Fakhar Tv For Latest Tech & Quotes Historic Article Tips And Tricks Turkish Series Subtitles And Daily News Jobs
سرکار دوعالم کی دعا اور یقینی قبولیت کے واقعات
ماہ جمادی الاولی کے اہم واقعات اور فضائل
ماہ جمادی الاولی کے اہم واقعات اور فضائل
ماہ جمادی الاولی کے اہم واقعات اور فضائل
ماہِ جمادی الاولیٰ کے فضائل و معمولات اور تاریخی واقعات
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ماہِ ’’جمادی الاولیٰ‘‘ کی وجہ تسمیہ : ’’جمادی الاولیٰ ‘‘اسلامی سال کا پانچواں قمری مہینہ ہے ۔ یہ مہینہ عربی زبان کے دو لفظوں ’’جمادی‘‘ اور ’’الاولیٰ‘‘ کامجموعہ ہے ۔ جمادی ’’جمد‘‘ سے نکلا ہے ، جس کے معنیٰ ’’منجمد ہو جانے ، جم جانے‘‘ کے ہیں اور ’’الاولیٰ‘‘ کے معنیٰ ہیں : پہلی ، تو جمادی الاولیٰ کے معنی ہوئے پہلی جم جانے والی چیز ۔ جس زمانے میں اس مہینے کا نام رکھا گیا تھا ، عرب میں اُس وقت سردی کا موسم تھا ، جس کی وجہ سے پانی جم جاتا تھا ، اس وجہ سے اس مہینے کا نام ’’جمادی الاولیٰ‘‘ ( سردی کا پہلا مہینہ) رکھا گیا ۔ عربی زبان میں ’’جمادى‘‘ کا لفظ مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ، چنانچہ ’’ جمادى الأول‘‘ اور ’’جمادى الأولىٰ‘‘ اسی طرح ’’ جمادى الآخر‘‘ اور’’ جمادى الآخریٰ‘‘ دونوں طرح کہنا درست ہے ۔ اللہ رب العزت نے سال کے بارہ مہینوں میں مختلف دنوں اور راتوں کی خاص اہمیت و فضیلت بیان کر کے ان کی خاص خاص برکات و خصوصیات بیان فرمائی ہیں قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ ۔ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ۔ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةًؕ ۔ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ۔
ترجمہ : بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے ۔ (سورۃ التوبہ آیت نمبر 36)
ماہِ جمادی الاولیٰ اسلامی سال کا پانچواں قمری مہینہ ہے ۔ یہ نہایت بزرگ اور فضیلت والامہینہ ہے ۔ یہ مہینہ عربی زبان کے دو لفظوں ’’جمادی‘‘ اور ’’الاولیٰ‘‘ سے مرکب اور ان دو الفاظ کا مجموعہ ہے ۔ جمادی کے معنیٰ جم جانا ، خشک ہونا عربی میں عین جمادی اس آنکھ کو کہا جاتا ہے جس سے آنسوں نکلنا بلکل بند ہو چکے ہوں اور اولیٰ پہلی کو کہتے ہیں ۔ یہ مہینہ ان دنوں میں واقع ہوا ۔ جن دنوں موسم سرماکی شدت کی وجہ سے پانی جمنے کا آغاز ہوتا ہے ۔
حضور ضیاءالامت کون ہیں
علامہ ابن کثیر نے اہلِ لغت اور مٶرخین کے حوالے سے اس مہینے کا ’’جمادی الاولیٰ‘‘ نام رکھنے کی ایک وجہ یہ بیان کی ہے جس کو شیخ علم الدین سخاوی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’المشہورفی اسماء الایام والشہور‘‘ میں بھی لکھا ہے ۔ جمادی الاولیٰ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں سخت سردی کی وجہ سے پانی جم جاتاہے ۔ ایک قول ہے کہ ان کے حساب میں مہینے گردش نہیں کرتے تھے ۔ (یعنی ٹھیک ہر موسم پر ہی ہر مہینہ آتا تھا ۔جیسے ہمارے ہاں انگریزی مہینے ہیں) لیکن یہ بات کچھ حجت نہیں اس لئے کہ جب ان مہینوں کاحساب چاند پر ہے تو ظاہر ہے کہ موسمی حالت ہر ماہ اور ہر سال یکساں نہیں رہے گی ۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اہل عرب نے جس سال اس مہینہ کا نام رکھا ہو اس سال یہ مہینہ کڑکڑاتے ہوئے جاڑے میں آیا ہو اور پانی میں جمود ہو گیا ہو ۔ چنانچہ ایک شاعرنے یہی کہا ہے کہ جمادی کی سخت اندھیری راتیں جن میں کتابھی بمشکل ایک آدھ مرتبہ بھونک لیتا ہو ۔ اس کی جمع جمادیات جیسے حباریٰ یا حباریات ۔ یہ مذکر ، مونث دونوں طرح مستعمل ہے ۔ (تفسیرابن کثیر جلددوم،چشتی)
جمادی الاولیٰ میں ہونیوالے تاریخی واقعات : ⬇
جمادی الاولیٰ 2 ہجری میں غزوہ ذی العشیرہ ہوا ۔ (ابن ہشام،طبقات ابن سعد،فتح الباری)
جمادی الاولیٰ 3 ہجری میں غزوہ بنی سلیم ، بحران ہوا ۔ (المغازی،طبقات ابن سعد)
جمادی الاولیٰ 4 ہجری میں نواسہ رسول سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ۔ (البدایہ،الکامل)
جمادی الاولیٰ 6 ہجری سریہ سیدنازیدبن حارثہ از طرف عیص ۔ (المغازی ، طبقات ابن سعد)
حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام ، جلیل القدر صحابی اور مجاہد تھے ۔ پہلے حبشہ اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔جنگ موتہ میں جمادی الاولیٰ 8 ھجری میں شہادت ہوئی ۔ (سیرت سید الانبیاء صفحہ 433،چشتی)(طبقات ابن سعد)(سیرت ابن ہشام)
جمادی الاولیٰ 9 ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی ۔
جمادی الاولیٰ 14ہجری میں مشہور اسلامی شہر حمص ، بعلبک ، انطاکیہ فتح ہوئے ۔
جمادی الاولیٰ 17ہجری میں ایران کا صوبہ اہواز فتح ہوا ۔
جمادی الاولیٰ 19ہجری میں عراق کا مشہور شہر تکریت فتح یابی کے بعد اسلامی مملکت کا حصہ بنا ۔
جمادی الاولیٰ 20 ہجری میں سیدنا سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ۔ (الاصابہ)
جمادی الاولیٰ 35 ہجری میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ۔
جمادی الاولیٰ 36 ہجری میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کاانتقال ہوا ۔
جمادی الاولیٰ41 ہجری میں حضرت صفوان بن امیہ کا انتقال ہوا ۔
جمادی الاولیٰ 44 ہجری میں ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا ۔
جمادی الاولیٰ 72 ہجری میں حضرت عدی بن حاتم علیہ الرحمہ کاانتقال ہوا ۔
جمادی الاولیٰ 72 ہجری میں سیدنا مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ۔ (طبقات ابن سعد،چشتی)(تاریخ الاسلام)
