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے۔

 وہ دیکھو فرحی!،،،، حسن نے کہا۔۔۔ گھوڑے آگے نہیں بڑھیں گے۔

جاری ہے


محمد عامر کے بارے میں وزیراعظم سے کی گئی اہم درخواست

 سینئر فیصل پارٹی کے سینئر ممبر اور وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی ، سینیٹر فیصل جاوید خان نے ، کرکٹ حکام کو محمد عامر کے خدشات دور کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو عامر جیسے باصلاحیت کھلاڑی کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔


 جاوید نے ٹویٹر پر جمعرات کے روز پاکستان کرکٹ کو متاثر کرنے والے تنازعہ پر اپنی رائے کا اظہار کیا ، اور دونوں جماعتوں کو اپنے اختلافات حل کرنے کے لئے ایک ساتھ بیٹھنے کی تجویز پیش کی۔


 جمعرات کو ایک چونکا دینے والے بیان میں ، عامر نے اپنے خلاف تخلیق کردہ "ذہنی اذیت" اور "معاندانہ ماحول" کا حوالہ دیتے ہوئے اس کھیل سے سبکدوشی کا اعلان کیا کیونکہ انہوں نے گذشتہ سال خود کو سفید بال کرکٹ تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔  جاوید نے کرکٹر سے ٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو کہا ، اور کہا کہ "اس کی عمر اور فارم اب بھی اسی فارمٹ کے مطابق ہے"۔


 "براہ کرم کوئی جذباتی فیصلہ نہیں کریں ،" سینیٹر نے ٹویٹ کیا۔


 عامر ، جو اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں حصہ لینے کے لئے 2011 میں جیل میں رہا تھا ، جنوری 2016 میں پاکستانی اسکواڈ میں واپسی سے قبل تین ماہ قید اور ہر طرح کی کرکٹ پر پانچ سال کی پابندی کاٹ کر رہا تھا۔


 بائیں ہاتھ کے با bowlerلر نے اس کے بعد محدود اوورز کی کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو 2017 میں چیمپئنز ٹرافی کے ٹائٹل میں جگہ بنائی ، لیکن گذشتہ ماہ وہ ٹیم سے نیوزی لینڈ کے دورے کے لئے خارج ہوگئے تھے۔


 یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اسپورٹ کو یکسر چھوڑ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: "نہیں ، میں کرکٹ سے دور نہیں جا رہا ہوں۔ اگر آپ نے یہاں کا ماحول اور جس طرح سے مجھے گھٹا دیا گیا ہے اسے دیکھا ہے تو مجھے جاگ اٹھنے کی اطلاع ملی جب میں نہیں تھا  35 رکنی ٹیم میں منتخب ،


 "مجھے نہیں لگتا کہ میں اس مینجمنٹ کے تحت کرکٹ کھیل سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھے اس بار کرکٹ چھوڑ دینی چاہئے۔ مجھ پر ذہنی اذیت دی جارہی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اب میں مزید کسی قسم کا تشدد برداشت کرسکتا ہوں۔


 "میں نے 2010 سے 2015 تک بہت زیادہ اذیت کا سامنا کیا ہے۔ میں کھیل سے دور تھا اور اپنی غلطی کی سزا سنائی گئی۔ مجھے بار بار اذیت دی جارہی ہے۔"


 عامر جن کی تمام فارمیٹ میں 259 وکٹیں ہیں ، وہ وائٹ بال کھیل پر توجہ دینے کے لئے گذشتہ سال ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہوئے تھے۔


 وہ گذشتہ سال انگلینڈ میں کھیلے جانے والے 50 اوورز ورلڈ کپ میں 17 وکٹوں کے ساتھ پاکستان بالرز کا انتخاب کر رہے تھے جب وہ سیمی فائنل جگہ سے محروم ہوگئے تھے۔


 عامر نے مزید کہا کہ ان لوگوں کی حمایت کرنے والے واحد افراد میں سابق کپتان شاہد آفریدی اور پی سی بی کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی تھے۔  انہوں نے مزید کہا ، "سیٹھی اور شاہد آفریدی وہ دو افراد تھے جن کا میں ہمیشہ کے لئے شکریہ ادا کروں گا ، دونوں نے سخت وقت میں میرا ساتھ دیا۔"


 "میں پانچ سال کی سزا پوری کرنے کے بعد واپس آیا ، ایسا ایسا نہیں ہے کہ میں ایک سال بعد واپس آیا ہوں۔ باقی ٹیم نے کہا ، 'ہم محمد عامر کے ساتھ نہیں کھیلیں گے۔'


 پی سی بی نے کہا کہ عامر نے چیف ایگزیکٹو وسیم خان سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کی "بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کی خواہشات یا ارادے نہیں ہیں" لہذا انتخاب کے لئے ان پر غور نہیں کیا جانا چاہئے۔


 اس نے ایک بیان میں کہا ، "یہ محمد عامر کا ذاتی فیصلہ ہے ، جس کا پی سی بی نے احترام کیا ہے۔"


حسن صباح کی مصنوعی جنت قسط 2

 حســـن بـن صـــبـاح کی مصنـــوعی جنــــت 


قسط نمبر.2.



حسن بن صباح خواجہ طوسی نظام الملک کی سفارش سے سلجوقی سلطان ملک شاہ کا معتمد خاص بن جاتا ہے، حسن اور خواجہ طوسی امام موافق کے مدرسے سے فارغ التحصیل ہوکر نکلے تو ان کی ملاقات بیس اکیس سال بعد سلطان ملک شاہ کے محل میں ہوئی تھی، اگر اس بیس اکیس سال کے عرصے کی روئیداد نہ سنائی جائے تو تاریخ کی یہ ہولناک اور شرمناک داستان ادھوری رہ جائے گی، یہی وہ عرصہ ہے جس میں حسن بن صباح حسن بن ابلیس بنا تھا ،اسی عرصے میں اس نے علم نجوم اور علم سحر میں دسترس حاصل کی تھی۔

کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ آپ کو بیس اکیس سال پیچھے لے جائے جب حسن کے باپ علی بن احمد نے اسے امام موافق کے مدرسے میں داخل کرانے سے بہت پہلے ایک اسماعیلی عالم عبدالملک بن عطاش کی شاگردی میں بٹھایا تھا۔

کوئی انسان اپنے آپ ہی گناہ گار نہیں بن سکتا، اور کوئی انسان اپنے آپ ہی زاہد اور متقی نہیں بن سکتا، کچھ حالات اور چند انسان مل کر ایک انسان کو بگاڑتے یا بناتے ہیں۔