17جمادی الاولیٰ 73 ہجری میں سیدنا حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا ۔ دوسراقول جمادی الاخریٰ ہے ۔ (طبقات ابن سعد،تاریخ خلیفہ) ۔ ایک قول کے مطابق اس کے دس روز بعد یعنی 27 جمادی الاولیٰ کو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بھی اس دارِفانی سے انتقال کر گئیں ۔ (الااستعیاب)
جمادی الاولیٰ 193 ہجری میں محدث ابوبکر بن عیاش رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ہوئی ۔ (طبقات ابن سعد،تاریخ مدینۃ الاسلام)
جمادی الاولیٰ 193 ہجری میں خلیفہ ہارون الرشیدکی وفات ہوئی ۔
10جمادی الاولیٰ 458 ہجری کو استادالمحدثین حضرت ابو بکر بن حسین بیہقی رحمۃ اللہ علیہ جو مشہور محدث اور شافعی فقیہ ہیں ۔ السنن الکبریٰ ، شعب الایمان اور دلائل النبوۃ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور کتب ہیں نے وفات پائی ۔ (بستان المحدثین صفحہ 134 ۔ 135)
12جمادی الاولیٰ537 ہجری کو شرح عقائد نسفیہ کے مصنف مفسر ، حنفی فقیہ حضرت ابوحفص نجم الدین عمر بن محمدنسفی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ازبکستان کے شہر سمر قند میں آج بھی مرجع خلائق ہے ۔ (شرح عقائدنسفیہ صفحہ11 تا 15،چشتی)
19جمادی الاولیٰ 911 ہجری کو تفسیر درِمنثور کے مصنف عالم اکبر ، محدث کبیر ، عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صوفی باصفا امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مصر کے شہر قاہرہ میں وصال ہوا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 600 سو سے زائد کتب تصنیف فرمائیں ۔ جن میں تفسیر درمنثور ، جامعالصغیر ، البدورالسافرہ اور شرح الصدور وغیرہ مشہور ہیں ۔ آج بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مرجع خلائق ہے ۔ (النورالسافر)
جمادی الاولیٰ 973 ہجری کو تنیہ المغترین ، انوارالقدسیہ اور طبقات شعرانی جیسی مشہور کتب کے مصنف امام ابوالمواہب عبدالوہاب شعرانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کاوصال ہوا ۔ جن کا مزارمبارک باب شعری ، قاہرہ ، مصر میں مرجع خلائق ہے ۔ (معجم الأولفین جلددوم،چشتی)
2 جمادی الاولیٰ 975 ہجری کو محدث کبیر حضرت مولانا علاء الدین علی متقی ، حنفی ، ہندی رحمۃ اللہ علیہ کامکہ مکرمہ میں وصال ہوا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب میں احادیث کے مجموعے کنزالعمال کو عالمگیر شہرت حاصل ہے ۔ (الاعلام،للزرکلی،حدائق الحنفیہ)
2 جمادی الاولیٰ 1286 ہجری کو جداعلیٰ حضرت شیخ طریقت ، علامہ مفتی رضا علی خان نقشبندی کا وصال ہوا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار قبرستان بہاری پور نزد پولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف میں مرجع خلائق ہے ۔ (معارف رئیس اتقیاء)
جمادی الاولیٰ 1338 ہجری میں محافظ ناموس رسالت ، عظیم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت ہوئی ۔ (بیسوی صدی کے اہم واقعات)
17جمادی الاولیٰ 1362ہجری کو شہزادہ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام مفتی حامد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ نے وصال فرمایا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار شریف خانقاہ بریلی شریف ہند میں ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہور ہے ۔ (فتاوٰی حامدیہ)
13جمادی الاولیٰ 1358ہجری کو سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے شیخ طریقت خواجہ خواجگان حضرت خواجہ غلام حسن سواگ رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوا ۔ جن کا مزار مبارک سواگ شریف ، کروڑ لعل عیسن ضلع لیہ میں مرجع خلائق ہے ۔ (فیوضات حسینہ)
8 جمادی الاولیٰ 1369ہجری کو استاذالعلماء حضرت مولانا حافظ عبدالعزیز خان محدث بجنوری رضوی رحمۃ اللہ علیہ کاوصال ہوا ۔ (تذکرہ خلفاء اعلیٰ حضرت)
14جمادی الاولیٰ 1371 ہجری میں حضرت مولانا مفتی حافظ محمد عبدالسلام رضوی جبل پوری رحمۃا للہ علیہ کا وصال ہوا ۔ (برہان ملت)
حضرت سیدنا شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مجھے یہ حدیث پاک پہنچی تھی ۔ مَنْ قَالَ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ سَبْعِیْنَ اَلْفًاغُفِرَلَہ ، وَمَنْ قِیْلَ لَہ ، غُفِرَلَہ ۔ یعنی جو شخص ستر ہزار بار لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ پڑھے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے ۔ اور جس کےلیے پڑھا جائے اس کی بھی مغفرت ہو جاتی ہے ۔ میں نے اتنی مقدار میں کلمہ طیبہ پڑھا ہوا تھا ۔ لیکن اس میں کسی کےلیے خاص نیت نہ کی تھی ۔ ایک مرتبہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ ایک دعوت میں شریک ہوا ۔ اس دعوت کے شرکاء میں سے ایک نوجوان کے کشف کا بڑا شُہرہ تھا ۔ کھانا کھاتے کھاتے وہ نوجوان رونے لگا ۔ میں نے سبب پوچھا تو اس نے کہا میں اپنی والدہ کو عذاب میں مبتلا دیکھتا ہوں ۔میں نے دل ہی دل میں کلمے کاثواب اس کی ماں کو بخش دیا ۔ وہ نوجوان فوراً ہی مسکرانے لگا اور کہنے لگا ۔ اب میں اپنی ماں کو بہترین جگہ دیکھتا ہوں ۔ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے ۔ میں نے حدیث کی صحت کو اس نوجوان کے کشف کے ذریعے اور اس نوجوان کے کشف کی صحت کو حدیث کے ذریعے پہچانا ۔ (مراۃ المفاتیح جلد ۳) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
![]() |