حسن بن صباح کا کردار اسی روز ایک خاص سانچے میں ڈالنا شروع ہو گیا تھا جس روز باپ اسے عبدالملک بن عطاش کے پاس لے گیا تھا۔ عبدالملک حسن کے باپ کو اچھی طرح جانتا تھا جس طرح ایک جسم کے دو ہاتھ ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے ہیں، عبدالملک علی ابن احمد کی عیاریوں سے بھی واقف تھا اور وہ علم جوتش اور نجوم کی بھی سوجھ بوجھ رکھتا تھا

اے ابن عطاش !،،،،،حسن کے باپ نے اسے عبدالملک بن عطاش کے سامنے بٹھا کر کہا ۔۔۔یہ میرا ایک ہی بیٹا ہے ،میں نہیں چاہتا کہ میرے مرنے کے بعد یہ گمنام ہو جائے، یہ اس سے زیادہ شہرت حاصل کرے جو میں نے حاصل کی تھی۔

 ایک پہلو اپنی زندگی کا یہ بھی سامنے رکھ علی!،،،،،ابن عطاش نے کہا ۔۔۔تو نے شہرت تو اتنی حاصل کی ہے کہ اِس جگہ کے حکم کے ساتھ بھی تیرہ اٹھنا بیٹھنا ہے، لیکن یہ کوئی اچھی شہرت نہیں۔

 شہرت تو ہے ابن عطاش!،،،،، علی بن احمد نے کہا۔۔۔ میں کہتا ہوں یہ نام پیدا کرے اچھا یا برا۔

بچے کو اندر لے آ۔

علی بن احمد اپنے بیٹے حسن بن صباح کو اندر لے گیا اور عبدالملک ابن عطاش کے سامنے بٹھا دیا ،عبدالملک نے حسن کے سر سے دستار اتار دی اور اس کے سر پر اس طرح ہاتھ رکھا کہ اس کی انگلیاں حسن کی پیشانی پر تھیں، عبدالملک نے انگلیاں اس کی پیشانی پر آہستہ آہستہ پھیری ، پھر اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر ذرا اوپر کیا اور حسن کی آنکھوں میں بڑی غور سے دیکھا، پھر اس کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں پھیلا کر دیکھیں، ہتھیلیوں کو غور سے دیکھتے دیکھتے عبدالملک نے اپنا چہرہ یوں تیزی سے پیچھے کر لیا جیسے اس بچے کی ہتھیلیوں سے اچانک سانپ نکل آیا ہو۔

عبدالملک بن عطاش نے کاغذ قلم لے کر کاغذ پر قلم سے خانے بنائے، اور ہر خانے میں کچھ لکھا وہ وقفے وقفے سے حسن کے چہرے کو دیکھتا تھا۔

  بچے!،،،، ابن عطاش نے حسن سے کہا ۔۔۔تو باہر جا بیٹھ ۔

حسن بن صباح باہر نکل گیا تو ابن عطاش اس کے باپ کی طرف دیکھا اور دیکھتا ہی رہا۔

جو کہنا ہے کہہ دے ابن عطاش!،،،،، علی نے کہا ۔۔۔میں جانتا ہوں کہ جو تو کہے گا وہ تجھے تیرے علم اور ستاروں نے بتایا ہے۔

تیری بیوی کی کوکھ سے ایک نبی پیدا ہوا ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔

نبی !،،،،،علی بن احمد نے حیران سا ہو کے پوچھا؟،،،، نبوت کا سلسلہ تو ختم ہوچکا ہے۔

نبوت کا سلسلہ الله کی طرف سے ختم ہوا ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔۔۔۔ الله کے بندوں کی طرف سے یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا، نہ کبھی ختم ہوگا، اب تک کتنی ہی آدمی نبوت کا دعویٰ کرچکے ہیں، کیا تو نے صاف ابن صیاد مدنی کی نبوت کا قصہ نہیں سنا ،وہ یہودی تھا اس نے حضورﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کا دعوی کردیا تھا، اور نبی اکرمﷺ سے اس کی ملاقاتیں بھی ہوئیں تھیں، حضورﷺ نے ایک بار اس سے پوچھا ،،،کیا تجھ پر وحی نازل ہوتی ہے ؟،،،،

صاف ابن صیاد نے جواب دیا۔۔۔ میرے پاس ایک صادق اور ایک کاذب آتا ہے ۔

صادق اور کاذب کا کیا مطلب؟،،،، علی بن احمد نے پوچھا۔

مطلب سمجھنے کی کوشش کرو علی!،،،، ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ مطلب یہ کہ میرے پاس ایک فرشتہ آتاہے ،اور ایک ابلیس ۔

وہ کہنا یہ چاہتا تھا کہ فرشتہ بھی اور ابلیس بھی اس کے دماغ میں اپنے اپنے اشارے اور اپنے اپنے امور غیب ڈال جاتے ہیں، در اصل بات یہ تھی کہ صاف ابن صیاد علم سحر میں مہارت رکھتا تھا، ساحر ہم بھی ہیں ،اس علم کے اسرارورموز میرے پاس بھی ہیں، لیکن یہ علم یہودیوں کو اتنا مرغوب ہے کہ انہوں نے اسے بہت ہی طاقتور بنا دیا ہے، اور اس میں ابلیسیت بھر دی ہے، ان کے ساحر بالکل صحیح پیشین گوئی کر سکتے ہیں، صاف ابن صیاد بھی پیشن گوئی کرسکتا تھا ،اسے اس نے یوں بیان کیا کہ ایک فرشتہ اس کے پاس آتا ہے جو اسے خدا کا پیغام دیتا ہے، اور ابلیس بھی آتا ہے جو اسے آنے والے حالات بتا جاتا ہے۔

تم میرے بیٹے کی بات کر رہے تھے ۔۔۔ حسن بن صباح کے باپ نے کہا۔۔۔ یہ کس قسم کا نبی بنے گا؟

جیسے کئی اور جھوٹے نبی بنے۔۔۔ابن عطاش نے کہا۔۔۔ تم محمدﷺ کو آخری نبی مانو نہ مانو ،میں اس حدیث کا منکر نہیں ہوسکتا،،،،،،،،،جھوٹے نبی آتے رہیں گے اور تمہارے سامنے ایسی ایسی باتیں کریں گے جو تم نے ہی نہیں تمہارے باپ دادا نے بھی نہ سنی ہو گی، ان سے خبردار رہنا اور اپنے ایمان کو ان سے محفوظ رکھنا، یہ تم میں گمراہی اور فتنہ پھیلائیں گے،،،،،،، طلیحہ اسدی نے نبوت کا دعوی کیا تھا، تم نے مسلمہ بن کذاب کا نام سنا ہوگا ،پھر ایک عورت سجاح بنت حارث نے بھی نبوت کا دعوی کیا تھا،،،،، پھر ہوا کیا؟،،،،، صاف ابن صیاد نے اسلام قبول کر لیا تھا، طلیحہ مسلمان ہو گیا تھا ،اس نے نبی بن کر اتنی شہرت حاصل نہیں کی تھی جتنا مسلمان ہو کر میدان جنگ میں اسے ملی۔