ماہ جمادی الاولی کے اہم واقعات اور فضائل ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ |
موٹی موٹی کتابیں چند گھنٹوں میں پڑھنے کا آسان طریقہ
موٹی موٹی کتابیں چند گھنٹوں میں پڑھنے کا آسان طریقہ
موٹی موٹی کتابیں چند گھنٹوں میں کیسے پڑھیں؟
** کم از کم صفحات کی تعداد طے کرلیں، مثال کے طور پر میں روز کے 100 صفحات پڑھوں گا۔ اب چاہے کچھ ہوجائے، آپ نے اپنا ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔ ایک مسلمان اب اگر مہینے کے 3 ہزار صفحات بھی نہ پڑھے تو کتنے شرم کی بات ہے۔**
پڑھیں کیسے؟
یہ ایک سوال ہے جو گزشتہ کئی مہینوں سے دوست احباب اور سوشل میڈیا پر فالو کرنے والے کثرت سے پوچھ رہے ہیں۔ اب میں خود کوئی پڑھنے پڑھانے والا بندہ تو ہوں نہیں، یہی وجہ ہے کہ جواب دینے سے ہمیشہ معذرت برتی، مگر اب جب کہ اِصرار در اِصرار بڑھتا ہی جارہا ہے تو سوچا صرف اتنا لکھ دوں کہ میں کیسے پڑھتا ہوں۔ صحیح یا غلط کا فیصلہ قارئین اور اہل علم کریں گے۔
پڑھیں کیسے؟ سے پہلے بھی کئی سوال ہیں جو پوچھنے چاہئیں۔ مثلاً، پڑھیں کیوں؟ پڑھیں کیا؟پڑھیں کب؟ وغیرہ وغیرہ اور پڑھیں کیسے کے بعد پوچھنا چاہیئے کہ پڑھنے کے کیا نقصانات ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
پڑھیں کیوں؟
ایک دنیا ہے جو خوش و خرم، موج مستی میں زندگی گزار رہی ہے، دن بھر دوستوں سے واٹس اپ اور فیس بک پر بات اور رات بھر ٹی وی اور نائٹ پیکجز۔ ایسے میں آخر کون اتنا وقت ”برباد“ کرے کہ بیٹھ کر کتابیں پڑھے؟ پڑھنے کے کچھ فوائد جو میری سمجھ میں آتے ہیں وہ یہ ہیں۔
بندے کو اپنے جہل کا پتہ لگتا ہے کہ اُسے کتنا نہیں معلوم۔
پڑھنے سے کسی فیلڈ کا اور دنیا کا ایکسپوژر ملتا ہے کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور میں کہاں کھڑا ہوں۔
پڑھنے سے بنیاد ملتی ہے جس پر کھڑا ہوکر کوئی کام کرسکے۔
پڑھنے سے دماغی و تخلیقی صلاحیتیں جلا پاتی ہیں۔
پڑھنے سے ہمت و حوصلہ ملتا ہے کہ اگر دنیا یہ سب کچھ کرسکتی ہے تو میں بھی کرسکتا ہوں۔
پڑھنے سے تقابلی موازنہ کا موقع ملتا ہے کہ مختلف سوچ و عقائد رکھنے والے حضرات کسی مضمون کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ اختلافِ رائے کو پڑھنے سے ذہن میں وسعت آتی ہے اور برداشت بڑھتی ہے۔
پڑھنے سے وقت فالتو کاموں میں ضائع نہیں ہوتا۔ وہ تمام وقت جو ٹی وی ڈراموں، سوشل میڈیا اور دوستوں کی نظر ہوجاتا ہے اب پڑھنے میں لگ رہا ہے۔
پڑھنے سے چیزوں کی حقیقت کھلتی ہے اور آدمی اچھے بُرے میں تمیز کرسکتا ہے۔
پڑھنے سے ادبی و جمالیاتی ذوق بنتا ہے جو آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ آپ غالب اور رکشہ والے شعر میں تفریق کرسکیں۔
پڑھنے سے جستجو بڑھتی ہے، طلب و پیاس بڑھتی ہے اور آدمی اصل بات کی کھوج میں لگا رہتا رہے۔
اور پڑھنے سے بندے اور رب کے درمیان تعلق مضبوط ہوجاتا ہے کہ جس نے اپنی کتاب کا آغاز ہی اِقراء سے کیا ہے۔
حضرت عثمانِ غنی کا قبولِ اسلام
پڑھیں کیا؟
اگر آپ پڑھنے سے شغف نہیں رکھتے تو شروع شروع میں عادت بنانے کے لئے کچھ بھی پڑھیں، بس پڑھیں۔ آن لائن بلاگز، فیس بک اور اخبارات اس پڑھائی میں شمار نہیں ہوتے نہ ہی آپ کے SMS میسجز۔ ابن صفی کو پڑھیں، اثر نعمانی کو پڑھیں، ممتاز مفتی، بانو قدسیہ، قدرت اللہ شہاب، شوکت تھانوی، اشفاق احمد، عصمت چغتائی، وحیدہ نسیم، قرۃ العین حیدر، اجمل نیازی، طارق بلوچ صحرائی، سعادت حسن منٹو، ڈاکٹر امجد ثاقب، مستنصر حسین تارڑ یا انتظار حسین، نیا یا پرانا جو مصنف اچھا لگے، اسے پڑھ ڈالیں، شروع سے آخر تک، دینی ذوق ہو تو مولانا منظور نعمانی اور سید سلیمان ندویؒ کے کیا کہنے۔ آسان سہل زبان میں مشکل سے مشکل بات کہہ جاتے ہیں۔ شاعری کا شوق ہو تو پروین شاکر اور ناصر کاظمی سے شروع کریں، یاس یگانہ اور چراغ حسن حسرت پر سانس بھریں اور حافظ و رومی سے ہوتے ہوئے غالب اور علامہ اقبال پر ختم ہوجائیں۔
کسی مخصوص شعبے میں پڑھانا چاہیں تو اس فیلڈ میں کام کرنے والے سے پوچھیں کہ فیلڈ کے استاد کون ہیں، پھر استادوں سے پوچھیں کہ فیلڈ کے کرتا دھرتا کون ہیں۔ (ان کی تعداد ہمیشہ انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے) یا پھر کچھ کتابیں اُٹھالیں، بہت جلد احساس ہوجائے گا کہ سب لوگ معدودے چند اشخاص کا ہی ذکر کرتے ہیں، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے فیلڈ کی بنیاد رکھی بس انہی سے شروع کردیں۔ مثلاً جینٹکس الگورتھم کا ذکر جان ہالینڈ کے بغیر ممکن نہیں، جینٹکس انجینئرنگ میں مارون منسکی سرِ فہرست، فزکس کا تذکرہ آئن اسٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ کے بغیر ادھورا، ریاضی میں سینکڑوں نام، آپ پال آرڈش اور رامان نجوا سے شروع کردیں، ایلن ٹیورنگ، جان وان نیومین کمپیوٹر سائنس کے روح رواں تو ایڈورڈ ولسن (Edword Wilson) چیونٹیوں پر اتھارٹی۔
آپ خود سوچیں کہ کسی شخص نے اپنی زندگی کے 50 ،40 سال ایک ہی مضمون کو دے دیئے پھر کوئی کتاب لکھی جو آپ کو 1000، 500 روپے میں دستیاب ہے بلکہ انٹرنیٹ سے مفت PDF بھی شاید مل جائے۔ اب آپ اسے چھوڑ کر فیس بک پر دوستوں سے بحث و مباحثہ میں الجھے ہوئے ہیں یہ کہاں کی شرافت ہے؟ نوبل پرائز پانے والوں کو پڑھیں، کیسا لگے گا آپ کو اگر کوئی شخص بڑا صوفی ہونے کا دعویٰ کرے اور اس نے شاہ ولی اللہ ؒ، حضرت مجدد الف ثانی ؒ اور ابن عربی ؒ کا نام تک نہ سُنا ہو۔
یہی حال ہم لوگوں کا ہے جس شخص نے زندگی میں گاڑی نہیں چلائی وہ بھی جہاز کے حادثے پر گز بھر کا آرٹیکل لکھ دیتا ہے اور جس کو یہ تک نہیں پتہ کہ گلی کے نکڑ پر پنواڑی کون ہے وہ بھی ٹاک شوز میں آ کر یہ ثابت کرتا ہے کہ نیا چیف آف آرمی اسٹاف کون ہوگا۔ پڑھائی سے دوری فراست سے محروم کر دیتی ہے۔ آدمی کے تصورات تک یتیم ہوجاتے ہیں اور عقائد بھیک میں ملنے لگتے ہیں۔
ہمت کیجئے، فیلڈ کا انتخاب کیجئے اور دے دیں زندگی کے 30، 20 سال پڑھنے کو، دنیا دوڑتی، لوٹتی، رینگتی آپ کے قدموں میں خود بخود آجائے گی۔
پڑھیں کب؟
ہر وقت پڑھیں، ایک عام آدمی زندگی میں اوسطاً 7 سال انتظار میں گزارتا ہے۔ بس اسٹاپ پر انتظار، ٹرین و جہاز میں بیٹھے منزل پر پہنچنے کا انتظار، اسپتال میں ڈاکٹر کے آنے کا انتظار، اسکول کے باہر بچوں کی چھٹی کا انتظار، اب اگر آپ کے ہاتھ میں ہر وقت کوئی کتاب ہو تو ایک عام آدمی کے مقابلے میں آپ کی زندگی میں 7 سال کی پڑھائی اضافی ہوگی۔ آپ چاہیں تو پڑھائی کے لئے کوئی وقت مقرر کرلیں مثلاً رات 7 بجے سے 9 بجے تک، سونے سے پہلے یا صبح 6 سے 8، آفس جانے سے پہلے یا عصر تک مغرب، اب اس پر جمے رہیں۔
پڑھیں کس سے؟
کتابوں سے، آن لائن کورسز سے، پڑھانے والے اب کم کم ہی بچے ہیں ٹیچرز کو مال غنیمت سمجھیں، کچھ پڑھا دیا تو ٹھیک ورنہ اُمید نہ رکھیں۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہر اس شخص کو جسے پڑھنا چاہیئے وہ پڑھا رہا ہے جس نے زندگی میں ایک لائن کا کوڈ نہیں لکھا وہ 110 بچوں کی کلاس میں دو سال سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ پڑھاتا ہے پھر بچے روتے ہیں کہ جاب نہیں ملتی۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ”پڑھنا“ آپ کی ذمہ داری ہے، جیسے کہ صحت، آپ اپنے آپ کو کھلاتے ہیں، سلاتے ہیں، سردی گرمی کا خیال رکھتے ہیں بالکل اسی طرح پڑھنا بھی آپ کی ذاتی ذمہ داری و فرائض میں شامل ہے، ماں باپ، استاد اور لوگوں پر الزام دھرنا چھوڑ دیں۔
پڑھیں کیسے؟
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف پڑھیں کیسے؟ اس کا جواب سب سے زیادہ آسان ہے۔ ذہن اور روز مرہ روٹین کو جتنا سادہ اور خرافات سے پاک کرسکتے ہیں وہ کرلیں۔ ہماری زندگی عموماً ریشم کے لچھے کی طرح گنجلک ہوتی ہے اور کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔ میں نے بچپن میں اپنے ایک استاد مولانا عبدالرحمن صاحب سے پوچھا کہ میں چاہتا ہوں کہ میری یادداشت تیز ہوجائے تو کیا کروں؟ انہوں نے جواب دیا کہ آنکھوں کی حفاظت کرو۔ میں بڑا حیران ہوا کہ آنکھوں کی حفاظت کا یادداشت سے کیا تعلق؟ میں تو سمجھ رہا تھا کہ وہ کوئی دماغی ورزش یا بادام کھانے کا کہیں گے۔ وہ کہنے لگے کہ علم کی آنرشپ اللہ سائیں کے پاس ہے، جب چاہے، جسے چاہے، جتنا چاہے دے دے مگر وہ گندی پلیٹ میں کھانا نہیں ڈالتا۔
اگر آپ پڑھنے بیٹھیں ہیں اور دماغ میں موسیقی کی دھنیں اور فلموں کے ڈانس جاری ہیں تو نہ پڑھا جائے گا اور غلطی سے کچھ پڑھ بھی لیا تو سمجھ کچھ نہیں آئے گا یا یاد نہیں رہے گا۔ لفظ مل جائیں گے، علم اُٹھ جائے گا۔ یہ کتابیں بہت با حیا ہوتی ہیں۔ بدنظروں سے اپنا آپ چھپا لیتی ہیں۔ آپ مندرجہ ذیل امور پر توجہ دیں تو امید ہے انشاء اللہ پڑھائی آسان ہوجائے گی۔
پڑھنے کا وقت متعین کرلیں خواہ 15 منٹ ہی کیوں نہ ہوں۔ اب دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے مگر سب کو پتہ ہو کہ یہ آپ کا پڑھنے کا وقت ہے۔ جس میں یا تو آپ کتاب پڑھیں گے یا جنازہ اور کچھ نہیں۔ ایک مرتبہ وقت پر قابو ہوجائے تو ہلکے ہلکے دورانیہ بڑھاتے چلے جائیں۔
پڑھنے کے وقت کچھ اور نہ کریں، ماحول کو سازگار بنائیں۔ اگر پڑھتے وقت ہر 30 سیکنڈ میں آپ کو موبائل چیک کرنا ہے، فیس بک پر کچھ لکھنا ہے، واٹس اپ چیک کرنا ہے، فون سننا ہے، ٹی وی کا چینل بدلنا ہے، دروازہ کھولنا ہے، دودھ گرم کرنا ہے، کھانا بنانا ہے، تو ہوگئی پڑھائی، وقفہ پڑھائی (Reading Break) کے دوران کچھ بھی نہ کریں صرف پڑھیں۔ کوشش کرکے کوئی ایسا کمرہ، کونا کھدرا تلاش کریں جہاں آپ پر کسی کی نظر نہ پڑسکے۔ میں اپنے بچپن میں مچان پر جاکر چھپ جاتا تھا۔ موبائل دراز میں لاک کردیں، ٹی وی بند کردیں اور دنیا و مافیہا سے بے نیاز، صرف پڑھتے رہیں۔ میں تو ہر کتاب شروع کرتے وقت اللہ سے دعا مانگتا ہوں کہ اے اللہ، عزرائیلؑ کو نہ بھیج دینا، کتاب ادھوری رہی تو چین سے مر بھی نہیں سکوں گا سارا مزہ کرکرا ہوجائے گا، کتاب پوری کروا دے پھر آتا ہوں۔
کم از کم صفحات کی تعداد طے کرلیں، مثال کے طور پر میں روز کے 100 صفحات پڑھوں گا۔ اب چاہے بارش آئے یا طوفان، دھرنا ہو یا بقرعید آپ نے اپنا ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔ ایک مسلمان اب اگر مہینے کے 3 ہزار صفحات بھی نہ پڑھے تو کتنے شرم کی بات ہے۔ جب 100 پر پکے ہوجائیں تو صفحات بڑھاتے چلے جائیں۔ مصروف شخص آرام سے 4 سے 6 سو صفحات تو دن کے پڑھ ہی سکتا ہے، 4 گھنٹے ہی تو لگتے ہیں 20 گھنٹے تو پھر بھی بچے روز کے۔
مختلف کتابیں ایک ساتھ شروع کریں۔ آدمی کا اپنا مزاج اور طبیعت ہوتی ہے۔ طبیعت صرف اچھا لگا یا بُرا لگا بتاتی ہے، دلیل نہیں دیتی۔ مثال کے طور پر اگر آپ نے 100 صفحات پڑھنے تھے، کمپیوٹر سائنس کے اور آپ 10 پڑھ کر اُکتا گئے تو کوئی بات نہیں 40 شاعری کے پڑھ لیں، 20 اسلام کے، 30 تاریخ کے، ہوگئے پورے 100۔ بس جو نمبر آپ نے مقرر کیا ہے اس سے پیچھے نہیں ہٹنا۔
وقفہ لیں