اگر تو آنے والے وقت کے پردے اٹھا سکتا ہے تو بتا۔۔۔ علی بن احمد نے کہا ۔۔میرے بیٹے کا مستقبل کیا ہوگا ؟،،،یہ کس انجام کو پہنچے گا۔

انسان کو اپنی فطرت انجام کو پہنچایا کرتی ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔۔۔انجام اچھا بھی ہوسکتا ہے برا بھی، اس کا انحصار انسان کے اپنے اعمال پر ہے، اگر میں تیرے بیٹے کی آنکھوں میں عکس غلط نہیں دیکھ رہا تو یہ اتنی زیادہ طاقت کا مالک ہوگا کہ یہ جس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے گا وہ اس کے آگے سجدہ ریز ہو جائے گا ،اور یہ جس عورت پر نگاہ ڈالے گا وہ عورت اپنے آپ کو اس کی ملکیت میں دے دی گی ، لیکن یہ طاقت نبیوں والی نہیں ہوگی بلکہ یہ ابلیسی طاقت ہوگی۔

کیا یہ طاقت میرے بیٹے کے حق میں اچھی ہوں گی؟،،،،، علی بن احمد نے پوچھا ۔

کیا تیری فطرت تیرے حق میں اچھی نہیں ؟،،،،،،ابن عطاش نے کہا ۔۔۔حاکمِ وقت تک تیری رسائی ہے، تیرے جاننے والوں میں کون ایسا ہے جس کا دل تجھے پسند کرتا ہے، لیکن کون ہے جو تیرے آگے تعظیم سے جھک نہیں جاتا، کون ہے جو سانپ سے پیار کرتا ہے لیکن ہر کوئی سانپ سے ڈرتا ہے۔

کیا تو اس کا راستہ بدل سکتا ہے؟،،،، علی بن احمد نے پوچھا؟،،،، کیا تو اس کے دل میں خوف خدا پیدا کرسکتا ہے۔

دنیا کا بادشاہ خدا ہے ۔۔۔ابن عطاش نے کہا۔۔۔ سب مانتے ہیں کہ یہ دنیا خدا نے بنائی ہے اور ایک روز خدا اسے تباہ کر دے گا ،اور یہ قیامت ہوگی، لیکن خدا کے بندوں کے دلوں پر ابلیس کی حکمرانی ہے اسے کہتے ہیں ابلیسی قوت۔

میں کہتا ہوں میرا بیٹا نام پیدا کرے۔۔۔ علی بن احمد نے کہا ۔

نام پیدا کرے گا۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔۔نام بھی ایسا پیدا کرے گا کہ رہتی صدیوں تک دنیا اسے یاد کرے گی ،لیکن اس کی تاریخ خون سے لکھی جائے گی، اس پر گناہوں کی سیاہی کے حاشیے ہونگے۔

پارسائی میں کیا رکھا ہے ابن عطاش!،،،،،علی بن احمد نے ایسی مسکراہٹ سے کہا جو مسرت سے خالی تھی ۔۔۔میں بچہ تیری شاگردی میں بیٹھا رہا ہوں ،اسے ایسے راستے پر ڈال کہ تجھ جیسا عالم بن جائے۔

علی بن احمد نے اپنے بیٹے حسن کو عبدالملک بن عطاش کے حوالے کرکے چلا گیا۔

*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ عبدالملک علی بن احمد کے گھر گیا، ان دونوں کی ملاقاتیں تو ہوتی ہی رہتی تھیں، لیکن اس رات عبدالملک بن عطاش کسی خاص مقصد سے وہاں گیا تھا۔

ابن احمد !،،،،،ابن عطاش نے کہا۔۔۔ میں نے تیرے بیٹے کو دینی اور معاشرتی علوم میں رواں کرنے کا قصد کیا تھا لیکن لڑکے کو ذہن کسی اور طرف لے جا رہا ہے ،میں تیرے ساتھ یہ بات کرنے آیا ہوں کہ تیرا بیٹا اپنے فرقے کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے، اگر تو اجازت دے دے تو میں اسے اسی راستے پر ڈال دو اور ان علوم اور عملیات کا اسے ماہر بنا دوں جو اس کے لیے ضروری ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ حسن بن صباح کا باپ جیسا خود تھا ویسا ہی اپنے بیٹے کو بنانا چاہتا تھا۔ عبد الملک ابن عطاش اپنے فرقے کا صرف مذہبی پیشوا ہی نہ تھا ، بلکہ وہ اپنے عقیدے کی تبلیغ اور فرقے کی سربلندی کے لئے زمین دوز کارروائیوں میں بھی لگا رہتا تھا، اس کا اپنا ایک بیٹا احمد جوان ہو رہا تھا ،اس بیٹے کا نام محمد بن عبدالملک ہونا چاہیے تھا لیکن اس نے اپنے آپ کو احمد بن عطاش کہلانا زیادہ پسند کیا ،عبدالملک نے اسے اپنے فرقے کی تبلیغ اور دیگر کارروائیوں کے لئے بھیج دیا تھا، اس نے حسن بن صباح کو جو تربیت دینی شروع کی تو اس کے پیش نظر اپنا یہی مقصد تھا، اس نے اس کمسن لڑکے میں بڑے کام کے جوہر دیکھ لیے تھے۔

عبدالملک نے حسن کو علم نجوم اور سحر کے سبق دینے شروع کردیے تھے، اس نے دیکھا کہ یہ لڑکا بڑی تیزی اور پورے انہماک سے یہ علوم سیکھ رہا تھا ،یہ اس کی اضافی تعلیم تھی، اصل تعلیم تو دینی اور معاشرتی علوم کی تھی۔

اس شہر کے حاکم ابومسلم رازی کو پتہ چل گیا کہ علی بن احمد کا بیٹا عبد الملک ابن عطاش کی شاگردی میں بیٹھا ہے، رازی جانتا تھا کہ عبدالملک اسماعیلی ہے، علی بن احمد نے رازی کو حلفیہ طور پر یقین دلا رکھا تھا کہ وہ اہل سنت ہے ،ایک روز ابومسلم رازی نے اس سے پوچھا کہ وہ اہلسنت ہے تو اس نے اپنے بیٹے کو اسماعیلی اتالیق کی شاگردی میں کیوں بٹھایا ہے؟ 

 علی بن احمد نے جواب دیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو نیشاپور امام مؤافق کی شاگردی میں بٹھانا چاہتا تھا، لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں، ابومسلم رازی نے اسے سرکاری خزانے سے اتنی رقم دلوا دی ،اس نے اپنے بیٹے کو نیشاپور امام مؤافق کے پاس بھیج دیا ۔

حسن بن صباح فارغ التحصیل ہو کر اپنے گھر چلا گیا۔

پھر وہ بیس اکیس برس بعد اپنے ہم جماعت اور دوست خواجہ حسن طوسی کے پاس مرو گیا تھا ،اس وقت خواجہ طوسی سلجوقی سلطنت کا وزیراعظم بن کر سلجوقی سلطان سے نظام الملک کا خطاب بھی حاصل کر چکا تھا، حسن نے نظام الملک سے کہا تھا کہ اس نے اپنی عمر کا یہ اتنا لمبا اور اتنا قیمتی عرصہ روزگار کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھاتے گزارا ہے، اور اب اسے پتہ چلا ہے کہ خواجہ طوسی وزیراعظم ہے۔

حسن بن صباح نے جھوٹ بولا تھا، یہی وہ عرصہ تھا جس عرصے میں وہ ایک طاقت اور ایک انتہائی خطرناک انسان بن گیا تھا، وہ آگ میں سے گزر کر کندن بن گیا تھا، اس نے ہزارہا پیروکار ہی نہیں بنا لیے تھے بلکہ ان پر اپنی عقیدت کا پاگل پن طاری کر دیا تھا ،اور اس کے یہ جنونی پیروکار کسی ایک شہر یا قصبے میں نہیں بلکہ بڑے وسیع علاقوں میں جنگلوں میں پھیل گئے تھے ۔

اس نے یہ مقبولیت اور یہ طاقت کس طرح حاصل کی تھی؟ 

*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*

نیشا پور سے رے پہنچتے ہی وہ اپنے پہلے اتالیق کے یہاں گیا ،اتالیق عبدالملک ابن عطاش اسے ایسے تپاک سے ملا کہ اسے گلے سے لگایا اور کچھ دیر گلے سے ہی لگائے رکھا۔

مجھے پوری امید تھی کہ تم ایسے ہی خوبصورت جوان نکلو گے۔۔۔ ابن عطاش نے اسے اپنے سامنے بٹھا کر کہا۔۔۔ اور اس کے بازوؤں پر کندھوں کو ہاتھوں سے دباتے ہوئے بولا۔۔۔۔  پٹھوں میں جوانی کی طاقت آ گئی ہے، پھر اس کے سر کے دائیں اور بائیں ہاتھ رکھ کر کہنے لگا۔۔۔ میں کیسے جان سکتا ہوں کہ تیرے دماغ میں ابھی کچھ گیا ہے یا نہیں۔

محترم اتالیق !،،،،،حسن نے کہا ۔۔۔دماغ میں تو بہت کچھ بھر لایا ہوں ، یہ علم ہے ، یوں کہہ لیں کہ علم کے الفاظ ہیں جو دماغ میں ٹھوس لایا ہوں، لیکن ایک تشنگی ہے جو بے قراری بن کر دماغ کو ایک سوچ پر قائم نہیں رہنے دیتی۔ 

کیا تو علم کی تشنگی محسوس کرتا ہے؟ 

عمل کی ۔۔۔حسن نے کہا۔۔۔ میں کچھ کرنا چاہتا ہوں، پیٹ بھرنے کے لئے نہیں، میں کیا چاہتا ہوں میں اپنے آپ کو اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا ،آپ کی شاگردی میں بیٹھا تو آپ نے بتایا کہ مذہب اور فرائض کیا ہیں، پھر آپ نے مجھے ستاروں سے روشناس کرایا ،اور مجھ پر سحر کے بھید کھولے، وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا اور اس طرح دائیں بائیں دیکھنے لگا جیسے بے چینی اور اضطراب پر اس کا قابو نہ رہا ہو، کچھ دیر بعد بولا ،،،آپ بتائیں محترم اتالیق!،،،،، میں کیا چاہتا ہوں، میری منزل کیا ہے، کہاں ہے میری منزل۔

تیری منزل تیرے اپنے دماغ میں ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ دماغ کو کھوج۔

یہ کام آپ کریں ۔۔۔حسن نے کہا۔۔۔۔ ہاں دو تین بار خیال آیا جیسے میں فرعون بننا چاہتا ہوں۔

عبدالملک ابن عطاش نے زور دار قہقہہ لگایا، حسن حیرت سے اس کے منہ کو دیکھنے لگا۔ تو نے اپنی منزل کا سراغ پا لیا ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ اب تیری بے قراری کو ختم کرنا میرا کام ہے ،کچھ وقت لگے گا حسن!،،،، محنت مشقت اور ریاض کی ضرورت ہے، وہ میں کراؤں گا ، تیرے اندر ایک ایسی طاقت ہے جو ہر کسی میں نہیں ہوتی ،یہی طاقت ہے جو تجھے بے قرار اور بے چین رکھتی ہے، تو اس کا تابع ہے لیکن تو اس سے نہ آشنا ہے، اگر تو نےاسے نہ ابھارا تو ایک دن تو اپنے ہاتھوں اپنا گلا گھونٹ لے گا، یا تو اپنے ماں باپ کو قتل کردے گا، اور تیری گردن جلاد کے ہاتھوں کٹے گی۔

ہاں اتالیق!،،،،، حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔آپ کے اس انکشاف نے میرے دل میں شمع روشن کر دی ہے، میں کچھ ایسا ہی محسوس کیا کرتا ہوں کہ میں قتل کروں گا یا قتل ہو جاؤں گا ،،،،،،کیا آپ میری رہنمائی کر سکتے ہیں؟ 

صرف میں ہوں۔۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔۔۔میرے سوا اور کوئی نہیں جو تیری رہنمائی کر سکے، لیکن حسن تجھے اپنے باپ سے اجازت لینی پڑے گی۔

 مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں میرے بزرگ اتالیق !،،،،،حسن نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔۔ میں یہ جانتا ہوں کے میں وہ سیلابی دریا ہوں کہ میرے سامنے جو رکاوٹ آئی وہ تنکوں کی طرح بہہ جائے گی،،،،، یہ بھی سوچئے کہ میرا باپ کہاں کا زاہد اور پارسا ہے، اس نے عیاری اور مکاری میں شہرت پائی ہے، میری فطرت اسی کے سانچے میں ڈھلی ہے ،مجھے بھروسہ ہے تو صرف آپ کی ذات پر ہے۔