کہتے ہیں آدمی کے فوکس کا دورانیہ 45 منٹ ہے تو آپ 45 منٹ یا گھنٹے بعد آنکھ بند کرکے 10 منٹ کا وقفہ لے لیں۔ اس وقفے میں دماغ ساری معلومات کو بھی کھنگال لے گا۔ مسلسل پڑھائی کے بعد سونا ایک اچھا آزمودہ طریقہ کار ہے، پڑھائی کو یاد رکھنے کا اور اگر بھول بھی جائیں تو فکر نہ کریں زندگی میں جب بھی ان معلومات کی ضرورت محسوس ہوگی یہ خودبخود لاشعور سے نکل کر آپ کے سامنے آجائے گی اور کم از کم آپ کی قوتِ فیصلہ تو بہتر ہو ہی جائے گی۔
نوٹس لیں
خلاصہ کیجئے اور ضروری اور اہم جملوں کو انڈر لائن کیجئے، جو کتاب پڑھیں اس کے باب کے آخر میں یا کتاب کے آخر میں عام فہم جملوں میں اس کا خلاصہ لکھ دیں، سمجھیں کہ آپ نے یہ کتاب کسی ایسے شخص کو سمجھانی ہے جسے پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔ اب اگر آپ کتاب کو اس طرح مختصر الفاظ میں بیان کرسکیں تو بے فکر ہوجائیے۔ آپ نے کتاب کو سمجھ لیا ہے اور اگر نہ کرسکیں تو پھر سے پڑھیں یہ صلاحیت دھیرے دھیرے نکھر جائے گی۔
ترجیح بنائیں
فرض کرلیں کہ پڑھنا زندگی کا سب سے اہم کام ہے۔ بس یہی کرنا ہے، بیچ میں وقفہ لے لیں، جاب کا، فیملی کا، نماز کا، کھانے پینے کا، سونے کا، مگر اصل کام پڑھنا ہے، ہر بریک میں خیال پڑھنے کا ہونا چاہیئے اس سے کام آسان ہوجاتا ہے۔
تیز رفتاری سے مقابلہ کریں
جب آپ ایک ہی مضمون کی بہت سی کتابیں پڑھیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ مختلف لوگوں نے بار بار ایک ہی نظریے کو مختلف انداز میں پیش کیا ہے اور دو چار ہی عام فہم مثالیں ہیں جو ہر کوئی دیتا ہے جیسے ہی آپ کو دیکھی ہوئی جانی پہچانی تصویر، گراف یا ایکویشن نظر آئے آپ صفحہ پلٹ دیں (اگر آپ کو معلوم ہو کہ یہ کیا ہے)۔ یہ صلاحیت زیادہ پڑھنے سے خودبخود پیدا ہوجاتی ہے۔ کبھی آپ حفظ سورتوں کے پڑھنے کی رفتار کا باقی سورتوں کے پڑھنے کی رفتار سے موازنہ کریں آپ کو یہ بات سمجھ آجائے گی۔ ایک جیسی مثالیں بھی حفظ کی طرح ازبر ہوجاتی ہیں۔
آئی فون اور اینڈرائڈ میں درجنوں ایسی ایپلی کیشنز ہیں جو آپ کو اسپیڈ ریڈنگ سکھاتی ہیں۔ ایک اوسط آدمی کی پڑھنے کی رفتار 120 الفاظ فی منٹ ہوتی ہے۔ آپ ذرا سی پریکٹس سے اسے 400 الفاظ فی منٹ تک پہنچاسکتے ہیں اور مادری زبان میں تو یہ اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایک صفحے پر کم و بیش 250 سے 300 الفاظ ہوتے ہیں۔ ایک نان فکشن کتاب 50 سے 75 ہزار الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے۔ کوئی 200 سے 250 صفحات۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ صرف 400 الفاظ فی منٹ کے حساب سے ایک اوسط کتاب 2 گھنٹوں میں ختم کرسکتے ہیں۔
اگر آپ روزانہ 6 گھنٹے بھی صرف پڑھ لیں تو باآسانی 3 کتابیں ختم ہوسکتی ہیں۔ یعنی سال بھر میں ایک ہزار کتابیں پڑھنا تو بچوں کا کھیل ہے۔ میں نے ذرا سی کوشش کرکے 850 الفاظ فی منٹ تک کی رفتار بنالی ہے۔ آپ محنت کریں اور بہت آگے نکل جائیں۔ اسپیڈ ریڈنگ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کم وقت میں دوسروں سے بہت زیادہ پڑھ لیتے ہیں اور پھر بھی وقت بچتا ہے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جب تک آپ کو پتہ لگتا ہے کہ کتاب کافی بورنگ ہے، کتاب ختم ہوچکی ہوتی ہے۔
مزید تفصیلات اور مشق کیلئے آپ ایبی مارکس اور پام ملن کی اسپیڈ ریڈنگ پر کتاب دیکھ لیں یا اسپیڈ ریڈنگ ورک بک پر کام شروع کردیں یا سب سے بہتر رچرڈ سوٹز کی ’اسپیڈ ریڈنگ احمقوں کیلئے‘ پڑھ ڈالیں۔ یہ ساری کتابیں انٹرنیٹ سے مفت دستیاب ہیں۔
پہلا اور آخری باب
کوشش کریں کہ کتاب کا (Preface Introduction) یا تعارف اور اختتام Conclusion پہلے پڑھ لیں۔ ایسا کرنے سے آپ کا ذہن مصنف کی تخیلاتی حدود کا ناپ لے لے گا اور پھر بیچ کے ابواب سمجھنا آسان ہوجائیں گے کہ آپ کو پتہ ہوگا کہ مصنف کدھر جارہا ہے۔ ہاں، فکشن میں یہ حرکت نہ کریں ورنہ ساری کتاب کا مزہ خراب ہوجائے گا۔
مصنف کو پڑھیں
تحریر سے پہلے اگر آپ کچھ دیر کو مصنف کو پڑھ لیں تو تحریر سمجھنا آسان ہوجاتی ہے۔ کہاں پلا بڑھا، کہاں سے تعلیم حاصل کی، کہاں کام کررہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح مصنف کے اچھے یا بُرے تعصب کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے اور معاصرین کا بھی۔
پڑھنے کے نقصانات
جی ہاں پڑھنے کے ڈھیروں نقصانات بھی ہیں۔ پہلا تو یہ کہ آدمی کو چپ لگ جاتی ہے، بات کرے تو کس سے کرے؟ بولے تو کس سے بولے؟ کووّں کی کائیں کائیں میں کوئل کی کُوک کون سنے گا؟ آدمی کو چاہیئے کہ کوئی پرندہ یا بلی پال لے تاکہ کم از کم تنہائی کا ڈپریشن تو نہ ہو۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ دوست کم ہونا شروع ہوجائیں گے کہ کسی کو آپ کی باتوں سے اتفاق ہی نہیں ہوگا اور اختلاف کی دلیل لانا تو انہوں نے سیکھا ہی نہیں۔ آپ کتابوں کو ہی دوست بنالیں۔ تیسرا نقصان یہ کہ لوگ آپ پر طعنے کسیں گے۔ بہتان باندھیں گے، آپ کے مسلک اور فرقے اس رفتار سے بدلیں گے جیسے کپڑے بدل رہے ہوں۔ فکر نہ کریں یہ علم کی زکوٰۃ ہے۔ نکلتی رہنی چاہیئے۔
پھر سب سے بڑا نقصان یہ کہ آپ جاہل رہ جائیں گے، پتہ چلے گا کہ کیا کیا نہیں معلوم۔ آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے، وقت ملا تو ضرور کچھ تفصیل سے لکھوں گا۔ واصف علی واصف کے شعر پر ختم کرتے ہیں۔
معلوم ہے اتنا کہ ہمیں کچھ نہیں معلوم
حضور ضیاءالامت کون ہیں
حضور ضیاءالامت رحمتہ اللہ علیہ کون ہیں اور کیسے بنے
#حضرت_ضیا_الامت_علیہ_الرحمہ_کون.......؟
1). جو پیرسیال لجپال کے روضہ کا بلندوبالامینار ہےانہیں حضور ضیاءالامت رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں.