*=÷=÷=÷=۔=÷=÷=÷=÷*

مورخ لکھتے ہیں کہ عبدالملک ابن عطاش کو حسن بن صباح کے مستقبل کے ساتھ کوئی ایسی دلچسپی نہیں تھی کہ اپنی توجہ اور کاوشیں اسی پر مرکوز کر لیتا، اس کی دلچسپی اپنے فرقے کی تبلیغ اور فروغ کے ساتھ تھی، اسلام نے اولین مسلمانوں کے حسن اخلاق سے مقبولیت حاصل کی تھی ،وہ دور دُور پیچھے رہ گیا تھا، پانچویں صدی گزر رہی تھی فرقہ بندی نے اسلام کی بنیادیں ہلا ڈالی تھیں۔

اسلام اگر کھانے پینے والی کوئی چیز تھا تو اس میں زہریلی ملاوٹی گھولی لیں گئیں، اسلام اگر پیرہن تھا تو اس کا گریبان بھی اس کا دامن بھی تار تار ہوا جا رہا تھا ،اس کی صرف آستینیں محفوظ تھیں اور ان آستینوں میں سانپ پرورش پا رہے تھے۔

عبد الملک ابن عطاش انہیں سانپوں میں سے تھا ،حسن بن صباح کے باپ کی بات تو حاکم شہر ابومسلم رازی کی دوستی قائم رکھنے کی خاطر قسم کھا کر کہتا تھا کہ وہ اہل سنت و جماعت ہے ،لیکن وہ اسماعیلی تھا بلکہ وہ اسماعیلی فرقے کے لیے بھی سراپا توہین تھا، اس کا اگر کوئی مذہب تھا تو وہ فریب کاری تھی، اس کا عقیدہ اگر تھا تو وہاں عیاری تھی۔

تاریخ ایک دلچسپ بات بتاتی ہے حسن بن صباح علی بن احمد کا بیٹا تھا اس لئے اس کا نام حسن بن علی ہونا چاہیے تھا ،لیکن حسن نے حسن بن صباح کہلانا زیادہ پسند کیا ،اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس کے پردادا کا نام صباح تھا، اس کے کردار کے متعلق جو روایت سینہ بسینہ حسن تک پہنچی تھی وہ عیاری اور فریب کاری کی ورادتیں تھیں، اس وقت کے معاشرے میں اس کا کوئی مقام اور کوئی رتبہ نہیں تھا، لیکن بادشاہ اور بڑے بڑے حاکموں تک اس کی رسائی تھی، اور لوگ اس کی فطرت سے آگاہ ہوتے ہوئے اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

حسن بن صباح کو اپنے پر دادا کی یہ فطرت اور اس کی یہ شہرت اتنی اچھی لگی کہ اس نے اپنا نام حسن بن علی کے بجائے حسن بن صباح رکھ لیا، تاریخوں میں اس کا نام حسن بن صباح دمیری لکھا گیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسن بن صباح کس فطرت کا انسان تھا۔

اس نے ایک بار پھر عبدالملک ابن عطاش کی شاگردگی کر لی، لیکن اب یہ شاگردی درپردہ تھی کیونکہ ابن عطاش اسے بڑے ہی پراسرار راستے پر ڈال رہا تھا، ابن عطاش اسے کہا کرتا تھا کہ اس کا کام شہروں اور قصبوں میں نہیں ہو گا بلکہ اس کی زیادہ تر زندگی جنگل و بیابانوں اور غاروں میں گزرے گی۔

اگر حسن بن صباح کے ماں باپ دیکھ لیتے کے عبدالملک ابن عطاش ان کے نوجوان بیٹے کو کس قسم کی تربیت دے رہا ہے تو وہ اسے اس استاد کی شاگردی سے فوراً اٹھا لیتے، ابن عطاش اسے کئی کئی گھنٹے مسلسل ایک ٹانگ پر کھڑا رکھتا تھا ،وہ گرنے لگتا تو اسے ایک دو کوڑے لگا دیتا تھا۔

دو دو تین تین دنوں سے بھوکا رکھتا اور اس کے بعد اسے کھانے کو جو کہ کچھ دانے دیتا تھا ،اپنے آپ کو پوری طرح قابو میں رکھنے کے لئے ابن عطاش نے اسے اس امتحان میں بھی ڈالا کے ایک کمرے میں ایک انتہائی خوبصورت اور نوخیز لڑکی کو برہنہ کرکے اس کے سامنے بٹھا دیا ،اس کے سامنے دیوار پر ایک چھوٹا سا سیاہ دائرہ بنا کر کہا کہ وہ اپنی نظریں اس دائرے پر مرکوز رکھے اور ایک لمحے کے لیے بھی لڑکی کی طرف نہ دیکھے۔

 علم سحر کے عامل لکھتے ہیں کہ تربیت کے اس مرحلے سے کامیاب نکلنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے، خصوصا نوجوانی کی عمر میں یہ مرحلہ اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے، حسن بن صباح جیسے کردار کا نوجوان اس مرحلے کو برداشت ہی نہیں کرسکتا ،استاد اس مشق کو اس طرح اور زیادہ مشکل بنا دیا کرتا تھا کہ حسن دیوار کے دائرے پر نظریں مرکوز رکھتا تو لڑکی کبھی اس کا ایک ہاتھ پکڑ لیتی، کبھی اس کے قریب ہو جاتی اور کبھی اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگتی، کمرہ بند ہوتا تھا اور کمرے میں ایک حَسن ہوتا اور یہ حسین لڑکی۔

اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کی یہ مشق حسن سے بار بار کروائی گئی اور حسن سوئی کے اس ناکے میں سے بھی گزر گیا۔ حسن کو معلوم نہیں تھا کہ اس کمرے کے دروازے کے ایک کیواڑ میں چھوٹا سا ایک سوراخ تھا جس میں سے اس کا استاد اسے دیکھتا رہتا تھا۔

تو ساری دنیا کو فتح کرنے کی طاقت اور صلاحیت رکھتا ہے۔۔۔ ایک روز عبدالملک بن عطاش نے اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا۔۔۔ عورت میں اتنی طاقت ہے کہ وہ جابر بادشاہ کو تخت سے اٹھا کر اپنے قدموں میں بٹھا سکتی ہے ،معلوم نہیں امام مؤافق نے تجھے ایسی کوئی کہانی سنائی ہے یا نہیں، جولیس سیزر روم کا بڑا ہی زبردست طاقتور اور جنگجو بادشاہ تھا، اس زمانے میں روم ایک جنگی طاقت تھی جس کے خوف سے دنیا لرزتی تھی، جولیس سیزر نے مصر پر فوج کشی کی، اس وقت قلوپطرہ مصر کی ملکہ تھی، اسے اطلاع ملی کہ روم کی فوج شہر کے باہر پہنچ گئی ہے، قلوپطرہ نے جولیس سیزر کی طرف اپنا ایلچی اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ اس سے ملنا چاہتی ہے۔

جولیس سیزر نے سن رکھا تھا کہ قلوپطرہ کے ہاتھ میں کوئی ایسا جادو ہے جو ہر حملہ آور بادشاہ کو اس کا غلام بنا دیتا ہے، جولیس سیزر کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ قلوپطرہ کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے یا نہیں وہ اپنی پر شباب نسوانیت کا ایسا جادو چلاتی ہے کہ حملہ آور بادشاہ کتنا ہی پتھر دل کیوں نہ ہو اس کے آگے موم ہوجاتا ہے، ان حکایات و روایات کے پیش نظر جولیس سیزر نے قلوپطرہ سے ملنے سے انکار کر دیا، اس نے تہیہ کرلیا تھا کہ ملکہ مصر کو اس وقت دیکھے گا جب رومی فوج شہر میں داخل ہوکر مصری فوج سے ہتھیار ڈلوا چکی ہوگی۔

جولیس سیزر نے شہر کو محاصرے میں لینے کا حکم دے دیا، وہ بادشاہ تھا اس کا خیمہ ایک سفری محل تھا، محاصرہ مکمل ہونے کے ایک دو روز بعد ایک ادھیڑ عمر آدمی جو مصری تھا اپنے کندھے پر ایک قالین اٹھائے جولیس سیزر کے خیمے کے سامنے آ رکا ، قالین گولائی میں رول کیا ہوا تھا جو اس مصری نے کندھے پر اٹھا رکھا تھا، اس نے جولیس سیزر کے محافظوں سے کہا وہ قالین باف ہے اور یہ قالین جو بہت ہی قیمتی اور بہت ہی خوبصورت ہے بادشاہ کو دکھانا چاہتا ہے ہوسکتا ہے بادشاہ کو قالین پسند آجائے اور وہ اسے خرید لے، اس سے غریب آدمی کا بھلا ہو جائے گا۔

رومی محافظ اسے دھکے دے کر پیچھے ہٹانے لگے کہ بادشاہ کے آرام میں مخل نہ ہو۔ مصری قالین باف نے بڑی اونچی آواز میں بولنا شروع کر دیا ،وہ کہہ رہا تھا کہ میں یہ قالین تمہارے بادشاہ کو دے کر ہی جاؤں گا، یہ شور شرابہ خیمے میں جولیس سیزر کے کانوں میں پڑا تو اس نے وہیں سے حکم دیا کہ جو کوئی بھی ہے اسے اندر بھیج دو۔ محافظوں نے اسے خیمے میں بھیج دیا۔

خیمے میں جا کر مصری نے جولیس سیزر سے کہا کہ وہ ایک بار قالین دیکھ لے، یہ قالین روم کے بادشاہ کے لیے ہی موزوں ہے ،جولیس سیزر نے کہا کہ قالین کھول کر دکھاؤ، اس آدمی نے کندھے سے قالین زمین پر رکھا یہ چوڑائی میں رول کیا ہوا تھا جب اسے کھولا تو اس میں سے قلوپطرہ نکلی ،جولیس سیزر کا چہرہ عتاب شاہی سے سرخ ہوگیا، لیکن قلوپطرہ نے جب اپنی پرکشش نسوانیت کا جادو چلایا تو کچھ ہی دیر بعد روم کا اتنا زبردست اور طاقتور بادشاہ جیسے بھول ہی گیا ہو کہ وہ بحیرہ روم کی لہروں کو چیرتا مصر میں کیوں آیا تھا؟،،،،،،، 

پھر جانتے ہو حسن کیا ہوا ؟،،،،جولیس سیزر جو حملہ آور تھا ایک شاہی مہمان کی حیثیت سے قلوپطرہ کے ساتھ شہر میں داخل ہوا ،بہت دنوں بعد جولیس سیزر اپنی فوج کو ساتھ لے کر واپس چلا گیا، اس کے جرنیلوں نے روم میں اپنے ساتھی جرنیلوں کو بتایا کہ مصر میں ان کے بادشاہ نے کیا کیا تھا ،ایک روز جولیس سیزر محل میں بیٹھا تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ فلاں جگہ فوراً پہنچے، وہ اٹھ کر چل دیا ،محل کے قریب ہی ایک اور عمارت تھی جس میں اسے جانا تھا ،وہ جونہی اس عمارت میں داخل ہوا دس بارہ آدمیوں نے اسے گھیر لیا اور خنجروں سے اسے بڑی ہی بے دردی سے قتل کردیا ۔

ہاں محترم اتالیق!،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں ،اس سبق کو نہیں بھولوں گا۔

لیکن حسن !،،،،،ابن عطاش نے کہا ۔۔۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ تجھے عورت سے دور رہنا پڑے گا ،عورت انتہائی حسین اور نوجوان لڑکیوں کی صورت میں تیرے ساتھ رہے گی، یہ تیرا ایک ہتھیار ہوگا، لیکن ابھی نہیں ابھی تو میں نے تجھے کہیں اور بھیجنا ہے، اگر تو اس مرحلے سے بھی زندہ و سلامت نکل آیا تو پھر تجھ میں ایسی طاقت آجائے گی کہ آسمان کی طرف دیکھ کر تو جس ستارے کی طرف اشارہ کرے گا وہ تیری جھولی میں آ گرے گا۔

*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

ابن عطاش نے حسن بن صباح کو تربیت کے اگلے مرحلے میں ڈال دیا ،جس میں اسے قبروں میں مدفون انسانوں کے مختلف ہڈیوں کا استعمال سکھایا جاتا تھا ،ابن عطاش نے اسے پہلی بار آدھی رات کے وقت کہا کہ وہ قبرستان میں جائے اور کوئی ایسی قبر تلاش کرے جو بہت ہی پرانی ہو۔

 پرانی قبر کی نشانی کیا ہو گی؟،،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔

 کوئی ایسی قبر دیکھ جو نیچے کو دھنس گئی ہو ۔۔۔ابن عطاش نے کہا۔۔۔ تجھے کچھ قبر ایسی بھی نظر آ جائیں گی جو پوری طرح نیچے کو دھنسی ہوئی ہوں گی، اور ان میں مُردوں کی ہڈیاں نظر آتی ہونگی، ایسی کسی قبر میں سے ایک کھوپڑی اور کندھے سے کہنی تک دائیں اور بائیں بازو کی دو ہڈیاں بھی لانی ہے۔

حسن بن صباح قبرستان میں چلا گیا ،وہ جنگ و جدل کا زمانہ تھا لڑائیاں ہوتی ہی رہتی تھیں، اس لیے قبرستان بہت ہی وسیع وعریض تھے۔ آدھی رات کے وقت چاند پورا تھا حسن بن صباح قبرستان میں دھنسی ہوئی قبر تلاش کرنے لگا ،استاد نے اسے تلوار ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی تھی۔