2). جو شاہِ وقت کے نزدیک سونے کےساتھ تولنے کے قابل شخصیت ہے.انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.
3). جن کے موقف کو جنیوا میں قادیانیت کے مقابلے میں قادیانیوں کے خلاف پورے عالمِ کفر نے سراہا تھا.انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.
4). جن کی تفسیر #ضیاءالقرآن مقبولِ عرب وعجم ہے.اس شخصیت کوحضورضیاءالامت کہتے ہیں.
5). جن کی تحریر کردہ سیرۃ النبی پر کتاب سیرت
#ضیاءالنبی چار دانگِ عالم میں پڑھی جاتی ہے.اس ہستی کو حضورضیاءالامت کہتے ہیں.
6). جن کی تحریر کردہ #سنتِ_خیرالانام منکرین سنت کی ہدایت کے لیئے قندیلِ راہبری ہے.انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.
7). جن کی طرف سے جاری کردہ جریدہ #ضیاء_حرم گھرگھر میں حرم پاک کی ضیائیں بکھیرتا ہے انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.
8). جن کے عدالتی فیصلوں کے جلوے عدالتوں کی زینت ہیں.وہ حضور ضیاءالامت ہیں.
9). ادارہ #ضیاءالقرآن پبلی کیشنز جنکی کاوشوں کا
Huzoor zia ul ummat Pir Muhammad Karam shah
نور زمانے میں برسا رہا ہے انہیں حضورضیاءالامت کہتے ہیں.
10). جنکی اولاد کے لنگرِفیض سے اک زمانہ مالامال ہورہا ہے.اور جنکے طلبہ و متوسلین سات براعظموں میں نورِدین وقرآں بانٹ رہے ہیں انہیں دنیا #حضورضیاءالامت_قبلہ، #پیر_محمد_کرم_شاہ_الازہری(رحمۃ اللہ علیہ) کے نام سے جانتی ہے.
پیر کرم شاہ الازہری ایک عظیم ہستی۔ مزید پڑھنے کے لئے کلک کریں
🤲خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت🤲
از قلم علامہ محمد اکرم طاہر
فاضل دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف
موبائل فون گم ہو جائے یا چوری ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے
موبائل فون گم ہو جائے یا چوری ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے
السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ
اگر خدانخواستہ آپکا انڈرائیڈ فون گم یا چوری ہو جائے تو فون کو ٹریس کرنے یا واپس حاصل کرنے کے یہ پانچ ممکنہ طریقے ہو سکتے ہیں۔ کوشش لازمی کرنی چاہیے۔ 100 فیصد تو نہیں لیکن کافی حد تک چانس ہیں فون واپس ملنے کے۔ میں نے اپنے ایک دوست کا چوری ہوا فون 8 ماہ بعد واپس ملتے دیکھا۔ اور فیس بک فرینڈ نے بھی کنفرم کیا کہ اسے چوری ہوا فون واپس مل گیا تھا.
✅ Find my phone.
ہر انڈرائیڈ فون میں جی میل آئی ڈی لاگ ان ہوتی ہے۔ اگر آپکا فون گم ہو جائے تو اس کے آف یا ری سیٹ ہونے سے پہلے پہلے آپ کسی اور موبائل یا لیپ ٹاپ میں گم ہوئے فون والی جی میل آئی ڈی لاگ ان کر کہ گوگل میں Find my phone لکھیں گے تو پہلی ویب سائٹ پر کلک کرنے پر آپ کے سامنے فون کی لوکیشن شو ہو جائے گی فون کا Imei نمبر فون کی بیٹری پرسنٹیج اور موبائل کس انٹرنٹ سے کنیکٹ ہے شو ہو جائے گا۔ لیکن اگر فون چوری ہو جائے تو چور سب سے پہلے فون آف کرے گا تو چور فون آف نہ کر سکے اور آپ خود فون ٹریس کر سکیں اس کے لیے اگلے طریقے کی طرف بڑھتے ہیں۔
✅ Phone Tracking App.
فون میں پہلے سے ایک ایپ انسٹال کر کہ رکھیں جس کا نام Hammer Security ہے یہ ایپ فون کی لوکیشن کیمرہ کی تصویریں اور مائک کی ریکارڈنگ حاصل کر سکتی ہے اور چور موبائل آف نہ کر سکے اس کے لیے اس ایپ میں یہ سسٹم موجود ہے کہ یہ ایپ فون کو آف نہیں ہونے دیتی پاور آف بٹن دبانے پر ایک فیک پاور آف بٹن شو ہوگا اسے دبانے پر فون فیک آف ہوگا یعنی سکرین آف ہو جائے گی لیکن فون اصل میں آن ہی ہوگا اور آپ اس ایپ کی ویب سائٹ سے فون کی تمام معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور ٹریس کر سکتے
Android phone lost?
lost mobile phone?