قبرستان کو شہر خاموشہ کہا جاتا ہے، لیکن وہاں یہ عالم تھا کہ زندہ انسانوں کا شہر خاموش تھا، اور مرے ہوئے انسانوں کی اس بستی میں کئی ایک آوازیں سنائی دے رہی تھیں، علاقہ سرسبز تھا پیڑ پودے بہت زیادہ تھے ،دو تین الو باری باری بولتے تھے ،جھینگروں اور مینڈکوں کی آوازیں بھی مسلسل آ رہی تھیں، اسے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی اس نے ڈر کے ادھر دیکھا ایک بلی بہت تیز بھاگتی آرہی تھی، دو بھیڑیے اس کے تعاقب میں تھے، وہ اس کے قریب سے گزر گئے اور آگے جا کر غائب ہو گئے۔

وہ اپنا دل مضبوط کر کے چل پڑا ،وہ ہر قبر کو دیکھ رہا تھا اسے دھنسی ہوئی کوئی قبر نظر نہیں آرہی تھی، کچھ دور جا کر اسے ایک گڑھا نظر آیا جو قبر کی طرح لمبوترا تھا، یہ قبر ہی ہو سکتی تھی، اس کے ہر طرف قبریں تھیں یہ قبر اس کے مطلب کی تھی، قبر کے کنارے پہنچ کر اس نے نیچے دیکھا تو پہلے اس نے ایسی آوازیں سنیں جیسے کتے غرّایا کرتے ہیں، پھر یکلخت قبر میں سے دو کتے اچھل کر اوپر آئے، تب اس نے دیکھا کہ یہ بھیڑیے ہیں۔

اس نے فوراً تلوار نکالی اور زور زور سے گھمانے لگا، بھیڑیے سمتیں بدل بدل کر اس پر جھپٹنے کی کوشش کرتے تھے، لیکن اس کی گھومتی ہوئی تلوار بھیڑیوں کو قریب نہیں آنے دے رہی تھی، ایک بار وہ اس دھنسی ہوئی قبر کے کنارے پر اس طرح چلا گیا کہ اس کی پیٹھ قبر کی طرف تھی، بھیڑیوں سے بچنے کے لئے وہ ذرا سا پیچھے ہٹا تو قبر میں جا پڑا اس کی ایک ٹانگ گھٹنے تک مٹی میں دھنس گئی، اسے مری ہوئی ایک بلی نظر آئی جو قبر میں پڑھی تھی، وہ سمجھ گیا کہ یہ وہی بلی ہے جس کے پیچھے بھیڑیے دوڑ رہے تھے ،بلی شاید اس قبر میں گر پڑی یا چھپنے کے لئے اس میں اتر گئی تھی، بھیڑیوں نے اسے وہیں دبوچ لیا، بھیڑیے اس وقت بلی کو کھا رہے تھے جب حسن وہاں پہنچا۔

بھیڑیے یہ سمجھے کہ یہ شخص ان سے ان کا شکار چھیننے آیا ہے، حسن نے فوراً چیری پھاڑی ہوئی بلی کو ٹانگ سے پکڑا اور اٹھا کر باہر پھینک دیا، اگر وہ ایک لمحہ اور بھیڑیوں کا شکار باہر نہ پھینکتا تو وہ اوپر سے اس پر حملہ کر کے اسے چیر پھاڑ دیتے، بھیڑیے اپنا شکار اٹھا کر چلے گئے، لیکن حسن بن صباح پر ایسا خوف طاری ہوگیا کہ وہ اپنے جسم میں لرزاں محسوس کر رہا تھا، اس نے تو یہ بھی سوچ لیا تھا کہ وہاں سے بھاگ آئے لیکن استاد کے ڈر سے اس نے بھاگنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔

اس نے کچھ اس قسم کی کہانیاں سن رکھی تھیں کہ بعض لوگ الله کو اتنا عزیز ہوتے ہیں کہ وہ مر جائیں اور کوئی ان کی قبروں کی توہین کرے تو الله اس پر اسی وقت عذاب نازل کرتا ہے، اس خیال نے اس کے خوف میں اضافہ کردیا، لیکن ابن عطاش نے اسے کہا تھا کہ مطلوبہ ہڈیاں ہر حالت میں لانی ہے اور خوف پر قابو پانا ہے ،حسن نے اپنی دھنسی ہوئی ٹانگ باہر کھینچی، یہ لحد تھی جس میں ہڈیاں ہونی چاہیے تھیں۔

اس نے دیکھا کہ وہاں سے ایک سل نیچے کو گری ہوئی تھی، اس نے ہاتھوں سے مٹی باہر پھینکی پھر سل اٹھا کر الگ رکھ دی، چاندنی میں مردے کی ہڈیاں صاف نظر آرہی تھیں یہ مردے کا اوپر والا حصہ تھا ،اس نے کھوپڑی اٹھائی اور دونوں بازوؤں کی ہڈیاں بھی اٹھا لی، عین وقت اس نے دیکھا کہ چاندنی بجھ گئی ہے اور ایک سایہ اس کے اوپر سے گزر رہا ہے، اس نے گھبرا کر اوپر دیکھا کالی گھٹا آگے کو بڑھ رہی تھی اور رات تاریک ہوتی چلی جا رہی تھی، حسن کھوپڑی اور ہڈیاں اٹھا کر تیزی سے قبر سے نکلا اچانک بجلی بڑی زور سے چمکی، دو تین لمحوں بعد بجلی کی کڑک سنائی دی، جو اتنی خوفناک تھی کہ حسن بن صباح جیسا دلیر نوجوان بھی سُن ہو کے رہ گیا اور اسے اپنے دل کی دھڑکن صاف سنائی دینے لگی۔

اس علاقے میں بارش کا اچانک آ جانا کوئی عجیب چیز نہیں تھی لیکن حسن کے دل پر یہ خوف سوار ہوا کہ یہ کسی برگزیدہ بزرگ کی قبر ہے جس کی توہین پر آسمان اپنی بجلیاں گرانے پر اُتر آیا ہے۔

حسن کو پھر وہی خیال آیا کہ یہ کھوپڑی اور دونوں ہڈیاں لحد میں واپس رکھ دے، لیکن اسے اپنے استاد کی یہ بات بھی یاد آ گئی کہ اگر تو ڈر گیا یا ویسے ہی ناکام لوٹا تو پھر یہ علم سیکھنے کے لیے نہ جانے کتنے سال درکار ہوں گے، اس نے بڑی مشکل سے اپنا حوصلہ مضبوط کیا اور وہاں سے چل پڑا۔