Check this post
ہیں۔
✅ Sim Change SMS
اس سے پہلے جو دو طریقہ کار کا اوپر زکر کیا ان دونوں کے لیے موبائل میں انٹرنیٹ ہونا ضروری ہے لیکن اب جو طریقہ بتانے لگا ہوں اس میں انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں ہے اس طریقہ کار میں آپ نے موبائل میں ایک ایپ انسٹال کرنی ہے جس میں آپ نے کوئی بیک اپ نمبر یا گھر کا نمبر دے دینا ہے۔ جب آپ کے چوری شدہ موبائل میں جب کوئی سم ڈالی جائے گی تو اس سم سے آپ کے اس نمبر پر ایک SMS آجائے گا جس سے آپکو موبائل میں چلنے والے نمبر کا معلوم ہو جائے گا۔ لیکن اس کے شرط یہ ہے کہ سم میں ایک SMS کا بیلنس ہو اور موبائل کو ری سیٹ نہ کیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے LEO Security نامی ایپ پلے سٹور ہر موجود تھی جس میں یہ فنگشن موجود تھا لیکن اب پلے سٹور پر موجود نہیں ہے۔
ایک نارمل انسان یہ اوپر بتائے گئے تین طریقے ہی استعمال کر سکتا ہے اور ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ یہ موبائل گم ہونے اور چوری ہونے کے فوراً بعد کیے جائے اور اگر موبائل کو ری سیٹ کر دیا جائے تو پھر اوپر بتایا کوئی بھی طریقہ کام نہیں کرے گا۔ موبائل کے IMEI نمبر سے ٹریکنگ ایک نارمل انسان کے لیے ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ایسی چیزیں عام عوام کے لیے موجود ہوتی ہیں.
✅ Police Report
اپنے چوری ہوے یا گم ہوے موبائل کی پولیس میں رپورٹ لازمی درج کروانی چاہیے ایک تو موبائل کے ملنے کے چانس ہوتے ہیں دوسرا اگر آپ کا موبائل کسی واردات میں استعمال ہوتا ہے تو اگر آپ نے رپورٹ کروائی ہو تو آپ کی بچت ہو جائے گی ورنہ آپ پھنس بھی سکتے ہیں۔ پولیس سے لازمی اپنے موبائل کا imei نمبر ان کے سسٹم میں ڈلوائیں۔ جتنے بھی دوکان دار ہیں ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ e gadtes نامی ایپ میں کوئی بھی موبائل خریدنے سے پہلے چیک کریں۔ اگر آپکا موبائل کسی دوکان پر بکنے کے لیے آتا ہے تو پولیس کو فورآ اطلاع کی جائے گی اور موبائل لانے والے کو پکڑ لیا جائے گا اور پولیس آپکو کال کرے گی کہ آپکا موبائل مل گیا ہے آ کر لے جائیں۔ موبائل ملنے میں ٹائم لگ سکتا ہے لیکن موبائل ملنے کے چانس ہیں میں خود اس طرح موبائل ملنے کا چشم دید گواہ ہوں۔
✅ Private Tracking
اس طریقہ کار میں پیسے دے کر اپنے موبائل کا imei نمبر ٹریس کروایا جاتا ہے۔ ٹریکنگ تو موبائل کمپنی اور کسی ادارے کے ذریعے ہی ہوتی ہے لیکن اس میں لوگ مڈل مین کا کردار ادا کرتے ہیں یعنی آپ سے پیسے لے کر آپکو ٹریس کروا کر دیتے ہیں۔ موبائل میں چلنے والی سم کا نمبر اور جس کے نام پر سم ہے اسکا نام ایڈریس شناختی کارڈ نمبر اور لوکیشن مل جاتی ہے۔
پیر محمد کرم شاہ الازہری ایک عظیم شخصیت
پیر محمد کرم شاہ
حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ اور ایک عالم ربانی ہمارے استاذ گرامی قبلہ رضوی صاحب علیہ الرحمۃ
محمد رمضان سیالوی
خطیب جامع مسجد دربار حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ لاہور
فاضل جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور
فاضل جامعہ نعیمیہ
فاضل جامعہ ابو النور دمشق شام
برادر عزیز محمد طاہر عزیز باروی(ناروے) نے آج ایک بہت دلکش تحریر بعنوان’’دین وملت کی ضیاء۔۔۔ پیرمحمد کرم شاہ ‘‘لکھی ،خاص کر رضویت پر اور باہم جوڑنے پر جو ان کے نکات تھے،میں سمجھتا ہوں حسب موقع انہی چیزوں کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کو جوڑنے والوں میں شامل کریں ۔خیر وہ تحریر پڑھی تو مجھے بھی استاذ گرامی اور حضرت ضیاء الامت (علیھما الرحمہ ) سے متعلق ایک بہت اہم بات یاد آئی۔ یہ اہم اور تاریخی بات محفوظ ہوجائے اسی چیز کے پیش نظر اسے لکھ کے آپ کے پیش خدمت کر دی۔
( واضح ہو کہ بے حد مصروفیات کے باوجود میں جن چند حضرات کی تحریرات پورے انہماک سے پڑھتا ہوں ان میں فاضل عزیز حضرت علامہ مفتی محمد طاہر عزیز باروی بھی ہیں ، زاد اللہ شرفہ )
اس تاریخی بات کو تحریر کرنے سے قبل میں یہ عرض کر تا چلوں کہ جامعہ نظامیہ میرا مادر علمی اور دارالعلوم محمد یہ غوثیہ بھیرہ شریف میرے اہل خانہ کے دیگر افراد یعنی میرے بہن بھائیوں کا مادر علمی ہےعزیزم مولانا نصیر احمد ضیاء سیالوی صاحب اور میری خواہر عزیزہ بھیرہ شریف سے باقاعدہ فاضل ہیں ،اسی لیے مذکورہ ہر دو جامعات کے ساتھ اور ان بانیان ادارہ کے ساتھ ہمارا قلبی اور روحانی تعلق ہے،ازیں سبب جانبین کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔الحمد للہ ایک دوسرے کے معاملے میں باہم شیر و شکر
حضرت عثمانِ غنی کا قبولِ اسلام
ہی پایا۔
خیر آمدم برسرمطلب ،
علامہ رضوی صاحب نوراللہ مرقدہ کے پاس 1996 میں صرف کلاس میں پڑھتے تھے اس سال استاذ گرامی نے حج کی سعادت حاصل کی،اس وقت حاجی کیمپ بادشاہی مسجد لاہور میں ہوا کر تاتھا ، ہماری کلاس نے بہت پرتپاک اور بہت شاندار طریقے سے حاجی کیمپ تک رخصت کیا۔ اتفاق یہ کہ جس سال استاذ گرامی حج پر گئے اسی سال دس ذی الحج کو حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ کا وصال ہوا۔
میں اس وقت آبائی گھر (کھیوڑہ) میں تھا، چھوٹے بھائی اور بہن کے مادر علمی کی وجہ سے اور حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ کے ساتھ وابستہ قلبی تعلق کی بنا پر یہ خبر کسی آسمانی بجلی سے کم نہ تھی اسی لیے بعد فجر ہی جنازہ میں شرکت کی سعادت پانے نکل پڑے اور یوں عید کی نماز بھی ادا نہ کر پائے ۔اس دن ہمارے علاقے میں شدید بارش تھی ،موسم بھی خراب تھا لیکن ہم روانہ ہوگئے اس وقت موٹر وے کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا موٹر وے کے غیر معروف سٹاپ سے کچی سڑک سے ہم نے بھیرہ شریف کا سفر ہلکی بوندا باندی اور کیچڑ میں پیدل طے کیا اور نماز جنازہ میں حاضری کی سعادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ، بالکل درست لکھا برادر عزیز جناب طاہر عزیز زیدشرفہ نے میں نے خود استاذ گرامی مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی، اور شرف ملت علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادی نوراللہ مرقدھما کو وہاں دیکھا اور دست بوسی کی سعادت حاصل کی۔
جب استاذ گرامی علیہ الرحمۃ حج سے واپس تشریف لائے تو حسب سابق شاندار استقبال ہوا وہ کلاس میں تشریف فرما ہوئے تو ان کا رعب دبدبہ کلاس تو کجا پورے جامعہ پر ایسا تھا کہ چڑیا پر نہ مارتی۔ مگر اس دن حج سے واپسی کا دن تھا اور طبیعت پر جمال غالب تھا انہوں نے کلاس سے بات کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
’’حضرت پیر کرم شاہ علیہ الرحمہ کے وصال کی خبر مجھے دسویں ذی الحجہ کی رات کو ہی مل گئی تھی مگر میرےدل میں کوئی ایسی خلش موجود تھی جس کے سبب میں نے اس خبر کو قطعا در خور اعتنا نہ جانا بلکہ اس عظیم شخصیت کے وصال کی خبر کی کوئی پروا نہ کی ، فاتحہ نہ ایصال ثواب ، نہ کوئی دعا لیکن رات کو جب میں سویا تو مجھے حضرت ضیاء الامت علیہ الرحمۃ کی زیارت ہوئی پیر صاحب اس انداز میں میرے سامنے آئے کہ اپنی قمیص کے بازو کے کف لپیٹے ہوئے تھے اور جلال میں بھی نظر آئے اور اپنے ہاتھوں کو کھول کر فرمانے لگے مولانا!! میں نے بڑے اخلاص کے ساتھ حضور کے دین کی خدمت کی ہے۔
ہماری پوری کلاس اس بات کی گواہ ہے استاذ گرامی علیہ الرحمۃ نے بہت واضح انداز میں فرمایا کہ اس خواب کے بعد آنکھ کھلی تو تہجد کاوقت تھا میں سیدھا حرم مکہ میں گیا اور باباجی یعنی حضور ضیاء الامت کے نام پر طواف کیا ان کو ایصال ثواب کیا اور اس کے بعد پورا ایک عمرہ ان کے نام پر کیا۔ ‘‘
اللہ کریم ہمیں اپنے ان مشترکہ اثاثوں کی قدر اور ان اکابرین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جہاں قدرت کسی سے پھیر لیتی ہے نظر اپنی
وہیں انسان کی بے مائیگی معلوم ہوتی ہے
محمد رمضان سیالوی
حضرت عثمان غنی کا قبولِ اسلام
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا اسلام قبول کرنا
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اسلام قبول
کرنے سے قبل ملک عرب میں ایک معتبر شخصیت کہلاتے تھے۔سب سے زیادہ مالدار تھے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر مبارک جب 34 سال کی ہوئی تو خلیفہ فصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپ سے فرمایا عثمان تم نے بہت کچھ دیکھا ہے بڑے بڑے بادشاہوں کے درباروں کے تم نے نظارے کیے ہیں فرمایا آئیے اج تمہیں اللہ کے محبوب کے دربار کا دیدار کراتا ہوں عثمان حضور کی بارگاہ میں تشریف لے گئے جب حضور کی نگاہ عثمان پر پڑی نا تو عثمان کی پیشانی حضور کے سامنے جھک گئی کلمہ پڑھ کر عثمان مسلمان ہوگئے۔جب مکہ کے کافروں کو پتہ چلا کہ عثمان نے تو اسلام کو قبول کر لیا ہے تو کفر کی دنیا میں اگ بھڑک اٹھی ایوان کفر میں زلزلہ اگیا۔جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے چچا کو یہ خبر ملی تواس نے کہا کہ عثمان تو بڑا بے ایمان ہو گیا ہے تو نے اپنے اباواجداد کا مذہب چھوڑ دیا ہے آپ کے چچا حکم بن عاص نے بہت ڈرایا دھمکایا کافی دھمکیاں دی کہا کہ عثمان میں تجھے سخت سے سخت سزا دوں گا۔تمہاری جائیدادیں مال سب کچھ میں ضبط کر لوں گا اور میں ان سب چیزوں پر اپنا قبضہ کر لوں گا بہت ڈرایا اپ نے فرمایا چچا مال و دولت تمہیں مبارک ہو یہ تم لے لو جائیدادیں تمہیں مبارک ہوں فرمایا جن کی نظروں میں جمال مصطفی ا جائے ان کو دنیا کی کسی چیز کی طلب نہیں ہوتی اپ نے پرواہ ہی نہیں کی۔حضور مل جائیں پھر کثر باقی رہ جائے یہ ہو سکتا ہے؟حضور کا دامن ہاتھ میں رہے روٹی نہ ملے فرمایا یہ منظور ہے جس دل میں حضور کی محبت ا جائے دھمکیوں کا اثر کیسے ہو سکتا ہے۔یاد رکھیں کہ اگر بندہ حضور کا غلام بن گیا ہے تو پھر سب کچھ اس کا ہو گیا ہے اگر ایمان کامل نہیں اگر ایمان مکمل نہیں تو قدم قدم پر
مومنوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپ فرماتی ہیں کہ ایک روز میرے کریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں اس حالت کے اندر لیٹے ہوئے تھے کہ اپ کی ران مبارک یا پنڈلیاں مبارک ننگی تھیں راوی کو شک ہے اگر ران تھی تو ران سے صرف کرتا مبارک ہٹا ہوا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر انے کی اجازت مانگی تو میرے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپ کو اجازت دے دی اور حضور اسی حالت میں رہے تھوڑی دیر گزرنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور سے اندر انے کی اجازت طلب کی تو حضور نے انہیں بھی اندر انے کی اجازت دے دی اور اپ پھر بھی اسی حالت میں رہے پھر جناب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے میرے کریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر انے کی اجازت مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست فرما لیے برنا پنڈلی پر چادر مبارک دے دی جب یہ تینوں حضرات چلے گئے تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا باپ ابوبکر صدیق ایا تو اپ اسی حالت میں رہے حضرت عمر ائے تو اپ اسی حالت میں رہے لیکن جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے تو اپ نے کپڑوں کو درست کر لیا کپڑے ٹھیک کر لیے اور اٹھ کر بھی بیٹھ گئے تو میرے حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کیا میں اس ادمی سے حیانہ کروں جس سے اللہ کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔اب یہاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شرم و حیا کو واضح کرنا مقصد تھا حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں عثمان غنی بہت ہی شرمیلے ہیں اور مجھے ڈر لگتا تھا کہ اگر میں نے اسے اسی حالت میں اندر انے کی اجازت دے دی تو اپنی حاجت روائی کے لیے حضرت عثمان میرے پاس نہیں ائے گا
عید میلاد النبی ﷺ – رحمتِ دو جہاں کی آمد کا دن 🌸 عید میلاد النبی ﷺ – رحمتِ دو جہاں کی آمد کا دن 🌸 عید...

-
Watch Sultan Mehmed Fateh with Urdu Subtitles By Makki TV | Hadaf Play || Historical Point | Ajmal Play Mehmed II, often referred to as Meh...
-
Kuruluş Osman Season 6, the thrilling historical drama that has captivated audiences worldwide, is gearing up for its much-anticipated sixth...
-
The cryptocurrency market is notorious for its volatility. Prices can swing dramatically within hours, presenting both challenges and opport...