اچانک موسلا دھار بارش شروع ہو گئی، بارش کے قطرے کنکریوں کی طرح جسم کو لگتے تھے، وہ دوڑ پڑا ایک جگہ اس نے سامنے دیکھا تو اسے تین چار قدم دور ایک آدمی کھڑا نظر آیا ،جس کے خدوخال صاف نظر نہیں آتے تھے، وہ دھندلا سا سایہ تھا جو سیدھا کھڑا تھا اس کا قد اتنا لمبا تھا کہ عام انسان سے زیادہ تھا، اس نے دونوں بازو کندھوں کے سیدھ میں دائیں بائیں پھیلا رکھے تھے جیسے حسن کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہو، اس کا سر گول نہیں بلکہ لمبوترا تھا وہ بالکل خاموش تھا۔

حسن رک گیا، دل پر خوف کی گرفت ایسی جیسے ایک مضبوط ہاتھ اس کے دل سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑنے کے لئے شکنجے کی طرح دباتا جا رہا ہو، اس نے فیصلہ کر لیا کہ کھوپڑی اس خوفناک آدمی کے قدموں میں رکھ دے گا ،بجلی بار بار چمکتی اور کڑکتی تھی، اس چمک سے حسن کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی تھیں، بارش بڑی ہی تیز تھی، یوں پتہ چلتا تھا جیسے یہ غیرمعمولی طور پر لمبا تڑنگا انسان اوپر نیچے اور دائیں بائیں حرکت کررہا ہو، پھر ایک بار اسے یوں لگا جیسے یہ آدمی آگے بڑھ رہا ہو۔

اچانک حسن کی مردانگی بیدار ہو گئی یہ شاید موت سے بچنے کی آخری کوشش تھی، اس نے تلوار نکالی اور بڑی ہی تیزی سے آگے بڑھ کر تلوار اس آدمی کے پیٹ میں گھوپی، اسے امید تھی کہ جس طاقت سے اس نے یہ وار کیا ہے تلوار اس پراسرار آدمی کے پیٹ میں سے گزر کر پیٹھ کی طرف سے نکل جائے گی، لیکن تلوار کی نوک بھی پیٹ میں نہ گئی ،حسن نے بجلی کی سی تیزی سے تلوار پیچھے کھینچی اور اس طرح تلوار پہلو کی طرف چلائی جس طرح تلوار کا وار کیا جاتا ہے لیکن اس کے اپنے ہاتھ کو بڑی زور سے جھٹکا لگا اور تلوار پیچھے کو آ گئی ،اس آدمی کے بازو پھیلے رہے حسن اس سے ایک دو قدم ہی دور تھا ،اب جو بجلی چمکی تو حسن نے آگے بڑھ کر اس کو ہاتھ لگایا تب اسے پتہ چلا کہ یہ ایک ٹنڈ منڈ درخت ہے جو خشک ہو چکا ہے اور اس کے ٹوٹے ہوئے دو ٹہن دائیں اور بائیں پھیلے ہوئے ہیں۔

 حسن کھوپڑی اور بازوؤں کی ہڈیوں کو مضبوطی سے پکڑے دوڑ پڑا ،قبرستان سے نکلتے نکلتے وہ دو تین بار پھیسل کر گرا ،اور جب قبرستان سے نکل آیا تو ذرا آرام سے چلنے لگا ،عبدالملک ابن عطاش نے اسے کہا تھا کہ وہ گھر میں اس کا منتظر ہو گا خواہ ساری رات گزر جائے۔

 حسن اس کے گھر پہنچا تو وہ جاگ رہا تھا حسن کے کپڑوں سے پانی بہ رہا تھا، گھٹنوں تک کیچڑ تھا کچھ تو وہ بارش کی وجہ سے کانپ رہا تھا اور کچھ خوف سے، اس نے کھوپڑی اور ہڈیاں ابن عطاش کے آگے رکھ دی، اس نے اسے شاباش دی پھر اس کے کپڑے تبدیل کرائے اور پوچھا کہ وہ ڈرا تو نہیں۔

 میں بتا نہیں سکتا کہ میں کتنا زیادہ ڈر گیا تھا۔۔۔ حسن بن صباح نے جواب دیا چند لمحے سوچ کر کہنے لگا ۔۔۔محترم اتالیق!،،، کیا یہ بھی میری تربیت کے لئے ضروری ہے۔

 اتنا ہی ضروری جتنا جسم کیلئے پانی اور ہوا کی ضرورت ہے۔۔۔ اب عطاش نے کہا ۔۔۔اب بتا یہ ہڈیاں قبر سے تو کیسے نکال لایا ؟

حسن نے تفصیل سے سنایا کہ اس پر کیا گزری ہے۔

 محترم اتالیق!،،،، حسن نے کہا ۔۔۔میں نے آج رات سچ مان لیا ہے کہ کسی برگزیدہ شخصیت کی قبر اور اس کی ہڈیوں کے ساتھ یہ سلوک کرو جو میں نے کیا ہے تو اسی وقت عذاب نازل ہوتا ہے، اس نے ڈری ہوئی آواز میں پوچھا کیا مجھ پر مزید عتاب نازل ہوگا۔

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

نہیں !،،،،،ابن عطاش نے جواب دیا ۔۔۔جو ہونا تھا ہو چکا ہے، راز کی ایک بات ہے اسے دل اور دماغ میں محفوظ کر لے، تو مردے کی قبر میں اترا، تجھ پر بھیڑیے ٹوٹ پڑے، ہڈیوں کو ہاتھ لگایا تو بجلیاں چمکنے لگیں، کیا اس سے تو یہ نہیں سمجھا کہ مرے ہوئے انسان میں بھی طاقت ہوتی ہے؟،،، کیا تو نے کبھی روح یا بد روح نہیں سنی؟،،، میں نے تجھے کس علم میں ڈال دیا ہے، یہ علم تجھے روحوں اور بدروحوں سے ملاقات کرآئے گا، اور یہ علم تجھے یہ بھی سکھائے گا کہ مرے ہوئے انسانوں میں جو طاقت ہوتی ہے وہ تیرے قابو میں آ جائے اور اسے تو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے، لیکن ابھی نہیں یہ طاقت تجھے کہیں سے حاصل ہوگی اور تو اپنی ہڈیاں تڑوا کر تو یہ طاقت حاصل کرے گا، جہنم کی آگ میں سے گزر کر تو جنت میں داخل ہو گا ،عبد الملک ابن عطاش نے اسے کھوپڑی اور ہڈیوں کے متعلق ایک سبق دیا اور اسے گھر بھیج دیا.


جاری ہے

حج بہترین عبادت

حج - ایک روحانی سفر حج - ایک روحانی سفر حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔ ہر مسل...